کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے بلوچ شاعر سخی ساوڑ کی جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں نوجوانوں کی ماورائے آئین گمشدگیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ پالیسی ساز ادارے طاقت سے بلوچ مسئلے کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں جسکی پاداش میں ملکی آئین اور جمہوری اصولوں کو روندا جارہا ہے۔ بی ایس او سمیت بلوچ قوم پرست قیادت کا واضح موقف ہے کہ طاقت کی استعمال سے مذید نفرتیں جنم لینگی۔ انھوں نے کہا ہے کہ آج بھی ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان اور نوجوان سالوں سے لاپتہ ہیں جنکے اہلخانہ نے تمام آئینی اداروں کے دروازے کھٹکٹائے ہیں لیکن اسکے برعکس اس غیر آئینی عمل میں بتدریج تیزی لائی جارہی ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں جب بھی جمہوری جدوجہد کے ذریعے قومی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو دوسری طرف یا تو اسے طاقت سے کچلنے کا منصوبہ بنایا جاتا ہے یا پیراشوٹرز کو گراؤنڈ میں اتار کر پرامن جدوجہد کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ اب بھی تعلیمی اداروں میں جعلی تنظیموں کی صورت میں مختلف گروپس کو متحرک کردیا گیا ہے جنہیں انتظامیہ کی جانب سے مکمل مراعات دی جارہی ہیں تاکہ حقیقی سیاسی تنظیموں کو کاؤنٹر کیا جاسکے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان کیلئے پالیسیوں میں واضح تفریق ہے۔ ریاستی پالیسیوں میں تفریق نہ صرف انتہائی خطرناک ہے بلکہ اس سے مسائل مذید گھمبیر صورتحال اختیار کرینگے۔ انھوں نے کہا ہے کہ بی ایس او کو بلوچ نوجوانوں یہاں کے سیاسی پارٹیوں اور طلباء کی مکمل مینڈیٹ حاصل ہے پانچ دہائیوں کی پرامن جمہوری جدوجہد کی تاریخ رکھتے ہیں۔ ہمارا موقف بلوچستان کی سیاسی و معاشی پالیسی، وسائل پر مکمل اختیارہے جسکے لیے بلوچ سیاسی اکابرین نے بھی تاریخی جدوجہد کی ہے۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ہے کہ بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی کے پالیسیوں کو ترک کرکے حقیقی سیاسی قوتوں کو تسلیم کیا جائے جبکہ بلوچستان میں آئے روز ماورائے آئین اقدامات کو بند کیا جائے۔