تحریر ۔ گلبہار بلوچ
گزشتہ سے پیوستہ
ھمگام آرٹیکل
6۔ اداروں کی کمی:
مقاصد کے حصول کيلئے ايک ہی نظريے کے ماننے والے انسانوں کا يکجا ہوکر کام کرنے کے عمل کو تنظيم يا اداره کہتے ہيں۔ تنظيم يا ادارے کسی خاص نظريے کے پيروکار ہونے کے ساته اس پر عمل کرنے کيلئے حکمت عملی بنا کر مقصد کے حصول کو ممکن بنانا ان کی روح ہے۔ اب ادارے مختلف ہوتے ہيں اور ان کے مختلف مقاصد ہوتے ہيں جن کيلئے وه بنائے يا توڑے جاتے ہيں۔ اسی طرح بلوچ قومی تحريک آزادی بهی اداروں کا مجموعہ ہے جو غلامی کے خلاف برسرپيکار ہيں۔ ان ميں بهی نظرياتی تربيت، حکمت عملياں اور ہر وه درکار خيال يا چيز جو ان اداروں کيلئے ضرورت ہيں وه يا تو مکمل ہيں يا پهر ان پر کام کيا جا رہا ہے يا ان پہ مزيد کام کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اکثر کہا جاتا ہے يا ہر سياسی مباحثوں ميں زير بحث ہے کہ ہمارے ہاں اداروں کی کمی ہے۔ بغير اس مباحثے کہ نظرياتی اداروں کی کمی ہے يا بلڈنگ نما اداروں کی کمی ہے؟ تو پهر ميرے خيال سے ہم گمراه ہوں گے جيسے ايک نظرياتی اداره تربيت کرتی ہے، حکمت عملی بناتی ہے اور زمينی حقائق کے مطابق تربيت ديتی ہے، اصول و ضوابط اپنے حالات و بساط کے مطابق بناتی اور سيکهاتی ہے۔ اسکا مطلب ہوا يہ نظرياتی اداره آپکو واضح سمت کے ساته خيالات و جسمانی ہتهياروں سے ليس کرتی ہے جو حقيقی ادارے يا نظرياتی ادارے کہلاتے ہيں۔ ان اداروں کی بدولت قوميں اپنے منزل و مقصود کيلئے رواں دواں تهے/ہيں۔ ميرے خيال سے ان نظرياتی اداروں کی کمی بلوچ قوم ميں نہيں اس بحث کو چهوڑتے ہوئے کہ اب ان ميں کتنی صلاحيت ہے اور وه اب ان پيمانوں پہ فٹ آتی ہيں کہ نہيں يا آيا آج تک ان پروسسز سے اپنے کيڈرز کو گزارتے ہيں يا نہيں؟ ميرے خيال ميں اب ايسا نہيں ہے کيونکہ تنظيميں تربيت سے کوسوں دور قوم سے کافی حد تک کٹ چکی ہيں۔ دوسرا وه ادارے جو قابض غلام کو بہکانے کيلئے بناتی ہے وه سکول و مسجد سے ليکر ہسپتال و يونيورسٹی تک جو بلڈنگ نما ادارے ہوتے ہيں اور يہ جانتے ہوئے کہ بلڈنگ نما ادارے نظريات سے عاری ہوتی ہيں۔ انکی پراڈکٹ بهی انهی اداروں کی عکاسی کرتی چلتی پهرتی اجسام ہی کہلاتی ہيں کيونکہ يہ ادارے نہ سيکهاتے ہيں، نہ بناتے ہيں اور نہ ہی ذہنی و جسمانی ہتهياروں سے ليس کرتی ہيں۔ لہذا اس طرح کے ادارے ويسے بهی کهوکهلے ہوتے ہيں کيونکہ يہ ادارے قومی آزادی کی سفر کے مسافر نہيں بلکہ قومی غلامی کو توانا کرنی کی کوشش کرتی ہيں۔ اب مسئلہ يہ ہے کہ اگر اول الذکر ادارے آخر ذکر جيسے بن جائيں تو غلامی کے چانسسز زياده اور آزادی کی راه کے مسافر کم ديکهائی ديتی ہيں۔ اب ميں کيا کہوں کہ اداروں کی کمی ہے يا اداروں پر عائد جو ذمہ داری ہے اس احساس کی کمی ہے يا اس احساس کو عمل ميں لانی کمی ہے؟ دوسرا سياسی اسٹوڈنٹس اکثر يہ کہتے پهرتے ہيں کہ قابض کی يونيورسٹيز ميں پڑهنے کا کيا فائد اس سے تو بهتر ہے کچه اور کيا جائے۔ حالانکہ کہ يہ جانتے ہوئے کہ ميں غلام ہوں، غلامی کے دن جهيل رہا ہوں اور آزادی کے سفر کا مسافر ہوں۔ اور يہ بهی جانتے ہوئے کہ غلام قابض کی سوچ و عمل ميں مکمل انسان نہيں ہوتا اور يہ علم بهی ہے کہ غلامی کا مطلب بے اختياری تو اسکا ہرگز يہ مطلب نہيں کہ قابض يونيورسٹيز يا دنيا کی کوئی يونيورسٹی آپکو آپکی آباو اجداد يا قومی علم کے ذيور سے آراستہ کريں گے۔ اگر وه يہ کرے تو قابض اور مقبوضہ کا رشتہ کيا ختم ہوسکتا ہے؟ ميرے خيال ميں پهر بهی نہيں کيوں کہ بلوچ قوم کی دس ہزار سال کی تاريخ ستر سال کے سامنے سرنڈر نہيں کرے گی۔ کيونکہ جب تک قوم کی قومی علم زنده ہے تب تک اسے کوئی سرنڈر نہيں کروا سکتا۔ لہذا ان سب کو اپنی تربيت کا حصہ بناتے ہوئے کہ ميں غلام ہوں مجهے جو پڑهايا جا رہا ہے وه يا تو قابض کے مواد ہيں يا اسکے قابض کا جو مجهے مزيد غلام رکهنے کيلئے قومی علم اور قوم کی طرف سے عائد ذمہ داری سے عاری کرتی ہے۔ مگر غلام ہونے کے ناطے ان کے مضامين کو امتحانات کی حد تک سنجيده لينا سودمند ہوگا۔ تو بهتر يہ ہے کہ اس ڈيجيٹل دنيا ميں مختلف آن لائن لائيبرياں ہيں جو مفت ميں کتابيں مہيا کرتی ہيں جن سے کوئی فرد کچه نہ کچه اپنے قوم کی خاطر اپنے مستقبل کی خاطر نکال سکتا ہے يا سمجه لے گا اور انکے چالز کو سمجهتے ہوئے اپنی قوم کو باخبر کرتے ہوئے آزادی کيلئے غلامی کے خلاف نئی حکمت عمليوں سے تحريک کو ليس کرسکتا ہے۔ ميرے خيال ميں آپ انہيں يونيورسٹيز ميں ريسرچ کو سمجهتے ہوئے آزادانہ طور پر اپنے قومی علم اور آزادی کيلئے ريسرچ کر سکتے ہيں اور اسکی اشد ضرورت بهی ہے اور يہی علم بلوچيت کی يونيورسٹی ہے۔ اور انکی پيليکيشنز کے ادارے بهی ہيں جيسا کہ دی بلوچستان پوسٹ، همگام نيوز اور سنگر پبليکيشنز۔ اور يہ ہرگز ضروری نہيں کہ اسے اپنے نام سے چهاپا جائے بلکہ آپ کا مقصد علم کو قوم تک پہنچانا۔
7۔ پولیٹیکل لینگویج:
کسی بهی عمل کا اظہار زبان کے ذريعے ہی ممکن ہے۔ اور يہ اظہار سياست ميں بهی اسی طرح لازم و ملزوم ہے جيسے کسی تصور کو خود سے سمجهنا، دوسروں کو سمجهانا جو آپ سمجها سکو اور وه سمجه سکے ليکن اس کيلئے آپکے خيال کا واضح ہونا لازمی امر ہے۔ لہذا سياست کی اپنی ايک زبان ہے جو آپکے نظريات کا اظہار ہے۔ ليکن اس نظريے کااظہار آپکے عمل سے وابستہ ہے کہ آپ کس نظريے کے پابند ہيں تو اسی نظريے کی مناسبت سے اظہار ہونا لازم ہے۔ اسی طرح آپکے نظريے کا اظہار آپکی سياسی زبان ميں پنہاں ہے۔ اس عمل کو سياسی زبان کہتے ہيں۔ يا سياسی زبان ہونے کا مطلب ہے کہ واضح نظريہ، واضح حکمت عملی اور دو ٹوک الفاظ ميں اپنے مسئلے کو بيان کرنا۔ جيسا کہ قوم آزادی چاہتی ہے تو اسکا نظريہ واضح ہے کہ آپ غلام ہيں۔ لہذا آپ اسی جيسا زبان کے اظہار کے طلبگار ہوں گے۔ جس سے آپ اپنی قوم کو واضح سمت دو گے اور دشمن کو کهری بات کرو گے اور دنيا کو اپنے طلب کی مانگ کرو گے يعنی اس کيلئے سفارتکاری۔ اس کا مطلب ہر گز يہ نہيں کہ آپ آزادی چاہتے ہيں اور بات محکوم اور مظلوميت ميں کريں گے تو آپ کے نظريے و عمل متضاد ہوں گے۔ لہذا بلوچ قومی تحريک اس زبان سے مکمل طور پر عاری ہے جسکی واضح مثال آپکو تمام آزادی پسند تنظيموں(سياسی و مسلح) کے سياسی اسٹيٹمنٹ ميں دکهائی ديتی ہيں مثلا بول کيا رہے ہيں، مانگ کيا رہے ہيں اور لکه کيا رہے ہيں۔ اس طرح کے غير واضح اظہار و اعمال ميں تنظيميں بهروسے کی لائق نہيں رہی گی۔ اسی وجہ سے آج تک کوئی نہيں جانتا کہ بلوچ قوم کی جنگ کس ليئے ہے وه انسرجنسی ہے، کنفليکٹ ہے، دہشت گردی ہے، قابض رياستوں کے اندر رہتے ہوئے ساحل و وسائل کی جنگ يا پهر مکمل آزادی کی جنگ ہے جو مکمل غلامی و قابضيت سے چهٹکارے کيلئے ہے۔
9 .پوليٹيکل اميچورٹی:
پوليٹيکل ميچورٹی کا مطلب ہے کسی بهی عمل کے دوران کچه بهی ہو سکتا ہے تو ان مسائل کو اپنی ذمہ داری سمجهتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچانا۔ لہذا يہ ايک مکمل ذمہ داری ہے چاہے قوم کا کوئی فرد ہو يا قوم کی ليڈرشپ يہ ذمہ دار سب پہ برابر لاگو ہوتا ہے۔ اور کسی بهی اختلاف يا حکمت عملی کو تمام تنظيموں کی صلح و مشورے سے تحريک آزادی کی خاطر بنانا تاکہ تحريک کو وسعت ديا جائے، اتحاد کيلئے راہيں کهولی جائيں اور قوم کو تنظيموں سے ہمگرنچ کيا جائےجس سے دشمن کے خلاف ايک شدت کا احساس ہونے کے ساته ساته تحريک کيلئے درکار خالی سپيس کو کور کيا جائے۔ المختصر اپنی ذات، تنظيم اور ان تمام غير ضروری مسئلوں سے چهٹکارا پانے کے ساته ساته يکجہتی و قومی آزادی کی خاطرايک ہوکر منزل مقصود تک پہنچنا پوليٹيکل ميچوريٹی کہلاتا ہے۔ ليکن بلوچ تحريک آزادی کی جتنی بهی آزادی پسند تنظيميں ہيں وه قوم کے ذمہ دار ہونے سے زياده تنظيموں کے ذمہ دار ہونے کا احساس دلاتے ہيں۔ يہ جانتے ہوئے کہ يہ تنظيميں آزادی کی جنگ لڑ رہی ہيں جوقوم کی آزادی کيلئے ہے اور ہم بهی قوم کا اظہار يا سفارتکار ہيں۔ پر ايسا کم دکهائی ديتا ہے کہ کوئی اپنی قومی ذمہ داری کو محسوس کرے پر تنظيمی ذمہداريوں ميں جتے ہوئے ہيں اور يہی پوليٹيکل اميچورٹی کے سب سے بڑی مثال ہے۔ بس ہر اس سال ان کی پرانی باتيں ہيں ايک تنظيم اتحاد کا اعلان کرتی اور اسی ميں وه اتحاد کے بغير آزادی کو ناممکن کہتے ہوئے دشمن کو کوستا ہے۔ تب دوسرا دو چار ماه بعد اسی اتحاد کا اعلان کرتا ہے اور دونوں يہی کہتے ہيں کہ اس راه ميں جو کچه ہوا ہم قوم کو آگاه کريں گے۔ مجهے تو يہی محسوس ہوتا ہے کہ اتحاد کے نام پہ اپنے آپکو شتر مرغ کی طرح چهوپانا چاہتے ہيں حالانکہ کہ کوئی اتحاد کيلئے تيار نہيں۔ اس کے علاوه کبهی تحريک کيلئے مڈل کلاس خطره ہے تو کبهی جاہل سردار زادے يہ واضح کيئے بغير کہ بلوچ قوم ميں مڈل کلاس ہونے کے کيا پيمانے ہيں اور سردارزادے کيسے تحريک کيلئے خطره ہيں؟ البتہ سردار زادے ويسے بهی تحريک سےمکمل طور پر عليحده ہيں تو بهتر نہيں کہ بی ايس او کی کيڈرز مکمل اتحاد کی طرف چلی جائے پر ايسا بهی ہونا نہيں ديکهائی ديتا۔ اب يہ واضح کرنا مشکل ہے کہ کون تحريک کيلئے مخلص اور کون تحريک کيلئے خطره ہيں۔ دوسرا پوليٹيکل اميچورٹی کی حد ہوتی ہے انہوں نے وه بهی کراس کرديا جيسا کہ بلوچستان سے بهر بيٹهے تمام آزادی سياسی ورکرز ہر شام ٹوئيٹر پر ٹرينڈ کے نام سے ايک دوسروں کو بی اين پی مينگل يا نيشنل پارٹی کی القابات سے نوازتے ہيں۔ يا پهر کبهی فاشزم، لبرل، کنزرويٹو اور سيکولر کی دم دبائے بچارے اپنے حال سے مکمل طور پر بيگانا ہو گئےہيں۔ اگر سفارتکاری نہيں ہو سکتا تو کيوں اس طرح کے غيرضروری ٹرينڈز ميں پڑے ہو۔
10۔ حکمت عملی:
تنظيم/اداراه چونکہ مقاصد کا حصول ہيں۔ لہذا اس کے حصول کيلئے جو عمل کا تعين ہوتا ہے اسے حکمت عملی کہتے ہيں۔ اس ميں عام طوراداره اہداف اور ترجيحات کا تعين، اہداف کے حصول کيلئے اقدامات کا تعين اور اعمال کو انجام دينے کيلئے وسائل کو متحرک کرنا شامل ہوتا ہے۔ اسی طرح بلوچ قومی جنگ آزادی کے اپنے سياسی، مسلح اور خارجہ حکمت عملياں ہيں۔ جن کو عمل ميں لاتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کيلئے گامزن ہيں۔ ليکن کافی حد تک غير سنجيده رويوں کی وجہ سے حکمت عمليوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ جيسا کہ پاکستانی فورسز گزشتہ چهے ماه سے بلوچ قومی تحريک کے خلاف ڈرونز استعمال کر رہی ہے۔ اور ہماری غير سنجيده رويے کی وجہ سے وه ہر حملے ميں ہميں زياده سے زياده نقصان پہنچا رہی ہے جيسا کہ بی اين اے کے دوستوں پہ پہلا ڈرون حملہ ہونے کا مطلب يہ تها کہ اب جنگ نئی ٹيکنالوجی سے لڑی جائے گی۔ يہ ہماری گوريلا دانست ہے کہ آج تک دس دس دوستوں کی شہادت سے کچه نئی حکمت عملی بنانے سے عاری ہيں۔ اور مل بيٹه کہ اس نئے ٹيکنالوجی کا کيا توڑ نکالا جائے ؟ ميری سمجه کے مطابق ہمارے دوست غيرسنجيدگی کا مظاہر کرتے
آئے ہيں اور کر رہے ہيں۔ اس کی کچه وجوہات ہيں۔ اول۔ گوريلا حکمت عملی کا فقدان جيسا کہ اب عارضی يا مستقل کيمپنگ ايريا ميں پہره نہ ہونا۔ دوم۔ جنگ کو مذاق سمجه کر کيمپس کو بيٹهک کی طرح شغل و مزاق اور نزديکی فاصلوں پر سونا کيلئے استعمال ميں لانا جيسا کہ بی اين اے کے دوستوں پر ہونے والے حملے سے تاثر ملا۔ تيسرا۔ گوريلا مسلسل متحرک ہونے کا نام ہے جو مسلسل سٹريٹجک ايريا ميں رہتی ہے۔ ليکن اب گوريلا کيمپس دفاعی نوعيت سے زياده پاکستانی ٹاورز کے سگنلز کی تلاش ميں بدلتی ہيں۔ چہارم۔ ہر ممبر کو موبائل دينا اور اس کا بے جا استعمال جيسا کہ نوشکی کيمپ کے کچه دوست شہيد ہوئے۔ پنجم۔ گوريلا کيمپس بيٹهک کی طرح لگتے ہيں جو جب آئے جب جائے کوئی خاص روک ٹوک نہيں۔ ششم۔ دوران سفر پڑاو کے دوران بغير پہره کے سونا يا مستقل کيمپس ميں بغير پہره کے رہائش پذير ہونا۔ يہ کچه ايسا لگتا ہے جيسے يہ پکنک کے غرض
سے آئے ہوں۔ ہفتم۔ دوران سفر کيمپنگ کسی صورت بهی قابض فورسز کے قريبی علاقوں ميں نہ کرنا کيوں آج کل قابض فورسز موومنٹ سے پہلے ڈرونز کے ذريعے اپنے مضافات کا جائزه کرتے ہيں۔ اب اس ڈرونز سے بچنے کيلئے حکمت عملی بنانا تحريک کيلئے سود مند ہوگا۔ ميری دانست کے مطابق اس سے بچنے کے کچه طريقے ہو سکتے ہيں۔ جيسا کہ اول۔ گوريلا حکمت اور ڈسپلن کے حوالے سے سختی سے نپٹا جائے۔ دوم کيمپ کے تقريبا ايک کلوميٹر کے احاطے ميں مختلف جگاہوں پر کيمپ کے دوستوں کا پهيلاو کيونکہ ڈرونز کيميکل ہتيهار استعمال کرتی ہيں جن ميں تباہی اور آکسيجن بند کرنے والے ميزائل ہوتے جو تقريبا ايک کلوميٹر کے احاطے تک اثر کرتی ہيں سوم۔ پہاڑی علاقوں ميں مکمل شکار پر پابندی نافذ کی جائے کيونکہ دلال شکاری کی شکل ميں کيمپس ڈهونڈتے ہيں۔ چہارم۔ تبليغی جماعتوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے کيونکہ ان کے ساته مختلف جاسوس يا انٹيليجنس اداروں کے آفيسرز علاقوں کا سروے يا ميپنگ کرتی ہيں۔ پنجم۔ جہاں جہاں ٹاورز لگائے گئے ہيں ان کو نيست و نابود کر ديا جائے۔ ششم۔ کمانڈ کے علاوه کسی کو بهی موبائل نہ ديا جائے۔ ہفتم۔ ہر دوست کا کيمپ نز ِچ ميں آنے سے پہلے مکمل چيکنگ کی جائے کيونکہ کچه ڈرو پ والی لوکيشن پہ حملہ کرتی ہيں اور کچه جی پی ايس سسٹم کو استعمال کرتی ہيں جو آپکا موبائل ٹاور ديتا ہے۔ اس کے علاوه بی اين اے کا بننا کسی نئی حکمت عملی کا سبب نہيں تها کہ ہم يہ تنظيم اس ليئے بنا رہے ہيں کيونکہ ہمارے پاس ٹهوس حکمت عملياں ہيں جسے ہم نے باقی آزادی پسند مسلح تنظيموں کے سربراہان کے ساته بحث و مباحثہ ميں لائے۔ اورکسی وجہ سے ہماری کسی تنظيم سے حکمت عملی کی بنياد پر اتفاق نہ ہوا تو ہم نے یہ تنظيم بنائی کيونکہ ہم ٹهوس حکمت عملی، بنيادی تنظيمی ڈهانچہ اور سخت ڈسپلن کی وجہ سے ان تنظيموں سے مختلف ہيں۔ حقيقت ميں يہ پيمانے استعمال ہی نہيں ہوئے کيونکہ ليڈرشپ کا شوق يا ذاتی انا کی وجہ سے يہ تنظيم بنی ہے۔ حالانکہ بی اين اے کے دونوں ليڈرز کا بی ايل اے(جيئند) اور بی ايل ايف سے قريبی تعلق اور سنجيدگی کے باوجود ضم نہ ہونا۔ حالانکہ کہ ايسا کيا تها کہ جس نے ايک نئی تنظيم کو وجود ديا۔ اسکے نقصانات تو بہت ہيں۔ ميرے خيال ميں يہ ايک غير سنجيده رويے کی وجہ ہے۔
11۔ جغرافیہ:
جب بهی جہاں بهی کوئی تحريک آزادی کيلئے اٹهتی ہے تو وه واضح نظريات اور ُ واضح جغرافيہ کا دعوا دار ہوتی ہے۔ لہذا بلوچ قومی تحريک آزادی کی جنگ شناخت اور رياست کی ہے تو اسے واضح پروگروام کے ساته ليس ہونا لازم ہوگا۔ مگر بلوچ قومی تحريک ايک مبهم نظريہ اور مبهم جغرافيہ کے ساته چل رہی ہے۔ جو کہ سياسی نابلدگی کی واضح مثال ہے حالانکہ ان دونوں کا کسی تحريک کيلئے واضح ہونا لازمی امر تصور کيا جاتا ہے۔ بلوچ نظريے کو ميں نے اول الذکر بيان کيا ہے اور جغرافيہ کو يہاں بيان کروں گا۔ ہمارے اکثر سياسی مباحثوں ميں جب بهی بلوچستان کا ذکر چهڑ جاتا ہے تو ہم جهجک کے بحث کرتے ہيں۔ جيسا کہ کچه کا خيال ہے کہ صرف موجوده پاکستانی مقبوضہ بلوچستان اور کچه پاکستانی مقبوضہ الگ کيئے ہوئے علاقے ڈيره جات ميں ڈيره اسماعيل خان کے بارے مبهم اور موجوده سنده ميں بلوچ علاقے خان گڑه، کشموروغيره کی بات کرتے ہيں اور کچه ڈيره غازيخان سے ليکر ايرانی مقبوضہ بلوچستان کے ساته ساته افغانی مقبوضہ بلوچستان کو يونائيٹڈ بلوچستان کا نام ديتے ہيں۔ ليکن ڈيره اسماعيل خان، کچی(بکهر) کی ذکر کہيں کسی سياسی مباحثوں اور سياسی و لبريشن کے پاليسيوں ميں زير بحث يا حصہ نہيں۔ ميرے خيال سے جغرافيہ کا مبهم ہونا سياسی خودکشی ہوگا۔ جب تک تمام آزادی پسند تنظيميں اپنے جغرافيائی حدود کو واضح نہيں کريں گی تب تک قوم کو کسی ايک راه کا مسافر بنانا ناممکن ہوگا۔ حالانکہ بلوچستان نہ موجوده ہے نا کچه اور اگر ہے تو مکمل بلوچستان ہے جسکا واضح ہونا لازم ہے۔
12۔ ريسرچ ونگ :
سياست ايک عمل کے پابند ہونے کے ساته ساته اس عمل کی آبياری کسی واضح عمل سے ہونا ہے۔لہذا عمل ماضی، حال اور مستقبل ميں پنہاں ہے جو کہ روانی يا تسلسل کا ايک نام ہے۔ اس تسلسل کو کسی ريسرچ ميں گزارے بغير يہ اندازا لگانا مشکل ہوگا کہ ماضی ميں ہماری حمکت عملياں يا عمل کيا تها کہ ہم نے کسی خاص وقت کيلئے ٹهراو کيا اور پهر جنبش کی راه اپنا لی۔ يہ عمل ميرے خيال سے صرف باتوں کی حد تک نامکمل ہوگا۔ اگر ہميں اپنے ماضی کو جهانکنا ہے يا حال کو واضح کرتے ہوئے ايک قدم مستقبل کيلئے اٹهانا ہے تو وه ريسرچ کے بغير نامکمل ہوگا۔ لہذا ريسرچ کی افاديت و اہميت کو سمجهتے ہوئے ہميں اپنے تحريک کيلئے ايک ريسرچ ونگ کو تشکيل دينا ہوگا جو ہماری غلطيوں اور پاليسيوں پر آزادانہ تنقيد کرتے ہوئے ايک نيا حکمت عملی بنائے جو کسی تنظيمی آئين و شخصيت پرستی سے آزاد ہوکر صرف قومی تحريک کو مدنظر رکهتے ہوئے لايا جائے تاکہ ہم سب احتساب کے عمل سے اپنے آپ کو گزار سکيں۔ اور تحريک ميں نئے حکمت عمليوں اور خيالات کو اجاگر کرتے ہوئے شدت کے ساته ليس کيا جائے۔ تاکہ ہم اپنی مستقبل کے سفر کو پا سکيں اور ريسرچ ونگ تشکيل دينا مشکل ضرور ہے ناممکن نہيں کيونکہ اس سے يہ فائده ہوگا کم از کم ہم اپنی تحريک کو خود کفيل بنا سکيں گے۔ موجوده تحريک ميں ريسرچ ونگ کی اشد ضرورت ہے۔
اور يہ ريسرچ ونگ تين حصوں ميں ہو
اول۔ سياسی ريسرچ ونگ
دوم۔ مسلح ريسرچ ونگ
سوم۔ انٹيليجنس ريسرچ ونگ
سياسی ريسرچ ونگ ہماری قومی تاريخ(قوم، رياست اور تہذيب پر کام کرے)،سياسی تاريخ(جتنی تاريخی جنگيں بلوچ قوم نے اپنے اندر اور دشمنوں سے لڑی ہيں)، رياستوں (بم پور، بم پشت، کيچ، سيوی اور قلات) اور موجوده تحريک(ڈسپلن، حکمت عملی، اور اندرونی و خارجہ پاليسيوں پر کام کرے) پر نظريں مرکوز کريں۔ دوسرا مسلح ريسرچ ونگ گوريلہ حکمت عملی، ٹيکنيکل ونگ (کيمسٹری، بائيولوجی، فزکس، مکينيکل، ٹيلی کميونيکيشن، اليکٹريکل، سول اور مائيننگ انجينرزتمام مہيا چيزوں سے باردو(ديسی بارود اکثر بلوچ تين پودوں سے بناتے ہيں جو کہ جام ساهو، گو ُکهڑد کے پتے سوکها کر اور کالی مرچ کے دانوں کے ساته پيس کر بناتے تهے اور اب ان کی شدت بڑهانی ہوتو اس ميں ٹار ملايا جائے يا نائيٹريٹ گروپ يا پوٹاشيم نائيٹريٹ) بنانا، ديسی ساختہ ڈرونز بنانا(جس کيلئے دو سافٹ ويئر، پاورفل موٹر، بيٹری، جی پی ايس، اور فريم)، دشمن کے فوڈ چين ميں وائرس انجکٹ کرنا، دشمن کے کيميائی ہتهياروں/ڈرونز کا توڑ نکالنا اور مہيا شده اسلحہ کو ريموڈيفائی کرنے پر ريسرچ کرے۔ اورتيسرا انٹيليجنس ونگ تين ونگز ميں کام کرے جيسا کہ آئی ايس آئی، ايم آئی اور آئی بی تاکہ دشمن کے اندر رہتے ہوئے معلومات حاصل کرنا، دوسرا ہماری اپنے انٹيلجينس کو مزيد تربيت کے ساته مرکزيت ميں ڈهالنا اور تيسرا ہماری انٹيليجنس ونگ ہيکرز کا ايک گروپ تيار کرے جس سے مختلف کام ليئے جا سکتے ہيں۔ ہيکرز کا ہرگز يہ مطلب نہيں کہ وه انٹرنيشنل اداروں کو ہيک کريں بلکہ حس ِب ضرورت ڈيٹا نکالنا يا ايتهيکل ہيکنگ کے ذريعے تحريک کيلئے معاشی ذرائعے پيدا کرنا۔
13۔ ميڈيا:
معلومات يا کسی مواد کو پہنچانے کے ذرائعے کو ميڈيا کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ميڈيا کے دو اقسام ہيں جو کہ آزاد اور جانبدار ہيں۔ آزاد ميڈيا کے مطابق معلومات يا مواد کو بغير کسی جانبداری کے پہنچانا اور جانبدار ميڈيا وه ہے جو کسی براعظم، ملکی، پارٹی يا کسی قوم کی نمائندگی کرتی ہے۔ اسی طرح انسان کی فطرت کو اگر ديکها جائے تو وه کبهی بهی غير جانبدار نہيں ہوسکتا تو کيا ميڈيا غيرجانبدار ہوسکتا ہے؟ يہ ميرے خيال ميں صرف لطف انداز ہونے کے پيمانے ہو سکتے ہيں۔ لہذا انسان اگر جانبدار ہے تو وه کسی نہ کسی نظريہ، رياست، پارٹی اور کسی قوم کی نمائندگی يا پرچار اپنے ہی مفادات کے اندر/خاطر کرے گی۔ اس طرح دنيا کا کوئی بهی مفادات بغير ميڈيا کے تشہير(اليکٹرونک اور پرنٹ) ميں نہيں آسکتی تو بلوچ قومی تحريک کے ہر تنظيم کی اپنی ايک ميڈيا ونگ ہے جو اپنی قومی تحريک کو اجاگر کرنے کيلئے اپنے مفادات کی خاطر استعمال ميں لاتی ہيں۔ اب آپکے جو بهی نظريات ہوں وه ظاہر ہے کسی زبان کے محتاج ہيں اور وه زبان بولنے والا اپنے کسی مفادات سے وابستہ ہے تو اسی زبان کی وابستگی اسی کے نظريات و مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔ لہذا نظرياتی وابستگی کے اپنے کچه ٹرمينالوجی ہيں جو آپکے اظہار کو آپکے مفادات کے خاطر ميں لاتے ہوئے بيان ہوتی ہيں۔ اسی طرح وه زبان آپکی عمل کی نمائندگی کرتی ہے۔ يہ زبان جتنا واضح اور غير مبهم ہوگا آپ اپنا پيغام يا نظريات کی پرچار آسانی سے کر پائيں گے۔ اس طرح بلوچ قومی تحريک کی ميڈيا ونگ کافی حد تک قابض کی ڈسکورس کو اپنے پرچار کيلئے استعمال ميں لاتی ہيں۔ لہذا اس سے آپ کا عمل غير واضح اور مبهم ہوگا۔ لہذا اپنے نظريات کی ڈسکورس کو مدنظر رکهتے ہوئے اپنے عمل کی نمائيندگی واضح الفاظ ميں کی جائے تو وه بہتر نتائج دے گی۔ اس طرح بلوچ ميڈيا ونگ کچه الفاظ کو غلط استعمال کرتی ہيں يہ جانے بنا کہ وه قابض کا ڈسکورس ہے۔ جيسا کہ “لاپتہ افراد” اس کا مطلب ہوا وه خود سے لاپتہ ہوا يا اپنے آپ کو لاپتہ کروانا اسکی خواہش تهی۔ اس سے يہ ظاہر ہوتا ہے ہميں يہ علم نے وه کس نے لاپتہ کيا؟ اگر ہميں اس بارے علم ہے کہ اسے قابض فورسز نے “جبرا گمشده” کيا ہے تو اسکا مطلب ہوا کہ ہم جانتے ہيں وه کس کے پاس ہے اور اس سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی گمشدگی ميں اسکی کوئی مرضی و منشاء نہيں تهی۔ لہذا اس سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے اس کو اپنے مفادات کی خاطر جبرا گمشده کيا ہے۔ دوسرا اکثر سرمچار جب کسی کمپنی پر حملہ کرتے ہيں تو اس کيلئے “ترقياتی کمپنی” کا نام استعمال کيا جاتا ہے۔ اس سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ يہ کمپنی بلوچ قوم کی رضا و منشاء سے ترقياتی کاموں ميں مصروف تهی۔ اسی طرح مقبوضہ رياستوں ميں کوئی کام قوم کی رضا کے خلاف ہوتا ہے تو اس سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ وه کمپنی ترقياتی نہيں بلکہ “استحصالی کمپنی” ہے۔ جو جبرا کسی وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ حالانکہ ايسا نہيں ہے کيوں کہ جب کوئی کمپنی اور رياست کسی مقبوضہ رياست ميں جاتے ہيں وه ترقی دينے کے زمرے ميں نہيں آتے۔ تيسرا اکثر موبائل ٹاورز کو نيست و نابود کرنے، ٹهيکيداروں/پوليس فورسز/کوئلہ ٹهيکيداروں کو تنبہی بيان ديتے ہيں کی “وه رياست کے ہاتهوں استعمال ہونے سے باز آجائيں ورنہ اپنے نقصان کا ذمہ دار خود ہوں گے”۔ اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کيا کمپنياں/پوليس فورسز/ٹهيکيدار يہ نہيں جانتے کہ يہ مقبوضہ رياست ہے؟ اگر انہيں معلوم ہے تو اسکا مطلب ہے وه رياست کی مرضی و منشاء کو مانتے ہوئے پرسنٹيج کو لے دے کر کام شروع کرديتے ہيں تو اسکا مطلب ہوا انہيں تنبيہ کرنا بے معنی ہے کيونکہ ان کا جتنا نقصان ہوچکا ہے وه اس سے کئی نسبت کما چکے ہيں اور يہ ان کی کمائی کا ذريعہ ہے۔ لہذا يہ سب بلوچ قوم کی منشا و رضا کے بغير استحصال کر رہے ہيں تو ان کو بهی قابض فورسز کے ہم پلہ مانتے ہوئے نيست و نابود کيا جائے۔ تو ميرے خيال ميں اس کيلئے کوئی وضاحت يا تنبيہی بيان دينے کی کوئی ضرورت نہيں؟ اگر اس چيز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو کم از کم اسے قابض کی زبان ميں نہ سمجهايا جائے بلکہ مقبوضہ کی زبان ميں سمجهانا بهتر ہوگا۔ چوتها جب قابض فورسز سرمچاروں پر حملہ کرتی ہيں تو وه اس عمل کو “آپريشن” کا نام ديتی ہے اسی طرح ہمارے ميڈيا نيٹ ورکس بهی انہيں اپنے بيان ميں آپريشن کا نام ديتے ہيں۔ حالانکہ آپريشن کے معنی ہيں کچه/کوئی/کسی کا عمل غلط ہے تو اس کو بهتر کرنے کيلئے يہ کيا جارہا ہے۔ حالانکہ سرمچار يہ جانتے ہيں کہ ہم اپنے فطری و قومی حق آزادی کيلئے قابض سے جنگ لڑ رہے ہيں اور ہمارا وطن مقبوضہ ہے۔ اس سب کے باوجود اسے آپريشن سمجهنا يا لکهنا کيا ہمارے نظرياتی عمل کی پرچار کرے گی؟ اگر ہم حق پر ہيں تو وه آپريشن نہيں ہوگا وه حملہ ہی تصور ہوگا کيونکہ وه ہمارے حق کے برخلاف ہميں کچلنا چاہتا ہے۔ پانچوں جب قابض فورسز حملہ يا جبری گمشده نميران بلوچوں کی لاشيں ہسپتالوں ميں يا خاندانوں کو واپس کرتے ہيں تو ان کيلئے “جانبحق” استعمال کيا جاتا ہے اسکا مطلب ہے انکا عمل صيح نہيں تها تو وه بے مقصد رياست سے الجه پڑے۔ حالانکہ ہمارے ميڈيا نيٹورکس بهی اسی انداز ميں اسے بيان کو پبلش کر ديتے ہيں يہ سوچے بغير کہ يہ ايک مقصد و نظريے کی خاطر دشمن کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہيد ہوئے چاہے وه ٹارچر سيل کی محاذ ميں ہو يا مسلح محاذ ميں ہوں۔چهٹا اکثر و بيشتر ہمارے نام نہاد لکهاری بهی يہ لکهتے ہيں کہ يہ قابض فورس کا بلوچستان پر پانچوں فوجی آپريشن ہے۔ کيا واقع يہ آپريشن ہے يا جنگ آزادی کو کچلنے کيلئے قابض فورسز اپنے قبضے کو دوام بخشنے کيلئے حملہ کرتی ہے۔ کيا يہ دانشمندانہ مذاق نہيں؟ قوم کی نظريات و مقصد کو بے مقصد گردان کر اس پہ پانی پهير کر آزادی کی شدت کو نارملائز کرنا نہيں؟ اس حوالے سے خير بشک مری کہتے ہيں کہ “شلوار کشتو ڈولو بيثہ عزت کيا خاک بچا”۔ ساتواں قابض کا جو آفيسر يا سياسی ليڈر مقبوضہ رياست ميں قدم رکهے گا تو وه قابض کا آفيسر يا سياسی آلہ ہی تصور ہوگا۔ تو اس کو واضح الفاظ ميں لکهنا آپ کے عمل کی وضاحت ہے۔ جيساکہ اکثر آزادی پسند ميڈيا نيٹورکس مقبوضہ بلوچستان کے وزير اعلی اور پاکستانی وزرا و آفيسرز کو انہيں کے رينک کے نام سے لکهتے ہيں۔ حالانکہ اسکا کا مطلب ہوا يہ وطن مقبوضہ نہيں ہے۔ اگر يہ لکها جائے تو بهتر ہے کہ مقبوضہ بلوچستان کا وزير اعلی يا مقبوضہ پاکستانی وزير، مشير يا فوجی تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وه ہم ميں سے نہيں اور ہم ان ميں سے نہيں۔