تحریر: شہزاد بلوچ
ہمگام کالم:
الفاظ کی جنگ میں جیت ہمیشہ دلائل، راست گوئ اور سچائی کی ہوتی ہے۔ ایک لکھاری کے لیے واجب ہے کہ خلوصِ نیت اور انتہائی شیستاگی سے اپنی تحریر دلائل اور سوچ و فکر سے اس انداز میں پیش کرے کہ اختلاف رائے رکھنے والے بھی غوروفکر سے تحریر کو پڑھیں اور اپنی اپنی رائے دلائل اور راست گوئی سے کسی الزام کی بابت انتہائی نفیس انداز میں پیش کرے.
چونکہ بلوچ قوم ستر دہائیوں سے پاکستانی زیر تسلط رہی ہے تو نفسیاتی اور سماجی طور پر اپنی اپنی سیاست کو اس پاکستانی سوچ اور طرز سیاست سے مکمل آزاد نہیں کر پائے۔ قابض کی سیاست، عسکری طرزعمل کے بہت سے ستون بلوچ قومی جہد میں یکسانیت رکتے ہیں۔ مثلاًپاکستانی فوج اپنے ہی شہریوں کو ہر لحاظ سے اس طرح پابند کئے ہوئے ہے کہ پاکستان اگر قائم و دائم ہے تو وہ فوج کی بدولت ہے اور باقی سب غدار اور کرپٹ عناصر ہیں۔ اسی سوچ کو پروان چڑھا کر فوج دفاع کے نام پر 80 فیصد بجٹ ہڑپ کر اپنی ہی قوم کو اپنے قاتل سپاہیوں کی موت کے قصیدے سنا سنا کر غلام بنائے ہوئے ہے۔
اگر کوئی پاکستانی اپنی فوج کے کرپشن، 93000 فوجیوں کی بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں انڈیا کے سامنے سرنڈر کی بابت سوال کرتا ہے تو اسے غدار یا ایجنٹ قرار دے کر ماورائے عدالت قتل کر دیا جاتا ہے اور اپنے اس عمل کو درست ثابت کرنے کے لیے اپنی مرتب کردہ سوشل میڈیا ٹیم کے زریعے گالم گلوچ کروا کر دیگر تنقید کرنے والوں کو پیغام دیتا ہے کہ جو اس مقدس گائے کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا تو اسکا انجام یہی ہوگا۔ اسی پالیسی کی بدولت فوج ہنٹر لے کر اپنی ہی قوم کو تنقید نہ کرنے دینے کی پالیسی پر قائم و دائم ہے۔ ایک طرف فوج عیاشی کر رہی ہے اور دوسری طرف قوم ایک ہجوم کی مانند ہوکر رہ گئی ہے جسے نہ اپنی سمت کا پتہ ہے اور نہ مستقبل کے بارے میں کوئی علم۔ پاکستانی فوج اور معاشرے کی مثال اس لئے دے رہا ہوں کہ بلوچ قوم اس غلامی کے دور میں اپنے ہی دشمن کی فوج کے کردار اور بلوچ مسلح سیاست کے خدوخال کو سمجھ سکے کہ ہم کس سمت جا رے ہیں اور آیا ابتک پاکستانی فوجی سیاست کے اثرات سے بلوچ مسلح تنظیم پاک ہے یا اسی طرز سیاست کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر سیاسی جوڑ توڑ کو دیکھا جائے تو پاکستان یکتا ہے مثلاً بشری بی بی جو ایک مشکوک آئی آئس آئی کا ایجنٹ ہے۔ تنتر منتر کے شعبے نے عمران خان کو مجبور کیا ہے کہ پیرنی ہی اصل طاقت ہے اور اسکی پیروی واجب ہے۔ جس ملک کی نواز دور حکومت میں 5.8 جی ڈی پی تھی آج فوج کی بدولت -0.48 ہو کر رہ گئی ہے۔ جوڈتوڈ اور لوٹے سیاست دانوں کو ایک ساتھ ملا کر ایک بڑے اتحاد کی شکل دی جس نے ملک کو ایک ایسے سیاسی بحران میں ڈال دیا کہ فوج نے “سوفٹ کو” کے ذریعے تمام اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر ڈمی حکومت اور کمزور اپوزیشن کو قوم کے سامنے رکھ دیا اور پاکستانی ہجوم کو گویا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا تاکہ آٹے میں نمک کے برابر ناقدین بھی تنقید و سوال نہ کر سکیں۔
اس شاطر فوج نے بنگلادیش کی آزادی کے دن کو اور اپنی نااہلی کو چھپانے کےلیے پشاور کے سکول کا حملہ دانستہ طور پر 16 دسمبر کو ہی کروایا تاکہ بنگلادیش مسلے کو نیوز کوریج نہ مل سکے اور اگر کوئی اس بابت تنقید بھی کرے تو بچوں کے لہو کو کیش کرکے چپ کا روزہ ناقدین کو تھما دے۔ فوج اب ڈول پیٹ پیٹ کر سب کو مطلع کرتی رہی ہے کہ دہشتگردی کی بینٹ جو بچے چڑے وہ گویا فوجی محاذ پر تھے اور دوسری طرف شاطر فوج نے قوم کو یہ پیغام دیا کہ جی ایک آپریشن کے دوران طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان مفرور ہوا اب طاقت ور فوج ہے کس میں محال کہ سوا ل کر سکے۔ بلوچ تحریک کی عسکری پہلو کا جائزہ لے لیا جائے تو دو سوال ذہن میں آتے ہیں۔ ایک پاکستانی طرز سیاست اور دوسرا تحریک کی صفوں میں پاکستانی فوج کے ایجنٹ جو برسرپیکار ہیں، لفظ ایجنٹ شاید ناقدین کو پسند نہ آئے مگر میں ماضی قریب اور مستقبل قریب میں سرینڈر شدہ اور جو سرینڈر کرینگے اس بابت اپنی نبشتانک میں اشارہ کر رہا ہوں۔
جہاں تک پاکستانی طرز سیاست کی بات ہے تو اس سے کوئی بے وقوف ہی منکر ہو سکتا ہے۔ اس کا جائز ہ حال ہی کے سیاسی داوپیچ سے ہم بخوبی لگا سکتے ہیں. مثلاً :
“لندن میں جلاوطن حیربیار مری یورپ کا ایجنٹ ہے”۔
یقیناً بہت سے بلوچ اس بابت آشنا ہیں کہ سیاسی اختلافات جب اپنے عروج پر تھے تو جیسے ہی ہم نیند سے بیدار ہوئے معلوم ہوا بی-ال. اے کو توڑ کر ایک ٹولے سے اللہ نظر نے ساز باز کرکے “براس”نامی اتحاد بنا کر قوم کو ششدر کر دیا کہ اتحاد کرنا کس قدر آسان ہے. جیسا کہ عمران خان نے کہا تھا کر شیخ رشید کو وہ اپنا چپراسی بھی نہیں رکھے گا مگر آج وہ اسکا دست راست ہے. ویسے ہی براس قومی مفاد میں کم اور اینٹی حیربیار مری اشتراک کو عملی جامہ پہنا دیا ہے۔ جس کا کام کچھ اس طرح ہے کہ ایک کاروائی کر کے ساتھ ہی ساتھ حیر بیار مری کو ایجنٹ قرار دیں تاکہ قوم کو بھنک بھی نہ ہو کہ اس الائنس کا اصل مقصد کیا ہے؟ اب بلوچ قوم کیا سمجھے کہ یک دم اتحاد کی بابت کس قدر اعتبار کرے اور وہ وعدے وعید کس سے مانگے کہ یہ اتحاد خلوص نیت کے ساتھ پاکستان کے خلاف ہے کیونکہ خدوخال سے اینٹی حیربیار مری کی بو جو قوم کو بے سکون کئے ہوئے ہے بقول شاعر :
تیرے وعدے پہ جو جئے ہم یہ جان چھوٹ جانا
تو خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا
حضور والا یہ ایجنٹ ایجنٹ کھیلنا بند کر دو کیونکہ معاملہ سر زمین سے عشق کا ہے اور عاشقی دلیری اور نڈر ی کا تقاضہ کرتا ہے صرف بندوق اٹھانے سے انسان بہادر نہں ہوتا بلکہ اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹنا بہادری ہے. اسی بہادری کی بنا پر شہید چیرمین غلام محمد، لالا منیر و شیر محمد نے سر قربان کر دئیے اور ہزاروں کی تعداد میں اب بھی بلوچ زندانوں میں پڑے اذیت سہہ رہے ہیں۔ حیربیار مری کی بہادری ہے کہ ایرانی و پاکستانی مقبوضہ بلوچستان سے دستبردار نہیں ہو رہا اور “براس” نے نہ جانے کتنی بار ایرانی گجروں کےسامنے جی حضوری کی ہوگی. عشق سرزمین مردانگی کا تقاضا کرتی ہے اور دھمکی اسے زیر نہیں کر سکتی جیسا کہ غالب کہتا ہے:
دھمکی سے مر گیا جو نہ باب ء مرد تھا
عشق پیشہ ء طلب گار ء مرد تھا.
ایک جائزہ حیر بیارمری کے یورپی ایجنٹ کے الکاب کا اور حقائق “
گویا یا تو بیان داغ دینا ہماری فطرت ہے یا پھر مجبوری کم از کم میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ایجنٹ ہونا کسی ملک کا تو سمجھ میں آتا ہے مگر ایک 30 ممالک کے بلاک یورپ کا ایجنٹ ہوناسمجھ سے بالا تر ہے یعنی موصوف کے مطابق شاید حیربیار مری نیٹو اور امریکہ کے ایجنٹ ہیں مگر سوچ پھربھی ملٹی نیشنل کمپنی کے ایجنٹ کی طرف جاتا ہے۔ اس معمے کو حل کرنے کے لیے ایک سادہ سا فارمولا میرےزہن میں آیا اور سوچا قلم نشین کر دوں اول اگر سنگت حیر بیار مری یورپ کے ایجنٹ ہیں تو اسکے دو پہلو ہیں یا یورپ پاکستان کے تابع ہے جو نہیں چاہتا بلوچستان آزاد ہو لیکن حقائق تو اسکے بر عکس ہیں پاکستان خود یورپ کا محتاج و غلام ہے اگر یورپ بلوچستان کی آزادی کا خواہش مند ہے اور اسکی نظربلوچستان کے وسائل پر ہے تو یورپ کو سانپ سونگ گیا ہے کہ دو دہائیوں سے کم از کم اسکے انسانی حقوقی ادارے بلوچستان کی مخدوش صورتحال پہ رحم کا کر ایک اسٹینڈ لیتے جس سے پاکستان کو عالمی دباؤ کا سامنا ہوتا یا پھر نیٹو کود پڑھتا اور بلوچستان کو آزاد کرکے حیر بیار مری کو تخت نشین کر کے اپنے اغراض و مقاصد پورا کرتا. مگر اس کے برعکس اگر ہم جائزہ لیں تو حیر بیار مری نے بلوچستان لبریشن چارٹر دے کر ون مین ون ون ووٹ بلوچستان کے وسائل کو مالک بلوچ قوم کو قرار دیا. اب معلوم نہیں موصوف کس ایجنٹ کی بات کررہے ہیں خو وضاحت طلب ہے.
