شال (ہمگام نیوز ) بلوچستان لبریشن فرنٹ بی ایل ایف کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے ماہ اکتوبر 2023 کے کاروائیوں کی تفصیلی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ سرمچاروں نے اکتوبر کے مہینے میں قابض پاکستانی فورسز، تعمیراتی کمپنی اور موبائل ٹاور سمیت دشمن فورسز و حفیہ اداروں کے آلہ کاروں پر 23 حملے کیے، قابض پاکستانی فورسز پر 18 حملے کیے گے۔ ان حملوں میں دشمن فورسز کے ایک صوبیدار سمیت 27 سے زائد اہلکار ہلاک اور 10 سے زائد زخمی ہوے۔جبکہ اکتوبر کے مہینے میں سرمچاروں نے ریاست پاکستان کے تزویراتی اور سیاسی منصوبوں کو ناکام کرنے کے لیے تعمیرانی کمپنی کے مشینریز سمیت ایک موبائل ٹاور کو نزر آتش کیا۔سرمچاروں نے قابض دشمن فورسز و حفیہ اداروں کے چار آلہ کار و مخبروں کو سزائے موت دیا۔ اکتوبر کے مہینے میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ایک نوجوان سرمچار شھید ہوئے۔
انھوں رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ یکم اکتوبر 2023کو بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے کیچ کے علاقے مند میں ردیگ اور شند کے درمیان گھات لگا کر پاکستانی فوج کی ایک گاڑی پر حملہ کرکے دشمن کے دو اہلکاروں کو ہلاک اور ایک کو زخمی کردیا۔
یہ حملہ ہفتے کی صبح دس بجے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے اس وقت کیا جب ویگو گاڑی میں سوار پاکستانی فوج کے تین اہلکار قریبی چوکی سے پانی لینے کے لیے ’مرزا زو ‘ کے مقام پر پہنچے۔ دشمن کو ہدف میں لے کر بلوچ سرمچاروں نے خود کار ہتھیاروں سے حملہ کیا جس میں دو اہلکار موقع پر ہلاک ہوگئے جبکہ ایک اہلکار زخمی ہوگیا ۔
02 اکتوبر 2023 کو بی ایل ایف کے سرمچاروں نے اتوار اور پیر کی رات نوبجے ملانٹ ، تمپ میں قائم پاکستانی فوجی چوکی کو نشانے میں لے کر اس پر اے ون گولے فائر کیے۔ جس میں پاکستانی فوجی ھلاک ہوا ۔ جبکہ 30 ستمبر کی رات 8 بجے بلوچ سرمچاروں نے جاھو کے علاقے کورک میں ایک سبوتاژی کارروائی میں یوفون کمپنی کے موبائل ٹاور کی مشینری نذر آتش کرکے ناکارہ کردی۔
05 اکتوبر 2023کو سرمچاروں نے چاغی کے ڈرم بازار میں پاکستانی فوج کے ایک قافلے کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا، جس سے ایک گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوئی اور اس میں سوار چھ اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوگئے ۔
رپورٹ کے مطابق 08اکتوبر کو قومی مجرم جمیل ولد عید محمد سکنہ سورک بل نگور کو تنظیمی احتساب عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں سزائے موت دیا جبکہ اس کا ساتھی مجرم مصدق ولد خورشید نگوری سکنہ بل نگور اپنے جرائم کے اعتراف کے بعد تنظیم کی حراست میں بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوا۔ جمیل اور مصدق دونوں کے اعترافی بیانات فلبند کیے گئے ہیں جو مناسب موقع پر شائع کیے جائیں گے۔ دونوں نے اپنے اعترافی بیانات میں پاکستانی فوج اور ملٹری اینٹلی جنس کے لیے کام کرنے والے اپنے نیٹورک کے بارے میں اہم معلومات دی ہیں جن سے تنظیم کو ریاستی آلہ کاروں اور دشمن کے مفادات کےخلاف اپنے آئندہ آپریشنز میں مدد ملے گی۔
جمیل ولد عید محمد سن 2014 سے لے کر 2015 تک بی ایل ایف کے شہری نیٹورک سے وابستہ تھا۔ 2018 میں راز افشاں ہونے کی وجہ سے اسےحفاظت کے لیے کیمپ منتقل کیا گیا لیکن بیماری کی وجہ سے وہ تنظیم کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکا جس کی وجہ سے ایک خطیر رقم خرچ کرکے اسے علاج کے لیے کراچی بھیجا گیا۔ علاج کے بعد وہ ایک محفوظ علاقے میں رہنے لگا۔ اپنی بیماری اور علاج کے مزید پیسوں کی ضرورت کا کہہ کر وہ یو بی اے میں شامل ہوا۔تنظیم نے جمیل کی وابستگی اور بیماری کی وجہ سے اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا اور جب اس نے گوادر میں جاکر پاکستان ملٹری اینٹلی جنس کے سامنے سرینڈر کیا تب بھی تنظیم نے اس کی بیماری کے پیش نظر اسے ایک عام شہری کے طور پر غیرجانبدار ہوکر رہنے کی شرط پر علاقے میں رہنے کی اجازت دی۔
جمیل نے اس دوران تنظیم سے رابطہ کیا اور پیشکش کی کہ چونکہ وہ اب اس پوزیشن میں ہے کہ تنظیمی سرگرمیوں میں حصہ لے سکے اس لیے اسے دوبارہ شہر میں تنظمی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے۔تنظیم کو اپنے انٹلی جنس ذرائع سے اس کی سرگرمیوں میں بارے میں معلومات مل رہی تھیں لیکن حکمت عملی کے تحت بظاہر اس کی پیشکش قبول کی گئی۔
تنظیم کے ایک اینٹلی بیسڈ آپریشن میں گرفتار ریاستی مخبر سے انکشاف ہوا کہ جمیل ولد عید محمد گوادر میں مقیم پاکستانی ملٹری انٹلی جنس کے آفیسر میجر عمر کے ماتحت پاکستانی فوج کے لیے کام کر رہا ہے۔ ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر تنظیم نے اس کی گرفتاری کا فیصلہ کیا ، اس فیصلے کے تحت مذکورہ مجرم کو گرفتار کرکے تحقیقات کی گئیں اور جرم کے اعتراف کے بعد اسے تنظیم کی احتساب عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جس نے ثبوت اور شواہد کی جانچ کے بعد اس کے سزائے موت کا فیصلہ کیا جس پر چار اکتوبر کو عمل کیا گیا ۔
مصدق ولد خورشید نگوری بھی جمیل کا ساتھی تھا ماضی میں بلوچ ری پبلیکن آرمی کا حصہ رہ چکا تھا۔ 2015 میں سرینڈر کرنے کے بعد پاکستانی فوج کے لیے کام کر رہا تھا۔ جمیل کے سرینڈر کرنے کے بعد دونوں نے ’ میجر عمر ‘ کے کہنے پر دوبارہ تنظیم سے روابط قائم کرنے کی کوشش کی تاکہ تنظیم کے ایک اہم کمانڈر کو ڈرون حملے یا کسی دیگر طریقے سے قتل کرسکیں۔معتبر ذرائع سے اس سازش کے بارے میں معلوم ہونے کے باوجود تنظیم نے نہایت صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور تنظیمی طریقہ ہائے کار کے مطابق مجرمان کے خلاف شواہد اکھٹے کیے گئے اور ان کے ساتھیوں کو ٹریس کیا گیا۔
مجرم مصدق ولد خورشید نگوری نے بھی تنظیم کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے اپنا اعترافی بیان رکارڈ کیا ہے ۔ جس میں اس نے اپنے جرائم کا اعتراف کرنے کے ساتھ اپنے ساتھیوں بالخصوص اپنے والد ’ خورشید نگوری ‘ کے قوم مخالف سرگرمیوں کا اعتراف کیا ہے۔ مجرم مصدق تنظیم کی حراست میں بیمار تھا جہاں اس کو ہر ممکن طبی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا اور بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوگیا۔ دور دارز کا علاقہ ہونے کی وجہ سے تنظیم اس کی لاش لواحقین تک پہنچانے سے قاصر تھی اس لیے اسے مذہبی رسومات کے تحت دفن کیا گیا۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ خورشید نگوری کو سخت تنبیہ کرتی ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی قوم مخالف سرگرمیوں سے فوری باز آئیں ورنہ ان کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی اور اسے بھی قومی مجرمان کے انجام سے دوچار کیا جائے گا۔خورشید نگوری ایک قلم فروش لکھاری ہے جو اپنی ادبی حیثیت اور علاقائی احترام کو قابض فوج کی سہولت کاری کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس کے بیٹے مصفدق نگوری نے اپنے اعترافی بیان میں اس کے بدنما کردار کو فاش کیا ہے۔ مصدق اور جمیل کے اعترافی ویڈیو بھی شائع کیے جائیں گے تاکہ قوم کو حقائق معلوم ہوں۔
علاقے میں سرگرم پاکستانی ملٹری اینٹلی جنس اہلکاروں اور ان کے آلہ کاروں کو تنبیہ کیا جاتا ہے کہ وہ بی ایل ایف کے نشانے پر ہیں اور انھیں ان کے جرائم کی کڑی سزا دی جائے گی۔ غازی جو کہ میرانی ڈیم میں تعینات ہے ، میجر عمر جو کہ گوادر سے علاقے میں اپنے نیٹورکس کو آپریٹ کرتا ہے۔وقار ، آصف اور واجد نامی ایم آئی اہلکار بل نگور میں سرگرم ہیں ان کے آلہ کاروں کی معلومات تنظیم کے پاس موجود ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
