تحریر : حفیظ حسن آبادی
ھمگام آرٹیکلز
چھ دسمبر کو تربت سے شروع ہونے والا بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا لانگ مارچ میں تبدیل ہو کر بلوچستان کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا بالآخر اکیس دسمبر کو اسلام آباد پہنچ گیا. تربت نکلنے سے لیکر اسلام آباد پہنچنے تک جہاں انھیں ایک طرف قدم قدم پر ریاستی جبر و بربریت اور رکاوٹوں کا سامنا رہا وہاں دوسری طرف عام بلوچ اور پشتونوں کی طرف سے فقیدالمثال پُر خلوص پیار و استقبال ملا.
اسلام آباد اپنے زخموں کے رفو کی اُمید لیئے آنے والے خواتین، بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں پر بے جا تشدد کیا گیا ،انھیں حبس بے جا میں رکھا گیا جس سے بلوچ اور پشتونوں میں فطری طور پر ایک شدید غصے کا ردعمل آیا لوگ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پر امن احتجاج کے حق اور ریاستی غیر قانونی و غیر انسانی مظالم کے خلاف گھروں سے نکلے جس کی بدولت تمام تر پابندیوں کے باوجود بلوچ کیس پاکستان کے اندر اور باہر پوری دنیا میں نمایاں ہوا اور ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی کہ بلوچ مسلہ ہے کیا ؟
چنانچہ یہ موضوع نیا نہیں اور اس سے جڑے سوالات بھی نئے نہیں اس لئے اس ضمن میں جو کچھ کہا یا سُنایا جائے وہ کسی نہ کسی پیرائے میں پہلے تکرار سے کہا اور سُنا جاچکا ہوگا تاہم ہم کوشش کرتے ہیں کہ موجودہ تحریک کے اُبھار کے دؤران ہونے والی تین مختلف باتوں کو زیر بحث لا کر اس مسلے کو سلجھانے پاکستانی حکمرانوں کیلئے چند حقائق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں تاکہ انھیں یہ باور کرایا جا سکے کہ وہ جن اقدامات کو مسلے کے حل کے طور پر دیکھتے ہیں دراصل وہی تمام خرابیوں کی بنیاد ہیں.
اول ) ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا بلوچ المیہ پر درد بھرا شکوہ : ایک سوال کے جواب میں ماہ رنگ بلوچ کہتی ہے کہ “جو لوگ اقتدار میں نہیں ہوتے وہ بلوچوں کے ہمدرد اور جبری گمشدگیوں کیخلاف خلاف بولتے ہیں مگر جونہی انھیں اقتدار ملتی ہے اُنکا بیانیہ بدل جاتا ہے اور وہ ریاست کے مظالم کا جواز تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں “۔
بدقسمتی سے حقیقت ایسا ہی ہے کہ اقتدار کی طلب نے بعض سیاست دانوں کو سیاسی گدھ بنایا ہے جس سے ان کی آنکھیں صرف اور صرف کرسی پر ٹکی رہتی ہیں اور وہ اس تک رسائی کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں. جب سیاستدان (لیڈر نہیں) ایسی سوچ رکھتے ہیں تو ظاہر ہے اُنکے لئے بلوچ مسلہ ہو کہ اُنکے ملک پاکستان کا مسئلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا. پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ یہ لوگ اقتدار کیلئے اپنے ملک کو توڑ سکتے ہیں تو بلوچوں اور دیگر قومیتوں کو روند کر کچلنا یا انھیں کسی مقام تک پہنچنے کیلئے سیڑھی کے طور پر استعمال کرنا کونسی بڑی بات ہے۔
اقتدار سے پہلے اور بعد کے بیانیہ میں فرق اسی لالچی زہنیت اور ہوس اقتدار کا نتیجہ ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اُن کیلئے کوئی وعدہ، کوئی اخلاقی حد و حدود نہیں اور وہ کسی طرح بھی قابل اعتبار نہیں۔
