ہمگام کالم : سقراط بھی سوال پوچھتا۔۔۔۔۔سوچتا۔۔۔۔۔۔ اور سچ بولتا تھا۔ میں بھی اپنے دور کے ایک گہرے سوال پوچھنے ،سوچنے اور غضبناک حد تک سچ بولنے والے شخص سردار خیر بخش مری کو خوش قسمتی سے جانتا ہوں ۔
دوستوں ! میری اپنی سوچ ہے بہت سے دوست اس سے اختلاف بھی رکھ سکتے ہیں ،کہ قدرت کبھی اتنا ظالم ہوتا ہے کہ بہت سے شخصیات کو مطلوبہ دور یا وقت سے پہلے دنیا میں پیدا کرتا ہے،یا اسے اس دنیا سے موت کی صورت میں واپس لے جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر ہم صرف کچھ مثالیں لے اور سوچ لیں ،اگر شہید بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی مارچ 1931میں شہید نہ ہوتے اور40یا50سال مزید زندہ رہتے تو سوچ لیجیئے سوشلسٹ انقلاب کی آمد ہندوستان میں کتنے گہری اثرات چھوڑدیتا ؟ اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہو کہ ہندوستان تقسیم ہوتا اور نہ پاکستان بنتا اور نہ ہی روسی انقلاب بعد میں امریکہ اور پاکستان سے شکست کھاجاتا ۔
ایسی بہت سی ساری مثالیں دنیا کی تاریخ میں موجود ہیں جن میں شخصیات کے وجود کا گہرا اثر رہا ہیں۔اور صرف ایک شخصیت کی وجود یا عدم وجود کی وجہ سے پوری تاریخ کا پھانسا ہی پلٹ جاتا ہیں۔ زرا سوچیئے اگر خان اعظم نوری نصیرخان بلوچ سرزمین کی باقاعدہ حد بندی نہ کرتا،تو اس وقت ہم بحیثیت قوم کتنی Awkward پوزیشن میں ہوتے ؟
قارئین ! بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ شاید جزباتیت کا شکار ہوں،لیکن جب عقل اور دلیل کے ترازوں میں چیزوں کو تولتا ہوں تو حقیقت ہی کا گماں ہوتا ہےاگر نوری نصیر خان کے بعد بلوچ قوم کا کوئی فرزند اور حقیقی محسن رہا ہے تو وہ سردار خیر بخش مری ہی ہے۔ کیونکہ بعد میں آنے والے چند ایک بلوچ لیڈروں نے ضرور آزاد وطن کی خواہش یا کسی حد تک غیر موثر جدوجہد بھی کی ہو۔لیکن بطور مجموعی کوئی بھی رہنما بشمول خوانین قلات اس حد تک بلوچ سماج میں مکمل طور پر ایک Iconic جدوجہد کرکے یہ حیثیت حاصل نہ کرسکے ۔
نواب صاحب ایک ایسی شخصیت تھی،کہ وہ کبھی بھی حقیقی قومی پرستوں کے درمیان متنازعہ نہیں رہے ۔اور ان کی شخصیت اس لیئے بھی میری نظر میں مختلف رہی کہ وہ ایک نیم خوانندہ اور نیم قبائلی بلوچ سماج میں اپنے انقلابی اور سقراطی طریقہ کار سے بلوج سماج میں ایک ارتعاش پیدا کی۔ جن دوستوں کو نواب صاحب سے ‘حق توار’کی تعلیمی وتربیتی نشستوں میں اسٹڈی سرکل لینے کا تجربہ حاصل رہا ہو تو تویقیناً وہ اس بات کی گواہی دینگے کہ کس طرح وہ چھبتے ہوئے سوالات کے زریعئے بلوچ سیاسی ورکروں کا ضمیرکو جھنجوڑتے ۔
بلوچستان کے سب سے روایت پسند اور مضبوط قبیلہ مری کے سردار ہونے کے باوجود ایسی عاجزی کہ شاید ہم بلوچ تاریخ میں ڈھونڈ کے بھی نہ پا سکے۔روایات اور جدت کی آمیزش سے وہ ایک عظیم استاد اور رہنما تھے۔وہ اپنے ہم عصر لیڈروں سے اس لیئے بھی مختلف تھے،کہ وہ کبھی بھی سطحی اور مختصر دورانیہ کے سیاسی نعروں کا سہارا نہیں لیا کرتے ۔
اگر دنیا کے تاریخ کا بغور جائزہ لیاجائے ،تو ہمیں وہ رہنما سرخیل نظر آتے ہیں،جو کبھی بھی Populistنہیں رہے ہیں،اور نہ ہی Popularنعروں کو بنیاد بناکر وقتی جدوجہد کی ہو۔
نواب صاحب ہمیشہ اپنے دور کے لوگوں سے 10 قدم آگے کا ادراک رکھتے۔ جب وہ 90 کی دہائی میں وطن واپس آئے تو بلوچ رہنماوں اور سیاسی کارکنوں کے عمومی رائے یہ تھی کہ اس وقت کے انتہائی مقبول سیاست روڈ، بجلی، گیس اور کچھ شہری حقوق کیلئے غیر موثر پارلیمانی سیاست پونم یا تین جماعتی او کل جماعتی وغیرہ میں حصہ لینا چائیے ۔ لیکن تاریخ گواہ ٹھہری رہی کہ نواب صاحب اپنے دور بینی اور پختہ سیاسی ادراک کی وجہ سے ان سب حربوں کو رد کرتے ہوئے غیر مقبول انداز میں ‘حق توار’ کی اسٹڈی سرکلز کی غیر روایتی انداز میں بنیاد رکھی۔انقلابی بحث مباحثے تلخ سوالات conscientization یعنی خود تنقیدی شعور کے زریعئے یہ عمل جاری رہا۔
پھر دنیا نے دیکھ لیا ، کہ ‘حق توار ‘ سے تربیت یافتہ بلوچ فرزندوں نے کس طرح نا مساعد حالات میں انقلابی طریقہ کار سے پورے بلوچستان کے طول و عرض میں پیھل کر جدوجہد آزادی میں ایک مظبوط ستون کی حیثیت حاصل کرلی۔
نواب صاحب انتہا کی حد تک بلوچ قومی مزاج سے واقفیت رکھتے تھے ۔اگر ہم دیکھے اس وقت بلوچ سیاسی جماعتیں ہمیشہ غیر ضروری تنظیمی Hierarchyکی وجہ سے تقسیم اور الجھاو کا شکار رہی ہیں۔فضول بحث مباحثوں میں الجھتے رہے اس لیئے آپ نے اپنی تمام تر جدوجہد میں کبھی بھی اپنے لیئے عہدہ جیسے کہ چیئرمین ،صدر،چیف کمانڈر ،رہنما کا انتخاب نہیں کیا،اور نہ ہی ان کو مناسب سمجھا ۔
سردار خیر بخش مری جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ایسے لوگ اس عظیم لاوے کی طرح ہوتے ہیں۔جو اندر سے آگ بن رہے ہوتے ہے لیکن بظاہر وہ ساکت اور خاموش نظر آتے ہیں،اور جب یہ لاوا اپنے اندر کی گرمی اور آگ کو پیھلا دیتے ہیں،اس کی گرمائش اور اثر دور تک محسوس کی جاتی ہے۔اس عظیم رہنما کو بلوچ قوم اور دوسرے مظلوم ومحکوم اقوام کی باشعور طبقہ مدتوں یاد رکھے گی۔