بلوچ قومی جنگ کے گلاٹی ماسٹرز
تحریر: ثناء بلوچ
ہمگام کالم:
گلاٹی یا کلابازی کھانا ایک ہنر ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یقیناً ہم سب نے اپنی زندگی میں ایسے بہت سے کلاباز دیکھے ہونگے جو وقتاً فوقتاً ایسی کلابازی یا گلاٹی مار کر 360 ڈگری میں اپنا رخ کچھ اس طرح بدلتے ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں کہ بھائی ہوا کیا؟ ایک پل میں منہ مشرق کی طرف تو پلک جھپکتے ہی منہ مغرب کی طرف مڑ جاتا ہے، جسے دیکھ کر تماشائی بھی دنگ رہ کر ان کی اس گلاٹی و کلابازی کی مہارت پر تالیاں بجانا شروع کردیتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سیاسی گلاٹی ماسٹر دیکھا یا سنا ہے؟ یقینا یہ بات سن کر آپ سب حضرات کے ذہن میں کم از کم کسی ایک شخص کی تو تصویر آئی ہوگی جو اپنی گلاٹیوں کیلئے کافی مشہور ہوگا۔ تو صاحب کچھ ایسے گلاٹی ماسٹرز ہمارے بلوچ قومی تحریک میں بھی موجود ہیں۔ شاید لفظ کچھ کہنا مناسب نہ ہوگا کیوں کہ انکی تعداد حالیہ دور میں کافی حد تک بڑھ چکی ہے، ان میں سے کچھ میجر ہیں، کچھ ماسٹر مائینڈز تو کچھ جناب چیف ہیں۔
تو چلیں آپ صاحبان کو دیکھاتے ہیں ایسے ہی کچھ گلاٹی ماسٹرز کی گلاٹیاں جنہیں دیکھ کر آپ سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ جائیں گے اور سب ان جناب کی گلاٹیاں دیکھ کر نا چاہتے ہوئے بھی ان کے فین بن جائیں گے (نوٹ: گلاٹیاں دیکھ کر تالی بجانا ہرگز نا بھولیں)، تو جناب سب سے پہلے آپ کے لئے پیش خدمت ہیں ماسٹرمائینڈ استاد اسلم بلوچ جن کی گلاٹیاں دیکھ کر آپ ضرور ان کی اس مہارت کے قائل ہوجائیں گے۔
جناب اپنی تحریر حماقت کی انتہا میں BLA کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ” 2000 سے لیکر آج تک اس تنظیم نے نہ تو عددی اعتبار سے کبھی اپنے ارکان کے بارے میں کوئی دعوی کیا اور نہ ہی اپنی قیادت کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کیں اور نہ ہی عہدے یا ذمہ داریوں کے حوالے سے سپاہی سے لیکر کمانڈر تک کسی بھی ایسے ایک فرد کی تعریف کی جسکو تنظیمی شناخت کے حوالے سے پہچاناجاسکے ماسوائے تنظیم کے اْن ساتھیوں کے جن کے قتل کے بعد انکی شہادت کو لیکر انکی کارکردگی و کردار کے حوالے سے قوم کو معلومات فراہم کئے گئے۔ قابض دشمن کی طرف سے اس تنظیم کے ارکان کے خلاف مقدمات انکے سر کی قیمت مقرر کرکے ان کے خلاف جو بھی معلومات عوامی سطح پر لائے گئے ان اقدامات سے قطع نظر تنظیم کی ترجمانی کے حوالے سے بھی مختلف فرضی نام میڈیا کو فراہم کئے گئے ہیں اور اب تک الیکٹرانک میڈیا پر انٹرویوز وغیرہ میں بھی اپنے ممبران کی اصل شناخت کو مخفی رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ شھید بالاچ مری جب جلاوطنی ترک کرکے وطن لوٹے اور پارلیمنٹ سے ہوتے ہوئے جب مسلح جدوجہد کا فیصلہ کیا اور اپنے آبائی علاقے میں مسلح ہوکر اپنے مسلح ساتھیوں سمیت ریاست سے جنگ کا آغاز کیا تب سے تا وقت شہادت بالاچ مری نے نہ تو تنظیم کے حوالے سے اور نہ ہی کسی تنظیمی عہدے یا قیادت کے حوالے سے کوئی بھی دعویٰ کیا اور نہ ہی بحیثیت تنظیم BLA نے کبھی شہید بالاچ مری کے لئے اس کی زندگی میں ایسی کوئی تنظیمی شناخت ظاہر کی۔ شروع دن سے لیکر آج تک تنظیم کی کاروائیاں اور انہی کاروائیوں کے بل بوتے پر قومی سوچ کا پرچار اور مجموعی کارگردگی ہی تنظیم کی شناخت بنی رہی۔ شخصی شناخت سے آزاد اس تنظیم کی پہچان شروع سے ہی قومی سوچ و اجتماعی قومی مفادات کی نگہبانی رہاہے”۔
جناب اسلم بلوچ نے جو لکھا وہ 100 فیصد صحیح ہے BLA ایک ایسی تنظیم ہے جہاں نہ کبھی کسی کمانڈر لیڈر یا ورکر کی نمائش کی اور نہ ہی کسی کو ایسا کرنے کی اجازت دی گئی، مگر جناب کو عملی طور پر گلاٹی کھاتے دیکھیں کہ جب جناب BLA سے معطل کیے جاتے ہیں تو BLA کا نام استعمال کرتے ہوئے ایک گروہ تشکیل دیتے ہیں جہاں وہ اپنی ہی کہی باتوں کی دھجیاں اڑاتے ہوے حماقت کی ہی انتہا پار کردیتے ہیں BLA تھوڑتے ہی جناب کی نئی تصویریں اور ویڈیوز کا آنا شروع ہوجاتا ہے۔ جہاں استاد اسلم بلوچ خود کہتے ہیں کہ نہ BLA نے کبھی اپنی لیڈر شپ کے بارے میں کوئی میڈیائی بیان جاری کیا اور نہ ہی کسی شخص کو میڈیا میں لاکر ان کی شوبازی کی جو بلکل سچ ہے لیکن دوسری جانب دیکھیں تو استاد اسلم خود وہی سب کچھ کر بیٹے جو وہ نہ کرنے کی صلاہ دوسروں کو دے رہے تھے، معطل ہونے کے فوراً بعد ہی BLA کا ایک گمنام سپاہی سے ایک ہیروازم کا شکار شخص نظر آنے لگتے ہیں جہاں وہ کہیں خود کو BLA کا بانی تو کہیں مختلف واقعات کا ماسٹر مائنڈ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ فدائیں ساتھیوں کو ٹریننگ دیتے ہوئے ان کے ویڈیو کا سامنے آنا اور حملے کے دوران ہونے والی گفتگو کا آڈیو ریکارڑ سوشل میڈیا میں شیئر کرکے استاد اسلم نے دشمن کے کام کو آسان کیا، اگر یہ رازداری کی بنیاد پر کیا جاتا تو شائد دشمن کو سالوں لگتے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آخر ان حملوں کے پیچھے کا ماسٹر مائنڈ کون ہے مگر جناب دشمن کا کام آسان کرتے ہوئے نمود و نمائش میں مگن شخص ویڈیو اور آڈیو شیئر کرتے ہوئے اپنے فینز سے خوب واہ واہ و تعریفیں سمیٹ لیتے ہیں اور اس کے بعد جن نقصانات کا سامنا کرنا پڑا وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔ اسلم بلوچ کی شہادت کے بعد معطل ٹولے سے ایک اور ہیروازم کا شکار شخص جناب چیف سامنے آجاتے ہیں جہاں انہیں اس نقصان سے سبق سیکھنا چاہیے تھا اور اپنی کہی باتوں کے مطابق لیڈر شپ کو راز رکھنا چاہیے تھا مگر میجر صاحب کا صحبت ان پر اتنا ہاوی ہوچکا تھا کہ جناب رازداری کے نقصان اور فائدے کو سائیڈ میں رکھتے ہوئے اپنے نمود میں میڈیا میں آتے ہوئے فرما تے ہیں کہ جناب میں ہوں معطل ٹولے کا نیا چیف و سربراہ۔ جہاں وہ ایک کمرے میں بیٹھ کر ہزاروں کلومیٹرز کا سفر طے کرتے ہیں، جن کی بنیاد صرف اور صرف جھوٹ پر مبنی ہے۔ چیف صاحب اپنے ناول نما انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ہم گریٹر بلوچستان پر یقین رکھتے ہیں اور ایران کے پراکسی نہیں ہیں۔ چلو خیر پوری دنیا یہ جو آپ پر الزام لگارہی ہے وہ سب جھوٹ ہے جو آرٹیکلز و تحریریں سی آئی اے، انڈیا و امریکی رپورٹر اور ایجنٹ لکھ رہے ہیں وہ سب جھوٹ ہیں مگر واجہ شمبے جو ایرانی سکیورٹی فورسز کے مابین بیٹھے ہیں اور سرعام فخر سے یہ کہتے ہیں کہ میرے ایران کے ساتھ تعلقات ہیں ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ کچھ وقت قبل جب یو بی اے کے ساتھی بگان میں قائم ایف سی کی چوکی پر حملے کرتے ہیں اور ایف سی کی طرف سے کی گئی گولہ باری میں ایک گولہ نام نہاد گولڈ سمیت لائن کے اس طرف جاگرتا ہے، جس کے فورا بعد واجہ شمبے یو بی اے کے ساتھیوں کو فون کرکے کہتا ہے کہ “ان بارڑری علاقوں میں فوج کو نشانہ نہ بنائیں گجر مجھے تنگ کررہا ہے کہ سرمچاروں کی وجہ سے بارڑر کے اس پار حالات خراب ہورہے ہیں”۔ یہاں جناب چیف صاحب یہ بتائیں کہ آپ ایک طرف ایران کے پراکسی کے ساتھ بیٹے ہوئی ہیں جو آپ کے نام نہاد براس کا اتحادی ہے تو دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ ہم ایران کو نہیں مانتے تو جناب یہ ہمارے پلے نہیں پڑتا ان باتوں کو آپ خود ہی سلجھا کر ہمارے سامنے لائیں۔ اس کے علاوہ چیف صاحب 2014 میں اپنی تحریر آزادی کی شاہراہ پر مختصر سفر کچھ تضاد میرے سامنے میں ڈاکٹر اللہ نظر، خلیل، واحد قمبر و حمل حیدر سمیت کئی لوگوں کے بارے میں بہت کچھ لکھتے ہیں جہاں بہت سے لوگوں کو اتحاد کا دشمن، دھڑا باز و بہت سے القابات سے نوازتے ہیں اور سنگت ہیربیار مری کی تعریفوں کے پُل باندتے نہیں تھکتے مگر چیف صاحب کی گلاٹیوں سے ہم سب خوب واقف ہیں جب انہیں معطل کیا جاتا ہے تو جناب یو ٹرن لے کر اس طرح سے اپنا سمت تبدیل کرتے ہیں کہ کیا کہیں۔ یو ٹرن لیتے ہی دھڑا باز، اتحاد دشمن و آزادی سے دستبردار لوگ فرشتے بن جاتے ہیں اور ہیربیار مری تحریک کا وِلن۔ شاید ایسا ہی ہو کہ ہیربیار وِلن اور باقی حضرات فرشتے ہیں مگر چیف صاحب زرا تکلیف کرکے ایک اور آرٹیکل لکھیں جہاں وہ ان تمام باتوں کا خلاصہ کریں کہ وہ کون سی چیزیں تھیں جن کی بنا پر سب کچھ الٹ گیا، وہ جو دھڑا باز و اتحاد دشمن تھے وہ کس طرح اتحاد کے تارے بن گئے اور وہ جو تحریک کا بانی تھا کس طرح ولن بن گیا وہ بھی اچانک سے۔
ایک دفعہ پھر لوٹ چلتے ہیں استاد اسلم کی جانب، جہاں 11 فروری 2017 کو صاحب اپنی تحریر “درست سمت” میں فرما تے ہیں کہ “ایک قوم دوست اور محب وطن قومی مفادات کے منافی کسی بھی عمل کی نشاندہی کرسکتا ہے اس پر تنقید کرسکتا ہے اسکی تشریح وضاحت کیلئے بحث مباحثے کرسکتا ہے بحالت مجبوری اسکی مذمت کرسکتا ہے عملی طور لاتعلقی سے اور عملی طور پر بہتر عمل سرانجام دینے سے اسکے خلاف شعوری آگاہی پھیلا سکتا ہے لیکن اسکی بنیاد پر ہرگز گروہیت کو ہوا نہیں دے سکتا قیادت کا مسئلہ پیدا کرکے ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچ سکتا مخصوص حلقے بناکر دھڑے بازی کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے تنگ نظری قدامت پرستی و موقع پرستی کیلئے سازگار ماحول پیدا نہیں کرسکتا اپنے ساتھیوں و عوام کیلئے عقیدہ پرستی و لکیر کے فقیربنانے والے رجحانات کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا”۔
