تحریر : حفیظ حسن آبادی

ھمگام آرٹیکلز

لفظ بالاچ کے دو معنی ہیں ایک بھڑکتا شعلہ دوسرا کسی کام کیلئے( آستین چڑھا کر) تیار ہونا یعنی ہمہ وقت آمادہ جو بعض علاقوں میں تلفظ میں تغیر کی وجہ سے “بہ لانچ” بھی رائج ہے . بلوچ تاریخ میں سینکڑوں بالاچ پیدا ہوئے ہیں جن میں سے کئی نے بہت نام کمایا ہے مگر تین بالاچ نام کی شخصیتیں اپنے ناموں کے حقیقی پیکر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ  بلوچ تاریخ قبل از و بعد از بالاچ میں تقسیم ہو کر رہ جاتی ہے .

پہلے بالاچ گورگیج ہیں جس کی بہادری اور کچھ نہ ہونے اور نااُمیدی سے قہر بن کر اُترنے اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھنے تک کا سفر ہےجسے بلوچ تاریخ میں پہلا گوریلا کمانڈر اور” یک مرد یک لشکر” کا مقام حاصل ہے جس نے بابا سردار خیر بخش مری و نواب اکبر خان بگٹی سے لیکر عام بلوچ جہدکار پر اپنا گہرا اثر چھوڑا ہے.

راوی اکثر بالاچ گورگیج کے اپنے بھائی دودا کے انتقام کا ایک پہلو دیکھتے ہیں کہ اُس نے بڑے ہو کر اپنے بڑے بھائی  دودا کے قاتلوں سے بدلہ لیا لیکن اس میں جو بنیادی پہلو ہے اسے نظرانداز کرتے ہیں. وہ یہ کہ بالاچ گورگیج نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ کمزور ہونا عیب نہیں بلکہ خود کو کمزور سمجھنا اور زہنی طور پر اسے وقت یا تقدیر کا فیصلہ ماننا سنگین عیب و غلطی ہے. وہ ایک لاچار بچے سے کیسے گبرو جوان بنتا ہے اور ظلم کا خاتمہ کرنے کے لئے کیا کیا تکلیفیں اُٹھاتا ہے. آپ نے بلوچ جنگی تاریخ میں پہلی بار طاقت اور ظلم کے مقابلے میں تدبیر (حکمت عملی) کو کامیاب ثابت کر کے دکھایا. اس کا بدلہ لینا اہم سہی مگر اس سے بھی بہت زیادہ اہم ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہے. کیونکہ اس کا بھائی مظلوم تھا بیگناہ اپنی پناہ میں آئے ہوئے بیوہ خاتون سمی کے مال و متاع لوٹنے والوں کے سامنے کھڑا رہا جسکی پاداش میں وہ جان سے گیا.

اُسی کے کارناموں سے متاثر ہو کر بابا مری نے اپنے بیٹے کا نام بالاچ رکھا جو وہ دوسرا  بالاچ بنا کہ اس کے ہاں رُکے بغیر بلوچ و بلوچستان کے جد و جہد کی تاریخ آگے بڑھ ہی نہیں سکتی.

اس نوجوان بالاچ مری نے موجودہ دؤر میں ایک بہت ہی جبراًمروج و منفی سوچ کو اپنے عمل سے غلط ثابت کیا جو وہ کہتے تھے اور کہتے ہیں کہ بڑے سردار و نواب خود نہیں لڑتے بلکہ دوسروں کو لڑاتے ہیں مگر آپ نے بزرگ رہنما نواب اکبر خان بگٹی کے شانہ بشانہ نہ صرف جنگی کمان سنبھالا بلکہ اپنے جانثاروں کے ساتھ میدان عمل میں شہید ہوئے. دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے بلوچ جد و جہد کے جغرافیہ کو وسعت دے کر تمام مکاتب فکر کے بلوچوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی راہ ہموار کرنے مشعل کا کردار ادا کیا. جو ہمہ جہتی و ہمہ  گیریت روان تحریک کو ملی ہے کہ پورا مشرقی بلوچستان یکساں اسکی لپیٹ میں آئے اور دیگر ممالک میں آباد و مقیم بلوچ براہ راست اس سے جُڑ جائیں ایسی اجتماعی بیداری اس سے قبل کبھی نہیں رہی ہے.