میجر عمر ایک بلیک میلر ہے جو سرگرم سیاسی کارکنان ، علاقے میں تیل کے کاروبار کرنے والے افراد اور جہدکاروں کے رشتہ داروں کو جھانسے میں لاکر تحریک کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔عوام ایسے عناصر سے دور رہیں بی ایل ایف کے پاس کاروبار کے نام پر ساحلی علاقے میں منفی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے مکمل کوائف موجود ہیں تنظیم اپنی طاقت اپنے لوگوں کے خلاف استعمال کرنا نہیں چاہتی لیکن ریڈلائن عبور کرنے والوں کو ان کے جرائم پر معاف نہیں کیا جائے گا۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے 8 اکتوبر کو آواران اور کیچ میں دشمن فوج کے خلاف آپریشن میں دو اہلکار ہلاک کیے۔
بلوچ سرمچاروں نے 8 اکتوبر کو تین بجے آواران کے علاقے مشکے ملش بند میں قائم قابض پاکستانی فوجی چوکی پر گرنیڈ لانچروں سے حملہ کیا۔اس حملے میں بہت سارے گرنیڈ لانچرز چوکی پر داغے جس کی وجہ سے دشمن فوج کا ایک اہلکار موقع پر ہلاک اور دو شدید زخمی ہوئے۔
ایک اور کارروائی میں ، گذشتہ اتوار کی شام بی ایل ایف کے سرمچاروں نے کیچ کے علاقے تمپ میں اپسی کھن کے مقام پر دزراہ پر قائم قابض پاکستانی فوج کی چوکی کو مختلف سمت سے ہدف میں لیا۔اس آپریشن میں اسنائپر ٹیم نے دشمن کو نشانے پر لینے کے بعد ایک اہلکار کو ہلاک کیا جس سے دشمن میں افراتفری مچ گئی۔ بعد میں چوکی پر جدید اور بھاری ہتھیاروں سے حملہ کرکے دشمن کو مزید مالی اور جانی نقصان سے دوچار کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق 10 اکتوبر کو اعجاز ولد مراد محمد قومی مجرم تھا جس کی قوم دشمن سرگرمیوں کی بلوچستان لبریشن فرنٹ کے پاس کافی ثبوت اور شکایات موجود تھیں جن کی بنا پر بی ایل ایف کی ایک ٹیم کو اس کی گرفتاری کی ذمہ داری سونپی گئی۔ مذکورہ ٹیم نے اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہوئے گذشتہ اتوار کو ناصر آباد سے واپس آتے ہوئے نودز اور ھیرآباد کے درمیان اس کا راستہ روک کر اسے گرفتاری پیش کرنے کے لیے کہا لیکن اعجاز نے گرفتاری دینے کی بجائے مزاحمت کی جس کے نتیجے میں اسے موقع پر گولی مارنے کا فیصلہ کیا گیا۔
مذکورہ مجرم سرعام پاکستانی فوج کا آلہ کار تھا۔ بلوچ سرمچاروں کے گھروں پر حملے ، راستوں کی ناکہ بندی اور پاکستان فوج کی کارروائی میں ان کا ساتھ دیتا تھا۔پاکستان فوج کی ایما پر منشیات فروشی ، چوری ڈکیتی اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرکے علاقے میں خوف و ہراس پھیلانے کے علاوہ علاقے میں ایم آئی کے ایک نیٹورک کا سربراہ تھا۔ تنظیمی اینٹلیجنس سے حاصل ہونے والی معلومات اور عوامی شکایات پر اسے غیرموثر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
مجرم اعجاز شہید دلاور عرف کمالو کی جبری گمشدگی میں بھی ملوث تھا جو پاکستانی فوج کے ٹارچر سیلز سے رہائی کے بعد تشدد کی وجہ سے شہید ہوئے تھے۔
تمام ریاستی مخبروں اور فوجی آلہ کاروں کو سخت تنبیہ کیا جاتا ہے کہ وہ سرینڈر کرکے فوجی سہولت کاری سے تائب ہوں ورگرنہ ذلت کی موت ان کا مقدر ہوگا۔بلوچ قومی تحریک اور قومی مفادات کے خلاف کام کرنے والے کسی بھی شخص کو چھوٹ نہیں دی جائے گی۔جو شخص دشمن فوج کے دست و بازو ہیں انھیں مفلوج کرکے نشان عبرت بنایا جائے گا۔
اعجاز ولد مراد محمد اپنے خاندان کا واحد شخص نہیں جس نے بلوچ قومی مفاد کے خلاف قوم دشمنی کا گمراہ کن راستہ چنا ہے۔ اس کا بھانجا نوشیر ولد حامد سکنہ پل آباد بھی اسی ذلت آمیز موت کے راستے پر ہے۔
ہم نوشیر کو تنبیہ کرتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے کہ وہ راہ راست پر آجائے اور اپنے ہی قوم کے خلاف دشمن کا ساتھ دے کر اپنے لیے ذلت کی موت کا انتخاب نہ کرئے۔ مخبروں اور ڈیتھ اسکواڈ کے آلہ کاروں کے اہل خانہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی سرکوبی کریں اور انھیں اس راستے پر چلنے سے روکیں وگرنہ ہم سمجھیں گے انھوں نے اپنی بدبختی اپنے ہاتھوں سے لکھی ہے اور ایک ایسی موت ان کے گھات میں ہے جس کے بعد ان کی آنے والی نسلیں بھی ان سے تعلق جوڑنے سے انکار کریں گے۔
اس طرح 10 اکتوبرقلات کے علاقے شاہ مردان میں بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قابض پاکستانی فوج کے کیمپ پر حملہ کیا، جس سے دشمن فوج کے دو اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔
7 اکتوبر کی رات ساڑھے نو بجے بھاری ہتھیاروں سے لیس بلوچ سرمچاروں نے قلات شاہ مردان میں واقع پاکستانی فوج کے کیمپ کو دو اطراف سے گھیرے میں لیا۔ اس حملے کے لیے رات کے مناسب وقت کا انتخاب کیا گیا تاکہ کیمپ پر قریب سے حملہ کیا جاسکے اور اس وقت حملہ کیا گیا کہ دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جاسکے۔
کیچ کے علاقوں تمپ اور بھمن تربت میں بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قابض 13 اکتوبر کو پاکستانی ریاست کے مفادات پر دو الگ حملوں میں پاکستانی فوج اور قابض کے تعمیراتی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا۔
تمپ کے کلات پر پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا گیا جبکہ بھمن تربت میں ایک لنک روڈ پر کام کرنے والی تعمیراتی کمپنی کو نذر آتش کیا گیا۔دوسرا حملہ ریاست پاکستان کے تزویراتی اور سیاسی منصوبوں کو ناکام کرنے کے لیے کیا گیا تھا جو تعمیراتی سرگرمیوں کی آڑ میں بلوچستان میں اپنے سامراجی منصوبوں کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے۔
بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کو آٹھ بجے بلوچ سرمچاروں نے تمپ میں کلات کے مقام پر واقع چوکی پر راکٹ فائر کیا۔قریبی فاصلے سے فائر کیا گیا راکٹ پاکستانی فوج کی چوکی پر گرا جس سے قابض پاکستانی فوج کو جانی و مالی نقصان پہنچا۔یہ حملہ دشمن کو تنبیہ ہے کہ وہ بلوچستان میں چین کی نیند نہیں سو سکتا۔ ہماری نظریں اس کی ہر حرکت ، ہر سپاہی اور ہر چوکی پر ہے ہم جب بھی چاہئیں انھیں حملے کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔
بی ایل ایف کے ایک اور دستے نے جسے پاکستانی فوج کی تعمیراتی سرگرمیوں کو روکنے کی ذمہ داری دی گئی ہے بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کے ساڑھے سات بجے بھمن کے مقام پر پاکستانی فوج کی تعمیراتی کمپنی ایف ڈبلیو او کے ایک منصوبے کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ایف ڈبلیو او کی شراکت دار ٹھیکہ دار کی تعمیراتی مشینری کو نذر آتش کیا۔ یہ مشینری بھمن تربت اور ڈی بلوچ کے درمیان لنک روڈ کی تعمیر میں استعمال ہو رہی تھی۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ نےآواران میں 14 اکتوبر کو دشمن پر کیے گئے ایک ریموٹ کنٹرول بم حملے میں آواران کے علاقے کنیچی اور ھوٹان (کولواہ ) کے درمیان کپ کے مقام پر پاکستانی فوج کی گاڑیوں کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا۔
اس حملے میں پاکستانی فوج کی ایک گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوئی جبکہ ایک گاڑی کو جزوی نقصان پہنچا۔ اس حملے میں دشمن فوج کے سات اہلکار موقع پر ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔
دشمن کے خلاف یہ کارروائی جمعہ کی شام ساڑھے پانچ بجے انجام دی گئی۔ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیے گئے بارودی دھماکے میں پاکستانی فوج کی گاڑیوں کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