دوہزار پانچ سے لیکر اب تک مشرف، زرداری، نواز شریف، عمران خان، شہباز شریف سب آئےاور چلے گئے. اس دوران بلوچستان کے نام نہاد قوم پرست بھی انہی حکومتوں کا حصہ رہے، اتحادی رہے لیکن وہ اس مسئلے کو حل کرنا تو دور کی بات ہے اس پر کبھی سنجیدگی سے ڈٹے تک نہیں. اُن کے ادوار میں بلوچوں کو روزانہ کی بنیاد پر مسخ شدہ لاشیں ملیں،بلوچ بیگناہ غائب ہوتے رہے حتیٰ کہ شیرخوار بچوں کو ماؤں سمیت ایف سی کیمپوں میں لے جا کر ھفتوں کوئی وجہ بتائے بغیر رکھا گیا مگر مجال کہ حکومت میں شامل کسی نام نہاد قوم پرست سیاست دان نے وزارت اعلیٰ یا وزارتوں سے استعفیٰ دے کر حقیقی ناراضگی کا اظہار کر کے ان اعمال کی مذمت کی ہو. اُن کی زبانی جمع خرچ کے بیانات نے ریاست کو شہ دی ہے کہ آپ ہمیں شریک اقتدار کریں اس کے بدلے آپ کچھ بھی کر لیں ہم “سیاسی” بیانات سے زیادہ عملی طور پر کچھ نہیں کریں گے جس سے آپ کی حکومتداری میں خلل پڑے. .نام نہاد مرکزی جماعتوں کا حال بھی ایسا ہی رہا ہے اور ایسا رویہ کیوں نہ ہو جب مظلوم قوم کے “نمائندے” خود اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیتے تو وہ کس مجبوری میں اپنا خون خشک کریں. دوسرے لفظوں میں بلوچ و پشتون پارلیمنٹرینز کے اس غیر سنجیدہ رویے نے اس مسئلے کی اہمیت کو کم کیا ہے اور ریاست کو اس غلط فہمی میں مبتلا کیا ہے کہ وہ انگریزوں کی طرح ان “سیاستدانوں “کا خیال رکھیں وہ اپنے قوم کو خود بھول بھلیوں میں الجھا کر اُن کے کچلنے اور ان کی آواز کو دبانے معاون ہوں گے. بدقسمتی سے یہ کہکر اور یہ سوچ کر وہ کسی حد تک ایسا کرنے کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔.
ستر کی دہائی میں جب بنگالیوں نے آزادی کیلئے فیصلہ کن جنگ شروع کیا اور بلوچ اور پشتونوں کو ساتھ دینے اور گلو خلاصی کے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا کہا تو شہید نواب اکبر خان بگٹی کے علاوہ کسی نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا سوچا تک نہیں حتٰی کہ بعض تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ بنگالیوں کا ساتھ نہ چل کر اسلام آباد اُن کا شکرگزار ہوگا اور اُنکی نظروں میں اُن کی اہمیت بڑھے گی. اسی دؤران سردار عطاء اللہ مینگل کا یہ بیان تاریخ کا حصہ بنا کہ ” مجھے پاکستان سے اتنی محبت ہے کہ اگر پاکستان ٹوٹ گیا اور بلوچستان الگ ہو گیا تو میں بلوچستان کا نام پاکستان رکھوں گا”۔
یہ قوم پرستی کی سیاست کا غلط سمت چلنے ٹرننگ پوائنٹ تھا اس کے بعد ایک طرز فکر (mindset) پروان چڑھا کر اقتدار کا راستہ پنجاب و راولپنڈی سےہوتا ہوا جاتا ہے لہذا اپنی زمین اور لوگوں پر توجہ دینے کے بجائے راولپنڈی میں جی ایچ کیو کو راضی دیکھنے تمام توجہ مرکوز کی گئی. اس سوچ نے قوم پرستی کے نام پر سیاست کرنے والے اور لوگوں کے درمیان ترجیحات کی موٹی لکیر کھینچ لی اور یوں سب کچھ بگڑ گیا. حتیٰ کہ غلام مصطفیٰ جتوئی، غلام مصطفی کھر، عطاء اللہ مینگل، افضل بنگش وغیرہ نے جب لندن میں اپنا کنفیڈریشن بنایا اس کا مقصد بھی لکھا گیا پارٹی منشور قومیتوں کی آزادی نہیں بلکہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ضیاء الحق کو بلیک میل کر کے بھٹو کی رہائی سمیت ملک میں عام انتخابات کرانے راہ ہموار کرنا تھا جس کا مصطفٰی کھر سمیت دیگر بھی بارہا اپنے انٹرویوز میں اعتراف کر چکے ہیں. اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سب یہ حقیقت تسلیم کر چکے تھے کہ طاقت عوام کے ہاتھ سے نکل کر کہیں اور منتقل ہو چکی ہے اور آگے چل کر اِسی سے نبھا کرنا ہے یوں سیاستدان اپنے لوگوں کے درمیان ہوتے ہوئے بھی اُن سے بہت دور ہو گئے. وقت کے ساتھ ساتھ یہ لکیر اتنی گہری ہو چکی ہے کہ جب تک کوئی ٹرننگ پوائنٹ نہ آئے اور بلوچ و پشتون