عام طور پر پورے پاکستان میں جگہ جگہ اورخاص طور پر بلوچستان میں تو ہر جگہ اور ہر روز بلوچ خواتین و مردوں کے احتجاج اور ہڑتالوں سے تنگ آکرکچھ نام نہاد نامور لوگ ان احتجاج کرنے والوں سے کہتے ہیں کہ” اگر آپ کو یہاں بلوچستان میں رہنا پسند نہیں تو باہرملک چلے جائیں یہاں بلوچستان میں ہم خوش اور آزادہیں او رتم لوگ جس خوشحالی اور آزادی کی باتیں کرتے ہو ہمیں اُسکی ضرورت نہیں “بد قسمتی سے اس بیانیہ کو کسی ایک فرد یا گروہ سے منسوب نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسے ایک سسٹم میں ایک تسلسل کیساتھ 1948 سے لیکر آج تک مختلف اوقات میں مختلف پیرائے میں مختلف لوگ دہراتے آ رہے ہیں۔تاہم حالیہ دنوں میں اس بیانیہ کیساتھ ایک اور بیانیہ بھی دہرایا جانے لگا ہے کہ بلوچ خواتین کا گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آنا بلوچوں کے روایت کے خلاف ہے۔
اگر سطحی طور پر دیکھاجائے تومذکورہ تینوں باتیں درست ہیں اگر کسی کو کوئی جگہ پسند نہیں وہ وہاں سے چلا جائے یا یہ کہ اگر کوئی خود کو آزاد سمجھتا ہے تو کوئی دوسرا کیونکر اُسے یقین دلاتا پھرے کہ جس کو آپ آزادی سمجھتے ہیں وہ غلامی ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ بلوچ خواتین اس سے قبل اس طرح سڑکوں پر نہیں نکلی ہیں لیکن اگرسنجیدگی سے ہر بات کی طرف رجوع کیا جائے تو پتہ چلتا ہے ان باتوں کا ایک ایک حرف غلط ہے اور یہ اظہاریہ اُن لوگوں کی بے حسی کا برہنہ صورت ہے جو یہ کہنے بضد ہیں۔
ا) بلوچستان میں اگرکوئی کسی بلوچ یا پشتون سے کہتا ہے کہ اگر آپ کو یہاں رہنا پسند نہیں تو یہاں سے چلی جائیں کسی بھی زاویے سے درست نہیں اوراگر اُسے یہ بات کوئی اجنبی کہے یا کسی اجنبی کے ایما پر کہے تو یہ نہ صرف قابل قبول نہیں بلکہ قابل مذمت ہے کیونکہ وہ اپنی زمین پر بیٹھا ہے جس کو اسکے اجداد نے اپنی خون سے حاصل کیا ہے اور صدیوں سے نسل در نسل اپنے خون پسینے سے اس کو لہلاتے رکھکر اسکی حفاظت کی ہے۔ اب وہ یہ زمین محظ اس لئے چھوڑدے کیونکہ یہاں وہ اپنا حق جتاتا ہے اور آپ اس کے زمین اور حق پر ڈاکہ ڈال کر قابض ہو چکے ہو اور آپ کو اُن کا یہ بجا دعویٰ ناگوارگزرتا اور نا منظور ہے۔ ہونا تو یہ چائیے کہ یہاں کا بلوچ اور پشتون یہ کہے کہ اگر آپ کویہاں کسی چیز سے تکلیف ہے تو آپ جاسکتے ہیں کیونکہ آپ میرے پاس میری زمین پر ہو میں آپ کے ہاں آپکے زمین پر نہیں مگر چونکہ طاقت کے سامنے کوئی منطق کوئی دلیل کوئی قانون نہیں ٹِکتا اس لئے وہ اجنبی ہوکر بھی ایسی غیر منطقی بات کر سکتا ہے اور بعض اوقات ایسے کراتا بھی ہے ایسے حالات میں تووہ بالکل ایسی بات کرنے کی ہمت رکھتا ہے جب اُس کے حامی بھرنے والوں کی لائن لگی ہو اُن میں نام نہاد قوم پرستوں سے لیکر کئی علماء کرام تک بڑے بڑے نام والے نواب و سرداروں سے لیکر چھوٹے چھوٹے خودساختہ میر ومعتبروں تک جو پی ایس ڈی پی(پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام) میں اپنے اسکیمات شامل کرنے اور دوسرے چھوٹے موٹے مراعات کیلئے اپنا سب کچھ گروی رکھ کر بلوچ بقا کی جنگ میں اسپیڈ بریکر کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ب) ان لوگوں کی یہ بات بھی اُنکے زاویے سے دیکھنے میں درست ہے کہ وہ لوگ آزاد ہیں اُنھیں دوسری آزادی کی ضرورت نہیں مگر بدقسمتی سے یہ لوگ اُس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے بہت پہلے کہا گیا ہے کہ” اُن غلاموں کو آزاد کرنا مشکل ہے جو اپنے زنجیروں سے مانوس ہوکر اُ ن سے آزاد ہونا نہیں چاہتے “۔