16 اکتوبر کو سرمچاروں نے اتوار کی شام 8 بجے تمپ کے علاقے گومازی میں آبادی کے اندر قائم پاکستانی فوج کی ایک چوکی پر راکٹ لانچر سے حملہ کیا۔ قریب سے کیے گئے اس حملے میں راکٹ چوکی کے اندر جا گرا جس سے دشمن کو مالی و جانی نقصان پہنچا ہے۔ آبادی کے اندر واقع ہونے کی وجہ سے بلوچ سرمچاروں نے حملے کی شدت کو کم رکھا تاکہ عوام کو جانی و مالی نقصان سے بچایا جاسکے۔یہ فوجی چوکی مقامی آبادی کو انسانی ڈھال بناکر قائم کی گئی ہے تاکہ پاکستانی فوج بلوچ سرمچاروں کے حملے سے محفوظ رکھ سکے۔
پاکستان فوج نے یہ چوکی بلوچستان لبریشن فرنٹ کے شہید سرمچار جبار عرف کیپٹن جھانگیر کے گھر پر قبضہ کرکے قائم کیا ہے۔یہ چوکی مذکورہ علاقے میں ہمارے ترجیحی اہداف میں شامل ہے اور آئندہ بھی اس پر شدت کے ساتھ حملے کیے جائیں گے۔
اس طرح 16 اکتوبر خو عزیز عرف پُلی ولد ملا موسیٰ ساکن بہمن تربت گزشتہ کئی سالوں سے ریاستی ایجنٹ کے طور پر تحریک کے خلاف سرگرم عمل تھا، گزشتہ ایک سال سے بی ایل ایف کا انٹیلیجنس ونگ ان پر کڑی نظر رکھا ہوا تھا وہ تربت کے علاقے گوکدان، ڈنُک، بہمن، نوک آباد اور ملحقہ علاقوں میں سرچ آپریشن اور گھروں پر چھاپوں میں فوج کا ساتھ تھا، جہدکاروں اور عام بلوچوں کی اغوا میں براہ راست ملوث تھا۔
عزیز پُلی منشیات کے کاروبار کے ساتھ ساتھ سماجی برائیوں میں بھی ملوث تھا۔وہ بلوچ لڑکیوں کو بلیک میل کرکے، ڈرا دھمکا کر اور لالچ دیکر فوجی کیمپوں میں لے جاتا تھا
عزیز کئی مہینوں تک ڈیتھ اسکواڈ سرغنہ یاسر بہرام کا کارندہ اور گارڈ تھا بعد میں انہوں نے ایک اور ریاستی گروپ جوائن کیا انکی نیٹ ورک کے تمام لوگوں کی اطلاعات بمعہ ثبوت تنظیم کے پاس موجود ہیں، وہ پہلے تربت میں ایم آئی کے مین کیمپ میں منسلک تھا لیکن کچھ وقت پہلے وہ 106 ونگ کے ڈی بلوچ کیمپ میں رپورٹنگ کرتا تھا اور وہیں ان کا آنا جانا تھا۔
گزشتہ رات تنظیم کا انٹیلیجنس نے ان کی موجودگی کا اطلاع دیا تو اسپیشل ٹیم نے تربت کے علاقے اولڈ بہمن میں چھاپہ مارکر ان کو گرفتاری پیش کرنے کو کہا، مزاحمت کرنے پر انہیں فائرنگ کرکے موقع پر ہلاک کردیا۔
ترجمان کے رپورٹ کے مطابق 19 اکتوبر کیچ کے علاقے زامران میں ھر ءِ کور زامری میں بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قابض پاکستانی فوج کی چوکی پر حملہ کرکے دشمن کو مالی و جانی نقصان سے دوچار کیا۔
یہ حملہ پیر کے روز دن کے بارہ بجے کیا گیا۔ یہ چوکی نام نہاد سرحدی باڑ کی حفاظت کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ چوکی پر بھاری ہتھیاروں سے کئی اطراف سے حملہ کیا گیا حملے کی شدت کی وجہ سے چوکی میں موجود اہلکار بغیر کسی مزاحمت کے دیواروں کے پیچھے چھپے رہے۔
24 اکتوبر کو عباس عرف مجید ولد عبدالقدیر ساکن ایسائی پنجگور بلوچ قومی جنگ آزادی کے سرمچار تھے بیماری کی وجہ سے محاذ پر شہید ہوئے۔آپ ایک سال قبل بلوچستان لبریشن فرنٹ میں شامل ہوئے اور گلزمین کی آزادی کی لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عہد وفا باندھا۔
آپ کی صلاحیتوں کو پرکھتے ہوئے تنظیم نے آپ کو شہری نیٹ ورک کاحصہ بنایا تاکہ آپ شہر میں رہ کر دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں اور ان کے مفادات کے خلاف تنظیم کی جنگی حکمت عملیوں میں مدد فراہم کریں۔ آپ ایک سال تک نہایت جانفشانی اور بے خوفی سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔
پارٹی اہداف کے لیے متحرک ہونے پر آپ ایک مہینے قبل دشمن کی نظر میں آگئے۔ تنظیم نے فوری طور پر فیصلہ کرتے ہوئے آپ کو شہر سے نکل کر متعلقہ کیمپ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی۔ جس پر عمل کرتے آپ 2 اکتوبر ، 2023 کو شہر سےنکل کر بی ایل ایف کے کیمپ پہنچے۔ آپ کو دوبدو جنگ کی تربیت کے لیے تربیتی کیمپ روانہ کیا گیا جہاں دوران تربیت آپ کی طبیعت خراب ہوگئی۔ساتھیوں نے ہر ممکن طور پر آپ کے علاج کی کوشش کی لیکن آپ کی صحت بحال نہ ہوسکی جس پر آپ کو علاج کے لیے کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
