تحریر: نعیم خان بلوچ حال ہی میں ایک مشہور پاکستانی مزاحیہ پروگرام دیکھ رہے تھا جس میں میزبان مہمان سے مزاحیہ انداز میں سوال و جواب کرتا ہے۔ میزبان کے ایک سوال کے جواب میں مہمان جو ایک اداکارہ تھی نے کہا میری ایک بلوچ دوست تو میزبان نے مزاحیہ انداز میں بات کاٹتے ہوئے کہا بلوچ دوست کیا وہ لاپتہ ہوگیا ہے۔ تو اس پروگرام سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا اب پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بلوچ لفظ سنتے ہی لوگوں کو لاپتہ لفظ یاد آجاتا ہے ۔کیوں نہ آئے جب کسی قوم کے مائیں، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں اپنے پیاروں کے لئے دنیا کے طویل ترین لانگ مارچ کا حصہ ہو پھر جا کر پاکستان کے درالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہیں، کراچی میں احتجاجی دھرنوں پر بیٹھے ہیں اور کوئٹہ میں تقریباً پانچ ہزار دن تک احتجاجی کیمپ میں سردی اور گرمی کی پرواہ کیئے بغیر اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیئے بیٹھتے ہیں ۔ تو یہ تصوردوسرے صوبوں میں تو بن جائے گا۔ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا پہلا کیس۔۔۔۔۔۔۔۔ بلوچستان میں ریاستی جبری گمشدگی کا پہلا کیس سنہ 1970 میں ذولفقار علی بھٹو کی دور حکومت میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ، اگرچہ اکیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں کل اینڈ ڈمپ پالیسی کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ، لیکن 1970 کی دہائی سے ہی بلوچستان اس کا شکار رہا۔ اس پالیسی کا ایک اہم واقعہ شہید اسد مینگل تھا ، جو سردار عطاء اللہ مینگل کے بڑے بیٹے تھے ,سردار عطاء اللہ خان مینگل بلوچستان کے پہلے منتخب وزیر اعلی تھے. اسد مینگل اور اس کے دوست احمد شاہ کرد 6 فروری 1976 کو لاپتہ کیئے گئے۔ اگرچہ حکام نے ان کی جبری گمشدگی میں اپنا کردار تسلیم کرنے سے انکار کردیا ، تاہم پاکستانی ایجنسیوں نے مینگل پر الزام لگایا تھا کہ وہ واقعی میں وسطی بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کو مضبوط کر رہے تھے جبکہ خطے میں فوجی آپریشن کے خلاف سیاسی متحرک تنظیم کو منظم کر رہے تھے ـ تاہم اب تک اسد مینگل اور اس کے دوست احمد شاہ کرد کے اہل خانہ نے اپنا مؤقف برقرار رکھا ہے کہ ان دونوں کو خفیہ ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں نے اغوا کیا تھا ـ انہیں کراچی میں محمد علی ہاؤسنگ سوسائٹی کے قریب اپنی کار میں گھات لگا کر حملہ کیا گیا تھا عینی شاہدین اور علاقے کے رہائشیوں نے فائرنگ کی آوازیں سنی۔ان کی کار گاڑی گولیوں سے چھلنی ہوا تھا ، لیکن ان کی لاشیں ان کے خاندان کو کبھی نہیں ملی تھیں۔ ان کے لاپتہ ہونے کی افواہوں کی گردش کے وقت کہا گیا کہ وہ موقع پر ہی مارے گئے ہیں اور فوج نے ان کی لاشیں لے گئی جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ انھیں بعد میں فوج کے ذریعہ ایک حراستی مرکز میں مارا گیا تھا ـ جب 1977 میں فوج کے ذریعہ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے دوران کچھ بلوچ رہنماؤں کو رہا کیا گیا تھا لیکن اسد مینگل اور اس کے دوست کے بارے میں تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا کہ وہ کس حال میں ہیں ـ ایک پاکستانی صحافی حامد میر کے مطابق فوجی اسٹیبلشمنٹ سے قریبی تعلقات تھے انھیں جنرل ٹکا خان نے بتایا تھا جو جنرل ضیاء کی تقرری سے قبل آرمی چیف تھے کہ اسد مینگل اور اس کے دوست کو فوج نے وہاں سے اٹھا لیا تھا ۔20 فروری 2012 کو انٹر سروسز انٹلیجنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے ایک سابق سربراہ جنرل حمید گل نے ٹیلی ویژن ٹاک شو کے دوران اعتراف کیا تھا کہ سردار عطاء اللہ مینگل کا بیٹا اسد مینگل ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تفتیشی مرکز میں اسے قتل کیا گیا ہے ـ جبکہ مینگل اور اس کے دوست کے ساتھ ساتھ سینکڑوں دیگر بلوچ فرزندوں کے جبری گمشدہ ہونے کو 50 سال گزر چکے ہیں ، صرف کچھ خاندان خوش قسمت رہے ہیں کہ وہ اپنے عزیزوں کی لاشیں موصول ہوگئے گئے تھے ۔ اکیسویں صدی کے ابتدائی سالوں لاپتہ افراد کے کیسز ۔۔۔۔۔۔ بھٹو کے 1970 کے دہائی کے بعد جبری گمشدگیوں کا دورجنرل پرویز مشرف کے حکومت میں شروع ہوئی جو اب تک جاری اور ساری ہے۔