وہ اس بات پر بھی” سچ” پر ہیں کیونکہ وہ واقعی آزاد ہیں جس کو چاہیں اذیت پہنچائیں،جس کو چاہیں لوٹیں، جس کو چاہیں بندی بنائیں اُن کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں انھیں یہ سہولت،یہ طاقت بقول چی گویرا کے سر جھکانے کے بدلے معاوضہ ملا ہے وہ اسے آزادی سمجھتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ یہ اظہاریہ ہماری نکتہ نظرسے بالکل بھی درست نہیں۔ پ) اُن کی یہ بات بھی درست ہے کہ بلوچ خواتین پرد ہ دار رہی ہیں اور سڑکوں پر نہیں نکلی ہیں مگر وہ یہ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر بلوچ خواتین سڑکوں پر نکلی ہیں تو کس مجبوری کے تحت؟ اگر وہ اس بات پر غور کرتے تو ان پر یہ بات عیاں ہوتی کہ جو کام اُن (مردوں)کا ہے اُس میں اُنکی ناکامیوں کے سبب بلوچ خواتین و بچوں کو نکلنا پڑا ہے۔ بلوچی میں محاورہ ہے “پِس را کمالے بوتیں ماس گوں پَساں گوں نبوت ” ترجمہ “اگر باپ میں کمال ہوتا توماں بکریاں نہیں چرا رہی ہوتی ” بلوچستان میں 2005 سے لیکرتاحال ایک آپریشن چل رہی ہے جسمیں ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں ہزاروں غائب ہیں،کھیت کھلیاں جلائے گئے ہیں ہزاروں کے حساب سے لو گ نقل مکانی اور جلاوطنی پر مجبور ہوئے ہیں بلوچ قوم برملا اسے اپنی نسل کُشی کہکر اس کے خلاف مزاحمت کررہی ہے مگر اسمیں مایوس کُن پہلو یہ ہے کہ ریاست اپنے ملکی اور بین القوامی قوانین کو روندتے ہوئے گناہ گار اور بیگناہ میں فرق کئے بغیر بلا امتیاز سب کو سزا وار ٹھہرا رہی ہے جس کے سبب ایک دہشت،ایک تشویش اور ایک بیقراری فطری طور پر پیدا ہوگئی ہے جس نے پوری بلوچ قوم کو جھنجھوڑ کر ایک صفحہ پر لا اکھٹا کیا ہے سوائے اُن کے جو خود کو” آزاد ” سمجھتے ہیں۔ اگر بلوچ قوم پرست جو قومی سیاست کا دعویٰ کرتے یا علما ء کرام جو اللہ کی خاطر مظلوم کا ساتھ دینے کی باتیں کرتے ہیں اور نواب و سرادر جو خود کو بلوچی ننگ وناموس اور ساحل وسائل کا مالک و محافظ کہتے ہیں اور اسلام آباد کے حکمراں جو ہمیشہ جمہوریت اور برابری و برادری کا راگ الاپتے رہتے ہیں سب ملکر اپنے ریاستی اداروں کو گناہگار اور بیگناہ میں فرق کرنے مجبور یا آمادہ کرتے تو یقیناً ایک بلوچ خاتون بھی سڑک نظر نہیں آتی۔اگر یہ لوگ بقول انکے اپناپارلیمانی زمہ داری بھی نبھاتے تب بھی بلوچستان میں اتنی تباہی نہیں ہوتی جو اس وقت ہورہی ہے۔