پارلیمانی نمائندوں کے ترجیحات اور عام بلوچ و پشتون کے ترجیحات میں ہم آہنگی پیدا نہ ہو اُس وقت تک یہ چاپلوسی کو وسیلہ سمجھ کر خوش آمد سے بڑھ کر کچھ کرنے کی ہمت نہیں کریں گے اور مرکز کو ٹھوکنا تو درکنار اُسے صحیح مشورہ بھی نہیں دے سکیں گے کہ کہیں آقا کے مزاج پر ناگوار نہ گزرے. تاہم جس دن وہ اپنے مفادات سے ایک قدم آگے بڑھنے کی جرات پیدا کریں گے اُسی دن مرکزی جماعتوں بارے اُن کا رویہ بدلے گا اور مرکزی جماعتیں بھی اُن کے اور اُن کے اقوام بارے نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور ہوں گے. تب ان کے طرز تکلم میں یکسانیت آئے گی چاہے وہ اقتدار میں ہوں کہ اپوزیشن میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
دوئم ) حامد میر کا چھبتا سوال : ممتاز صحافی حامد میر نے تربت سے اسلام آباد پہنچنے تک کسی بھی بلوچ سیاسی جماعت کے سربراہ کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پر امن احتجاج میں شامل نہ ہونے پر سوال اُٹھایا کہ “لاپتہ افراد کے نام پر ووٹ لینے والے بلوچ لیڈرز مارچ سے غائب ہیں ” یہ بات بدترین طنز کیساتھ ساتھ بلوچ قومی المیے کا ایک بھیانک اور دردناک پہلو ہے جو مندرجہ بالا شکوہ سے براہ راست مرتبط ہے. جو کام شاہ جی صبغت اللہ، گلزار دوست اور ماما غفار قمبرانی تربت سے لیکر اسلام آباد تک ساتھ چل کر کررہے ہیں یہی کام خود کو قوم پرست کہلوانے والے اور قوم پرستی کے نام پر بار بار ووٹ لینے والے ڈاکٹر مالک، اخترمینگل، اور اسد بلوچ کو کرنا چائیے تھا. مگر افسوس کہ وہ ایسا نہ کر سکے. اب بھی جو یہ مظلوم دھکا کھاتے، نئے زخم سہتے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں پھر بھی انکے ساتھ کوئی بھی عملی طور پرکھڑا دکھائی نہیں دیتا۔
اکیس دسمبر کو اسلام آباد پہنچتے ہی بلوچ یکجہتی مارچ پر قیامت ٹوٹ پڑی انھیں مارا پیٹا گیا،مردوں اور خواتین کو بالوں سے کھینچ کر گھسیٹا گیا، انکے کپڑے پھاڑے گئے، اُن کے ساتھ بدتریں بدسلوکی کی گئی. اگلے دن 22 دسمبر کو سوشل میڈیا کی بدولت یہ مسئلہ گھمبیر صورت اختیار کر گیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے مداخلت کرکے بی وائی سی کے تمام خواتین و بچوں کو رہا کرنے اور مارچ کے شرکاء کو پریس کلب جانے دینے کا فیصلہ کیا اور یہ بات طے ہو گئی کہ اب کورٹ کی مداخلت سے حالات ٹھیک ہونے کی طرف جا رہے ہیں تب اسی دن اخترمینگل کی پارٹی نے فیصلہ کیا کہ اُن کا گورنر اسلام آباد جائے اور مارچ کے شرکاء کے مسائل کو حل کرائے ورنہ استعفیٰ دے کر واپس آئے. اسے کہتے ہیں موقع پرستی کیساتھ موقع شناسی کا لاجواب جوہر جو بہت کم لوگوں اور سیاسی جماعتوں میں پائی جاتی ہے اور شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ “کچھ لوگ کچھ نہیں کر کے کمال کرتے ہیں”
گورنر اسلام آباد گیا مگر اُنکی افادیت کا یہ عالم ہے کہ ایک مقام پر ماہ رنگ بلوچ مجبوراً اُن سے پوچھتی ہے کہ “اپ ہماری طرف سے بول رہے ہیں کہ حکومت کی طرف سے؟” اور لاپتہ افراد کے خاندانوں سے گورنر کے ہمدردی اور مسلے کو سنجیدگی سے اُٹھانے کا یہ نظارہ دیکھنے کو ملا کہ اُسے بار بار ذاکر مجید کا فوٹو تھمایا گیا اور ذاکر کی ماں تکرار سے کہتی رہی کہ ذاکر سے متعلق بات کرو مگر وہ فوٹو ادھر اُدھر گھما کر نیچے رکھتا یا کسی اور کو ہاتھ میں دیتا اُنکی سراسیمگی دیکھ کر ذاکر مجید کی ماں یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ “یہ فوٹو ہاتھ میں لینے سے ڈرتا ہے یہ کیا بات کرے گا”.