سچ میں؟؟؟ اختلافات کی بنیاد پر کوئی گروہیت کو ہوا نہیں دے سکتا، قیادت کا مسئلہ پیدا نہیں کرسکتا، ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچ سکتا، مخصوص حلقے بناکر دھڑے بازی کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے تنگ نظری قدامت پرستی و موقع پرستی کیلئے سازگار ماحول پیدا نہیں کرسکتا۔
جناب کے وچار تو بہت اچھے تھے تو پھر آخر ہوا کیا کہ جناب اپنی ہی باتوں سے مُکھر گئے اور خود ہی انہی سب اعمال کو کرنے ذریعہ بنے جن میں گروہ بندی، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا، مخصوص حلقہ بناکر دھڑہ بازی کرنا اور کئی اور اعمال یہ سب کچھ کیاہے؟ BLA کو تھوڑ کر اپنا ایک الگ گروہ بنایا، وہاں پر ہیربیار مری کے خلاف کئی جھوٹ و منگھڑت کہانیاں بنا کر ان کی ٹانگیں کھینچیں جھوٹ کا سہارہ لےکر اپنی ذاتی یا گروہی مفادات کی خاطر حلقہ بندی کی حوصلہ افزائی بھی کی اور ان کے ان اعمال نے جس قدر بلوچ قوم کو نقصان پہنچایا شاید ہی کوئی اور ایسا کر پایا ہوگا۔ اسلم بلوچ کے ان ہی اعمال کی وجہ سے قومی تنظیموں میں ایک گروہ بندی شروع ہوئی ہے جہاں آج اسلم، بشیر و شمبے BLA اور BRA کا نام استعمال کررہے ہیں اگر اسی طرح رہا تو شاید وہ وقت دور نہیں جب ہر تنظیم کے چار چار ٹکڑے ہمیں دکھائی دیں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے دشمن کو بھول کر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑیں گے اور ان کا میں بذات خود سب سے بڑا ذمہ وار میجر صاحب کو قرار دوں گا کیوں کہ اگر ہم وقت سے کچھ پیچھے چل کر دیکھیں تو جب بھی کبھی کسی تنظیم میں کسی کمانڈر یا رکن کا لیڈرشپ سے کوئی مسئلہ ہوا ہو تو جناب ثالثی کا کردار ادا کرنے کی بجائے ان کے مسائل کو مزید پیچیدہ کرکے انہیں ناقابل حل حالت میں لاکھڑا کرتے رہے، لیکن میجر صاحب کو پتا ہونا چاہیے کہ جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتا وہ ایک دن اسی میں ہی گر جاتا ہے۔
ان سب باتوں سے یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ ماسٹر مائنڈ، چیف و میجر صاحبان یو ٹرن لینے میں ذرا بھر بھی نہیں ہچکچاتے، آج کل حضرات یو بی اے کے حوالے سے ایک اور منافقانہ عمل شروع کرچکے ہیں کہ ہیربیار مری نے یو بی اے اور بی ایل اے کے درمیان جنگ شروع کرکے برادر کشی کی ہے تو صاحبان کے اسی منافقانہ عمل کا جناب استاد اسلم کے تحریر سے جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ استاد اسلم بلوچ یو بی اے کے حوالے سے اپنی تحریر “زامران مری کا موقف حقائق کے تناظر میں” میں