بلوچ خواتین و بچوں کے مطالبات اتنے شائستہ اور قانون کے مطابق ہیں کہ اُنھیں کوئی رد نہیں کر سکتا بشرطیکہ نیت ٹھیک اور کسی بھی ہٹ دھرمی دکھانے کا ارادہ نہ ہو۔اُن کا مطالبہ ہے اپنے قانون کی پاسداری کرو جو آپ نہیں کررہے بجائے اس کے کہ اپنی قانون کی پاسداری کرکے ہر ایک شہری کیلئے جوابدہ ہوا جائے آپ کے ادارے پانچ بندوں کو غیر قانونی غائب اور دو کو کوئی وجہ بتائے بغیر نامعلوم ہوکر بازیاب کراتے ہیں یہ ایک سلسلہ ہے جو رُکنے کا نام نہیں لے رہا آپ کے نمائندے کہتے ہیں غائب ہوئے لوگ افغانستان یا کہیں اور چلے گئے ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو جو لوگ برآمد ہوتے ہیں آپ اُنھیں دنیا کے سامنے بولنے کیوں نہیں دیتے؟آپ کہتے ہیں کہ مسخ شدہ لاشوں سے ہمارے اداروں کا کوئی تعلق نہیں ٹھیک ہے ایک لمحے کیلئے ہم مان لیتے ہیں مگر آپ بحیثیت ریاست اُنکی شناخت کرانے کیوں ہر ایک کی ڈی این اے نہیں کراتے؟ کہیں یہ خدشہ تو نہیں کہ ان میں سے ایسا کوئی نہ نکل آئے جس کو آپ کے فورسز نے سب کے سامنے دن دھاڑے اُٹھایا ہے؟ بلوچ خواتین جس مجبوری اور بے بسی میں نکلی ہیں اُس کا اندازہ لگانامشکل ہے کیونکہ مردوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا جارہا کوئی جمہوری طور پر آواز نہیں اُٹھا سکتا غلام محمد بلوچ سے لیکر ڈاکٹر دین محمدبلوچ تک، تاج محمد سرپرہ سے لیکرذاکر مجید و شبیر بلوچ تک ہزاروں ایسے لوگ غائب کئے گئے ہیں جو جمہوری طور پر پُرامن طریقے سے اپنا قومی حق مانگتے رہے ہیں اور اپنے لوگوں کے درمیان رہ کرکہیں بھی بھاگے نہیں ہیں مگر نتیجہ کیا ہے؟ آپ آج اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنے آئین اور قانون کو مانتے اور اُن تمام بین القوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہو جن پر آپ نے دستخط کئے ہیں، اور اپنے ہر شہری کو اُن کے تمام حقوق دینے کے پابند ہو اور بلوچ قو م کو یہ بات باور کرانے کامیاب ہوتے ہو کہ وہ اپنی شناخت کو لیکر جس عدم تحفظ کا شکار ہے وہ خدشہ بے بنیاد ہے تو کل سے کم از کم کوئی بلوچ خاتون باہر نہیں نکلے گی اور نہ کسی کو یہ دلیل دینے کی ضرورت پڑے گی کہ وہ آزاد ہے اور نہ کوئی کسی کو یہ کہنے کی ضرورت محسوس کرے گا کہ اگر آپ کو یہاں رہنا پسند نہیں یہاں سے چلی جاؤ۔تاہم بلوچ مرد جو ریاست کے سامنے کھڑے ہیں وہ الگ بات ہے وہ موضوع یہاں زیر بحث نہیں۔
تلخ حقیقت یہی ہے کہ بلوچ کو سننے اور اُسے سمجھنے کے بجائے اُسے ہمیشہ چھپ کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے اور کئی باریہ کوششیں وقتی طور پر کامیاب بھی ہوئی ہیں مگر اب ریاست کے پاس کوئی ایسی بات ایسی دلیل نہیں ایسا نسخہ نہیں کہ اس بار اُٹھنے والی آوازوں اور پھیلی والی بیداری کو کسی مصنوعی تدبیر سے دبا سکے۔ریاست کل کہتی تھی کہ چند سرداربلوچ اور ریاست کے درمیان رکاوٹ ہیں آج کوئی سردار سامنے نہیں سب کے سب بالکل نئے لوگ ہیں مڈل کلاس،لوئر مڈل کلاس بلوچ اگر ان کے درمیان ایک آدھ سردار بھی موجود ہیں وہ بھی اپنی سرداری ترک کر کے عام جہدکار کی حیثیت سے کاروان میں شامل ہیں۔یہ لوگ پہلے سے کئی زیادہ منظم پہلے سے کئی زیادہ وسیع جغرافیہ پر جڑیں پھیلائے ہوئے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلہ شخصیات کا نہیں مسلہ زمین پر موجود ناانصافی اور ظلم پر ٹِکی رشتوں اور ریاست کے پاس بصیرت کے فقدان کا ہے وہ جب تک رہیں گے حالات خود بخود اُنکے سامنے ڈٹنے نئی سے نئی قیادت لائی گی۔