اب تک جبری گمشدگیوں کے ادارتی اعداد وشمار کے مطابق بلوچ لاپتہ افراد ایک کثیر تعداد میں ہیں ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل (اے آئی)کے2012 بریفنگ کے مطابق ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل (اے آئی) کے تحقیق کے مطابق صرف 24 اکتوبر 2010 اور 10 ستمبر 2011 کے درمیان کم از کم 249 بلوچ سیاسی کارکنان ، اساتذہ ، صحافی اور وکلا غائب کیئے جاچکے ہیں یا انہیں قتل کیا گیا ہے ۔ تنظیم وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز ۔۔۔۔۔۔ وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر کے مطابق بلوچ لاپتہ افراد کی ایک کثیر تعداد ہیں۔2019 میں بقول ماما قدیر بلوچ لاپتہ افراد کی تعداد 47،000 کے قریب ہیں ۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کل جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے افراد کے مقدمات کی تعداد صرف 1،532 ہیں جن میں سے صرف 125 کیس بلوچستان سے ہیں اور 2020 میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کمیشن کے مطابق اس وقت پاکستان سے 2122 افراد جبری گمشدہ ہیں۔ جو حقیقت کے برعکس ہیں ۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کے تاثرات ۔۔۔۔.۔ ویسے تو بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ متاثر ہوچکے ہیں ۔ان میں سے ایک سمی بلوچ بھی ہیں جن کی والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ نے بولان میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی تھی۔ سمی بلوچ کے بقول لاپتہ کیے جانے سے قبل ان کے والد آواران سے متصل ضلع خضدار کے علاقے اورناچ کے بنیادی مرکز صحت میں میڈیکل آفیسر تعینات تھے۔ سمی بلوچ کے مطابق ان کے والد کو 28 جون 2009 کی شب بنیادی مرکز صحت سے ریاستی خفیہ اداروں نے لاپتہ کیا تھا۔اب ان کو 11 سے 12سال مکمل ہوچکے ہیں۔ بقول سمی بلوچ اگر ان کے والد کو نہیں اٹھایا گیا ہوتا تو آج وہ بھی باقی لڑکیوں کی طرح عام زندگی گزار رہے ہوتے۔ انھوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویوں میں یہ بھی کہاکہ ’کسی کی جبری گمشدگی تک بات نہیں رک جاتی۔ یہ تو شروعات ہوتی ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ آپ کی زندگی کا مطلب، مقصد سب بدل جاتا ہے۔ میری زندگی میں میری والدہ، بہن، گھر کا خرچہ سب شامل ہے۔ میں کراچی میں کرائے کے مکان میں رہ رہی ہوں تاکہ جب بھی ہو سکے تو اپنے والد کی بازیابی کے لیے کہیں جانے میں مشکل پیش نہ ہو۔ میرے لیے لاپتہ شخص کی بیٹی ہونے کا مطلب ہے کہ میں بلوچ جبری گشمدہ فرزندوں کی بازیابی کی آوازیں پہنچانے کیلئے کبھی بھی کئی بھی جانے کیلئے تیار ہوں۔ سمی بلوچ نے مزید یہ بھی بتایا کہ اسلام آباد دھرنے میں حکومتی وزراء نے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ حال ہی میں لاپتہ ہونے والے افراد کو تو واپس لایا جا سکتا ہے لیکن جو لوگ 10 یا 12 سال پہلے لاپتہ ہوئے ہیں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یاد رہے سمی بلوچ اپنے والد کے بازیابی کے لئے 2009 سے جدوجہد کررہی ہے۔ان کا بچپن کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد کے سڑکوں پر احتجاجی کیمپوں اور دھرنوں میں گزر گئی ۔اور اکتوبر 2013 میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئر مین ماما قدیر بلوچ کی قیادت کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد کے لانگ مارچ میں سمی بلوچ پیش پیش رہی ۔ موسم کی سختیوں کے باوجود انہوں نے دیگر لوگوں کے ساتھ یہ طویل مارچ لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کیا کہ ان کے والد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ سمی بلوچ کی طرح بلوچستان میں ہزاروں لاپتہ افراد لواحقین کے ریاستی ظلم سے متاثر ہیں۔ یاد رہے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کی قرارداد 47/133 کے مطابق جبری گمشدگی ایک غیر انسانی عمل ہے ۔اس قرارداد کے آرٹیکل 7 کے مطابق “کسی بھی صورت حال میں ،خواہ جنگ کا خطرہ ہو یا جنگ کی حالت ہو ،اندرونی سیاسی عدم استحکام ہو یا کسی بھی عوامی ہنگامی صورتحال ہو جبری گمشدگی کے لئے ریاست کوئی بھی جواز پیش نہیں کرسکتی اور جبری گمشدگیوں کے لئے ریاست جواب دہ ہوگا۔اور ایسی قرارداد کی آرٹیکل 1 کے مطابق ” جبری گمشدگی کے کاروائیوں کو جرم کے تحت دیکھا جائے گا اور یہ انٹرنیشنل قانون کے مطابق ایک قابل سزا جرم ہے۔