بلوچ معاشرے میں بلوچ عورتیں ہمیشہ گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی تھیں۔ سیاست، کاروبار اور ملازمت کا ان سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ پردے کی وجہ سے وہ گھر سے بہت کم نکلتی تھیں۔ البتہ بلوچ بچیاں اور عورتیں دورِ حاضر میں صرف تعلیم کے شعبے اور میڈیکل فیلڈ میں ملازمت کرنا آہستہ آہستہ شروع کر رہی ہیں۔

برطانوی سامراج نے جب ہندوستان سے نکلنے کا فیصلہ کرکے پروگرام بنایا تو اس سے پہلے ہی ہندوستان کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا، تاکہ اس خطے میں اپنے مفادات کو اپنے جانے کے بعد بھی بہتر طور پر محفوظ رکھ سکے۔ ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات اسی تقسیم کے سلسلے کی ایک کڑی ہیں، جن کے ذریعے برطانوی سامراج اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے اور بالآخر برطانوی سامراج نے مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کے مسلمانوں کو تقسیم کر کے 1947 میں نیا ریاستی ڈھانچہ “پاکستان” تشکیل دیا اور اس نئی ریاست کی اقتدارِ اعلیٰ فوج کے حوالے کر دی اور سولین کو ان کے نوکر بنائے۔

نئی ریاست پاکستان کے وجود میں آتے ہی اس نے بلوچستان کو مذہب کی بنیاد پر پاکستان میں شامل کرنے کی کوششیں شروع کیں، جس پر بلوچستان کے عوام نے نئی ریاست کی دعوت کو مسترد کر دیا۔ بلوچستان درحقیقت پاکستان کے قیام سے پہلے ہی اس خطے میں برطانوی حکومت کے انخلا سے قبل ایک آزاد اور خودمختار ریاست تھی۔ اس خطے کا اسٹریٹجک محل وقوع اور معدنی وسائل کی وجہ سے اس کی عسکری و اقتصادی حیثیت ہمیشہ سے اہم رہی ہے۔

بلوچستان کے پاکستان میں شامل ہونے سے انکار پر نئی ریاست پاکستان نے بلوچستان پر فوجی حملہ کر کے زبردستی الحاق کر لیا اور 1948 میں بلوچستان پر قبضہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی بلوچوں کے خلاف پہلا فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔ بلوچستان کو پاکستان کے ساتھ زبردستی شامل کرنے کا بنیادی مقصد بلوچستان کے معدنی وسائل اور ساحلی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنا تھا، کیونکہ نئی ریاست پاکستان بلوچستان کے معدنی وسائل، ساحل سمندر اور اسٹریٹیجک محل وقوع کے بغیر اپنا وجود دنیا کے سامنے برقرار نہیں رکھ سکتی تھی۔

1948 سے لے کر آج تک بلوچوں نے پاکستان کے جبری الحاق کو قبول نہیں کیا، جس کے نتیجے میں 1958، 1960-62، 1970 اور 2000 کے مختلف ادوار میں بلوچوں کے خلاف فوجی آپریشن کیے گئے جو تاحال جاری ہیں۔ تاہم ریاست پاکستان بلوچوں کی مزاحمتی تحریک کو ختم نہیں کر سکی، بلکہ اب بلوچ مزاحمتی تحریک میں اور بھی جدت آ گئی ہے، جس میں بلوچ بچیاں اور مائیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔

بلوچستان اور بلوچوں پر ریاستی ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے، جس کے نتیجے میں مجبور ہو کر بلوچ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں بلوچ مزاحمتی تحریک کا حصہ بن رہی ہیں۔ بلکہ شہروں اور گلیوں میں مزاحمتی محاذ کو بے باک تعلیم یافتہ بلوچ ماؤں اور بچیوں نے سنبھال لیا ہے۔ ان میں کیچ کے بہادر بیٹی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شاری عرف شارل بلوچ جس نے اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں چائنیز وین پر حملہ کرکے چائنیز پروجیکٹ CPEC اور بلوچوں پر فوجی آپریشن کے خلاف انتقام کے ردعمل ظاہر کی۔ اس کے علاوہ گوادر کے بہادر بیٹی ماہل بلوچ نے جنوری 2024 میں لسبیلہ میں پاکستانی فوج کے کیمپ پر حملہ کرکے کیمپ کو تباہ کیا۔ فوج کو پیغام دیا کہ بلوچ اب مزیدفوج ی جبر برداشت کرنے کے پوزیشن میں نہیں ،ان کے علاوہ دیگر بلوچ بہادر فدائین شامل ہیں جنہوں نے اپنے مادر وطن کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے دشمن پر خود کش حملے کئے اور دشمن کو خوفزدہ کیا اور دشمن کے سپاہیوں کو بلوچستان سے نوکری چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

ریاستی تشدد کرنے والے ایجنسیوں کے ٹارچر سیلوں میں شہید ہونے والے غفار بلوچ کی بہادر بیٹی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، جبری طور پر لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بہادر بیٹی بانک سمی دین بلوچ، اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے بلوچ مزاحمتی تحریک میں دن رات محنت کرتے ہوئے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان خواتین نے خصوصاً بلوچ خواتین کو ریاستی جبر و ظلم کے بارے میں آگاہ کرنے، انہیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور مزاحمت کرنے کی ترغیب دینے میں کلیدی کام کیا ہے۔ ان کی بے مثال قربانیوں اور بے خوف جدوجہد نے بلوچ مزاحمتی تحریک کو نئی توانائی بخشی ہے اور پورے بلوچستان میں ایک نئی تحریک کی بنیاد بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نام سے رکھی ہے اور بلوچوں کو ریاستی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت دی ہے ۔

ریاست کی جانب سے بلوچوں کو جبراً لاپتہ کرنے، آئین و قانون سے بالا بلوچ نوجوانوں کے بہیمانہ قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بلوچ بیٹیوں نے اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرتے ہوئے ریاستی دہشت گردی کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے ریاست کے ظالمانہ چہرے کو بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کیا اور بلوچ مزاحمتی تحریک کو عالمی محاذ پر متعارف کرایا۔ اس کے نتیجے میں ریاست بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر وحشیانہ انداز میں بلوچ نوجوانوں پر ظلم و بربریت کے عمل کو اور زیادہ تیز کر دیا گیا۔ ساتھ ہی بلوچ لاپتہ افراد کے خاندانوں کے پرامن احتجاجی مظاہروں اور جلسہ جلوسوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے کر بلوچ لاپتہ افراد کے خلاف ریاستی ظلم کے پرامن احتجاج کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔

بلوچ بہادر ماؤں اور بیٹیوں کی اس مزاحمتی تحریک میں شمولیت نے ایک طرف تو دشمن کو پریشان کرکے ان کی نیندیں حرام کیں ، تو دوسری طرف بلوچ مزاحمتی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ اس کی وجہ سے مزاحمتی تحریک میں تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں (لڑکے اور لڑکیاں) کی بڑی تعداد شامل ہو رہی ہے۔ بلوچ مزاحمتی تحریک دنیا کی ان محدود چند تحریکوں میں سے ہے جس میں کثیر تعداد میں خواتین فعال طور پر حصہ لے رہی ہیں۔