ہمگام کالم : اگر تعلیم کے حوالے سے بلوچستان کے تمام اضلاع کا جائزہ لیا جائے تو نتائج پریشان کن نظر آتے ہے. نہ صرف ہمارے دیہات, بلکہ شہری علاقوں میں بھی تعلیم کے حوالےسے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے . شہروں میں کچھ پرائیوٹ سکولز اپنی بساط کے مطابق کام کررہے ہے وہ بہت سے مشکلات سے دوچار ہیں . البتہ مکران ڈویژن میں جو کام تعلیم کے حوالے سے ہورہی وہ قابل تحسین و کسی حد حوصلہ افزاء ہے . کیونکہ وہاں اساتذہ بچوں کو نصابی تعلیم کے ساتھ انھیں اپنے قومی تاریخ جغرافیہ،بلوچ قومی ہیروز حمل،جیئند،محراب خان،یوسف عزیز مگسی،ظہور شاہ ہاشمی اور بعض دوسرے گراں قدر شخصیات کی کردار بارے آگاہی اور اپنی ثقافت و قومی سوال کے بارے میں بھی تعلیم و آگاہی دیتے ہیں۔اس کا زیادہ کریڈٹ قوم دوست باشعور اساتزہ کو جاتا ہیں۔ لیکن باقی علاقوں میں جو پرائیویٹ سکولز ہو یا سرکاری, ہمارے نئی نسلوں کو تباہ کر رہےہیں .جن میں کچھ سکولز با قاعدہ تنگ نظری ،قابض پاکستان کی تاریخ وثقافت اور جناح و لیاقت علی خان کی تعلیم اور مزہبی منافرت , طالباناہزیشن اور شدت پسندی جیسے سوچ کو فروغ دے رہے ہیں . تب ہی تو ان سکولز,کالجز اور دوسرے مزہبی درسگاہوں سے مایوس اور پست زہن کے لوگ جنم لے رہے ہے. اب اس حوالےسے بلوچ نوجوان کتنے کام کررہے ہے کتنے لوگوں کو یہ پتا ہے کہ یہ تعلیم جو ہمارے بچوں کو پڑھایا جارہا ہیں اصل تعلیم ہے یا مخصوص زہن کیلئے برین واشنگ ہے ؟ آیا جدید دنیاوی تعلیم کے حوالے سے کتنا آگے ہے. اور میں کیا سوچتا ہو ؟ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور دوسرے مہذب اقوام کس طرح علمی و شعوری حوالے سے ترقی یافتہ بن گئے؟اب یہاں پریشان کن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے نونہالوں اور نوجوانوں کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے ؟ کئی وہ تباہی کے طرف تو نہیں جارہے ؟ کیا ہم بچوں سے کھبی پوچھتے ہے کہ آجکل انھیں کیا پڑھایا جارہا ہے. آپ کا استاد کیسا پڑھاتا ہے. آیا وہ بچوں پہ جسمانی یا ذہنی تشدد تو نہیں کررہا؟ میرے بچے کی زہنیت کس قسم کا ہے ؟ اس کی ذہنی بلوغت کتنی ہے یہ سب چیزیں قابل غور ہے.لیکن افسوس اس بات پر کوئی عمل نہیں کرتا. ہم یہ سوچتے بھی نہیں کہ میرا بیٹا یا بیٹی بھائی اور بہن وہ کس نوعیت کی تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ جس کی اسے بنیادی ضرورت ہے. جس سے وہ اپنے اچھے اور برے کی پہچان کرسکے. جو اپنے اور لوگوں کے اوپر نا انصافی ظلم و جبر اور استعصال کو محسوس کرے اور اپنے مسائل کا حل تلاش کرسکے.وہ اپنے وطن و سرزمین سے اپنے قوم سے محبت کرے. اس میں اتنی اخلاقی جرات ہو کہ صحیع کو صحیع اور غلط کو غلط کہہ سکے ! جو کہ اپنے کسی حق کے لیے کسی ظالم کے آگے نہ جھکے. اب یہاں بلوچ قوم کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے ،کیونکہ یہی سے ہماری نئی نسل کی سوچ کو مفلوج بچوں کو حیوانوں کی طرح سدھایا جارہا ہیں۔ جس سے ہمارے نئی نسل کے زبانوں پر تالا لگایا جا رہا ہے. میں تمام قوم دوستوں سے دست بدستہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہمارے قوم کی بچوں کے مستقبل کو محفوظ ہاتھوں میں دیں . ہمارے ان خیر خواہ دوستوں کی مدد کرے جو اپنے لوگوں کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہے. جو کہ مختلف تنظیموں کی شکل میں قوم کی خاطر کام کررہے ہیں۔ جن میں مختلف سکولز اور اکیڈمیز ہے یا کوئی سماجی تنظیم ہے ان کی مدد کرے ان کا حوصلہ بنے تاکہ جو بلوچستان کا خواب ہم دیکھتے ہیں وہ پورا ہو سکے . جس کے لئے ہماری پوری ایک نسل نے قربانی دی. جس میں جوان, بوڑھے مرد, عورت اور بچوں نے قربانی دی. وہ بلوچستان جس میں سب پائیدار امن اور خوشحالی و عزت کے ساتھ رہے جس میں کوئی طاقتور کسی مظلوم پہ ظلم نہ کرے کوئی کسی کے چیتڑے نہ اڑائے جہاں ہر کوئی آزاد ہو انسانیت ہو پائیدار امن،ترقی کے ساتھ ،ساتھ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے ساتھ باہمی عزت اور انصاف و برابری ہو.اس کیلئے ہم سب کو جدوجہد کرنا چائیے،تاکہ ہمارا وطن بھی دوسرے اقوام کی طرح خودمختار ہو، جو ہمارے آج اور آنے والی نسل کے بہتر مستقبل کا ضامن ہو۔تعلیم ہر انسان کے لئے ضروری ہے چاہے وہ آمیر ہو یا غریب ،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے یہ انسان کا حق ہے جو کوئی بھی انسان اس سے نہیں چھین سکتا اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہیں تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کےلئے ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول ،کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ زندگی کی شعور سیکھنا بھی ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اوراقدار کا خیال رکھ سکے ۔تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوارتی ہے دنیا میں اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے کم ہوتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے ختم نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے۔ حالانکہ آج کے دورکا تقاضہ بھی یہی ہے کہ تعلیم حاصل کیا جائے خواہ ٹیکنیکل تعلیم،انجینئرنگ ،وکالت ،ڈاکٹری،زراعت وغیرہ ہو ۔ان جدید علوم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے اسی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خلوص،ایثار،خدمت خلق،وفاداری اور ہمدردی کے جذبات بیدار ہوتے ہیں اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح اورنیک معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے تعلیم کی اولین مقصد ہمیشہ انسان کی ذہنی ،جسمانی او روحانی نشونما کرنا ہے۔ہماری تعلیم Subject based ہے، Concept based نہیں یعنی ہم بچوں کو مضمون یاد کروا دیتے ہیں اُس مضمون کے اندر پنہاں اسباق اور فلاسفی پر زور نہیں دیتے۔ استاد کا بچوں کی Skill development کی طرف کوئی دھیان نہیں ہوتا۔ یعنی ایک سبق پڑھاتے وقت اگر ہم صرف لیکچر کے بجائے بچوں اور اساتزہ کے درمیان مباحثے کو ترجیح دیں تو بچے میں خود اعتمادی، اپنی دلیل کے لیے الفاظ کے چناؤ کا ڈھنگ، دوسروں سے اختلاف رائے کرنے کے آداب اور مباحثے کے دوران دوسرے کی بات کاٹ کر اس کے جزبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر اپنے لیے Speech Space حاصل کرنے کی Skills کی ترتیب دینی بھی تعلیم کے مقاصد میں شامل ہے۔