{"remix_data":[],"remix_entry_point":"challenges","source_tags":["local"],"origin":"unknown","total_draw_time":0,"total_draw_actions":0,"layers_used":0,"brushes_used":0,"photos_added":0,"total_editor_actions":{},"tools_used":{"square_fit":1},"is_sticker":false,"edited_since_last_sticker_save":true,"containsFTESticker":false}

شال(ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی ادارے اب محض علم و آگاہی کے مراکز نہیں رہے، بلکہ یہ اب خوف و ہراس، ذہنی اذیت اور دباؤ کا مرکز بن چکے ہیں۔ ایک عرصے سے جاری سازش کے تحت تعلیمی اداروں میں عسکریت پسندی کی مداخلت نے تعلیمی ماحول کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ اب یہاں تعلیمی آزادی کا عمل بالکل مسدود ہو چکا ہے۔ یہ عمل نہایت منظم، حکمت عملی کے تحت اور غیر انسانی طریقے سے جاری ہے، جو نہ صرف ایک سنگین مسئلہ ہے بلکہ ایک ایسی بدقسمتی ہے جس کا اثر ہمارے پورے تعلیمی نظام پر پڑ رہا ہے۔ اس مداخلت کا مقصد تعلیمی اداروں میں خوف کا ماحول پیدا کرنا ہے تاکہ طلبہ و طالبات کو اپنی تعلیمی خودمختاری اور ذہنی آزادی سے دور کیا جا سکے۔ یہ عمل ہر لحاظ سے مذمت کے قابل اور انتہائی تشویشناک ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بولان میڈیکل کالج کی حالیہ بندش اس پورے ماحول کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ اس کالج کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے، اور طلبہ و طالبات کو زبردستی ہاسٹلوں سے نکال کر ان کے کمروں کے دروازے توڑ دیے گئے ہیں۔ ان کا قیمتی اور ذاتی سامان پولیس کے قبضے میں دے دیا گیا، جو ایک سنگین اقدام ہے۔ یہ تمام اقدامات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو عسکری اداروں کے حوالے کرنے کی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا مقصد طلبہ و طالبات کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا اور انہیں ذہنی طور پر مفلوج کرنا ہے تاکہ وہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مداخلت کرنے والے عوامل کے خلاف آواز بلند نہ کر سکیں۔

اسی طرح بلوچستان یونیورسٹی میں بھی طلبہ و طالبات کو ہاسٹلوں سے نکالنے کے لیے جھوٹے بہانے بنائے گئے، جس کے نتیجے میں طلبہ و طالبات کو اپنے سامان سمیت ہاسٹل چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ اس عمل نے ان کی ذہنی سکونت کو متاثر کیا اور تعلیمی عمل میں رکاوٹ ڈالی، جس سے ان کے تعلیمی سفر میں ایک طویل عرصے تک رکاوٹ آ سکتی ہے۔ ان اقدامات کا مقصد صرف یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں عسکریت پسندی کی مداخلت کو تقویت دی جائے تاکہ طلبہ کی آزاد خیالی اور ذہنی ترقی پر روک لگائی جا سکے۔

لسبیلہ یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر ملک ترین کی تعیناتی نے بھی اس کھیل میں اپنی شمولیت بڑھا دی ہے۔ ملک ترین کا سوچ انتہا پسندانہ اور آمریت پسندانہ ہے، جو تعلیمی اداروں میں عسکریت پسندی کو فروغ دے کر پورے تعلیمی ماحول کو متاثر کر رہا ہے۔ وہ تعلیمی اداروں کو عسکری اداروں کے طرز پر تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور طلبہ و طالبات پر اپنی غیر ضروری طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ ملک ترین پہلے مکران یونیورسٹی پنجگور میں بھی وائس چانسلر کے طور پر تعینات ہوئے تھے، جہاں اس نے مختلف ہتھکنڈوں سے طلبہ و طالبات کو ہراساں کیا اور انہیں اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا۔ وہاں اس نے بلوچستان یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں کیمرے نصب کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی تاکہ طالبات کو ہراساں کیا جا سکے، جس پر زبردست احتجاج ہوا تھا۔

اب جب سے ملک ترین لسبیلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے ہیں، اس نے پورے کیمپس میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ اس کی غیر ضروری مداخلت نے طلبہ کی تعلیمی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اسٹڈی سرکلز اور ہاسٹلز میں سخت پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں، اور یہ تمام اقدامات تعلیمی اداروں کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش ہیں۔ اس کے علاوہ، ملک ترین نے یونیورسٹی میں اپنے ذاتی لوگوں کو بھرتی کر کے طلبہ کی نگرانی کا عمل شروع کر دیا ہے، جس کا مقصد صرف طلبہ میں خوف اور اضطراب پیدا کرنا ہے۔ وہ نہ صرف بطور وائس چانسلر اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے، بلکہ ایک عسکری افسر کی طرح تعلیمی اداروں میں اپنی مرضی کی پالیسیاں نافذ کر رہا ہے، جو تعلیمی آزادی کے خلاف ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ملک ترین کی ان گھناؤنی سازشوں اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں عسکریت پسندی کی مداخلت کے خلاف، بلوچستان بھر کی تمام طلبہ تنظیموں کو یکجا ہو کر ایک مؤثر آگاہی مہم چلانی ہو گی۔ ہم سب کو اپنے تعلیمی اداروں کو اس عسکریت پسندی کی مداخلت سے نجات دلانی ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ سخت ترین اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ تعلیمی اداروں میں عسکریت پسندی کی مداخلت کا خاتمہ ہو سکے اور طلبہ کو خوف و ہراس سے آزاد ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل سکے۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کی آزادی، خودمختاری اور ذہنی ترقی کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر کام کرنا ہو گا۔

یہ وقت آ گیا ہے کہ ہم سب اپنے تعلیمی اداروں کو خوف و ہراس سے نجات دلا کر انہیں علم و آگاہی کے حقیقی مراکز میں تبدیل کریں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کی ہمیشہ سے یہ دلی خواہش رہی ہے کہ وہ طلبہ کو متحد کر کے اتحاد کی راہ ہموار کرے تاکہ ہم اپنے مسائل کا مؤثر حل اتحاد کے ذریعے تلاش کر سکیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کا دروازہ ہمیشہ اتحاد کے لیے کھلا رہا ہے، اور ہم نے اس راستے پر تیز رفتاری سے جدوجہد کی ہے تاکہ ہمارا اتحاد مضبوط سے مضبوط تر ہو۔ اس عزم کے ساتھ، بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ بلوچستان بھر کی تمام طلبہ تنظیموں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آئیں اور اتحاد کا راستہ اختیار کریں تاکہ ہماری اصل قوت ہمارے ہاتھوں میں ہو، جو ہم نے طویل عرصے سے جدوجہد کر کے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہماری کامیابی صرف اتحاد میں ہے، اور اس لیے موجودہ دور میں اس کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اتحاد ہی وہ طاقت ہے جو ہمیں ہماری منزل ت

ک پہنچائے گا۔