جو جنگ خان معراب خان، سردار میر آزاد خان نوشیروانی، نورا مینگل، میر دوست محمد خان، داد شاہ،بابو نوروز زرکزئی نے الگ الگ لڑ کر اسے اپنی لہو سے تسلسل بخشا  اُسے بالاچ مری نے پھیلا کر مشرق، مغرب، شمال، جنوب قریب بعید سب کو اکٹھا کیا.

یہ رواں تحریک آزادی کا وہ موڑ ہے جس سے جہد بالاچ سے پہلے اور بالاچ کے بعد کے ادوار میں تقسیم ہوتا ہے.

تیسرا بالاچ مولابخش بلوچ کیچ کا عام خوش مزاج بے ضرر نوجوان ثابت ہوا اس نے نہ کبھی بندوق اُٹھایا نہ کوئی کتاب بغل میں دبا کر کوئی تبلیغ کیا. اُسے نام نہاد کاونٹر ٹیررزم کے فورسز چند دن پہلے تحویل میں لے کر جاتے ہیں وہ اُنکی تحویل ہوتا ہے کہ اچانک دیگر تین نوجوانوں کیساتھ اُنکی گولیوں سے چھلنی لاش ملتی ہے.

اسکی بیگناہی و معصومیت اس کی پہچان بن کر ظلم کے خلاف ایسی نفرت میں تبدیل ہو گئی کہ جس نے بکھرے ہوئے بلوچوں کو ایک بار پھر ظلم کے خلاف اس طرح اکٹھا کیا کہ جس کے لئے دیائیوں کی محنت درکار ہوتی ہے.

 ریاست شروع دن سے بلوچ کو علاقوں، لسانوں، لہجوں، قبیلوں، رنگ و نسل اور فرقوں میں بانٹنے کی سعی میں لگی رہی ہے اور اس میں اُسے کسی حد تک کامیابی بھی ملی ہے مگر بالاچ بلوچ کی شہادت کے واقعے نے ساری مصنوعی دیواریں گرادیں. ریاست جو زگری نمازی کی سازش میں کئی بار بلوچوں کو آپس میں دست و گریبان کر چکا تھا اس بار بالاچ کی معصومیت کے سامنے بے بس ہو گیا زگری نمازی ایک ساتھ کندھے سے کندھا ملا کربلوچ بن کر چوگان کی تاپ پر کوہ مراد گئے.

جہاں اس نوجوان بالاچ نے تمام بلوچوں کو ایک درد کے بندھن میں پرو کر اکٹھا کیا وہاں اُس نے اُن لوگوں کے چہروں سے نقاب بھی نوچ لیا جو بلوچ کے اجتماعی درد کو اپنا درد کہتے نہیں تھکتے. اُنکی جسد خاکی تربت فدا چوک پر پڑی رہی جن کو آنا تھا وہ  دور دراز علاقوں سے غم شریکی کیلئے آئے اور بعض تو انتہائی بے سروسامانی میں آئے لیکن جن کو نہیں آنا تھا وہ تمام سہولیات رکھنے کے باوجود نہیں آئے کیوں کہ اُنہیں خوف تھا کہ اُن کے آنے سے بالاچ کے قاتلوں کی دل آزاری ہو گی یہی بنیادی مسئلہ ہے یہی فکر ظلم کو بڑھاوا دینے کا سبب بنا ہے یہی رویہ ہے جو مظلوموں کے زخموں کو کُرید کر اذیت دے گا یہی وہ کیفیت ہے جو نئے بالاچ پیدا کرے گا.