آزادی کے اس کھٹن سفر میں لامعدود دشواریوں و مشکلات کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔ہر چند کہ آزادی کے قدم گھوڑوں کے ٹاپوں کی مانند زمین کو چیرتے ہوئے رستہ بنالیتے ہیں تو ریاستی جبرواستبداد کی ربط کو اور بھی تیزی سے رستہ مل جاتا ہے۔قومی تحریکوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل اُس وقت سرگرداں ہوتا ہے جب ریاستی جبر کو اندرونی طاقتوں سے تقویت ملتی ہے انھی طاقتوں کی وجہ سے تحریک کی چنگاریوں میں کبھی کبھی دھیمی آنچ دکھائی دیتی ہے ۔ایسی گہماگہمی میں صورتحال اسطرح گمبھیر بن جاتا ہے کہ تحریکِ آزادی کی طرف عوامی رجحان میں بے انتہا کمی آتی ہے۔انہی طاقتوں کے بل بوتے پر ریاستی جبر و بربریت کی لکیروں میں بے ضابطگی سے وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور عوامی رُجحان کو اپنی طرف راغب کرکے قومی تحریکوں کو کچلنے کیلیئے ہزارآں ہھتکنڑے ترتیب دیئے جاتے ہیں۔
ریاستی چالبازی زیرِغور سماج کے ہر اُس پہلو تک اپنی رسائی کو تیزتر کرتا جاتا ہے جہاں انقلابی تحریکوں کے اثرات برسرِپیکار ہوئے ہیں۔معصوم عوام کو جھوٹی تسلی و اُمیدِ زندگی کی چّکی میں پیس پیس کر انکو محدود سہولیات سے ہمکنار کرکے بڑی آسانی سے اُنکی فکری و نظریاتی سوچ کو ظلم کے پاؤں تلے  روند روند کرآزادی کی راہ سے قلع قمع کرنا تو اسٹیبلشمنٹ کے چالوں میں تو ایک اہم وکارآمد جزو بنکر رہ گیا ہے۔اب عوام کی  بیداری ہی سے اُن کی آنکھوں میں بندھی کالی پٹی کو کھول کر قومی تحریک کو لاحق ایسی رکاوٹوں سے نجات دہندہ کیا جاسکتا ہے ۔
       قومی تحریکیں اُس وقت کامیابی سے آگے بڑھتی ہیں جب قوم کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ انکی طریقہ ِ کار کو تسلیم کرکے جدوجہد کو سراہتے ہیں اور معاشرے سے جُڑے ہر اُس مسلئے سے اُنھیں آشنا کرتے ہیں ، ہر اُن انکفاشات کو جو قومی تحریک کے اگے مستقبل میں رکاوٹ بن سکتی ہیں سے عوام کو سیاسی طرزِعمل سے آگاہی فراہم کرتے ہیں۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے پارلیمانی سیاستدانوں نے اسٹیبلشمنٹ کی کھٹ پُتلی بن کر عوام کو اپنی دو پاٹوں والے بے بنیاد سیاست میں پیس کر اُنھیں تحریک آزادی سے روکے رکھا ہے۔
        یہ تو یقیناََ ایک غیرممکنہ ردِعمل ہوتا ہےکہ جو قبضہ گیر ریاست سرِعام ہماری بہنوں ، بچوں اور ماؤں کو بڑی بے دردی سے جبراََ گمشدہ، مسخ کردہ نوجوانوں کی لاشیں اجت ماری قبروں میں دفن کرتا ہے وہ  کیسے اس عوام کی حقیقی غمخوار و دردوار بن سکتی ہے۔جو بات آج ہر بالغ و نابالغ کو صحیح معنوں میں سمجھ آتی ہے تو کیسے  ایک پارلیمانی سیاستدان اپنے آپ  کو اِس سے نا آشنا کروکتا ہے۔اور یہ ڈھونگ رچائےاسمبلی میں بیٹھ کر انقلابی لفاظی کرتے ہیں کہ یہ مسلئے گُفت و شنید سے حل ہوسکتے ہیں۔وہ ریاست جو ساری دنیا میں باقائدہ رُسوائی و بے غیرتی کا ایک جامع مثال بن چُکا ہے اُس سے مراعات کی توقع کیا رکھی جاسکتی ہے۔ سماج میں بیٹے ہر پہلو سے تعلق رکھنے والے لوگ  یہ جانتے ہیں  کہ اسی ریاست کی شدت سے  بڑھتے ہوئے جرائم ، ظلم وستم ، جبر ی گمشدگیوں کی وجہ سے ہمارے بلوچ نوجوان ایک طرف مسلح جدوجہد تودوسری طرف بین الاقوامی سیاست کا سہارا لیتے ہوئے اپنی آزادی و خُودمختاری کیلیئے انتھک اجتہاد کر رہے ہیں۔اور اسکے بر عکس ایسے  قبضہ غیر کیسے ہمیں اُمیدزندگی عطا کر پاتے ہیں۔
         ریاست انکو اپنا مہرہ بنا کر ہم ہی کو ہم ہی سے کچلنے کے درپے ہے لیکن یہ جانتے ہوئے بھی ہمارے پارلیمانی سیاستدان قبضہ غیر کے ساتھ مل کر بلوچ نسل کُشی کے باقاعدگی سے حصہ دار ہوچکے ہیں۔
پارلیمانی سیاست دانوں نے عوام کی بے روزگاری و مجبوری کو اُنکی کمزوری سمجھ کر اُنھیں اپنا غلام بنائے رکھا ہے۔ ان پارلیمانی سیاست دانوں کا قومی تحریک سے ہم آہنگی کے ثبوت یہ ہیں کہ یہ اُن پاکستانی میجروں کے ساتھ گپیں لڑاتے ہیں جو مظلوم بلوچوں کی نسلی تباہی اور گھروں کو جلانے میں ملوث ہیں۔جب منظرِعام پر وہ ایسا کرسکتے ہیں تو پیٹ پیچھے ہمارے ساتھ کیا کرتے ہونگے۔ بلوچستان میں چاہے بی این پی مینگل ہو ، نیشنل پارٹی ہو، یا پھر بی این پی عوامی و دیگر پارٹیاں ہوں ان سب کا مقصد العین قومی تحریک کو جَڑ سے اُکھاڑنا ہے۔اگر ایک سیاسی کارکن محلے میں بنے نشے کے اڈوں کے خلاف مہم جوئی نہیں کرسکتا تو اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی بھلائی کیلیئے یہ لوگ اسمبلی میں بھیٹتے ہیں۔
          اہن پارلیمنانی سیاست دانوں کو باقائدگی سے درس دے کر اقتدار میں لایا جاتا ہے تاکہ وہ مذہبی فرقہ واریت، شدت پسندی، نشے کاپھیلاؤ اور عوامی کمزوریوں کو معمولی سے مراعات دے کر اُنھیں تحریک آزادی سے یک طرفہ کرلیں۔
       بلوچ عوام کو آگاہ ہونا چاہیے  کہ یہ سیاست دان کبھی بھی ہمارے ہم بازو نہیں ہوسکتے ۔کچھ سہولیات کیلیئے ہر وقت ہمیں دربہ در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں، تو یہ خاک ہمیں آزادی دلا سکتے ہیں ۔ اختر مینگل، ڑاکٹر مالک ، ثنالّلہ زہری، خالد لانگو و دیگر سامراجی پٹو سب ہمارے بے گناہ و معصوم لوگوں کے قتلِ عام میں برابر کے شریک ہیں۔پس بلوچ قومی لباس اوڑھے ریاستی گِدھ کی طرح ہمیں ہر لمحے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