تحریر: صابر بلوچ

ھمگام آرٹیکل

ایک درویش صفت شہیدِ گلزمین:

شہید بارگ جان پختہ نظریات رکھنے والے ایک خاموش طبع اور درویش صفت انقلابی تھے جنہیں دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ انہیں خوف کا احساس کبھی چھو کر بھی نہیں گزرا ہے۔ وہ نہ خائف تھے تختئہِ دار سے، نہ ڈرتے تھے زنداں کی دیوار سے۔ ظلم کی بات اور جہل کی رات کو مِٹانے پر تُلے حرّیت پسند تھے۔ ظالم کے سامنے لَب سی کر چُپ رہنے کے بجائے وہ موت کو ترجیح دینے والے جانثارِ وطن تھے۔ وہ اِس حقیقت پر یقین رکھنے والے بہادر انقلابی تھے کہ آزادی پُرخار راہوں کی پُرخطر پگڈنڈیوں سے گزر کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے، اور جب تک انقلاب کی راہوں میں لہو کا نذرانہ نہ دیا جائے تب تک انقلاب کا حصول ممکن نہیں۔ اسی لئے وہ آخر دم تک مرگ کے فلسفے پر کاربند رہے۔ مسلح جدوجہد کو شعوری طور پر اپنانے والے شہید بارگ جان ہمیشہ دشمن کیلئے ایک سخت موقف رکھنے والے جہدکار تھے۔ تشدد، قبضہ گیریت اور جبر کا جواب وہ مسلح جدوجہد کے ذریعے ہی دینے پر یقینِ کامل رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک قابض کو کسی بھی صورت بے دخل نہیں کیا جاسکتا جب تک اس کے خلاف مسلح جدوجہد نہ ہو ۔

زمانہ طالبعلمی سے ہی کثرتِ مطالعہ ان کا بہترین مشغلہ تھا۔ اور کتابیں ان کا بہترین رفیق تھیں۔ ان کے نزدیک اجتماعی قومی شعور کو پروان چڑھانے میں کتب بینی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ان کتابوں اور زمانہ طالبعلمی میں سیاسی تربیت نے انہیں پختہ سیاسی دماغ اور سلجھی ہوئی شخصیت سے ہمکنار کرایا۔ شہید نے اپنی ابتدائی سیاست کی شروعات اسکول کے زمان 2003 میں بی ایس او ( امان ) سے کیا اور پھر 2005 میں بی ایس او متحده ) اور پھر بی ایس او ( آزاد ) میں شمولیت اختیار کی، اور اس کے بعد لہو کے آخری قطرے تک آزاد بلوچستان کے فلسفے پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہے۔

شہید ابتداء ہی سے مزاحمتی سیاست کے پیروکار تھے۔ 2005 ہی کے سال شہید نے خاران میں صرف اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف ریلی نکالی اور ان کی انہی قربانیوں کی بدولت آج خاران میں سینکڑوں لوگ جبری گمشدگیوں کے خلاف بلا خوف و خطر باہر نکل رہے ہیں۔

اُن کے ابتدائی سیاسی استادوں میں شہید سہراب مری ، شہید کریم جان ، شہید حکیم جان شامل ہیں۔ انہی عظیم استادوں کے بدولت شہید جہدوجہدِ آزادی کے ایک قابل، نڈر اور پختہ کار سپاہی کے طور پر قومی آزادی کی جنگ کی اوّلین صفوں میں نمودار ہوۓ۔

اپنے فیصلوں پر ہمیشہ ثابت قدم رہ کر وہ جو کُوۓ یار سے نکلے تو سُوۓ دار چلے۔ میدانِ جنگ میں مصائب، تکالیف اور زخم ان کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہ بن سکیں۔ جب ان کی ایک ٹانگ معذور ہوئی تو دوستوں کے بےحد اصرار کے باوجود وہ محاذ پر ڈٹے رہے۔ اور اپنی قومی جہد میں کوئی کمی نہیں لائے۔ بلکہ اپنی بیساکھیوں کے سہارے انہوں نے بلند و بالا پہاڑوں کی چُوٹیوں اور پُر خطر گھاٹیوں کی گہرائیوں کو سَر کیا۔ ایک قدم بھی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے کو کبھی تیار نہیں ہوۓ۔