دور دراز کا علاقہ ہونے کی وجہ سے آپ کو پیدل منتقل کیا جا رہا تھا کہ راستے میں آپ کی طبیعت مزید بگڑ گئی اور آپ بروز ہفتہ 21 اکتوبر 2023 کو دن کے 10:30 بجے بلیدہ کے علاقے چرپانی کور کے راستے میں وفات پاگئے۔ بلوچ سرمچاروں نے آپ کو سلامی پیش کرتے ہوئے احترام کے ساتھ امانتاںّ سپرد گلزمین کردیا۔
آپ ایک ایماندار اور مخلص ساتھی تھے ، آپ نے مختصرمدت میں تنظیم کے استحکام اور اپنی قومی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے دن رات کام کیا۔آپ کی ناگہانی وفات بلوچ قوم اور تنظیم کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔
بی ایل ایف قومی سپاہی عباس عرف مجید کو ان کی شہادت پر خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ انھوں نے بلوچ قوم کی آزادی کے لیے اپنی جوانی قربان کرتے ہوئے ایک مشکل راستہ چنا اور انتہائی سخت حالات میں شہادت کے مرتبے کو پہنچے۔نوجوان سرمچار کی شہیدی پر ان کا ہر ساتھی غمزدہ دل کا ساتھ یہ عہد کرتا ہے کہ عباس اور دیگر بلوچ شہداء کی قربانیوں کو رائیگاں جانے نہیں دیا جائے گا۔ہم ہمیشہ اپنے شہدا کو یاد کریں گے۔ ان کی قربانیوں اور تکالیف کی قیمت آزاد بلوچستان ہے۔
25 اکتوبر کو مشکے میں پاکستانی فوج کی چھاؤنی سمیت بیک وقت چار مختلف مقامات پر پاکستانی فوج پر حملے کرکے دشمن کو بھاری مالی و جانی نقصان سے دوچار کیا۔
یہ حملے دشمن کے خلاف ایک منظم حکمت عملی کے تحت منگل کے روز نلی کی فوجی چھاؤنی ، رندک نوکجو میں فوجی کیمپ ، پگڑ اور میانی کلات میں چوکیوں پر بلوچ سرمچاروں کے چار مختلف دستوں نے انجام دیئے۔اس حملے میں بھاری اور جدید ہتھیاروں کے علاوہ بی ایل ایف کے اسنائپرز کی ایک ٹیم نے بھی حصہ لیا۔
یہ حملے شام سات بجے سے لے کر رات نو بجے تک جاری رہے۔
منگل ، 24 اکتوبر کو شام سات بجے مشکے میں پاکستانی فوج کے مختلف مراکز کو ہدف میں لے کر ان منظم حملوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ نلی میں پاکستانی فوج کی چھاؤنی پر مختلف سمت سے راکٹ اور اے ون گرنیڈ لانچرز سے راکٹ اور گرنیڈ فائر کیے گئے جو چھاؤنی کے اندر گرے ۔اس سے قابض فوج کو جانی اور مالی نقصان پہنچا۔ازاں بعد دیر تک ایل ایم جی کے ذریعے ہدف پر فائر کیے گئٛے۔
بی ایل ایف کے مذکورہ حملے میں ’رندک نوکجو ‘ کے مقام پر بھی پاکستانی فوج کے ایک بڑے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا، اس حملے میں بھی بھاری اور جدید ہتھیار استعمال کیے گئے جبکہ ’ پگڑ ‘ کے مقام پر پاکستانی فوج کی چوکی پر حملہ کیا گیا۔ اسی دوران بی ایل ایف کی اسنائپر ٹیم نے میانی کلات میں پاکستانی فوج پر اسنائپرز سے حملے کیے۔
26 اکتوبر کو بلوچ قومی تحریک کے نام پر کامریڈ گل بلوچ کے نام سے مقامی کاروباری افراد سے بھتہ وصول کرنے والوں کا بلوچ قومی تحریک اور سرمچاروں سے کوئی واسطہ نہیں کے حوا لے رپورٹ جاری کی گئی ۔ جس میں تفصیلات جاتی کئے گئے کہ مزکورہ گروہ گزشتہ سال سے علاقے میں جرائم اور بھتہ خوری میں ملوث ہے۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ نے مذکورہ گروہ کے طریقہ ہائے واردات کی جانچ کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ گروہ قومی تحریک کے خلاف سرگرم عناصر پر مشتمل ہے جو بلوچ سرمچاروں اور قومی تحریک کے نام پر گوادر اور ملحقہ علاقوں کے کاروباری افراد سے بھتہ وصول کر رہا ہے۔