اگر نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل دونوں کے سینٹرز پہلے دن سے دھرنا کیمپ میں یکجہتی کمیٹی والوں سے جُڑ جاتے تو شاید ان خواتین و بچوں و بزرگوں پر اس قدر تشدد نہیں ہوتا اُن کے لئے پریس کانفرنسز کرتے مگر وہ ایسا کچھ نہیں کر سکے. علی وزیر اپنی بیمار والدہ کیساتھ وزیرستان سے ڈیرہ اسماعیل استقبال کرنے پہنچ گیا منظور پشتین جیل میں ہونے کے باوجود اس کے والدین بلوچ یکجہتی کمیٹی کے استقبال کیلئے آئے سینٹر مشتاق احمد اور فرحت اللہ بابر یکجہتی کرنے گئے مگر بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی کی قیادت نہ تربت، نہ پنجگور، نہ نال، نہ خضدار، نہ سوراب، نہ قلات و منگوچر و نہ کوئٹہ میں بھائی کا احساس بن کر نمودار ہوئے.
یہاں ایک بات بالکل واضح کریں کہ تربت سے لیکر اسلام آباد تک مسلم لیگ، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت، پختونخوا میپ، بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی وغیرہ سب کے کئی ممبران اپنے طور اس درد کو محسوس کر کے انسانیت و بلوچ و پشتون غیرت کے ناطے شامل ہوئے ہیں یہاں کسی جماعت کے مرکزی پالیسی فیصلے کا عمل دخل نہیں جو ایک طرف یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ جماعتیں اپنے لوگوں کے جذبات سے کتنے لاتعلق و الگ تلگ ہو چکے ہیں دوسری طرف یہ کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اپنے لوگوں کے درد کو شائستہ انداز میں بیان کرنے اور اسے محسوس کرانے کامیابی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
سوئم) انور ساجدی کا تنبیہ : آپ روزنامہ انتخاب کے 22 دسمبر کے اپنے کالم “کوفہ سے واپسی کے بعد” میں ریاستی ارباب اختیار کو آگاہ کر کے تنبیہ کرتے ہیں کہ “اگر سرکار سمجھتی ہے کہ وہ اپنے پارلیمانی گماشتوں، کاسہ لیس الیکٹیبلز، چاپلوس سردار اور قصیدہ خوان سیاست دانوں کے گٹھ جوڑ سے صورتحال کو کنٹرول کرے گی تو یہ انکی خوش گمانی ہو گی. وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ جگہ جگہ احتجاج ہوں گے لانگ مارچ ہوں گے اور مظلوم لوگ مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکلیں گے. اگر سڑکوں پر آنے کے رستے بند کر دئیے گئے تو بغاوتیں ہوں گی۔ سرکشی ہو گی اور لوگ قلم اور کتاب کے بجائے بندوق اُٹھائیں گے” اگر غور سے دیکھا جائے تو سارا مسئلہ یہی سے شروع ہوتا ہے جو ریاست اس خطے کو اپنے کالونی کے طور پر دیکھ کر اس پر کم علم، بے بصیرت،بے ضمیر اور کم ظرف لوگوں کے زریعے حکمرانی کرنے کے تجربات کرتا آ رہا ہے درمیان میں اگر کسی بھی مصلحت کے تحت شہید نواب بگٹی جیسا آدمی آیا ہے تو اس نے ریاستی بے راہ رویوں کو دیکھ کر بہت جلد خود مایوس ہو کر اقتدار سے الگ ہوا ہے یا اسے اپنوں کے زریعے صوبے کے معاملات سے دور رکھنے “میں کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا”.جیسے بچگانہ بیانات دے کر اُسے کنارہ کشی اختیار کرنے مجبور کیا ہے۔
متاسفانہ انہی پارلیمانی ٹٹوؤں نے ریاست کی کالونی طرز حکمرانی کو جواز فراہم اور اُسکی حاکمیت کرنے کی ضرورتوں کو پورا کر کے اسے یہ سوچنے کی ضرورت محسوس کرنے نہیں دیا کہ کہ بلوچ کا مسئلہ بقا کا ہے اگر آپ کسی کا سر پانی میں ڈبو کر رکھیں گے تو وہ آخری سانس تک سانس لینے جد و جہد کرتا رہے گا۔ آج مجموعی طور پر بلوچ اسی تنگیِ نفس کی کیفیت سے دوچار ہے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اس کے نوجوانوں کے ہاتھ سے قلم اور کتاب چھینا گیا ہےاور تو اور ڈاکٹر مالک کے دؤر حکومت میں کتابوں پر پابندیوں کا “تاریخی” سیاہ فیصلہ ہوتا بلوچوں نے دیکھا، یونیورسٹیاں، کالجز کب کے چھاونیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔جو نوجوان مسلسل تعقیب اور لاپتہ کئے جانے کے خوف سے دوسرے صوبوں کو پڑھنے جاتے ہیں وہاں بھی انکی پروفائلنگ ہوتی ہے انھیں کچھ بتائے بغیر حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، زہنی طور پر ٹارچر کیا جاتا ہے جھتوں کی شکل میں اُن پر حملے کئے جاتے ہیں. بعض طالبعلم انہی پے در پے حملوں اور بے توقیریوں سے تنگ آکر پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں
حرف آخر : بلوچ لاپتہ افراد بارے وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے ہوئے شہباز شریف کا یہ بیان کہ میں اس سلسلے میں طاقتور لوگوں سے بات کروں گا، بلاول زرداری کا اپوزیشن میں ہوتے ہمدردی کا اظہار اور حکومت کے وقت اس المیہ سے بے اعتنائی اور عمران خان کا اپنے دؤر حکومت میں یہ بیان کہ “مجھے کہا گیا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام کمزور ہے ہم ملزموں کو پکڑ کر آتے ہیں عدالتیں انھیں ضمانتیں دے کر رہا کرتے ہیں ” دوسرے لفظوں میں لوگوں کو برسوں لاپتہ رکھنے کی وجہ یہی ہے کہ ان کو قانونی طور پر سزا نہیں دی جا سکتی. اب جب مرکزی جماعتوں کا یہ حال ہے تو بلوچ و پشتون قوم پرستی کا نام لینے والے کس خوش گمانی میں مظلوموں کو جھوٹی تسلیاں دے کر ووٹ کے زریعے اسمبلیوں میں آ کر یہ مسئلہ حل کرنے کی باتیں کرتے ہیں؟ اس مسئلے کے تناظر میں سب جماعتوں نے ریاست سمیت مظلوموں سے بات کرنے کا اخلاقی جواز گنوایا ہے. اُن کا یہی اخلاقی شکست انھیں بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بلوچ و پشتونوں کے مقابلے میں متحد کر کے کھڑی کرے گی اب جب ماہ رنگ بلوچ نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوئے تو ہم اپنا کیس بلوچ عوام کی عدالت میں لے جائیں گے. یہ اعلان ایک طرف بلوچوں اور پشتونوں کو متحد کرنے کا سبب بن سکتی ہے تو دوسری طرف اس کمیٹی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے تمام زبانی جمع خرچ کے ہمدرد اور الاعلان مخالفین ایک صفحہ پر اکٹھے نظر آئیں گے. انسانیت اور بربریت، مظلوم اور ظالم، باضمیر اور بے ضمیر براہ راست مد مقابل ہوں گے اس وقت مظلوموں کی کامیابی کیلئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے بلوچ اور پشتونوں کے “تمام” میدانوں میں مکمل ہم آہنگی اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کے آگے بڑھنے کی ہے کیونکہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی مظلوموں کو اپنی بقا کیلئے اس بڑی جنگ کا ایک دن سامنا کرنا ہی تھا.اس کا الٹی میٹم اگر آج ماہ رنگ بلوچ نہ دیتی تو کل کوئی اور دیتا اور ریاست اپنے حواریوں کے ساتھ وہی متشدد رویہ اپناتا جس کی طرف ہم ممکنہ طور پر اشارہ کر رہے ہیں .
(ختم شُد)