موجودہ سائنس، ٹیکنالوجی اور جدید ذرائع ابلاغ کے دور میں جہاں زندگی میں بہت سی آسانیاں فراہم ہوئی ہیں، وہیں آج والدین کے لیے فرائض کی ادائیگی بھی مشکل ہوگئی ہے۔ بچوں کی تربیت بہت ہی صبر آزما، طویل المیعاد اور کل وقتی کام ہے جو مہینوں نہیں بلکہ برسوں پر محیط ایک جہد مسلسل کا نام ہے۔ یہ والدین سے ہمہ وقت تحمل، بردباری اور برداشت کے ساتھ وقت کا تقاضہ کرتا ہے کہ والدین اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر بچوں کے ساتھ گزاریں کیونکہ اگر بچوں سےتعلق و ربط قائم ہوجائے گا تو تربیت کا عمل آسان اور مؤثر ہوجائے گا۔ بچہ موم کی طرح ہے اس کو جیسا ڈھالیں گے ویسا ہی نقش بن جا ئے گا اور بچپن کے نقوش گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ یہ ایسے انمٹ نقوش ہوتے ہیں جو بڑھاپے تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ لہذا کوشش کی جائے کہ ابتداء ہی سے بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح خطوط پر استوار ہو جائے۔ بعداز خرابی بسیار خواہ کسی کو بھی الزام دیا جائے، یہ لاحاصل بحث ہوگی۔ وہ وقت واپس نہیں آئے گا اور کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔بچہ کی ذھنی نشوونما اور تعلیم و تربیت کے ساتھ اس کی جسمانی صحت کا اچھی طرح خیال رکھاجائے کیونکہ صحت مند دماغ صحت مند جسم میں ہوتا ہے۔ اس سے غفلت برتنے کے نتیجے میں بچے بیماریوں کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ ایک بزرگ کا قول ہے کہ تندرستی سب سے بہتر لباس ہے، اور جہالت سب سے دردناک مرض ہے۔ بقول رالف ایمرسن ”سب سے بڑی دولت صحت مند جسم ہے ۔”بچوں کومحنت و مشقت کا عادی بنایا جائے۔ ان کے اذہان میں یہ بات راسخ کرائی جائے کہ حرکت میں برکت ہے۔ مسلسل حرکت ہی کانام زندگی ہے۔ پانی جب تک بہتا رہتا ہے، صحیح تروتازہ رہتا ہے ورنہ اس میں بدبو پیداہوجاتی ہے۔سستی ایک عالمگیر اور دل پسند بیماری ہے۔ جو صحت کے لئے سم قاتل ہے۔ سستی کا شکار افراد ناتوانی کا شکار رہتے ہیں اور آئے دن گوناگوں بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی صحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور کبھی تندرست وتوانا نہیں ہوتے۔یاد رکھے بچپن میں جیسی گفتگو اور آداب بچوں کو سکھائے جائیں گے، وہ تمام عمر اس ہی روش پرچلتے رہیں گے۔ بچوں کی زبان کی اصلاح کے لیے ان کے سامنے شائستہ اور اچھی گفتگو کی جائے، اچھے الفاظ منتخب کیے جائیں۔ بچوں کا ماحول صاف ستھرا، پاکیزہ اور اچھا ہو۔ تجسس (Curiosity) کا مادہ ہر انسان میں ہوتا ہے۔ بچوں میں تجسس کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بچہ ہر واقعہ اور ہر شے کی جزئیات سے واقف ہوناچاہتاہے۔ اس میں جاننے کی خواہش بدرجہ اتم موجود ہے اور وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی جستجومیں رہتاہے۔ یہی وہ مادہ ہے جو آگے بڑھنے اورترقی کرنے میں سب کو مدد دیتا ہے۔ اس کا مفید اور مثبت استعمال ہونا چاہیے۔ بچے کوسوال کرنے پر کبھی نہ تو جھڑکا جائے نہ ہی سوال کرنے سے منع کیا جائے۔ اس کے سوالات کا جواب بہتر دلیل اور تشفی بخش طریقے سے دیا جائے۔ اگر کچھ امور بچے سے پوشیدہ بھی رکھنا چاہتے ہیں تو ایسا کرتے ہوئے بچے کو یہ محسوس نہ ہونے دیا جائے کہ اس سے کچھ چھپایا جا رہاہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے سب کچھ بتا دیا جائے لیکن حکمت و دانائی کامظاہرہ کیا جائے۔ اور اس کے سوالات کا رخ کسی اورجانب پھیر دیاجائے۔ یہ ذہن میں رہے کہ صحیح سوال کرنا علم کی کنجی اور نصف علم ہے۔ بچہ کی نفسیات سے آگاہی حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔ والدین بچوں کی صلاحیتوں، دلچسپیوں کو مدنظر رکھ کر ان کے لیے تعلیم و تعلم کا انتظام کیا جانا چاہیے۔ ہمارے ہاں بھیڑ بکریوں کی چال ہے، دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم اپنے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مثلاً کمپیوٹر کا دور شروع ہوا تو ہر ایک بچے کو کمپیوٹر یا میڈیکل و انجینئرنگ کی فیلڈ میں داخل کرنے کا خواہشمند نظر آنے لگا۔ کیونکہ تعلیم حاصل کرنے کئی دوسرے شعبے بھی ہیں۔ یہ انتہائی غلط فکر و روش ہے، بچوں کی خواہش، دلچسپی اور انفرادی اختلافات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر عملی میدان کا انتخاب کیا جائے گا، بچہ اس میں شوق، جذبے، لگن اورمحنت سے کامیابی حاصل کرے گا، بصورت دیگر والدین کے دباؤ کے تحت وہ وقت توگزاردیں گے لیکن اس شعبہ میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کر سکیں گے۔بچے والدین سے آزادانہ تبادلہ خیال کرسکیں۔ بالخصوص اگر وہ گھر سے باہر کی بات کریں تو انہیں نظرانداز نہ کریں۔ توجہ سے ان کی باتیں سنیں، اگر کوئی تنگ کر رہا ہے تو اسباب جاننے کی کوشش کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے اور جرائم پیشہ سماجی برائیوں والے افراد بچوں کو اپنا آلہ کار بنانے کی کوشش کریں، کوئی فرد حسد اور رقابت کی وجہ سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر منفی طور پر اثر اندز ہونے کی کوشش کرے، کوئی اسے بلیک میل کرکے اس کی شخصیت کو تباہ کردے اور اسے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرے، بچہ کسی شخص کے خوف کی بنا پر کچھ ایسا کام کر لے جس کی تلافی ناممکن ہو۔ اس پر ڈر خوف نہ ہو کہ اگر میں گھر میں ذکرکروں گا تو گھر والے سزا دیں گے بلکہ وہ آزادی سے اپنے معاملات والدین کو بتا سکے۔ ورنہ ان حالات سے دوچار ہونے کے بعد بچے کی جسمانی، ذہنی،جذباتی اور سماجی نمو کا عمل سست ہوجاتا ہے۔ اور وہ دل میں یہ حسرت لیے پھرتا ہے.والدین کے مزاج کی سختی، غصہ، شدت و تندی بچپن میں پچپن سال کا نہ بنادیں، ایسا نہ ہو کہ ان کی شخصیت ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے۔ ایک استاد نے اپنے دوست سے بچوں کوساتھ لانے کا کہا۔ وہ شخص اپنے بچوں کو بہت سمجھا بجھا کر استاد کی خدمت میں لے گیا۔ بچے استاد کی خدمت میں سرجھکا کر ایک جانب بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد استاد نے کہا کہ میں نے تم سے بچوں کو لانے کا کہا تھا۔ دوست نے کہا استاد جی بچے یہاں بیٹھے ہیں۔ استاد نے فرمایا کہ یہ بچے نہیں یہ توبزرگ ہیں، بچے تو وہ ہوتے ہیں جو کچھ شرارتیں ،شوخیاں کریں، کندھوں پر چڑھیں، شوروغل کریں وغیرہ وغیرہ۔ اس دور میں یہ سب سے بڑا ظلم ہوا ہے بچوں میں وہ پہلی سی شرارت و شوخیاں نہیں ملتی، اس لیے ضروری ہے کہ ان کا قدرتی حسن (بھولپن اور شرارتیں) ان سے نہ چھینی جائیں بلکہ بتدریج ان کی تربیت کی جائے اور ان کی رہنمائی کی جائے کہ ہمہ وقت اپنے جذبات (خوشی، غمی، ہنسنا رونا، خوف، غصہ، جارحیت) کا براہ راست اظہار نہیں کیا جا سکتا۔ موقع ومحل کی مناسبت سے کبھی ان کا اظہار کیاجانا چاہیے اورکبھی اظہار سے رک جاناچاہیے۔بچوں کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے۔ بعض اوقات وہ احساس جرم کا شکار ہوکر خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں، جو بہت ہی نقصان دہ صورت ہے۔بچے کوواضح طور پر معلوم ہو کہ کس غلط کام کی اسے سزا ملی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ سزا کے بعد یا اس سے قبل بچے کو سمجھایا بھی جائے کہ سزا کسی دشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ رویوں میں بہتری کے لیے ہے۔ کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جس معاملہ کے اسباب و پس منظر اس کے ذہن میں نہ ہو وہ اس پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ ایسا کرنا بغاوت یا سرکشی نہیں بلکہ یہ فطری امر ہے۔والدین بچوں کے سامنے اپنے اچھے کردار کو پیش کریں۔ بچے بڑوں کی نقل کرتے ہیں، اس لیے اگر والدین چاہتے ہیں کہ بچوں میں اچھی عادات پیدا ہوجائیں تو پہلے خود اچھی عادات اور عملی کردار کا مظاہرہ کریں.بچوں کی اصلاح احوال کو نظراندازنہ کرنا چاہیے۔ غلط کاموں پربے جا حمایت نہ کی جائے ورنہ یہ محبت مزید بگاڑ کا باعث بنے گی۔ ماضی میں ماں باپ اولاد کی تربیت کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے تھے کہ والدین کی ذمہ داری یعنی اچھی تربیت کرنا ہے.آزادی ایک نفسیاتی تقاضہ ہے۔ انسان بچپن ہی سے آزادی کا خواہاں ہوتا ہے اور اپنے کاموں میں بڑوں کی مداخلت ناپسند کرتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ گھر کے افراد اس کی انفرادیت، شخصیت اور آزادی کو تسلیم کریں۔ والدین بچوں پر ہر وقت احکام نافذ نہ کریں۔ جن امور میں بچے کی شخصیت کو نقصان پہنچنے کا امکان نہ ہو، ان امور کو بچے کی مرضی پر چھوڑدیں تاکہ انہیں بہتر چیز کا انتخاب کرنا آجائے۔ اس عمل سے بچے کی ذہنی نشوونما میں اضافہ ہوگا۔ بچوں سے دریافت کریں کہ کن وجوہات کی بنا پر اس نے اس کو رد کیا یا ترجیح دی۔ بچوں سے خود مشورہ بھی لیں، ان کی رائے کو اہمیت دیں۔ ایسا کرنے سے ان کے قوت استدلال اور زہنی صلاحیتوں اور اپنی زور بیان میں اضافہ ہوگا۔ ان میں اعتماد کے ساتھ بروقت فیصلہ سازی کی صلاحیت پیدا ہوگی اور وہ آپ کی غیر موجودگی میں بھی بروقت فیصلہ کرنے کے قابل ہوگا۔ بروقت اور صحیح فیصلہ کرنا کامیاب زندگی کی ضمانت ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ آزادی ملنے پر بچوں میں دو مختلف قسم کے رویوں کا اظہار پایا جاتا ہے۔ایک جو آزادی ملنے پر اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے معاملات اور فرائض سے غفلت اورلاپرواہی برتتے ہیں اور اس کے برعکس دوسری قسم کا رویہ مزید ذمہ دار ی اور کام میں دلچسپی کا ہوتا ہے۔ آزادی سے ان کے کام میں مزید نکھار پیدا ہو جاتا ہے۔ ان دونوں قسم کے رویوں کے حامل بچوں کو مختلف انداز سے معاملہ (Deal) کیا جانا چاہیے۔تب ہم تعلیم و تربیت کے زریعئے اپنے بچوں کیلئے ایک روشن مستقبل سنوار سکتے ہیں۔