ہمگام کالم : جب سے اس دنیا میں انسانوں نے سماجی زندگی (Social Life) میں رہنا شروع کیا تو دوسرے انسانوں پر حکمرانی کرنے کی چاہت ، مفت خوری اور دوسرے قوموں کے وسائل کو لوٹ مار کرنے کی عادت ان میں شروع ہوئی – انسانوں کی انسانوں پر حکمرانی کو کچھ مصنفین طاقت کا نام دیتے ہیں تو بعض لوگ اسے کولونیلزم کا نام دیتے ہیں- بعض مصنفین کی کتابوں اور مضامین کی مطالعہ کے بعد کولونیلزم کی ایک تعارف یا Definition نکلتا ہے وہ یہ ہے:
کولونیلزم ایک ایسا نظام ہے جس میں ایک طاقتور قوم یا ریاست دوسرے قوم یا ریاست کو چار طریقوں (یعنی فوجی, معاشی, سیاسی اور ثقافتی) طریقے سے قبضہ کرکے ان کا استعصال کرتا ہیں – یہ نظام دنیا میں صنعتی انقلاب کے ابھرتے ہوئے حالات کے وقت یورپیوں نے شروع کر کے افریقہ , ایشیا اور امریکہ کے لوگوں کو غلام بنا کے ان کے سب وسائل لوٹ لیے- اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس نظام کا خاتمہ جنگ عظیم دوئم کے زمانے میں ہوا جس کو ڈی کولونائیزیشن (Decolonization) کہتے ہیں لیکن میرے خیال میں یہ نظام اب بھی اس وقت دنیا میں بھی موجود ہے- مثلا کردستان پر چار ریاستوں کا قبضہ, کیتھلونیا پر اسپین کا قبضہ, سنکیانگ پر چین کا قبضہ اور بلوچستان پر پاکستان و ایران کا قبضہ بھی اسی طرح کے ہیں جو کولونیلزم کے تعارف میں بیان کیا گیا ہیں –
برطانوی سلطنت نے جب ایشیا میں قبضہ جمانے کی خاطر قدم رکھا تو وہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ اس نے بلوچستان پر بھی قبضہ کیا اور بلوچوں کو برائے راست غلام بنایا- بلوچوں کی کثیر مزاحمت اور جنگ عظیم دوئم کی وجہ سے آخر کار برطانیہ نے بلوچستان کی آزادی کو 11 اگست 1947 کو تسلیم کیا- بلوچستان کے سیاسی لوگوں نے حکومت سنبھالا اور ریاست کی تعمیر اے نو کے کاموں میں مصروف ہی تھے کہ آزادی کے آٹھ مہینہ بعد یعنی 27 مارچ 1948 کو پاکستان کی قابض فوج نے بزور شمشیر قبضہ کیا جو ابھی تک جاری ہے بلوچوں کی مزاحمت اور ریاست کی کاؤنٹر پالیسیاں کب کس طرف جاہیں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا-
رہی بات نیو کولونیلزم کی تو اس میں وہ ساری باتیں آتی ہیں جو کولونیلزم میں ہیں سوائے فوجی طریقہ – یعنی کسی ریاست بغیر فوجی طاقت کے استعمال سے دوسرے ریاست کو سیاسی, معاشی اور ثقافتی لحاظ سے غلام بنائے- یہ نظام دنیا میں ڈی کولونائیزیشن کے بعد شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے – امریکہ, یورپ , روس اور چین جیسے طاقتور ریاستوں نے کمزور ریاستوں کو بنا فوجی طاقت استعمال کرکے غلام بنا کے رکھا ہیں۔
ایشیائی خطہ میں مصنوعی یا غیر فطری ریاست پاکستان بھی ایک ایسی ریاست ہے جو معاشی, سیاسی , اور ثقافتی لحاظ سے امریکہ اور یورپ کا غلام ہے اور اس نے بلوچستان پر قبضہ کیا ہوا ہے یعنی بلوچ غلام کا غلام ہے-
اس نیو کولونیل سسٹم نے اس خطے میں جو بلوچ آباد ہے انسانوں کے زہنوں کو بری طرح غلام بنا کے رکھا ہے آج بلوچ قومی غلامی کی اس خطرناک دور سے گزر رہا ہے جسکے بہت سے نوجوان اپنے آپ کو غلام ماننے سے انکاری ہیں جو کہ بغاوت کیئے ہوئے ہیں – جبکہ بعض جگہوں میں بلوچ نوجوان اپنے قومی آزادی کی جگہ اپنے شہری حقوق قابض ریاستیں پاکستان اور ایران سے مانگ رہے ہیں جو غلامی کے ساتھ ساتھ بے بسی کی بھی انتہا ہیں- یعنی ایک ایسے قوم جو تاریخی طور پر آزاد اور خود مختار ریاست کا مالک تھا آج وہ دو وقت کی روٹی کی خاطر قابض ریاستوں کے سامنے حقوق کے نام پر ہاتھ پھیلا کر بیھک مانگ رہا ہیں –
بلوچستان کے سیاسی حالات آج کل ایسے ہیں کہ بلوچ نوجوان سیاست سے دور بھاگ کر سیاسی بے گانگی کا شکار ہو رہے ہیں بہت سارے نوجوان روزگار کی خاطر اپنے آزادی کی نظریہ بھی چھوڑ رہے ہیں- لیکن ایسا ہر گز نہیں کہ آزادی کی تحریک کمزور ہے بلکہ وہ پورے شدت کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ بس مسلئہ یہ ہے کہ بلوچوں کے سیاسی میدان ابھی خالی ہے جسکو پاکستان نما بلوچ پارلیمنٹ پرست لے رہے ہیں جو آزادی کی تحریک کے لیے بالکل اچھی خبر نہیں ہے- اس سارے حالات کو ریکور کرنے کے لیے ایک ایسے سیاسی ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو سارے بلوچ آزادی پسند رہنماؤں اور تنظیموں کی ایک اتحادی نقطہ نظر سے اس سیاسی خلا کو پر کرے-
اگر بلوچ قیادت آج متحد ہونے اور اس سیاسی خلا کو پر کرنے میں ناکام رہے تو آنے والے ظالم وقت ہمیں کبھی معاف نہیں کریگا- دوسری خوبصورت بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان اور ایران سیاسی اور معاشی حوالے سے ایسے خستہ حالی کا شکار ہیں جو بلکل بلوچ کو آزادی اور متحدہ بلوچستان کے قریب لانے کہ قریب ہیں اس وقت مقامی اور بین الاقوامی طور پر سیاسی حالات بلکل بلوچ کے حق میں جارہے ہیں امریکہ اور دیگر بین الاقوامی طاقتیں اس وقت ایران اور پاکستان کو بلکل سپورٹ نہیں کرریے کیونکہ انکے مفادات اسی میں ہیں-
مختصر یہ ہے کہ بلوچ کو اپنے آپ اور اپنی جہد آزادی کی تحریک کو دنیا کے سامنے recognize کرنے کے اس سے زیادہ خوبصورت وقت نہیں مل سکتا- پاکستان کی موجودہ سیاسی اورمعاشی بحران پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان کی آزادی میں مددگار ثابت ہوگا جب بلوچ اس خطے میں ایک وطن کا مالک ہو گا تو اسکے متحدہ بلوچستان کا خواب پورا ہونے میں دیر نہیں لگتا اور یہ سب ممکن ہے اتحاد اور یکجہتی سے جو اس وقت بلوچ تحریک آزادی کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