بلوچستان کے مسئلہ پر ممتاز بلوچ قومی رہنما حیربیار مری کی اٹلی کی معروف اخبار” اٹلاںٹیکو “کو تازہ انٹرویو
انٹرویو: ناتھن گریپی
ترجمہ: آرچن بلوچ
بلوچ قوم ایک اسٹریٹجک سرزمین کے مالک، ایران، پاکستان اور چین کے ہاتھوں میں اپنی سرزمین میں مظلومیت اور استحصال کے شکار ہیں۔ چین گوادر کو چینی کالیننگراڈ میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، ایک فوجی اڈہ جس سے وہ آبنائے ہرمز اور بحر ہند پر غلبہ حاصل کرے گا۔
جب سے اسرائیل کو 7 اکتوبر کے بعد حماس اور حزب اللہ کے ساتھ جنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے، اگرچہ فوجی سطح پر اسرائیل کو برتری حاصل ہے، لیکن میڈیا کے محاذ پر یہودی ریاست کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ ایران کی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیمیں مغرب میں باآسانی لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں کہ حملہ آور کو مظلوم سمجھا جائے۔
اسرائیل کو دہائیوں سے ایک غاصب ریاست کے طور پر پیش کرنے والا ایران خود اپنے اندرونی علاقوں میں مختلف نسلی گروہوں کے خلاف سخت ظالمانہ اقدامات کرتا رہا ہے۔ بلوچ اس بات سے بخوبی واقف ہیں، کیونکہ ان کی تاریخی سرزمین آج ایران، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقسیم ہو چکی ہے، لیکن وہ ہمیشہ سے قومی خود مختاری کی جدو جہد میں مصروف ہیں۔
بلوچستان کے بارے میں زیادہ جاننے کے لیے، جو کہ عالمی مباحثوں میں کم زیر بحث آتا ہے لیکن جنوبی ایشیا کے توازن کے لیے انتہائی اہم ہے، ہم نے فری بلوچستان موومنٹ کے رہنما، حیربیار مری کا انٹرویو کیا، جو کہ پاکستان میں پیدا ہوئے تھے لیکن آج کل لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
بلوچستان کی تقسیم
ناتھن گریپی: براہ کرم ہمیں اس خطے اور اس کے باشندوں کی تاریخ بتائیں۔
حیربیار مری: تاریخی طور پر یونانیوں کے لیے “گیدروشیا” کے نام سے جانا جانے والا بلوچستان ایک ایسا ملک ہے جو طویل عرصے سے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ایک اسٹریٹجک گزرگاہ رہا ہے۔ خشک صحراؤں اور سنگلاخ علاقوں سے ڈھکا ہوا یہ وہ جگہ ہے جہاں سکندر اعظم نے ہندوستان سے فارس واپس جاتے ہوئے اپنے تین چوتھائی فوج کا نقصان اٹھایا۔ بلوچ لوگ زیادہ تر بلوچی زبان بولتے ہیں، جو کہ ہند یورپی زبانوں میں شامل ہے اور قدیم ماد اور پارتی زبانوں سے قریبی تعلق رکھتی ہے۔
بلوچستان نے 1839 میں برطانوی سامراج کے حملے اور قبضے تک اپنی علاقائی وحدت کو برقرار رکھا۔ جدید ریاستوں کے قیام سے بہت پہلے، جیسے کہ اٹلی اور جرمنی، بلوچستان ایک متحدہ ریاست کے طور پر موجود تھا۔ تاہم، برطانوی فتح کے بعد، 1839 میں، اس ملک کو منظم طریقے سے تقسیم کیا گیا۔ 1871 میں اس کا مغربی حصہ فارس (موجودہ ایران) میں شامل کیا گیا؛ 1893 میں اس کا شمالی علاقہ افغانستان کے حوالے کر دیا گیا؛ اور مشرقی حصہ نیم خودمختار رہا۔
