تحریر: عیسیٰ اقبال بلوچ

           ہمگام آرٹیکل          

 

 ریاست پاکستان میں بلوچ ہونا گناہِ کبیرہ ہے، آپ بلوچ ہیں تو آپ کو حساس اور مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، آپ بلوچ ہیں تو آپ کو جینے کا حق نہیں۔ 

 

پنجاب میں بلوچ اسٹوڈنٹس سے پوچھا جائے کہ ریاستی اداروں کے بندے ان کو کتنا ہراس کرتے ہیں، جب کوئی بلوچ اپنے قومی لباس میں پنجاب کے کسی بھی بازار میں گھومنے جائے تو ریاستی اداروں کے سادہ لباس میں ملبوس اہلکار پانچ منٹ میں پہنچ کر پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ آپ کون ہو ؟ کہاں سے ہوں؟ یہاں کیا کرنے آئے ہو ؟ اسی طرح بلوچستان میں آپ کہیں بھی جاؤ آپ سے ضرور پوچھا جائے گا کہاں سے آئے ہو اور کہاں جارہے ہو؟

 

تاریخی حوالے سے دیکھا جائے 1947 سے لیکر آج تک بلوچوں سے ایک غلام جیسا برتاؤ کیا جارہا ہے، سب سے پہلے جبری طور پر الحاق کیا گیا پھر بلوچ لیڈروں کو جیل بھیج دیا گیا،1960کو نواب نوروز خان کے بچوں کو پھانسی دیئے گئے، مکران اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں بنا کسی جرم اور خطا کے گرفتار کیا گیا1973 کو مری بلوچوں پر آپریشن کیا گیا۔1975 کو نیب کے لیڈروں کو جیل بھیج دیا گیا اور اسی بھٹو کے دور حکومت میں اسد اللّہ مینگل کو لاپتہ کیا گیا، جو تاحال لاپتہ ہیں، 1998 کو بلوچستان میں ایٹمی دھماکہ کیا گیا، 2006 کو نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کیا گیا، 2009 کو چیئرمین غلام محمد اور انُ کے ساتھیوں کو عدالت سے گرفتار کرنے کے بعد شہید کرکے انکی مسخ شدہ لاشوں کو بزریعہ ہیلی کاپٹر پھینکے گئے۔ اور اس کے بعد مارو اور پھینکو کو پالیسی کا آغاز کیا گیا اور اب پرامن سْیاسی کارکنوں اور بے گناہ لوگوں کو جعلی آپریشن میں گرفتار کرکے انکے خلاف بے بنیاد الزام لگا کر عدالتوں کا چکر کاٹنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

  

2009 کے بعد باقاعدہ بلوچی زبان کے کتابوں پر پابندی عائد کردی گئی، شاعر اور ادیبوں کو دربدر کردیا گیا، جو آج بھی وہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، بلوچی ایک قومی زبان ہوکر آج بھی سرکاری اسکولوں میں نہیں پڑھائی جاتی ہے، جس نے بھی بلوچ کے حقوق کی بات کی انہیں لاپتہ کیا گیا یا انہیں شہید کرکے انکے زندگی کی چراغ بجائے گئے، ابھی کچھ دنوں کی بات ہے سکی ساوڑ بلوچ جو ایک مصنف اور بلوچی زبان کا معلم ہے جسے اپنی زبان سے بے حد محبت ہے، جس نے ہم جیسے کئی بلوچوں کو لکھنا سکھایا، جب بھی ہم کوئی چیز بلوچی زبان میں لکھتے تصحیح کیلئے لازماً سکی ساوڑ کو بھیج دیتے، لیکن آج ہمیں اس معلم سے محروم کردیا گیا، نہ جانے کونسا جرم کیا ہے سکی ساوڑ نے؟ ہاں ایک جرم ضرور کیا ہے وہ یہ کہ ایک بلوچ ہیں، بلوچی لکھتا اور بولتا ہے اور اپنے قوم کے بچوں کو بلوچی پڑھاتا ہے۔ یہ سکی ساوڑ کا جرم تھا۔