بھتہ نہ دینے پر ان افراد نے لوگوں کے گھروں پر راکٹ فائر کیے اور ایک شخص کو بارودی دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا جو بری طرح زخمی ہونے کے بعد اب تک زیر علاج ہے۔ بی ایل ایف ایسے عناصر کی سرکوبی اور نشاندہی کے لیے عوامی حمایت کی طلب گار ہے۔ کاروباری افراد کو چاہیے کہ وہ ان عناصر کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے متحد ہوکر اس کا مقابلہ کریں کیونکہ یہ عناصر بلوچ سماج کو منتشر کرکے قابض پاکستانی فوج کے لیے آسانیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
بی ایل ایف گوادر میں اس گروہ کی سرگرمی سے باخبر ہے اور اس کا قریب سےمشاہدہ کر رہی ہے۔ اس مشاہدے میں کئی سماج دشمن افراد کو شک کے دائرے میں لایا گیا ہے جو ماضی میں بلوچ قومی تحریک کے خلاف پاکستانی فوج کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کرچکے ہیں۔ علاقے میں بلوچ قومی تحریک سے منحرف ہونے والوں پر بھی ہماری نظر ہے جن کے بارے میں شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ وہ بلوچ قوم اور قومی تحریک کے خلاف پاکستانی فوج اور ریاستی مفادات کے لیے سرگرم ہیں۔ ایسے افراد کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ فوری طور پر ان سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ بلوچ سرمچار انھیں ان کی مجرمانہ سرگرمیوں پر سزا دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وہ تنظیم کی صبر کو کمزوری نہ سمجھیں۔
بلوچ قومی تحریک بلوچ عوام کی تحریک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سطح پر اس طرح کی کوئی پالیسی نہیں کہ مقامی کاروباری لوگوں کو ڈرا دھمکا کر بھتہ وصول کیا جائے نہ ہی کبھی اس کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ عوامی حمایت سے کھڑی تحریک عوام سے کاٹ کر نہیں چلائی جاسکتی۔ ہم بھی اپنے سماج سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔
کامریڈ گل بلوچ کے نام پر ایک منظم ریاستی گروہ بلوچ قومی تحریک سے وابستگی ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ ہماری تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ گروہ ریاستی عناصر پر مشتمل ہے۔ ایم آئی کے گوادر میں میجرعمر نامی آفیسر سمیت اعلی افسران کا ایک نیٹورک اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ یہ گروہ اب تک دہشت پھیلا کر مقامی لوگوں سے کروڑوں روپے لوٹ چکا ہے۔ ایم آئی کی شمولیت کی وجہ سے اسے مقامی لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل ہو رہا ہے اور دیدہ دلیری سے سوشل میڈیا کو استعمال کرکے خوف پھیلا رہا ہے۔
ریاستی سازشوں اور کرپٹ فوجی عناصر کی چال بازیوں سے خود کو محفوظ کرنے کے لیے کاروباری حضرات کو اپنے اندر اتحاد پیدا کرکے قومی شعور کو مستحکم کرنا ہوگا۔ علاقے میں جرائم پیشہ عناصر جس طرح کاروباری حلقوں میں نفوذ کر رہے ہیں یہ ہماری قوم کے لیے ہرگز نیک شگون نہیں۔ پیسے کی خاطر قوم فروشی کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی سماجی اداروں کا کام ہے۔ یہ ذمہ داری مقامی لوگوں کو لینی ہوگی۔ کاروباری حضرات بھی صرف بینک بیلنس بڑھانے پر زور نہ دیں بلکہ اپنے سماج کی تعمیر و ترقی اور قومی یکجہتی کے لیے کردار ادا کریں جو آج کے سرمایہ دارانہ دور میں وہ بہتر ادا کرسکتے ہیں۔ بلوچ کاروباری حضرات جتنا ممکن ہو فوجی اور ان کے آلہ کاروں سے فاصلہ اختیار کریں۔ نام نہاد کامریڈ گل میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ایک قوم کا مقابلہ کرسکے۔
بی ایل ایف یقین دلاتی ہے کہ وہ تمام سماج دشمن عناصر اور قابضین کے خلاف یکساں موقف کے ساتھ کھڑی ہے اور قوم کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔
27 اکتوبر کو بدھ کی شام سات بجے بلوچ سرمچاروں نے عارف گلی سریاب شال میں واقع انٹی نارکوٹکس فورس کے پولیس اسٹیشن پر دستی بم سے حملہ کیا۔
اس حملے میں انٹی نارکوٹکس کو نشانہ بنایا گیا ہے جو کہ براہ راست قابض پاکستان فوج کے ماتحت کام کرتی ہے اور علاقے میں نارکوٹکس کی روک تھام میں کردار ادا کرنے کی بجائے بین الاقوامی اداروں کو دھوکے دے کر اپنے مینڈیٹ کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے مفادات کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔
بلوچستان میں پاکستانی فوج کا منشیات کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ہے جبکہ دنیا کو دکھانے کے لیے انٹی نارکوٹکس فورس کا قیام عمل لایا گیا ہے جو کہ پاکستان کے اعلی فوجی افسران کے منشیات کے کاروبار کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ 1973 میں پاکستان نے اقوام متحدہ کے نارکوٹکس کنٹرول کنونشن کے دباؤ میں نمائشی انٹی نارکوٹکس فورس کی بنیاد رکھی لیکن یہ ادارہ کبھی آزادانہ طور پر کام نہیں کرسکا۔
بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ قابض پاکستان کی فوج اور ان سے منسلک اداروں کے ساتھ شراکت سے گریز کریں جن کے منشیات کے کاروبار میں شراکت کے واضح ثبوت موجود ہیں۔
30 اکتوبر کو بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے گذشتہ اتوار کو جاھو میں پاکستانی فوج پر حملے میں چھ اہلکار ہلاک کرکے ہتھیار ضبط کر لیے۔ اس حملے میں قریبی چوکی پر بھی راکٹ فائر کیے گئے حملہ دن کے دو بجے کیا گیا۔
یہ حملہ جاھو میں بدرنگ نوندڑہ کے علاقے میں پاکستانی فوج کے ایک دستے پر کیا گیا۔ پاکستانی فوج کی ایک کامبیٹ ریپئر ٹیم ( سی آر ٹی ) کوھڑو میں واقع پاکستانی فوج کے بٹالین ہیڈکوارٹر سے شریف بیس کی طرف حرکت کر رہی تھی جس پر طے شدہ حکمت عملی کے مطابق حملہ کیا گیا۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ نے دو مختلف دستوں کی مدد سے اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ایک ٹیم نے انتہائی مہارت کے ساتھ پاکستانی فوج کے کوھڑو میں واقع بٹالین ہیڈکواٹر پر نظر رکھی اور پاکستانی فوج کی نقل و حرکت کے بارے میں آگاہ کرتی رہی۔اطلاع ملنے پر دشمن پر حملے کے لیے بدرنگ میں پاکستانی فوج کے راستے میں قریب ترین فاصلے پر کمین لگاکر انتظار کیا گیا۔ دشمن کے ہدف میں آنے پر ان پر اتنی شدت سے حملہ کیا گیا کہ دشمن کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملا اور موقع پر اس کے چھ اہلکار ہلاک ہوگئے۔
پاکستانی فوج کے ذرائع نے ہلاک ہونے والے دو اہلکاروں کو سینتس سالہ نائب صوبیدار آصف عرفان سکنہ ڈسٹرکٹ اوکاڑہ پنجاب اور بائیس سالہ سپاہی عرفان علی سکنہ ڈسٹرکٹ سرگودھا پنجاب کے نام سے شناخت کر لیا ہے۔ پاکستانی فوج کا ادارہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) اپنے دیگر اہلکاروں کی ہلاکت کو چھپا رہا ہے۔ اس حملے میں پاکستانی فوجی دستے کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہوئی۔ بلوچ سرمچاروں نے انھیں ایک گولی تک چلانے کا موقع نہیں دیا اور حملے کے بعد دشمن کے ہتھیار بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ تاہم اس موقع پر قریبی چوکی کی طرف سے بلوچ سرمچاروں پر فائر کیا گیا بلوچ سرمچاروں نےجوابی حملے میں مذکورہ چوکی پر راکٹ فائر کرکے ان کو بھی چوکی کی دیواروں کے پیچھے محدود رہنے پر مجبور کیا۔
اس طرح 30 اکتوبرکو سرمچاروں نے آواران میں قابض پاکستانی فوج کی چوکی پر حملہ کرکے ایک اہلکار کو ہلاک اور کم از کم دو کو زخمی کردیا۔
یہ حملہ 30 اکتوبر کی شام پانچ بجے تیرتج آواران میں پاکستانی فوج کی ایک چوکی پر کیا گیا۔ دشمن کے حواس کو منتشر کرنے کے لیے سب سے پہلے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے اسنائپر شوٹر نے ایک اہلکار کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا۔ اس حملے کے بعد چوکی میں افراتفری مچ گئی ۔ بعد میں سرمچاروں نے اپنے ہدف پر بھاری اور جدید ہتھیار استعمال کیے۔ مزید حملوں میں دو اہلکار زخمی کردیئے گئے.