یہ تقسیم، جو بلوچ عوام کی مرضی کے بغیر مسلط کی گئی، نے اس متحدہ ملک کو تقسیم کر دیا اور اس کے علاقے ہمسایہ ریاستوں کو دے دیے گئے۔ برطانیہ کی جانب سے بلوچستان کی تقسیم کو دوسری جنگ عظیم کے دوران پولینڈ کی جرمنی اور روس کے ہاتھوں تقسیم کے ساتھ تشبیہ دی جا سکتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ بلوچستان کو اس کے نام نہاد اتحادی، برطانوی سامراج نے دھوکہ دیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد، ایشیا کو نوآبادیات سے آزاد کیا گیا اور برطانوی سامراج نے ہماری سرزمین سے اپنی افواج واپس بلا لیں۔ مشرقی بلوچستان اور ہندوستان کو آزادی مل گئی، لیکن ہندوستان کو مذہب کی بنیاد پر بھی تقسیم کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کی تشکیل ہوئی۔ پاکستان ہندوستانی اور افغان سرزمین پر قائم کیا گیا۔
پاکستان کو ستمبر 1947 میں اقوام متحدہ کی رکنیت دی گئی۔ پاکستان کے اقوام متحدہ کا رکن بننے کے ابتدائی اقدامات میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے بلوچستان پر حملہ کیا اور اسے زبردستی ضم کر لیا۔ بلوچستان صدیوں سے ایک آزاد اور متحد ریاست کے طور پر موجود تھا، یہاں تک کہ اسے برطانیہ نے تقسیم کیا اور پھر غیر قانونی طور پر پاکستان نے ضم کر لیا۔ بلوچ قوم نے کبھی بھی بلوچستان کی تقسیم اور غیر قانونی قبضے کو قبول نہیں کیا۔
ناتھن گریپی: مہسا امینی کے قتل کے بعد 2022 میں ایران میں بلوچ اقلیت نے بھی حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لیا…
حیربیار مری: سب سے پہلے، کچھ اہم نکات کی وضاحت ضروری ہے۔
اول تو یہ کہ بلوچ قوم اقلیت نہیں ہے بلکہ ایک قوم ہے جسکی ایک منفرد ثقافتی شناخت، زبان اور تاریخ ہے۔دوم، بلوچ اپنی آبائی وطن میں رہتا ہے، جہاں وہ ہزاروں سال سے اکثریت میں ہے۔اگر آپ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کے تحت یورپ کی صورتحال کا موازنہ کریں تو یہ بات زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ جب نازی افواج نے بیسویں صدی میں آزاد یورپی ریاستوں پر قبضہ کیا، کیا فرانس کے لوگ جو قبضے کی مزاحمت کر رہے تھے، اچانک “فرانسیسی اقلیت” بن گئے؟ کیا پولینڈ میں بسنے والے پولش لوگ، جرمنی کے قبضے کے دوران، “پولش اقلیت” کہلائے؟ بالکل نہیں۔
اب، ذرا تصور کریں اگر فرانس، جس کی آبادی قدرے زیادہ ہو، اٹلی پر قبضہ کر لے اور اسے کنٹرول کرے۔ کیا ہم اطالوی لوگوں کو “اقلیت” کہیں گے صرف اس لیے کہ فرانسیسی قابض ریاست انہیں اپنے قبضے میں رکھتی ہے؟ اس مفروضے کی مضحکہ خیزی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ بلوچوں کو اپنی ہی سرزمین میں اقلیت کہلانا کتنا غلط ہے۔
ایک تاریخی قوم جیسے کہ بلوچ، کبھی بھی اقلیت نہیں ہو سکتی۔ بلوچ ایران میں اقلیت نہیں بلکہ ایک ایسی قوم ہے جو ایرانی قبضے کے خلاف اپنی خودمختاری کے لیے جدو جہد کر رہی ہے۔
ایران میں بلوچوں کی صورتحال
ناتھن گریپی: عام طور پر ایران میں بلوچوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟
حیربیار مری: حالیہ واقعات نے اس جدو جہد کو مزید نمایاں کیا ہے۔ 16 ستمبر 2022 کو، جینا امینی کے غیر منصفانہ قتل کے بعد ایران اور اس کے مقبوضہ علاقوں میں مظاہرے شروع ہوئے۔
جینا امینی کا اصل نام بھی ظلم کی علامت ہے، ان کا کرد نام “جینا” ایرانی ریاست نے بدل کر “مہسا” کر دیا کیونکہ ایران میں بلوچ، کرد، عرب اور ترک جیسے قوموں کو اپنے روایتی ناموں کا استعمال ممنوع ہے۔