“ایجنٹ ہوتا کیا ہے؟”
ایجنٹ کو سمجھنے کے لیے کسی فلسفے کی ضروت نہیں۔ بلوچ قوم نے تحریک مے طرح طرح کے ایجنٹ مشاہدہ کئے ہیں. اصل سوال یہ ہے کہ ایجنٹ کے آغراض و مقاصد کیا ہوتے ہے. دولت, طاقت, شہرت یا سر زمیں کی دلاری کرنا. اگر حیربیار مری کے کردار کا مشاہدہ کرے تو مری قبلے کے اور بلوچستان کے سب سے زیادہ طاقتور نواب خیر بخش مری کے سپوت ہیں۔. طاقت دولت اور شہرت اللہ نے ورسے میں عطا ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایجنٹ بن کر پاکستان کی غلامی کو تسلیم کرتے ہوئے دیگر نوابوں کی طرح چیف منسٹر و وزارت لیکر عیش و عشرت والی زندگی گزار تے اور کوہلو کے زخاہر سے بھی بہرہ مند ہوتے کم از کم اربوں کے مالک ہوتے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے ایک ایک کو دیکھاتے کہ لو بھائی کرلو مجھ سے مقابلہ. مگر اس کے برعکس سنگت حیربیار مری نے نہ صرف پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کا محا ظ کھولا بلکہ ایرانی زیر دست بلوچستان پر بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف جو موصوف یک مشت ہو کر ایجنٹ کے الکاب سے سنگت کو نواز رہے ہیں ایرانی زیردست بلوچستان کا سودا کر کے بیٹھے ہے. (آگر نہں تو قوم کے سامنے ایرانی بلوچستان بابت اپنا کردار واضح کرے).
“بغض حیربیار مری آخر کیوں ؟”
“براس” کے حالیہ بیان نے بلوچ قوم کے سامنے کچھ چیزیں واضح کردی ہیں۔ اول براس کے اغراض و مقاصد واضح ہیں کہ ایران کو خوش کرنے لیے مائنس حیر بیار مری کے فارمولے کو لیکر ایک نچھلی سطح کی بدبودار سیاست کا آغاز نام نہاد مڈل کلاسوں کے جنڈ نے شروع کر رکھ ہیں۔ اسکے برعکس قومی مفادات کو شخصیت پرستی اور گروہی مفادات کے تابع کرتے ہوئے قوم کی امنگوں کو روند کر تحریک سے بد زن کیا جارہا ہے. وہی سیاست جو پاکستانی فوج اپنے ہجوم کو بتا تا جا رہا ہے کہ پاکستان کا بیڑہ غرق سیاست دانوں نے کیا ہے. اور نیستی لیڈر کی وجہ سے قابض فوج نے اپنی ہی قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے اور جانوروں کے ہجوم کی طرح پاکستانی فوج نے اپنی ہی قوم کو غلام بنا رکھا ہے. چونکہ بلوچ قوم اس طرز سیاست سے آشنا ہے تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں بلوچ فوج یا سرمچار قوم کے تابع تو ہو سکتے ہے مگر قوم انکے تابع نہیں۔ دوئم اگر پاکستان وحشیانہ طریقہ اپناتے ہوئے ہے تو علم نہیں بلوچ خود کو دنیا کی نظر میں وحشی قوم ثابت کرے ہر وہ کاروائی جو بلوچ قوم کے لیے نقصان کا باعث بنے بلوچ قوم کو حق حاصل ہے کہ اس پر اپنی اظہار رائے دے بندوق کی نوک یا نمودونماہش والے سرمچار قوم پر حاوی ہونے کا خواب چھوڑ کر اپنے اصل مقصد سے شناسہ ہو تب جا کر حصول آزادی ممکن ہے انہی وجوہات کی بنا پر بغض حیر بیار مری کچھ حلقوں کو بے چین کیے ہوئے ہے. اب پورے قوم کو ایجنٹ کہو تو کوئی قبلہ نہں کیونکہ سچ ہی منزل مقصود تک پہنچتا ہے۔