یکشنبه, سپتمبر 22, 2024
Homeآرٹیکلزایک عام انسان اور سیاسی کارکن کی سوچ میں فرق!

ایک عام انسان اور سیاسی کارکن کی سوچ میں فرق!

تحریر: گلستان بلوچ

ھمگام آرٹیکل 

(جنرل سیکریٹری بی ایس ایف اوتھل زون)

جب بھی کوئی سیاست کی بات کرتا ہے تو سب سے پہلے اُن کو اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا کیونکہ اچھے سوچ اور نظریہ انسان کو مظبوط بنا دیتی ہیں ، اچھے سوچ کے مالک کبھی بھی کوئی ایسی کام کا حصہ نہیں بنتے جو اپنی قوم کو کھائی میں دھکیل دے، اچھی سوچ اور نظریے پر کاربند لوگ ہمیشہ خود کے بجائے اپنی قوم کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اُن کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں بحیثت ایک فرد اپنے قوم سے بالاتر نہیں ہوں اور میری قوم کی کامیابی میری اپنی کامیاب ہے ۔ایک اچھی سوچ رکھنے والا انسان ہمیشہ فری پلاننگ اور کامیاب حکمت عملی کے تحت باریک بینی سے سوچ سمجھ کر اقدامات اٹھاتا ہے ۔

 سیاسی کارکن ہمیشہ اپنی قوم کے بارے میں سوچتا ہے کہ میں اپنے قوم کو کیسے شعور یافتہ اور بیدار کروں، اُنکو شعور کی طرف لے جاؤں، لیکن عام لوگوں کی سوچ کبھی بھی اُس جیسا نہیں ہوسکتا ہے جیسا کہ ایک سیاسی کارکن کا ہوتا ہے، عام لوگ بس وقتی طور پر فیصلہ لیتے ہیں اور بد قسمتی سے وہی وقتی فیصلہ آگے جاکر قوم کو زوال کی طرف دکھیل دیتا ہے، عام لوگ فیصلہ لیتے وقت کبھی یہ نہیں سوچتا کہ میرے ان فیصلوں سے میری قوم کو کتنے نقصان اور کتنے فوائد ملیں گے، عام لوگ ہمیشہ کنویں کے مینڈک کی طرح سوچ رکھتے ہیں، کیونکہ مینڈک ہمیشہ پانی میں رہ کر زندگی گزارتا ہے اور اسکو دُنیا کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا ہے کہ دُنیا کتنی بڑی ہے اسطرح ایک عام بندے کی سوچ ہوتی ہے وہ ہمیشہ ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتا ہے، خود کو قوم سے بالاتر سمجھتا ہے، وہ کبھی اپنے مظلوم قوم کے بارے میں نہیں سوچتا ہے کہ اُن پر کتنی تکالیف دہ اور مشکل حالات گزر رہے ہیں ،

لیکن آج مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہی ہے کہ کچھ ایسے بھی سیاسی لوگ ہیں جو اپنی قوم کو ترجیح دینے کے بجائے خود کو قوم سے بالاتر سمجھ رہے ہیں، ایسے لوگ قوم کی تباہی کے ضامن ہیں، مستقبل میں ایسے لوگ بہت خطرناک بنتے ہیں اگر ان کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ تو یہ نہ صرف خود کو نقصانات دوچار کرتے ہیں بلکہ اپنے سماج کو کسی حد نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

سْیاسی کارکن تمام تربیتی مراحل سے گزرتا ہے، تب انہیں قوم اور دیگر سماجی مفادات انفرادی مفادات سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں، وہ کوئی ایسے عمل کا حصہ نہیں بنتا جس سے قومی شناخت اور تشخص کو نقصان پہنچ سکے۔

جس طرح لوہا ٹپ کر کندن بن جاتا ہے اسی طرح بہترین سیاسی کارکن وقت و حالات سے سیکھ کر کندن بن جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز