ھمگام کالم

تحریر:  ڈاکٹر حضور بخش بلوچ۔۔

علاقے میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کیوجہ سے سوشل میڈیا میں کچھ دیکھنے اور اظہار خیال کرنے میں دشواری پیش آتی رہی ہے۔ لیکن وقفے وقفے کی رسد سے فاہدہ اُٹھاتے ہوئے فوراَ فیسبک کھول کر دوستوں کی آرا و خیالات سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اُس وقت دل ٹوٹ جاتا ہے۔ جب کہیں سے بھی دوستوں کی رّویوں اور سوچوں میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی۔

گویا ہم نے غلطیوں پر غلطیاں دھرانے کی قسمیں کھائی ہیں۔

ویسے تو قومی تحریک میں شامل تمام تنظیمیں اور شخصیات کم از کم میرے لیئے قابل_قدر و احترام ہیں۔ لیکن خود قائدین کو بھی اپنی قدر و قیمت کی احساس ہونی چاییے۔ کسی بھی تنظیم سے تعلقات نہ رکھتے ہوئے بھی ایک عام بلوچ یا سوشل ورکر کی حیثیت سے ہماری بھی کچھ قومی زمے داریاں ہوتی ہے۔ جو بوجوہ ہم سے نبھائے نہیں جارہے ہیں۔ اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ذاتی و گروہی وابستگی اور یاری دوستی کے تعلقات ہمیں سّچائی بیان کرنے اور حقیقت سامنے لانے سے روکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا میں بازاری دانشوروں اور حقائق سے بے خبر لوگوں کی بہتات نے غیر جانبدار لکھاریوں کیلئے ایک سوچ قائم کر رکھا ہے کہ اگر کوئی لکھاری اُنکے پسندیدہ تنظیم اور شخصیات کے حق میں نہیں لکھتا تو وہ مجرم ہے غدار ہے یا تحریک مخالف ہے۔ اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کہ اسطرح کے سخت الفاظ اور گالم گلوچ کی زبان استعمال کرنے والے ایکٹویسٹ کا زیادہ تر تعلقات کس فریق سے ہیں۔  خیر اللہ سب کو سنجیدگی و شائستگی کا توفیق عطا فرمائے۔ لیکن بہتر تو ہے کہ لوگ کسی بھی تنظیم یا شخصیات پر اُٹھائے گئے سوالات کا جواب حقائق و دلائل کی بنیاد پر دے کر سوال اُٹھانے والے کو مطمئن کر دے۔ واگر نا چیخنا چِلانا یا گالیوں پر اتر آنا کمزور مؤقف اور کمزور بیانیے کی دلیل ہے۔

اگر کسی کے پاس ٹھوس دلیل اور حقائق و شواہد پر مبنی جواب موجود ہو تو اُسے طیش میں آکر گالیاں بکنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ لیکن اگر کسی کے پاس جواب نہ ہو تو مجبوراَ اسے جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یا بد اخلاقی کے ذریعے سائل کو چھپ کرانے کی ضرورت پڑتی ہے۔

اور جب تک غیر جانبدار لوگ تحریک پر چیک نہیں رکھتے اُس وقت تک تحریک کا درست ٹریک پر چھڑنا ممکن نہیں۔ کچھ شخصیات کے فالور تو ہمیشہ یہ کہتے ہوئے بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ کہ لوگ کون ہوتے ہیں ہمارے لیڈروں اور جنگجو کمانڈروں پر سوال اُٹھانے والے۔۔؟

ہمارے لوگ کسی کے جوابدہ نہیں ۔ انہیں اپنے اچھے برے کا تمیز ہے۔ کسی کو یہ اجازت نہیں کہ ہمارے لیڈروں کمانڈروں کو کوئی مشورہ دیں۔ اس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسے لوگ اور انکے سربراہان اِس تحریک کو کس ڈگر اور کس سلیقے سے چلانا چاہتے ہیں۔

یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو تحریک پر کسی قسم کی قواہد و ضوابط اور احتسابی عمل کے حق میں نہیں ۔ اور جب تک تحریک آزادی کو اصولوں اور سخت قوانین کا پابند نہیں بنایا جاتا ۔ تب تک قربانیوں سے بھرپور اِس سفر کا کوئی انت یا منزل نہیں ۔۔

کیونکہ ایک گھر یا کنبہ بھی قواہد و ضوابط کے بغیر چلایا نہیں جا سکتا۔ تو اتنی بڑی قومی تحریک کو منشور و قانون کے بغیر کیسے چلایا جا سکتا ہے۔ کسی کو تحریک کے بانی رکن حیربیار مری سے اختلافات ہو سکتا ہے۔ لیکن اُنکے طرف سے ترتیب دی گئی چارٹر پر اختلاف نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بلوچ لبریشن چارٹر ( بی ایل سی ) دوران_جنگ اور بعد از جنگ ایک روڈمیپ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو اِس جنگ کو اصولوں پر چلانے اور آزادی کے بعد ایک جمہوری نظام تشکیل دینے میں کافی مدد دے سکتی ہے۔ میرے خیال سے میرے بہت سے دوستوں نے ابھی تک چارٹر کو یا تو پڑھا نہیں ہے یا پھر سمجھا نہیں ہے۔ واگرنا اس پر بحث کیئے بغیر اختلاف رکھنا بدنیتی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اللہ کی قسم اگر یہ چارٹر بی این ایم اور بی آرپی کے طرف سے آتا یا ڈاکٹر اللہ نظر یا کوئی اور آزادی پسند اسے مرّتب کرتا۔ تو اس پر عمل نہ کرنے یا اِتفاق نہ کرنے کی صورت میں میں حیربیار کو کبھی معاف نہیں کرتا۔ لیکن مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ مجھ جیسے ایک عام بلوچ کو چارٹر کی شق در شق پر کوئی اعتراض نہیں۔ تو ایک آزادی پسند دوست کو کس طرح اعتراض ہو سکتی ہے۔

بدنیتی پر مبنی ایک اور بیہودہ رائے یہ ہے کہ جناب حیربیار تو ایک سردار یا نوابزادہ ہے۔ یہاں بھی یہ سوال اُٹھتا ہے کہ آپ نواب مری کو کیونکر تحریک کا سرپرست اور پیغمبر کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ بھی تو نواب تھے۔ اگر نواب مری کو آپ اس لیئے رہبر و رینما مانتے ہیں۔ کہ انہوں تحریک کی بنیاد ڈالی ہے۔ تو حیر بیار اسی تحریک کو چلانے اور آگے لیجانے کیلئے بے پناہ مالی و اخلاقی قربانی دی ہے۔ بلکہ نواب مری کا فرزند ہوتے ہوئے ساتھیوں کی وجہ سے انہوں نے نواب صاحب سے بھی اختلاف_رائے رکھا۔ جسکی مثال شہید سنگت اسلم بلوچ کے وہ الفاظ ہیں جو آج تک تاریخ کے پّنوں پر محفوظ ہیں۔

میرے دانست کے مطابق سنگت حیربیار مری نے چار دفعہ پہل کرتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشترکہ جد و جہد کی دعوت دی۔ لیکن ہر بار انہیں کہیں سے بھی رسپانس نہیں ملی۔ بلکہ حیربیار کی بار بار کی اپیلوں سے تنگ آکر کچھ دوستوں نے غیر فطری و غیر حقیقی اِتحاد کرکے اسے قائم نہ رکھ سکے۔ کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ براس اتحاد کا کیا بنا۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ بی این اے کی پوزیشن کیا ہے۔

اگر یہ سب کچھ حیربیار کو تنہا کرنے اور قوم کو بیوقوف بنانے کیلئے کیا گیا تھا۔ تو نتیجہ تو یقیناَ یہی نکلنا تھا۔ کہ اِتحادی آپس میں ایک دوسرے کے لوگوں کو اُٹھاہیں۔ یا پھر مال مڑی کیلئے آپس میں لڑ پڑیں ۔ لیکن اگر اِتحاد تحریک کو کامیابی سے چلانے کیلئے کیا جاتا تو آج آدھے سے زیادہ سفر طے ہو جاتا ۔

آج بھی کچھ نہیں بگڑا ۔ جن اصولوں کی بنیاد پر سنگت حیر بیار نے اِتحاد کی پیشکش کی ہے۔ اگر کسی کو پسند نہیں تو وہ اِتحاد سے دور بھاگنے کے بجائے اپنی تجاویز سامنے رکھکر فیصلہ کریں۔

لیکن اِتحاد کی کال کو حیربیار کی کمزوری سے نتھی کرکے ٹکرانا خود تحریک کیساتھ انصاف نہیں ہے۔ پہلے تو یہ بہانہ کیا گیا تھا کہ جی ہمارے پاس تنظیم ہیں اور حیربیار ایک فرد ہے۔ لیکن آج حیربیار ایک تنظیم ( ایف بی ایم ) کے سربراہ ہیں۔ اب تو انڈویجویل یا فرد کا کوئی بہانہ نہیں بنتا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے۔ کہ کچھ دوست اِس تحریک اسی طرح ماورائے آہین و قانون اور احتساب و انضباط کے بغیر چلانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اور انہیں ڈر ہے کہ ایک متحد و منظم تحریک میں وہ اپنی من مانیاں نہیں چلا سکتے۔ ان حضرات کو کسی بھی ضابطہ اخلاق اور اصولی و قانونی روک ٹھوک کی برداشت نہیں۔

تحریک کے نام پر جس جس نے ریلیف حاصل کیا وہ سب کے سامنے ہیں۔ اس پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک نوازادہ ہوتے ہوئے دنیا کی خوشیاں اور مسرتیں ٹکرا کر حیربیار نے تنہائی و گمنامی کی زندگی کو ترجیح دی۔ وہ چاہتے تو ریاست پاکستان کے ہر انتخابات میں حصہ لیکر وزیر بنتے نوابانہ و سردارانہ شان و شوکت کے ساتھ لگژری گاڑیوں اور بنگلوں میں عیاشی کی زندگی گزار سکتے۔ مگر انہوں نے قوم و وطن کی خاطر سختیاں جھیل کر جْوانی کے ایّام اپنے والد کے ہمراہ جلاوطنی میں گزارے ، لندن میں جیل کی صعوبتیں برداشت کی۔ اپنی بیمار اہلیہ کی تیمار داری بھی خود کی۔ حالانکہ اپنی زاتی دولت سے عیادت کیلئے بہترین نرس یا نوکرانی بھی رکھ سکتے تھے۔

چاہتے تو اپنی قریبی ساتھیوں کو یا اپنے خاندان کے فرد فرد کو انگلینڈ یا یورپ کے کسی بھی ملک منتقل کر سکتے تھے۔ لیکن دو چار ساتھیوں جنکا اُنکی خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔ لندن لیجانے میں مدد کی ۔

اگر حیر بْیار کا موازنہ ہم دیگر دوستوں سے کریں۔ تو اُنکی خاندانی حیثیت اور مالی حالت سے پوری بلوچستان واقف ہے۔ جنہوں نے اپنے خاندان کو تحریک کے نام پر اور مختلف ممالک میں منتقل کر دیا۔ کسی نے یہ پوچھنے کا گوارا نہیں کیا۔ کہ بھائی نے کس وسائل و زرائع سے اپنے خاندانوں کو نوازا ہے۔ کیا یورپ اور خلیج میں کوئی متاثرہ غریب فرد یا خاندان کو ریلیف دیا گیا۔۔؟

خود کو اور اپنے اہل خانہ کو محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کرنا بری بات نہیں لیکن اُن غریب شہدا اور لاپتہ افراد کے گھر والوں کا خیال رکھنا چاہیے جنہوں نِے اپنی سب کچھ تحریک پر قربان کرکے اپنی خاندانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔۔