مستونگ(ہمگام نیوز )؛بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیرمین جئیند بلوچ نے دیگر قائدین کے ہمراہ سراوان پریس کلب مستونگ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی و تنظیمی موق تغیر پذیر دنیا میں مسلسل حرکت کے باعث رواں روز تبدیلیوں کا رونما ہونا فطری قانون کا اظہار ہے، ہر حرکت میں ایک تضاد پنہاں ہے بلکہ حرکت بزاتِ خود ایک تضاد ہے جس سے نئے سماجی اداروں کی ضرورت ناگزیر ہوجاتی ہے، ایسے میں کائناتی حرکات ہم سے مکمل شعوری توجہ کا تقاضا کرتے ہوئے درست تجزیے کی مانگ کرتی ہیں، پچھلے کئ سالوں تنظیم کرہ ارض پر رونما ہونے والی تبدیلیوں گہری نظر رکھے ہوئے تھی آج ان تبدیلیوں کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں عالمی سامراجی ممالک کا مختلف بلاکس میں تقسیم، “گریٹ پاورز” کا لوٹ مار کی آپسی مقابلہ بازیوں میں جت جانا، متضاد مفادات کی تحفظ پر آپسی چپقلشوں کا سر اٹھانا، جب کہ دوسری جانب مختلف خطوں میں عوامی تحاریک کی ابھار عالمی تبدیلیوں کی واضح نشانیاں ہیں کہ کوئ طبقہ ومحکوم اقوام اس کے اثرات سے مبرا نہیں ۔

گراں قدر صحافی حضرات

 عالمی سامراجی قوتوں کے مابین تضادات کی فراوانی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے جس سے عام عوام کے ہاتھ میں محض بیش بہا دشواریوں، محرومیوں، قبضہ گیریت اور جبر استبداد کے سوا کچھ بھی نہیں رکھا بلکہ لوٹ کھسوٹ میں مزید شدت لائ جارہی ہے ۔ ایسے میں عالمی سرمایہ داری جو سرشتاً دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور لوٹ ماری پر انحصار کرنی والی نظام ہے جو مجموعی طور پر متوسط طبقے اور محکوم اقوام کو کنگال کرنے کی تگ و دو میں مگن مزید خونریزیوں کو تاؤ دے رہی ہیں جوکہ تسلسل کے ساتھ عالمی سطح پر جنگوں میں اضافے سے عیاں ہے ۔

2022 سے یوکرین اور روس کے مابین براہ راست جاری جنگ ایک طرف سے روسی سامراجیت کو عیاں کرتی ہے تو دوسری طرف یوکرین اپنی قومی وجود کی برقراری کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے، اس مفادات کی تسکین کے جنگ میں نیٹو فورس کا یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنا دنیا کا بلاکس میں تقسیم اور ان کے مابین تضاداد کی کشمکش میں تیزی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔

 پچھلے کچھ عرصے سے مڈل ایسٹ میں جنگی کارخانوں کے سرمایہ کاروں طرف سے پراکسی جنگوں کا تسلسل آپسی تضادات میں اضافے کے باعث جنگی انٹٹیز کا باقائدہ جنگ میں کودنے اور زیادہ سے زیادہ لوٹ کھسوٹ میں اپنا حصہ بڑھانے کی کشمکش نے محکوم اقوام کو تباہی دھانے پر لا کھڑا کردیا ہے، 7 اکتوبر سے فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت سے اب تک 37000 سے زائد افراد شہید اور 86000 ہزار سے زائد کا افراد زخمی ہونا محکوم اقوام کی نسل کشی کی واضح عکس ہے ۔ جبکہ اس جنگ کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ سمیت تیسری دنیا کو ایک دفعہ پھر عالمی سامراج خانہ جنگی کا اکھاڑا بنایا جارہا ہے ۔

معزز صحافی ساتھیوں

عالمی سامراج آپسی تضادات کے سبب بیش بہا سیاسی، معاشی و ثقافتی بحرانات کا شکار ہے، وہی دوسری جانب ان تضادات کے باعث عالمی سامراج کے تیسری دنیا میں قائم کردہ سیٹلائیٹ ریاستی عالمی سامراج کے آپسی چپقلشوں کے سبب انتظامی سطح پر بہت بڑھے بحران کا شکار ہے۔ مشرق وسطیٰ سے لیکر افریقہ تک عالمی سامراج کی پالن کار ریاستوں میں بھی طاقت کی آپسی چپقلش کے سبب ریاستیں مکمل طور پر خانہ جنگی کا شکار ہیں ۔ گابوں سے لیکر برکانہ فاسو، نائیجر ، سوڈان، ہیاتی میں حال ہی میں ہونے والی فوجی “کو” اس مظہر کے واضح نشاندہی کررہی ہے ۔ جہاں ایک طرف عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بحرانات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے، وہیں دوسری جانب دنیا بھر میں خود رو عوامی تحریکوں کے مظاہر غالب ہوتے جارہے ہیں، حالیہ عرصوں میں بلوچستان میں بلوچ نسل کشی کے خلاف ابھرنے والی تحریک ہو ، عالمی سرمایہ داری کے گڑھ امریکہ میں طلبا کا فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی اظہار کرنے کے لیے احتجاجاً یونیورسٹی کیمپسز میں احتجاجی تحاریک کا آغاز ہو، ماضی قریب ایران میں مہیسا امینی قتل کے خلاف ابھرنے والی تحریک ہو، یا لبنان، مصر، شام، ہانگ کونگ، میکسیکو، برازیل میں ابھرنے والی تحاریک محض کوئی اتفاق نہیں بلکہ اس نظام کی بحرانات کی واضح علامت ہیں ۔ لیکن آج بھی سیاسی کیڈر اور مستقبل کے پروگرام کے سوال ان تحاریک کو شدت سے درپیش ہیں ۔

محترم صحافی برادری!

پاکستان جو برصغیر کے سامراجی تقسیم کے بعد محکوم اقوام کو اپنے زیر دست رکھنے کے سامراجی پراجیکٹ کا حصہ تھی، جو روز اول سے سامراج کے لیے نیوکلونیل کرایہ دار ریاست کے طور پر سر انجام دے رہی تھی۔ پاکستانی ریاست روز اول سے اپنی صنعتی و سیاسی ادارہ جات کو مظبوط کرنے میں ناکام رہا، بلکہ سامراجی آقاؤں کے پرورش میں اس ریاست کے محض فوجی ادارہ نشونما پاتی ہے۔ جہاں پاکستانی فوج و اسٹیبلشمنٹ غالب طاقت کے طور پر ریاست پہ حکمرانی کرتی ہے وہیں دوسری جانب ملکی معیشت کا انحصار سامراجی جنگوں میں آلہ کار کا کردار ادا کرکے، محکوم اقوام کے بے دریغ لوٹ کھسوٹ سے اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرتا تھا۔ جہاں عالمی سامراجیت از خود سیاسی بحرانات کا شکار ہے تو وہاں یہ بحرانات پاکستان جیسی ریاست میں زیادہ شدت سے اپنا اظہار کررہی ہیں ۔ جہاں ریاست ایک طرف انتہا سطح کے معاشی بحران کا شکار ہے تو وہیں دوسری جانب انتظامی تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ کے باعث ڈیفیکٹو ریاست کا منظر عام پیش کررہی ہے ، جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، جوڈیشری، سماجی سطح تک کے ادارو کی انتظامی امور میں انتشار واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے

معزز صحافی دوستو!

بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں گزشتہ 70 سالوں کی تاریخ کو جبر، لوٹ مار و قتل و غارتگری کی تاریخ کے طور پر اپنا وجود رکھتی ہے۔ جہاں بلوچ عوام ان مظالم کیخلاف ہمیشہ سراپا مزاحمت رہی ہے ۔ دیگر دنیا کی طرح بلوچستان بھی عوامی تحاریک کا ایک اہم مرکز رہا۔ حال ہی میں دھائیوں کے لوٹ کھسوٹ، بلوچ نسل کشی کیخلاف ابھرنے والی بلوچ عوامی تحریک نے جہاں سالوں سے قائم سیاسی جمود کے تابوت پر آخری کیل ثبت کیے وہیں بلوچ وطن کے چپے چپے کے عوامی شعور میں اضافہ کرکے انہیں مزاحمت کی راہ دکھائی۔

مزید برآں جہاں ایک طرف عوامی تحاریک کی ابھار وہیں دوسری جانب بلوچ سرزمین پر ابھرنے والی علاقائی و قبائلی خانہ جنگیاں بھی شدت اختیار کرتی جارہی ہیں ، جہاں ریاستی ادارے اپنا کنٹرول قائم کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں، بلکہ سالوں سے ریاستی اداروں کے زیر پرورش جنگی مافیاز اتنی طاقتور ہوچکی ہیں کہ وہ اب ریاستی کنٹرول سے باہر نکل چکی ہیں، اور بلوچ سماج پر اپنے وحشت، قتل و غارتگری کو قائم کئیے ہوئے ہیں تو وہیں دوسری جانب عالمی خانہ جنگی میں اضافے کے باعث بلوچستان مذہبی پراکسی جتھوں کے لیے ایک اہم مرکز بن چکا ہے

معزز صحافی ساتھیوں!

بلوچستان میں جہاں تعلیمی ادارے مالی بحرانات کے سبب بند ہونے کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں۔ جبکہ تعلیمی اداروں میں ان مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے طلبا کے فیسوں میں اضافہ کے سبب طالب علم اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ وہیں دوسری جانب تعلیمی اداروں کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرکے بلوچ طالب علموں کو مسلسل جبری گمشدگی قتل و غارتگری کا نشانہ بنایا جارہا ہے

گراں قدر صحافی برادری!

*بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن وہ نظریاتی، فکری اور سیاسی تنظیم ہے جو ابتداء ہی سے نوجوانوں کی شعوری بیداری و سیاسی پختگی سے زہنی آبیاری کرتی آرہی ہے، عالمی و علاقائی سطح پر سیاسی و معاشی انتشارات و بیچینی، خانہ جنگی اور تبدیلیوں کے پیشِ نظر عوامی تحریکوں کی ابھار ناگزیر ہوجاتی ہے، ایسے غیر یقینی کیفیت میں محکوم اقوام کی دفاع اور انکے مفادات کے تحفظ کیلئے سیاسی اداروں اور منظم سیاسی پروگرام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، بی ایس او اپنی نظریاتی اساس جو کہ معروضی ضرورتوں کی درست سائنسی تجزیہ اور انقلابی قیادت کی فقدان کو سمجھتے ہوئے جو اس ترقی پسند سیاسی پروگرام کی تشکیل کر سکتا ہے یعنی لیڈرشپ تراشنے کو اولین ترجیح سمجھتی ہے اور اس کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ہم ان تمام تر حالات کے تناظر میں بلوچ مزاحمتی قوتوں کی متحدہ محاذوں کی تشکیل قومی مفادات کے دفاع کے لیے ناگزیر ہوچکی ہے

 آج دنیا بھر کی طرح بلوچ سماج میں بھی غیر یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے بلکہ مسلسل جبر و استبداد کی طویل تاریخ نے سماج کو بری طرح متاثر کردیا ہے، ایسے مہلک رجحانات کے باعث نوجوان بیگانگی کے کیفیات سے دوچار انفرادی پسندی کے مرض میں مبتلا ہیں اور اجتماعی کاز سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ سیاسی قوتیں قومی حالات کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے تنگ نظری اور کھینچا تھانی کی سیاست میں مصروف عمل ہے ۔ ایسے میں بی ایس او کے ساتھی مادرِ علمی درسگاہ کی اٹھائ ہوئی تحریک کو اتحاد، شعوری بیداری کا علم بلند کیے ہوئے منزل کی جانب انقلابی جوش و جزبوں کے ساتھ گامزن ہیں ۔