یکم ستمبر 2022 کو چابہار میں ایک 15 سالہ بلوچ لڑکی، ماحو، کو ایک اعلیٰ ایرانی پولیس افسر نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس جرم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بلوچ سڑکوں پر نکلے، انصاف کا مطالبہ کیا اور ایران کی جانب سے طویل عرصے سے جاری مظالم کے خلاف آواز اٹھائی۔
30 ستمبر 2022 کو زاہدان میں جمعہ کی نماز کے دوران پرامن احتجاج کو ایرانی انقلابی گارڈز (IRGC) نے خونریز تشدد میں تبدیل کر دیا، جہاں ایک گھنٹے کے اندر 100 سے زائد شہری مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ” جمعہ خونین” یا “زاہدان قتل عام” بلوچوں کی اجتماعی یادداشت میں ایران کے خلاف ان کی مزاحمت کے ایک اور باب کے طور پر نقش ہو گیا ہے۔
ایران نے عدالتی نظام کو بھی بلوچوں کے خلاف استعمال کیا ہے، ان پر منشیات کے جرائم یا “محاربہ” کے الزامات لگا کر پھانسیاں دی جاتی ہیں۔ ان کیسز میں بلوچوں کو اکثر خفیہ عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے اور انہیں مناسب قانونی نمائندگی سے محروم رکھا جاتا ہے۔
چین ایک دشمن کے طور پر
ناتھن گریپی: حالیہ برسوں میں، چین نے پاکستان کے ساتھ معاہدے کیے ہیں تاکہ بلوچستان کے قدرتی وسائل کا استحصال کیا جا سکے۔ اس پالیسی کا مقامی آبادی پر کیا اثر پڑا ہے؟
حیربیار مری: میں نے کئی مواقع پر چین کو بلوچ عوام کا دشمن قرار دیا ہے۔ یہ صرف ایک جذباتی بیان نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے جو پاکستان کی مسلسل حمایت پر مبنی ہے، خاص طور پر بلوچوں کی قومی آزادی کی جدوجہد کو کچلنے میں۔ چین کا کردار محض اقتصادی نہیں بلکہ جغرافیائی سیاست، وسائل کے استحصال اور ایک قوم کے آزادی کے حق کو دبانے کا معاملہ بھی ہے۔ چین اپنی اقتصادی طاقت کے ذریعے دنیا پر اپنی بالادستی مسلط کرنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے، اور اس کوشش کا ایک بڑا ذریعہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) ہے، جو درحقیقت طویل مدتی اسٹریٹجک مفادات کو فروغ دینے کے لیے فوجی اڈے قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔
وسائل کا استحصال
بلوچستان میں، اس منصوبے کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے ذریعے نافذ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان یہ معاہدہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے تاکہ بلوچستان کے قیمتی وسائل کا استحصال کیا جا سکے، جبکہ چین کو اسٹریٹجک اہمیت کے حامل بحیرہ بلوچستان تک رسائی فراہم کی جا رہی ہے۔
سی پیک کے ذریعے چین کا مقصد بلوچستان کے ساحل پر بحری اڈے بنانا ہے تاکہ وہ بحیرہ عرب میں اپنے قدم جما سکے۔ اس منصوبے کا مرکز گوادر شہر ہے، جو اب ایک قید خانہ نما شہر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ مقامی بلوچ آبادی پر مسلسل نگرانی اور کنٹرول ہے، اور وہ اپنی ہی سرزمین میں آزادانہ نقل و حرکت سے قاصر ہیں۔لیکن بلوچستان میں چین کی مداخلت CPEC سے کہیں پہلے شروع ہوئی تھی۔ کئی دہائیوں سے، چین نے پاکستان کی مدد کی ہے تاکہ بلوچوں کی آزادی کی جدوجہد کو دبایا جا سکے، اور ساتھ ہی علاقے کے وسیع قدرتی وسائل کے استحصال کے حقوق بھی حاصل کیے۔ پورے بلوچستان میں کئی کھلی اور خفیہ کانیں چینی کنٹرول میں ہیں، اور مقامی آبادی کو ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔
چین کی ریاستی ملکیت والی کان کنی کمپنی، “میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا لمیٹڈ (MCC)”، گزشتہ 30 سالوں سے اس استحصال میں سرگرم ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سینڈک پروجیکٹ ہے، جہاں چین نے بلوچستان کے سونے اور تانبے کے ذخائر کو انتہائی غیر شفافیت کے ساتھ نکالا ہے، اور تمام منافع چین اور پاکستان کو منتقل ہو رہے ہیں، جبکہ بلوچ عوام بدحال ہو رہے ہیں۔
چین اور پاکستان کی استحصالی پالیسیوں کا بلوچ قوم پر اثر تباہ کن ہے۔ ہزاروں بلوچوں کو اغوا کر کے لاپتہ کر دیا گیا ہے، سینکڑوں کو قتل کیا گیا ہے، اور پوری پوری کمیونٹیز کو زبردستی بے دخل کیا گیا ہے تاکہ چینی وسائل ہتھیانے کے منصوبوں کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔ چین محض ایک اقتصادی پارٹنر نہیں بلکہ وہ پاکستان کی مدد اور رہنمائی بھی کر رہا ہے تاکہ بلوچوں کی قومی آزادی کی جدوجہد کو دبایا جا سکے۔ چین پاکستان کو جدید ترین ٹیکنالوجی اور اسٹریٹجک مدد فراہم کر رہا ہے، اور اس کا مقصد گوادر کو ایک “چینی کیلننگراڈ” میں تبدیل کرنا ہے، جو ایک فوجی اڈہ ہو گا جہاں سے وہ آبنائے ہرمز اور بحر ہند پر غلبہ حاصل کر سکے گا۔
اس دوران، پاکستان گوادر میں آبادیاتی تبدیلی کا منصوبہ بھی آگے بڑھا رہا ہے، اور علاقے کو غیر ملکی آباد کاروں سے بھر رہا ہے۔ پیش گوئی ہے کہ 2048 تک چینی آباد کار مقامی بلوچ آبادی سے زیادہ ہو جائیں گے، اور یوں بلوچوں کی اپنی سرزمین پر شناخت مزید مٹ جائے گی۔ یہ آبادیاتی تبدیلی، جاری جبر کے ساتھ مل کر، ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کو ختم کرنا ہے۔
ایرانی پراکسیز
ناتھن گریپی: بلوچ عوام ایران اور اس کے پراکسی گروپوں جیسے حزب اللہ اور حوثیوں کے ساتھ اسرائیل کے جاری تنازع کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
حیربیار مری: ہم ایرانی تھیوکریٹک حکومت اور اس کے علاقائی مذہبی پراکسیز کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے، یہ سب ایک ہی ہیں۔ یہ پراکسی گروپ ایرانی ملاؤں کی حکومت کی توسیع ہیں، جو اس کے جابرانہ ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جس طرح ایرانی ریاست بلوچ قوم کے آزادی کے حق کی مخالفت کرتی ہے، اسی طرح یہ پراکسی گروپ بھی کرتے ہیں۔
ایران ان گروپوں کو آزادی کے جنگجو کہہ کر ان کی منافقانہ حمایت کرتا ہے، لیکن خود ایران خطے میں حقیقی آزادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ایران اپنے اتحادیوں کی حمایت کرتا ہے، جبکہ وہ ہم جیسے آزادی کی خواہاں قوموں کو قتل کرتا ہے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے، جیسے کہ کرد اور بلوچ، ہمیں “خدا کے دشمن” قرار دے کر ہماری عزت کے دفاع کو جرم بنا دیا گیا ہے۔
ایران نے اپنے پراکسی گروپوں کو اسلحہ فراہم کرنے کے لیے بلوچستان کے سمندری راستوں کا استعمال کیا ہے تاکہ یمن میں حوثیوں کو ہتھیار پہنچائے جا سکیں اور اس طرح اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا اور خطے کو عدم استحکام کا شکار کیا۔ اگر بلوچ ایک آزاد قوم ہوتے، تو ہم کبھی بھی اپنی سرزمین اور پانیوں کو دیگر اقوام پر حملے کرنے کے لیے استعمال نہ ہونے دیتے، بشمول اسرائیل کے خلاف۔ ایک آزاد بلوچستان علاقائی امن و تعاون کے اصولوں کی حمایت کرے گا اور ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں یا جنونی جہادیوں کو اپنی سرحدوں کے اندر کام کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایران کی جبر و استبداد کا آغاز آج نہیں ہوا، بلکہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ہوا تھا۔ بلوچ، کرد اور عرب وہ پہلی قومیں تھیں جو ایرانی جبر اور قبضے کا شکار ہوئیں۔ ان قوموں کو زیر کرنے کے بعد، ایرانی ملاؤں نے اپنی نظریں اسرائیل پر مرکوز کر دیں۔ اس قسم کے بحران سے بچا جا سکتا تھا اگر آزاد قومیں جیسے کہ بلوچستان اور کردستان موجود ہوتیں۔ یہ قومیں قدرتی طور پر ایران کے مذہبی جنونیت اور توسیع پسندانہ ایجنڈے کے خلاف مزاحمت کرتیں اور آج کی طرح کی استبدادی حکومت کا توازن فراہم کرتیں۔
سیکولرازم اور جمہوریت
ناتھن گریپی: آپ نے پچھلے انٹرویوز میں کہا ہے کہ ایک آزاد بلوچستان ایک سیکولر اور جمہوری ریاست ہوگی۔ اگر آپ کی قوم آزاد ہو جاتی ہے، تو آپ کا مغرب اور اسرائیل کے ساتھ کس قسم کا تعلق ہو گا؟
حیربیار مری: ہم سیکولرازم اور جمہوریت کی حمایت مغرب کو خوش کرنے کے لیے نہیں کرتے، بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اصول آج کی دنیا میں بلوچوں کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ بلوچ قوم مذہبی طور پر ہم آہنگ نہیں ہے؛ ہم ایک متنوع قوم ہیں، جن کے مختلف عقائد اور نظریات ہیں۔ ایک سیکولر ریاست ہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے حکومت مذہبی معاملات میں غیر جانبدار رہ سکتی ہے، اور ہر شہری کو اپنی مرضی سے اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی آزادی دے سکتی ہے۔ جمہوریت، دوسری طرف، ہماری قومی تنوع کو گلے لگانے اور منانے کے لیے بہترین نظام ہے، جو ہر ایک کو ہمارا مشترکہ مستقبل تشکیل دینے میں اپنا حصہ ڈالنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
ہم ایک جمہوری بلوچستان کا تصور کرتے ہیں، جیسا کہ ہماری بلوچستان کی آزادی کے چارٹر میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ چارٹر ایک رہنما دستاویز ہے، جو ہمارے منصوبوں کی تفصیل فراہم کرتی ہے کہ ہم کس طرح ایک منصفانہ اور جمہوری معاشرہ قائم کریں گے جو انسانی حقوق، برابری اور خوشحالی کو فروغ دے۔
جب بین الاقوامی تعلقات کی بات آتی ہے تو ہم ہر قوم کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر شراکت داری قائم کرنا چاہتے ہیں، بشمول اسرائیل اور مغربی ممالک کے ساتھ۔
مثال کے طور پر، بلوچستان کا بیشتر علاقہ خشک ہے، اور پانی کے وسائل بہت کم ہیں۔ اسرائیل، جو سمندری پانی کی صفائی اور زرعی ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتا ہے، نے ثابت کیا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی مشکل ترین ماحول کو بھی بدل سکتی ہے۔ تصور کریں کہ اگر ہم اسرائیل جیسے ممالک کے ساتھ تعاون کریں تو بلوچستان کے امکانات کیا ہو سکتے ہیں۔ ہمارا خطہ پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے، جو نہ صرف ہمارے لوگوں کے لیے بلکہ ہمارے پڑوسیوں کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا۔
ایک آزاد بلوچستان اپنے شہریوں کی خوشحالی کو یقینی بنائے گا اور ساتھ ہی خطے میں استحکام اور ترقی میں بھی مثبت کردار ادا کرے گا