لکھتے ہیں کہ “سنگت حیربیار مری کی گرفتاری کے بعد یہ سلسلہ بھی زامران مری کے کرپشن کی نظرہوا اور رک گیا بطور ثبوت میں یہ بات سامنے رکھوں گا کہ زامران مری اپنی پوری زندگی میں یہ ثابت نہیں کر سکے گا کہ اس نے ایک بندوق بھی خریدی ہو بدقسمتی سے چند دوستوں خاص کرسنگت حیربیار مری کی مخلصانہ محنت اور کارکردگی پر ڈاکہ یا شب خون کو ذاتی ملکیت قرار دینے کی جوسرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں وہ آج قوم کے سامنے ہیں، اس دوران اس تمام صورتحال سے استاد قمبر اور ڈاکٹر اللہ نذر کو آگاہ رکھا گیا تاکہ وہ کوئی بہتر کردار ادا کرسکیں مگر جو بھی ہوا وہ مایوس کن تھا اوربلوچ عوام سے پوشیدہ نہیں ….ذاتی ملکیت قرار دے کر مڈی پر قبضہ اور یو بی اے کی کارکردگی بھی آج قوم کے سامنے ہے تین مرتبہ ساتھیوں کو قتل کرنے کی کوششیں بھی ہوچکی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ زامران مری براہ راست جہد کار ساتھیوں کو قتل کروانے کی سازش میں ملوث ہے”۔
مندرجہ بالا لکھی سب باتیں میری نہیں استاد اسلم کی ہی ہیں اگر جھوٹ ہیں تو وہ بول رہے تھے اور اگر سچ ہیں تو وہ کس بنیاد پر آج قومی مڈی چور و قومی ساتھیوں کے قتل میں ملوث شخص کے ساتھ بیٹھے ہیں؟ یہاں پر کچھ سوال پوچھنے کی گستاخی کروں گا، ایک یہ کہ اوپر آپ ہمارے قابل احترام لیڈر اللہ نظر (وہ لیڈر جس نے اپنی زندگی بلوچستان کے پہاڑوں میں جنگ لڑتے ہوے گزارنے کا قوم سے وعدہ کیا تھا۔ نوٹ: کچھ بےوقوف لوگ کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب باہر ملک میں ہیں اور پیچھے پہاڑوں کی تصاویر لگائے ویڈیو شائع کررہے ہیں وہ بلکل غلط ہیں) اور واحد قمبر کو ان تمام حالت کے مطابق آگاہ کیا تھا، بجائے اس کے کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرتے انہوں نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا تو آج آپ ہم سے اس بات کی کیسے توقع رکھتے ہیں کہ ہم ان پر بھروسہ کرلیں کہ آپ صحیح اور ہیربیار اور ان کے ساتھی غلط ہیں، وہ جو کل منافق تھے آج کس طرح فرشتہ بن گئے؟ سمجھ سے باہر ہے، وہ جو قومی ساتھیوں کے قتل کی کوشش میں اور قومی مڈی کے چوری میں ملوث تھے کیسے بے گناہ ثابت ہوئے؟
ہم آپ کے جواب کے منتظر ہیں کہ آپ نے جو یہ ساری تحریریں لکھی ہیں کن بنیادوں پر لکھی ہیں؟ اگر یہ ساری باتیں جھوٹ ہیں تو آپ نے ہم سے کیوں جھوٹ بولا اور اگر سچ ہیں تو کیوں آج آپ محافظوں کے ہمراہ منافقی کررہے ہیں اور مزید پیچیدگیاں پھیلانے کے لئے کوشاں ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آئندہ کچھ سالوں بعد آپ ایک اور گلاٹی مار کر انہیں پارسہ و فرشتہ نما افراد کے بارے میں سازشیں قرار دینا شروع کردیں اور اس جنگ میں مزید پیچیدگیاں پیدا کریں۔ ویسے بندر چاہے جتنا بھی بوڑھا ہوجائے گلاٹی مارنا نہیں بھولتا(نوٹ: بندر یہاں بس ایک مثال کے طور استعمال کیا گیا ہے یہاں کوئی بھی شخص خود کو بندر سے تشبیح نہ دے)