؎ مرے چراغ تو سورج کے ہم نسَب نکلے غلط تھا اب کے تری آندھیوں کا تخمینہ

بی این ایم کے کونسل سیشن میں جس طرح پاکستان پرست جماعتیں نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل/عوامی و دیگر کوچھوڑ کرآزادی پسند رہنما حیربیارمری خلاف صف بندی کی کوشش کی گئی ہے ۔اُسےایک انتہائی غیر سنجیدہ و غیر زمہ دارانہ عمل یا دشمن کے کسی گہرے چال یااپنوں کی لاشعوری میں کئےمنفی عمل کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔اس سلسلے میں دیا گیا  بیان اُن تمام کاوشوں کو سبوتاژ کرنے کافی ہے جو بڑے اتحاد کیلئے کئے جاسکتے ہیں یا کہیں نہ کہیں کچھ مخلص دوست اپنے تئیں اصلاح احوال کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ حیربیارپرتمام الزامات اگر ثبوت کیساتھ ثابت کئے جاتے تویقیناً قوم بی این ایم کا شکرگذار ہوتی مگرپاکستانی طرزسیاست کے مطابق جو جی میں آیا کہدیاکےرویہ کامتحمل کم از کم بلوچ سیاست نہیں  ہوسکتا۔اوپر سے ان الزامات کے فوراً بعد بابا مری کے پرائیوٹ گفتگو کےمختصرٹکڑےکو بھی انٹرویوکا نام دےکر سوشل میڈیا کی زینت بناناکہ جسمیں آپ خود فرماتے ہیں یہ باتیں عام نہیں بلکہ آف دی ریکارڈ  ہیں۔ جولوگ اخلاقی حدبندیوں سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کسی کی پرائیوٹ گفتگو کو اُسکی اجازت کے بغیر نشریا شائع کرنا کتنا بڑا جرم اور اُس آدمی کیساتھ کتنی بڑی ذیادتی و ناانصافی ہے۔ بابا مری کے ’’عالی ظرف ‘‘ دوستوں نےاس پرائیوٹ گفتگو پر سب سے پہلےآپ کی زندگی میں ہاتھ صاف کرنے اور اپنے گروہی مفادات کی تکمیل کی کوشش کی جو ایک بیان آپ کے نام سے منسوب کرکے دیا گیا جسمیں حیر بیار مری کے خلاف صف بندی کا کہا گیا تھا مگر اُنھیں اُس وقت مایوسی ہو ئی جب اگلے دن آپکی طرف سے اسکی سختی سے تردید کی گئی ۔ جو لوگ بابامری کی سیاست و شخصیت پر گہر ی نظر رکھتے ہیں یا اُن سے ملاقاتوں کا شرف رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ آپ ایسی بات ہرگزسرعام نہیں کرسکتے جس کے سو فیصددرست ہونے پر آپ کو مکمل یقین نہ ہویااُس بات سے دشمن کاکام آسان ہوسکتاہو۔یہاں جو باتیں آپ مذکورہ ٹیپ میں کرتے ہیں اُن میں خان قلات سلیمان داؤدپرعدم اعتماد کے اظہار کے علاوہ ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جس پر آپ کو مکمل اعتماد ہے یا اُن کا کھلے بحث میں دفاع کیا جاسکتاہے آپ فرماتے ہیں حیربیار امریکیوں کیساتھ ملتے ہیں لیکن وہ اخترمینگل اور مہران کیساتھ ملنے سے ہچکچاتے ہیں ۔کیا کوئی تصور کرسکتاہے بابا مری بی این پی مینگل کے سربراہ سے نہ ملنے پر ملال کا اظہار کرسکےگا؟  اِسی جملےمیں اگلے سانس میں اپنی غلطی کا احساس کرکے فرماتے ہیں کہ اختر تو خیر ہمارے فکر سے متفق نہیں مہران تو میرا پیروکار ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اختر مینگل بارے بات نہ صرف بابا کے تمام پبلک بیانات کے منافی ہے بلکہ درست بھی نہیں کیونکہ اگر حیربیار مری اخترمینگل کو تحریک آزادی میں متحرک نہیں دیکھنا چاہتے تو اُسے چارٹر آف لبریشن پیش نہیں کرتے کہ جسکی مخالفت بابا مری نےکی تھی۔ایسا کیا ہوگیا کہ اختر کو تحریک آزادی کے خلاف پاکستانی الیکشن میں جاتے ہوئے بابانے وجہ بتائے بغیر قبول کیا اور ساتھ میں مہران کیساتھ ایک پلڑے میں ڈالکر اُسکی سفارش بھی کردی؟ یہ کہیں اُس کھلےراز کالاشعوری اظہارتو نہیں جومہران پر آج تک سب سے بڑےالزام  کی صورت موجودہے کہ آپ پاکستانی پارلیمانی سیاست کے حامی اخترمینگل کے زیراثر ہیں اورتحریک میں جو پراگندگی پھیلائی گئی ہے دراصل وہ بی این پی مینگل کی ریشہ دوانیاں ہیں جو مہران کی مدد سے تحریک آزادی کے خلاف ہورہی ہیں۔ کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ آپ کی اس فرمائش پر لوگ یہ سوال پوچھنے بجا ہوں گے اگر اختر سے ملنا تحریک کیلئے ضروری ہے تو آپ نے کیوں اُس کے اور اُس کےوالد کیلئے گذشتہ دسبارہ برسوں  سےاپنا دروازہ بند رکھا۔جو کام آپ اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے اُسے حیربیاریا کسی آزادی پسند کیلئےکیسے درست فرماتے ہیں؟ جہاں تک خان قلات سلیمان داؤد کی قیادت پر عدم اعتماد کا اظہارہے اُس پر بحث کی گنجائش نہیں کیونکہ ان حالات میں خان قلات کا نوازشریف کےخصوصی اہلچی  محمودخان اچکزئی سے ملاقات اور طویل خاموشی کے بعد یہ تشنہ جواب  دیناکہ یہ ملاقات ایک خیرسگالی ملاقات تھی اس بات کی غماز ہے کہ آپ ابھی تک ٹیم ورک ،دوستوں  اور قوم کو اعتماد میں لیکر قدم اُٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے یاایسے ملاقاتوں کی نوعیت و رموز سے نا آشنا ہیں جوایک  زمہ دار اور ایک سمجھدار قومی لیڈرکاخاصہ ہوتی ہیں ۔اس میں حیربیار کا کوئی قصور نہیں بلکہ آپ نے سلیمان داؤد سمیت براہمدغ ،ڈاکٹراللہ نذر ،بی این ایم ،اختر مینگل سب کو ایک ساتھ کام کرنے کی راہیں تلاش کرنے کی غرض سےآواز دیا مگر بدقسمتی سے آپکی یہ کوششیں سبوتاژ ہوکر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں۔ شخصی طور پرسلیمان داؤد کو بھرپور موقع دیا گیا تاکہ وہ ایسے لوگوں کے خدشات  اور اندازوں کو غلط ثابت کرسکیں مگر بد قسمتی سے آپ اداروں کے تابع ہوکرخود سری ترک کرنے ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں جس سے پاکستان نے اپنے اہلچیوں کے زریعے آپ کو تماشا بنانے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اُس پرائیوٹ گفتگو میں آپ فرماتے ہیں کہ حیربیارکے عسکری دوست جنگجوہیں فکری لوگ نہیں اورحیربیارسوشلسٹ نہیں ڈکٹیٹر بن گیا ہے اور اُ س کی نشانی یہ بتاتے ہیں کہ آپ میری بات نہیں مانتے جبکہ مہران میری سنتے ہیں کیا آپ سے کوئی بہتر جانتا ہے کہ حیربیارنے کبھی سوشلسٹ یا کمیونسٹ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ہےاورحیربیارکے مقابلے میں مہران کب سے سوشلسٹ بن گیا؟(یہاں یہ امرزیرغور نہیں کہ اس مرحلےمیں بلوچ کا مسلہ کسی نظام کی تبدیلی نہیں بلکہ صرف قومی نجات ہے اور حیربیار کسی سے بھی زیادہ آزاد بلوچستان بارے چارٹر آف لبریشن کی صورت ایک واضع روڈ میپ رکھتے ہیں )تاہم یاددہانی کیلئے اتناکہنا لازمی ہے کہ دنیا کے کمیونسٹ ممالک چین، کیوبااور کیوبا کا قریبی اتحادی ونزویلا تینوں بلوچ تحریک آزادی کے نہ صرف بدترین مخالف ہیں بلکہ یہاں انسانی حقوق کی پائمالیوں اور بلوچوں کی نسل کُشی پر اقوام متحدہ میں بلوچوں کی فریاد کو دبانے پاکستان کے ہمنوا رہے ہیں۔اس سے قبل بھی جب سوویت یونین اپنے عروج پرتھا اور افغانستان میں موجودتھا تب بھی اُس نے بلوچوں کے آزادی کی حمایت نہیں کی بلکہ وہ پاکستان کو مجبور کرنے بلوچوں کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ بلوچ قیادت اوراُن کے درمیان بات نہیں بن پائی ۔بلوچوں کاالمیہ یہ رہا کہ بلوچ سوویت مفادات کیلئے کسی پراکسی جنگ میں کھودنے کامخالف تھے مگر اُن کے پاس اپنے راہ نجات کا بھی کوئی روڈ میپ نہیں تھا جس  سےسب کے سب یکساں نقصان میں رہے۔ یہ کھلا راز بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا کہ بلوچ آزادی کیلئے لڑنےاور مرنے والوں کو کوئی وجہ بتائے بغیرجنگجوہ کہنےکی توہین،اور پٹاخہ بازکہنےکا طعنہ عطااللہ مینگل اور بابا مری کے اختلافات کابنیادی نکتہ رہا ہے ۔اورآخرمیں کسی کو ڈکٹیٹرکہنے کیلئے یہ کمزور دلیل خود دلیل دینے والے کی ڈکٹیٹر زہنیت کی وکالت کرتی ہے جہاں معیار یہ ہےکہ اگر آپ میری بات مانتے ہیں توآپ جمہوریت پسند ، ترقی پسند اورسیکولر ہیں اگرمیری املا نہیں لیتے تو آپ خودسر،ظالم اور ڈکٹیٹر ہیں ۔ یہ الفاظ ایک ایسے لیڈر کے انٹرویو کا حصہ ہو نہیں سکتے جوکبھی بھی اپنے کسی بھی بات کو مطلق درست کہنے کے زعم میں مبتلا نہیں  ہوئے اور ہر بات میں غلطی کی گنجائش کو مدنظر رکھکر یہ جملہ یا اس سے ملا جلاجملہ  ضرور بولا کہ’’ ہوسکتا ہے میری سوچ درست نہ ہو ‘‘۔آپ کی یہ ساری باتیں ایک مخلص دوست سے اُس کا نکتہ نظریا ردعمل جاننے کے نیت سے معلوم ہوتی ہیں جس کا کسی منافق زہن رکھنے والے نےفاہدہ اُٹھاتے ہوئے آپکی رضامندی کے بغیر ریکارڈ کرکے شائع کیا جسکی طرف گفتگو کرتے ہوئے بابا کبھی مُڑکر نہیں دیکھتے۔ بی این ایم کی قیادت اچھی طرح جانتی ہےکہ حیربیارچھپا ہوا نہیں ہے اور نہ ہی ملٹی نیشنل کمپنیاں کہیں چھپے بیٹھے ہیں وقت دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردے گا لیکن کسی سرکاری جھوٹ یا کسی کے زہنی اختراع  کو سچ کا لبادہ پہناکر بی این ایم جیسے ’’زمہ دار‘‘ تنظیم کی طرف سے اپنے موقف کیساتھ پیش کرنا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے جیسے انکی نظر میں بلوچستان کے سارے مسلے حل ہوگئے اب صرف حیر بیار اور اُسکی ٹیم ایک مسلے کی صورت باقی ہے۔ حیربیارکی وہی کوششیں جودوڈھائی برس قبل سب کو بلوچستان کا کیس دنیاتک پہنچانےکاحصہ نظرآتی تھیں وہ اچانک ملٹی نیشنل کمپنیوں کا جال کیسے نظرآنےلگا؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور دنیا کی بڑی قوتیں اُس وقت بھی تھیں جب حیربیار نے ایک ایک کو ہاتھ پکڑکر’’چلنا ‘‘سکھایاپہلے براہمدغ اور پھراللہ نذرکوبالاچ کے بعد کی زمہ داریاں سنبھالنےاورتمام قوت کو ایک ساتھ لیکر چلنے کی درخواست کی مگربدقسمتی سے ہرایک نے الگ کام کے نام پراپنی الگ شناخت پرتوجہ دیا آج  سب کی الگ پہچان ہے مگراُس تحریک کی جان نکالی جاچکی ہے  جس نےبڑی بڑی قوتوں کو بلوچ بارے سنجیدگی سے سوچنے پرمجبور کیا تھا۔ اسمیں میں کوئی شک نہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت دنیاکی بڑی قوتیں ہرجنبش میں اپنے مفادات کے تحفظ کوملحوظ خاطر رکھتے  ہیں اورجہاں تک ممکن ہویہ سعی کرتے ہیں کہ اُنکے مفادات کو زک نہ پہنچے جس طرح ہرقومی لیڈرہرچھوٹی بڑی قوت سےاپنے قومی مفادات کے حق میں حمایت ومددکا طلبگاررہتا ہے۔پوری دنیا اِسی فارمولےکے تحت چل رہی ہےبلوچ اِسی سیارے میں رہتے ہیں اوراُنھیں انہی کےسنگ چل کراپنے مفادات کادفاع کرتے ہوئے دیگرکےدلچسپیوں کا خیال رکھناہوگا۔بی این ایم جیسے قومی جماعت (بقول اُنکے) کو یہ بات جاننے میں یقیناًدشواری نہیں ہوگی کہ آپ نے جن جن ممالک میں اپنے نمائندوں کا زکرکیاہے  اور اُن سے حمایت ومدد کی  خواستگاری کی ہےوہ تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کےسرپرست وسرپرست اعلیٰ ممالک ہیں۔ اُنھیں اس چیز کا بھی علم ہوگا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ممالک سرمایہ دارہیں اوروہ ایسےجگہ سرمایہ گزاری کرہی نہیں سکتے جہاں سوفیصدمنافع کی گارنٹی نہ ہوجہاں تک بلوچ تحریک آزادی پرسرمایہ کاری کی بات ہے تو افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہےکہ آج اسکی پوزیشن دوڈھائی سال کی نسبت بہت کمزورہے ۔اگراُس وقت بلوچ تحریک آزادی کے پیش نظر اپنے سرمایہ کے عدم تحفظ کے خوف سے انڈیا،چین،جرمنی،روس آئی پی آئی( ایران پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن) منصوبےسے کنارہ کش ہوئے اور چائنا بنک نےسرمایہ گذاری سے معذرت کیا تو اب چین بے دریغ گوادرمیں بلوچ کوصفحہ ہستی سے مٹانےکےمیگاپروجیکٹ پرکام کررہاہے اور روس کھربوں ڈالرزکے منصوبوں کےساتھ منڈی میں قدم رنجاں فرمارہاہے جو اس بات کی واضع دلیل ہے کہ  بلوچستان میں بڑے حملوں کے بجائے بڑی باتوں نے لی ہےجویقیناًبلوچ کے دشمن قوتوں کیلئےبڑی خوشخبری ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خوابوں کو چکناچور کرنےوالی قوتیں پہلے اپنی توپوں کا رُخ گوادر،سائندک،چمالنگ ،ریکوڈک ،اہم تنصیبات اورجھالوان کے پہاڑوں کو ہڑپ کرنے والےجانوروں اورسوئی کےپائپ لائنوں کی طرف کردیں جہاں بلوچ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے بن رہے ہیں یا بلوچ  دولت کولوٹ کرپاکستان کوآکسیجن فراہم  کیا جارہا ہے۔اگرکوئی قوت ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا توکوئی بھی ملٹی نیشنل کمپنی بلوچ مفادات کو مدنظررکھے بغیرکسی کیساتھ معاہدہ کرنےکاسوچ بھی نہیں سکتا۔ اگربی این ایم اور بی ایل ایف  یا ان کے اتحادیوں نے نے کبھی حقیقی طور ان بلوچ کُش منصوبوں کے سامنے رکاوٹ کھڑی کردی اور حیربیار اوراُسکےہمنوا درمیان میں آئےتو وہ بلوچ قوم کامجرم ہوں گےبصورت دیگر اپنی ناکامیوں اوربے راہ رویوں  پر کسی اور کوموردالزام ٹھہرانا درست عمل نہیں   ۔ یہ ہماری ذاتی رائے ہے اس سے شائدکئی لوگ  متفق نہ ہوں مگر حقیقت یہی ہے کہ اس تحریک میں کبھی بھی بی این ایم اور ڈاکٹر اللہ نذر کااگر کوئی حقیقی اور فطری اتحادی ہوسکتا ہے وہ حیربیار اور اُسکی ٹیم ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ریاست نے ان کے درمیان دیواریں کھڑی کرنے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔اس پوری تحریک میں جس لیڈر نے سب سے پہلے عملی طورپرقبائلیت اورمحدودسوچ کے بجائے قومی سوچ اوربلوچ بن کرسوچنے اورایک بڑے مقصد کیلئے جدوجہد کی حوصلہ افزائی کی وہ حیربیارہے۔بی این ایم اورڈاکٹراللہ نذرکے ہاں بھی لوگ بلوچ بن کر کسی قبیلےکی شناخت کے بجائے نظریاتی طور پر تحریک کا حصہ بنے ہیں ۔باقی لوگ سیکولر ،قومی سوچ اورجمہوریت کی بات توکرتے ہیں لیکن عملی طور پرسرداریت و نوابی کےمائنڈسیٹ کے دلدل سے نکلنے کامیاب نہیں ہوئے ہیں جس سے تحریک  کومجموعی طورپریہ  ناقابل تلافی نقصان پہنچا کہ شہیدنواب اکبرخان بگٹی اور شہیدبالاچ مری نے  جس جہدکوقبائلی ڈگرسے نکالنے قومی راہ پرچلنے کی کوشش کی تھی وہ دو قدم آگے چلنے کے بعد بی ایل اے کو دولخت کرنے کی سنگین غلطی سے چارقدم پیچھےکھسگ گیا۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب براہمدغ بگٹی یا ڈاکٹراللہ نذرسے  حیربیارمتعلق سوال کیا جاتاتوآپ  دونوں بڑےاعتماد سے اُسےاپنا دوست کہتے اوریہی سوال جب حیربیارسے کیا جاتا تو آپ کی آنکھوں میں ایک چمک سے آتی اوربابا مری گھنٹوں حیربیارمتعلق دوستوں سے بات کرتے اورحیربیارکی کامیابیوں پرآپ کی سرشاری معصوم مسکراہٹ کے پیچھےدوستوں کو مطمین اوردشمنوں پربجلی بن کرگرتی تبی تو امریکہ سے لیکر یورپ تک بلوچ کو ایک مضبوط اسٹیک ہولڈرکے طور پر دیکھا جا نے لگا۔ اُس وقت بھی سب الگ الگ کام کررہے تھے مگر ایک دوسرے کے کام کا احترام اور ایکدوسرے کیلئے جگہ رکھنے کے جذبےنے موافق ماحول فراہم کیا تھا ۔اگر وہی اشتراک عمل برقرار  رہتا تو آئندہ حقیقی  اتحاد کی راہیں روشن ہو سکتی تھیں ۔مگر ایک منصوبے کے تحت پہلے حیربیار کو الگ کرنے کی سعی کی گئی کیونکہ آپ کے علاوہ باقی تمام قوتوں میں بی این پی مینگل کا کسی نہ کسی سطع پر اثر و رسوخ ریاست کیلئے مستقبل میں گرین سگنل ہے ۔ بی این ایف کوتوڑنے سے لیکر جاوید مینگل  اور مہران مری کو تحریک میں حصہ دار بنانے تک ہر پیدا ہونے والے الجھن میں بی این پی مینگل کے اثرات کے نشانات صاف دکھائی دیئےمگر بی آر پی ،بی این ایف اور بی ایل ایف  اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظرانداز کرتے رہے جو مجموعی تحریک کیلئے مصائب  پیداہونے کا سبب بنے اُوپرسے بابا مری کو بھی ثالث رکھنے اور اُسے اپنے حیات میں تمام مسائل کے حل کیلئے عملی قدم اُٹھانے کی طرف مائل کرنے کے بجائے فریق بنا کر متنازعہ بنایاگیاجو مسائل آپکی حیاتی میں حل ہوکر تحریک کو موافق ماحول فراہم کرتے اب بڑھکر سب کیلئے وجہ تشویش بنے ہیں ۔ حرف آخر :  آج  ہماری سیاسی لاپروائیوں نے غلط فہمیوں کی ایک ایسی دیوار کھڑی کردی ہے کہ جسے پار کرکے مصالحت کی کوئی راہ نکالنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اس سے قبل کچھ دوست اس خواہش کا اظہارکئے نہیں تھکتے کہ دوستوں کے درمیاں اتحاد کی کوئی راہ نکالی جائے جس پر ہم نے ہمیشہ دوستوں سے یہی گذارش کی ہے کہ کسی بات چیت کے آغاز سے قبل بی ایل ایف کے اس بیان کی درجہ بندی کی جائے جس میں اُس نے حیر بیار کو تحریک کیلئے نقصاندہ قرار دیاتھا ۔اور اب بی این ایم بھی  انہی بے بنیادالزامات کیساتھ میدان میں اُتر چکاہے۔پہلے اگر یہ کام سوشل میڈیا میں شخصی ریشہ دوانیوں  اور جعلی ناموں کا شاخسانہ کہکر نظرانداز کیا جاسکتا تھا اب ایسا کرنا ناممکن ہے جس کے نتیجے میں  جو ماحول ہوگی ہے اُس میں الزام تراشیوں اور گالم گلوچ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلے گا کر جو تحریک میں مزید انتشار اور قیادت میں دوریوں کے ساتھ مایوسیوں   کا سبب بنے گا۔ اس مرحلے میں ایک بار پھر سب سے زیادہ زمہ داری حیربیار مری کی بنتی ہے کہ وہ اور اُسکے دوست اپنی تمامتر توجہ تحریک پر مرکوز کریں اور خواہ مخواہ  اور جعلی ناموں کے مباحثوں میں الجھ کر اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں ۔جنہوں نے تحریک کو شروع کرکے  مایوسیوں میں اپنے لہو اور انتھک محنت سے  اُمیدوں کے چراغ جلائے وہ کل بھی  بلوچ قوم ،بلوچ کے دشمن ریاست اور دنیا کی نظروں میں بنیاد گزار تھے آج بھی اُس تحریک کے درست وارث ہیں۔سنجیدہ حلقے اچھی طرح جانتے ہیں کہ  باقی تمام قوتیں اُس وقت تک تحریک کے دائرے سے نکلنے کی خطرے کی لکیر کے آس پاس رہیں گے جب تک وہ بی این پی مینگل بارے دو ٹوک موقف اپنانے کامیاب نہیں ہوتےجبکہ حیربیاراور اُس کے دوست  کسی سے بھی بہتر جانتے ہیں کہ اُن کا منزل بہت دور اوروہ اپنے مقصد بارے کسی بھی زیادہ یکسو ہیں۔ جہاں تک بی این ایم  اور بی ایل ایف کے دوستوں سے اتحاد  کا سوال ہے اُن کیلئے دروازہ کھلا رکھیں کیونکہ وہ یہ حقیقت مانیں نہ مانیں مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ بددیر یا زود اس نتیجے پر پہنچنے والے ہیں کہ اُن کے بیانات غلط فہمیوں کا نتیجہ تھےاور حیربیار کو نظرانداز کرکے یا اُسے بائی پاس کرنے کا خیال   درست نہیں تھا۔