ان کو بارہا یہ کہتے سنا کہ میری جدوجہد کے بیس دن زندگی کے ان بیس سالوں سے زیادہ بہتر ہیں کہ جن میں محض مشکل حالات کے ٹلنے کا انتظار کروں۔ ہمیشہ آسان راہ کی بجائے وہ مشکل راستے پر چلنے کو ترجیح دیتے تھے۔ سہل پسندی ان کی خمیر میں نہیں تھا۔ وہ آرام کرنے سے محض اس بنا پر انکار کرتے کہ بقول ان کے کہ وہ اپنے اُن شہید دوستوں کے سامنے شرمندہ ہوں گے جنہوں نے عظیم قربانیاں آزادی کی راہ میں دی ہیں۔

شہید ہمیشہ لوگوں سے جُڑے رہتے تھے۔ ان کے مسائل سے آگہی اور ان کو مسلسل انقلاب و آزادی کا درس دیتے تھے۔ نوجوان نسل کی سیاسی شعور اور قومی مزاحمتی نظریے سے نوجوانوں کی جُڑت کو ناگزیر قرار دیتے تھے۔ وہ اکثر و بیشتر یہی کہتے تھے کہ یہ جنگ قومی آزادی کی جنگ ہے، کوئی قبائلی جنگ نہیں جو محض چند لوگوں سے لڑی جائے۔ بلکہ پوری قوم کو شعوری طور پر آگاہ کرنا ہے اور ان کو ساتھ لے کر ہم ایک مکار اور غیر فطری دشمن کو شکست دے سکتے ہیں ۔

ان کے نزدیک مرگ سے وہ لوگ خائف ہوتے ہیں جو گناہ گار ہوں۔ ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم ظالم کے ساتھی ہیں یا اس کو کمک کر رہے ہیں۔ یا پھر اس کے ظلم و استبداد پر خاموش ہیں۔ یا وہ لوگ جن کو دنیا کی لالچ ہے اور خود غرضی کی زندگی جی رہے ہیں۔ انقلابیوں کو موت سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی۔ کیونکہ ایک حرّیت پسند سپاہی کی موت امیدِ سحر کا نقیب ہوتی ہے۔ اور لہو کی یہی سُرخی بنتی ہے ایک دن عنوانِ آزادی۔

یقیناً شہید نے اپنے تمام اقوال اور افعال کو سچ ثابت کر دکھایا۔ اخلاص اور بہادری سے اپنے جہدکار ساتھیوں کی صف میں ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔ کئی محاذوں پر دشمن کو شکست دینے کے بعد 19 فروری 2018 میں زہری ترسانی کی پہاڑیوں میں دشمن سے دوبدو مقابلے میں شہید ضیاء عرف دلجان کے ساتھ گولیوں کے ختم ہونے پر دونوں جانثارانِ وطن نے بندوق کی آخری گولیاں اپنے جسم میں اتار دیں۔ اپنے لہو سے خوشبوۓ وفا کو چہار سُو پھیلایا۔ اور ابدی کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہوکر شہدائے بلوچستان کی صفوں میں ہمہشہ کیلیے اَمَر ہو گئے۔

 انہی شہدا کے لہو کی بدولت آج دشمن نفسیاتی شکست کھا کر بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ دھونس، دھمکی، اغواکاری، قتل و غارت، تمام بربریت اور غیر انسانی سلوک کے باجود بھی بلوچ قوم کے دل و دماغ سے اگر دشمن حق و باطل کا فرق نہیں مٹا پایا ہے تو یہ اِنہی شہداۓ گلزمین کی مرہون منّت ہے، جن کا یہ فلسفہ تھا کہ؛

  ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ

   جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے