جیسے کہ ہر دؤر میں ہر قوم نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کی کوششیں کی ہیں اُس دؤر کے قابضوں اور حاکموں کی طرف سے ان کوششوں کی سخت مزاحمت ہوئی ہے یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہے جو بلوچ قوم کی طرف سے ان زنجیروں کو توڑنے کیلئے شور کیساتھ زور بھی لگائی جا رہی ہے جبکہ ریاست کی طرف سے اس شور کو دبانے اور زور کو نابود کرنے 2001 سے اب تک متواتر لوگوں کو جبری طور پر بلاتوقف غائب کیا جارہا ہے۔
ساتھ میں ایک عمومی خوف طاری کرنے بلاامتیاز لاشیں بھی گرائی جارہی ہیں مگر اس سے ان کوششوں میں کمی کے بجائے شدت ،ہم آہنگی،ہمہ جہتی و جدت آئی ہے جس سے ریاست سخت پریشان ضرور ہے مگر وہ اب بھی اسے نہ صرف بلوچ کے مرضی کے مطابق حل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ بلوچوں کو اس فریب میں رکھنا چاہتا ہے کہ بلوچ آزادی لینے اور پھر اس کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہیں بلکہ پاکستانی فریم میں (غلام ہی سہی) وہ زیادہ محفوظ ہیں گو کہ یہ بات ہر لحاظ سے درست نہیں بلکہ مکارانہ فریبی جال ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کو احساس کمتری کا شکار کر کے آزادی کا خیال دل سے نکالنے کا مزموم ترغیب ہے مگر بدقسمتی سے ریاست کے اسی گمراہ کن بیانیے کے سردار عطاء اللہ خان مینگل جیسا بااثر شخص بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر نوجوانوں کے زہنون میں ڈالنے کے جرم کا مرتکب ہوا ہے. ثبوت کیلئے خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی میں 2009 کے آپ کے تقریر کے الفاظ نقل کرتے ہیں آپ کے الفاظ ہیں ” نہ ہم میں کوئی جذبہ رہا ہے نہ ہم میں زیست کا تصور بچا ہے ان حالات میں اگر یہ ملک ٹوٹتا ہے سرزمین تو رہے گی ہم اور آپ رہیں گے کہاں جائیں گے ہم؟ کسی اور کا حصہ بنیں گے خود تو اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکتے. آپ نے کبھی اس پر بھی غور کیا ہے کہ ایسے حالات میں آپ کیا کریں گے آپ کس کا حصہ بنیں گے؟ اب کو پتہ نہیں ہے آپ کی چوائس وہاں نہیں ہوگی کوئی آپ سے رائے نہیں لے گا کہ صاحب آپ نے کس کا غلام بننا ہے جو بھی زور ہوا آپ اُس کے غلام بنیں گے ہم تو کہتے ہیں چلو یار اب تو اسکی( پنجابی)کی جوتی وہ کوسہ والی جوتی ہے اس کا تلہ بہت پتلا ہے سر پر پڑتا ہے تو اتنا درد نہیں ہوتا کچھ عادی سے ہو گئے ہیں یہی جوتی سہی اور اگر کوئی گیارہ نمبر والا جوتا آیا کہ جسمیں کیلیں لگی ہوئی ہیں تو خانہ خراب ہے اور خاص کر مجھ جیسا آدمی جس کے سر پر بال بھی نہیں” https://youtu.be/neKfg33hRy4?si=lY8GCHbBEooaXdHe سردار مینگل یہ زہر 2009 میں ایک تعلیمی ادارے کے نوجوانوں کے زہنوں میں ڈال رہے ہیں کہ ہم ابھی تک قومی تشکیل کے مرحلے سے نہیں گزرے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اَسی کی دہائی میں کیسے ہماری قومی تشکیل مکمل ہو چکی تھی اور ہم آزادی کیلئے تیار تھے جو آپ نے بحیثیت صدر بی ایل او (بلوچ لبریشن آرگنائزیشن) کہا کہ”ہمیں دنیا کو بتادینا چاہیے کہ بلوچ آزادی چاہتے ہیں” (آزاد بلوچستان دسمبر 1984) کیا وجہ یہی تھی کہ اُس وقت جب پاکستان نے آپکو بلوچ کے لوٹ کھسوٹ میں حصہ دار نہیں بنایا تھا تو قوم آزادی کیلئے تیار تھی اور آپ اعتماد سے کہہ رہے تھے کہ قوم آزادی لینے آمادہ ہے آئیں پنجابی پاکستان آرمی کو شکست دے کر اُسے اپنی سرزمین سے بھگا لیں اور اب جب آپ کو اقتدار میں شراکت ملی تو قوم نالائق ہے نہ آزادی لینے کے قابل ہے اور نہ اسے برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ؟.
احساس جرم و احساس غلامی کے درمیان موقع پرستی کا دیمک :
یہاں جو چیز قابل غور ہے وہ یہ کہ بلوچستان میں پاکستان کے ساتھ جبری الحاق کے بعد آزادی کی خواہش بلوچ قوم میں ابتداء سے موجزن رہی ہے دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں میں یہ احساس جرم رہا ہے کہ ہم نے دھوکہ اور زبردستی سے اس آزاد ریاست کا الحاق کر کے اسے کالونی بنایا ہے اور یہاں کے لیڈروں نے ریاست کے اس احساس جرم اور بلوچ کے آزادی کے طلب کے درمیان اپنے لئے اقتدار کے حصول کا راستہ تلاش کیا. بلوچ قوم کی غلامی کا احساس شدید تھا اور آج تک ہے اور ریاست مجرم تھا لہذا زرا سی چنگاری سے ریاست کے خلاف آگ بھڑکائی جاسکتی تھی اس لئے ریاست نے نہ چاہتے ہوئے بھی قوم پرستی کے نام پر سیاست کرنے والوں کو وقتاً فوقتاً رشوت کے طور پر شریک اقتدار اور بلوچ ساحل و وسائل کو لوٹنے شریک جرم کیا جس طرح انگریز نے ہر علاقے کے نواب و سردار کے زریعے راج کیا یہاں پُرانے نواب و سرداروں کے ساتھ ساتھ نئے سردار و نواب بھی بنائے گئے تاکہ وہ خاص مدت کے بعد جب یہ دونمبر کے قوم پرست اور پرانے نواب و سردار اپنی افادیت کھو دیں تو وہ عنان اقتدار سنبھالیں جنہیں آج اس کردار میں واضع طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اصل میں بدقسمتی یہی ہے کہ ان لیڈروں نے آزادی کے نعرے کو صرف اسلام آباد کو بلیک میل کرنے کیلئے لگائی ہے جونہی اسلام آباد اقتدار میں شراکت دینے راضی ہوا ہے انھوں نے اپنے آزادی کے نعرے کو لپیٹا ہے. بابا مری نے اس تجربے کو سنگین غلطی تسلیم کیا اور آنے والوں کو یہ غلطی نہ دہرانے کی تلقین کرتے رہے اور نواب اکبر خان بگٹی نے ان تجربات اور بار بار کے وعدہ شکنیوں سے جو نتیجہ نکالا وہ سب کے سامنے ہے آپ نے جان دے کر نہ صرف اپنی کردہ و ناکردہ گناہوں اور پاکستان سے خیر کی اُمید رکھنے کی غلطیوں کا سود کیساتھ قیمت ادا کیا بلکہ نوجوانوں کیلئے وہ مثال بنا جو شعلہ بن کر ہر بلوچ کے دل میں آزادی کے اُمنگوں کیساتھ لپکتا رہے گا۔
اب جب کہ حالات بدل گئے ہیں اور میدان میں نئے لوگ آئے ہیں جو ان سرکاری سردار و نوابوں اور نام نہاد قوم پرستوں کے اختیار میں نہیں اور جس جنگ سے وہ ریاست کو پہلے ڈراتے تھے وہ اُنکے بغیر حقیقی طور بڑی شدت سے جاری اور اس میں ان کی کوئی حصہ داری بھی نہیں۔
رہی سہی یہی تھا کہ پارلیمانی سیاست کے زریعے لوگوں کے حقوق کی بات کی جائے مگر وہ دیرپا ثابت نہیں ہوا اَُنانوے سے لیکر اب تک یہ قوم پرست مختلف ادوار میں کم یا زیادہ تعداد میں سہی اقتدار میں رہے ہیں اس دؤران انکی کارکردگی اگر انکے صاحب ثروت ہونے کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو واقعی سب نے بہت ترقی کی ہے بینک بیلنس، گاڑیاں، بنگلے پراپرٹی اندرون و بیرون ملک بنائے ہیں لیکن قوم جیسے پہلے محروم تھا اب بھی اُسی طرح دربدر خاک بسر ہے .انہی قوم پرستوں کی موجودگی میں وسائل کی لوٹ میں بیرونی قوتوں کی مدد سے سرعت آئی ہے اور ساحل بھی ہاتھ سے جا چکا ہے۔اس گھٹن میں بلوچ قوم نے فیصلہ کیا کہ اب بقا تک بات آگئی ہے اور جمہوری طریقے کارآمد نہیں رہے تو انھوں نے مسلح جدوجہد کا بارثانی آغاز کیا جبکہ ایک گروہ نے پھر بھی قوم کو اور عسکری جدوجہد کرنے والوں کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کے فریم میں بلوچ کے حقوق لیں گے اور بلوچ کے شناخت کو درپیش خطرات کا ازالہ کریں گے مگر وہ اس میں بُری طرح ناکام رہے اور اُنکے بارے میں بابا مری کے یہ الفاظ پتھر کے لکیر ثابت ہوئے آپ نے فرمایا “دوسری جانب وہ گروہ (نیشنل پارٹی، بی این پی عوامی، بی این پی مینگل) ہے جو بلوچ نیشنل ازم کے نام پر دو کشتیوں میں سواری کر رہا ہے جو بے ایمان ہے اور مکرو فریب سے قوم پرستی کو مفادات کی بھینٹ چڑھا رہا ہے. یہ اتنےخود غرض ہیں کہ ایک جانب تو کشتیاں جلانے کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب ربڑ کی کشتیاں بھی رکھی ہوئی ہیں “
پُرامن جدوجہد میں بی وائی سی کا وجود میں آنا اور بیداری کا نیا دؤر :بلوچ یکجہتی کمیٹی کا وجود میں آنا ایک طے شدہ تاریخی مظہر ہے جسے کسی بھی نام یا کسی بھی شکل میں طویل قومی جد و جہد کے نتیجے میں نمودار ہونا تھا سو نمودار ہوا. جو بے پناہ درد سہنے اور بے پناہ آزادی کے خواہش کے نتیجے میں اُبھرا اور بلوچ معاشرے میں شعوری انقلاب کا سبب بنا. یہ ٹھہرے ہوئے پانی نہیں بلکہ جمے ہوئے گلیشئر میں وہ پتھر ثابت ہوا جس نے اُسے پگلا کر ایسے سونامی کی صورت روانی بخشا جس نے نہ صرف سارے بند توڑ دئے بلکہ پرانی موقع پرستی کے سیاست کے خس خاشاک کو بہا کر لے گیا. بیٹھے بیٹھے سارے بڑے سے. بڑے نام غیر اہم ہوگئے جس سے ریاست کو گھبرانا تو ہی کیوں کہ یہاں قوم پرستی، مرکز پرستی اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے سب کے سب غیر موثر ہو گئے جو ابھی تک ریاست کے دست و بازو چلے آرہے تھے. دوہزار چوبیس کے الیکشن اسکی زندہ مثال ہے جسمیں لوگوں کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی. وہ بھی اس صورت میں کہ. بی وائی سی نے براہ راست قوم سے ان الیکشنز سے باقاعدہ بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا اگر وہ ایسا اعلان کرتیں تو جہاں اس بار پانچسو ووٹرز کی جگہ فقط دس بیس ووٹرز آئے تھے وہ بھی نہیں آتے. بی وائی سی کی کامیابی کا راز صرف اسمیں ہے کہ انھیں اپنی کوششوں کے بدلے کوئی الیکشن نہیں لڑنا کوئی گھنٹہ، کوئی پرمٹ، کوئی ٹھیکہ وغیرہ نہیں چاہئے. اُنکی یہی خلوص اور نابغہ روزگاری بلوچ قوم کے ہر چھوٹے بڑے کا دل جیت چکی ہے۔
بی وائی سی کی مقبولیت ریاست کیلئے اُس وقت تک چیلنج نہیں بنی اور قابل قبول رہی جب تک انھوں نے اپنے مطالبات کے پورا ہونے کا ضد کر کے استقامت نہیں دکھائی . آج اُنکی کامیابی کا راز یہی ضد و استقامت ہے جس نے ماہ رنگ بلوچ کو نوبل امن انعام کیلئے نامزد کرایا یہی وہ ضد و استقامت ہے جو جبری گمشدہ لوگوں کے فیملیز کیلئے اُمید کی کرن ثابت ہوئی اور یہی وہ خاصیتیں ہیں جنہوں نے ریاست کو حقیقتی طور پر پریشان اور بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کرنے والے مرکز پرست، قوم پرست و مذہبی جماعتیں سب کیلئے خطرے گھنٹی بجا دی ہیں۔
بی وائی سی کے خلاف مشترکہ فرنٹ کا کھلنا:
قارئین نے محسوس کیا ہو گا کہ ان نام نہاد قوم پرستوں کے لیڈروں سے اکثر ٹی وی مباحثوں میں مستقل دو سوال پوچھے جاتے ہیں کہ آپ لوگ جو مستقل سیاستدان تھے کہاں گئے اور یہ ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی کہاں سے آ گئی؟ دوسرا سرمچاروں کے حملوں میں شدت جو آئی ہے اسکے اسباب کیا ہیں اور اس پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ حالانکہ دونوں سوال بہت ہی آسان ہیں اور ان کا راست گوہی سے جواب دیا جاسکتا ہے کہ ہم پارلیمانی اور پُرامن طریقے سے بلوچ کی درست نمائندگی نہ کر سکے اسمبلیوں میں جا کے ہم اہنے ذاتی و گروہی مسائل میں الجھ گئے اور ہمارے لئے بلوچستان میں لوگوں کی گمشدگیوں کا مسئلہ ثانوی رہا یا اُنکے عزیزوں نے ہمیں بیگانہ سمجھ کر اپنے لئے کوئی مخلص نجات دہندہ تلاش کیا اور اس تلاش کی نتیجے میں بی وائی سی وجود میں آئی اور ماہ رنگ بلوچ اُنکے لیڈر کی شکل میں اُبھری . دوسرا جہاں تک سرمچاروں کے حملوں میں شدت اور ریاستی رٹ کے چیلنج کا سوال ہے وہاں ہم بے بس ہیں وہ لوگ بلوچستان کی آزادی چاہتے ہیں اور ہم جو پاکستان کے پارلیمنٹ میں جاکر وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں وہ ہمیں ریاست کے سہولتکار اور تحریک آزادی کیلئے مضر سمجھتے ہیں. مگر وہ یہ سچ کہنے کے بجائے بار بار ایک ہی گمراہ کن رٹ لگاتے ہیں کہ وہاں الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے ہیں اور اداروں نے غلط آدمی چنے ہیں. حالانکہ یہ ایک سفید جھوٹ ہے کہ چونکہ زید کی جگہ بکر نہیں آیا ہے تو حالات خراب ہوئے ہیں ایسا کہکر وہ اپنے لئے اقتدار تک راستہ ہموار کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں مگر اس سے بلوچ قومی تحریک اور اَن شہداء کیساتھ کتنی بڑی زیادتی کررہے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے. کیا اس سے بڑا ظلم ہو سکتا ہے کہ وہ سرمچار بلوچ کی آزادی کیلئے جان دے رہے ہیں اور آپ انکی قربانی کو بے توقیر کر کے اسے اپنے الیکشن سے جوڑتے ہیں۔
اس ایک سوال سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست اور یہ نام نہاد قوم پرست جنہیں وہ مستقل سیاستدان کہتے ہیں ایک پیج پر ہیں اور بی وائی سی دونوں کیلئے یکساں بیگانہ اور کچلے مظلوموں کا حقیقی وارث ہے جن کو اب تک ریاست اور اسکے مقامی نمائندے تسلیوں سے بہلا کر قسطوں میں ہر لحاظ سے مروا رہے تھے. جبکہ نیا مظہر بی وائی سی کسی شراکتداری کیلئے راضی نہیں اور ریاست سے حقیقی معنوں میں وہ مطالبات کر رہی ہے جو ریاست کسی طرح بھی پوری کرنے کے لئے آمادہ نہیں۔
بی وائی سی پر ریاستی کریک ڈاؤن کی ضرورت:
جس طرح ایک عرصے سے سردار عطاء اللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو کے اس پیدا کردہ خوف نے بلوچ قوم کو نفسیاتی طور پر جکڑے رکھا تھا کہ بلوچ آزادی نہیں لے سکتا اور وہ اس قابل بھی نہیں ہے کہ بعد میں اپنی آزادی کو برقرار رکھیں کی جگہ بابا مری کے اس یقین نے لینا شروع کیا کہ بلوچ نہ صرف ایک مکمل قوم ہے اور اپنی آزادی لینے کے قابل ہے بلکہ اگر متحد رہے تو وہ اسے برقرار بھی رکھ سکے گی مزید یہ کہ بلوچستان صرف پاکستان کا مقبوضہ بلوچستان نہیں بلکہ اصل بلوچستان وہی ہے جو انگریز کے آنے سے پہلے تھی. بی وائی سی نے جب بلوچ کیلئے تمام سرحدوں کے قیود کو چیللنج کیا تو اُنکے اس نعرے نے انھیں مقبولیت کی اُن بلندیوں سے روشناس کرایا جس کا پاکستانی حکام نے تصور نہیں کیا تھا. انھوں نے اس کے ساتھ بلوچی اور براہوئی زبانوں پر فخر کرنے اور انھیں سنبھالنے کی طرف توجہ دیا بلوچوں کے درمیان رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کے تضادات کو قومی یکجہتی کیلئے زہر قاتل قرار دیا جس کو ریاست ابھی تک بلوچ قوم کو منتشر رکھنے ایک آلہ کے طور پر استعمال کر رہا تھا. اس نعرے نے بلوچ قوم میں پہلی بار ایک نئی ہم آہنگی پیدا کی جو مذہب و مسلک، زبان و لہجہ اور ذات و زئی کے بندھنوں سے آزاد تھی. ساتھ میں بلوچ کے ساحل و وسائل پر بلوچ قوم کی ملکیت کو تسلیم کرنے کا کہا۔
بی وائی سی جو شروع میں اُس ایک مسلہ (جبری گمشدگیوں) کی وجہ سے معرض وجود میں آئی تھی اب آہستہ آہستہ اُن تمام شعبوں کا احاطہ کررہی تھی جن پر نہ پاکستان کچھ سُننے کو تیار تھا اور نہ ایران یہاں کسی ایسے تبدیلی دیکھنے تیار تھا جو بلوچوں کے درمیان مصنوعی لکیروں کو مٹانے کی بات کرے اور یہ بیانیہ بلوچ قوم میں مقبولیت حاصل کرے. پاکستان کی اہمیت بلوچ کے ساحل و وسائل کی وجہ سے ہے اور انہی سے اسکا وجود قائم ہے لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی نے باقی مسائل کی طرح اس مسلے کو بھی اُسکی تمام تر سنجیدگی سے لیا جو پاکستان کے حکمرانوں کیلئے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے. عین وقت پر وہ جبری گمشدگاں کی شناخت اور ڈی این اے کرانے کے موضوع کو بھی روبہ دست لے چکے تھے دوسری جانب پی ٹی ایم قیادت کیساتھ مل کر بلوچ پشتون اتحاد کی طرف پیشرفت کی بھی کوششیں شروع ہو چکی تھی ان سب کے اوپر نوبل انعام کیلئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی نامزدگی پاکستانی حکام کیلئے بجلی بن کر گری۔
پاکستان جو کچھ بلوچستان میں کر رہا گو کہ اُس سے دنیا کسی حد تک آگاہ ہے مگر بلوچ کے پاس ایسی آواز نہیں جسے پوری دنیا توجہ سے سُنے اور یہ کمی ماہ رنگ بلوچ کی شکل میں نوبل انعام حاصل کرنے کی صورت میں میسر ہو سکتی تھی ان وجوہات کی بنا پر ریاست کے پاس صرف دو راستے تھے پہلے اپنی غلطی تسلیم کرکے جبری لاپتہ افراد بارے درست معلومات فراہم کرے اگلے قدم پر بلوچستان پر جبری قبضے کا اعتراف کرے تیسرے مرحلے میں اس کا بھی باقاعدہ اعتراف کرے کہ ریاستی سرپرستی میں ڈیتھ اسکواڈ بنائے گئے ہیں وغیرہ وغیرہ کیونکہ ماہ رنگ بلوچ کے تیور ایسے نہیں ہیں کہ وہ تمام معاملات کو کلئیر کئے بغیر یا انھیں ادھورا چھوڑ کے آرام سے بیٹھے ظاہر ہے ریاست ایسا کرنے کیلئے فی الحال تیار نہیں دوسرا راستہ یہی ہے کہ اس کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے اُسے پی ٹی ایم کی طرح دفاعی پوزیشن میں لایا جائے جس سے اس کے خاتمے کی راہیں ہموار ہوں گی اور کریک ڈاؤن کی توسط سے سردست اس منصوبے پر کام کیا جاسکتا ہے کہ ماہ رنگ بلوچ کے نام کو جو نوبل انعام کیلئے نامزد ہوئی ہے اُس پر کسی نہ کسی طرح سے اثر انداز ہوا جائے. کیونکہ اگر اسے نوبل انعام مل گئی تو وہ پاکستان کے ریاستی مظالم ایسے مدلل طریقے سے بیان کرے گی کہ اُن کی صفائی پیش نہیں جاسکے گی اور کئی حاضر سروس اور ریٹائرڈ کرنل، جنرلوں اور سیاسی لیڈروں کو بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
حرف آخری:
بظاہر جبری گمشدگیاں مسئلہ ہے جو بی وائی سی کے وجود میں آنے کا سبب بنا مگر اصل مسلہ غلامی ہے جسکے خاتمے کیلئے کوششوں کو دبانے ریاست جبری گمشدگیاں کررہی ہے . اسمیں جو چیز سب سے بھیانک اور دردناک ہے وہ یہ کہ پاکستانی پارلیمانی سیاست کرنے والی تمام جماعتیں بلاتفریق بلوچ قوم کے خلاف ریاست کے اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اس لئے جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں وہ بلوچوں کے ہمدرد بنتے ہیں مگر جونہی اقتدار میں آتے ہیں اُنکے تیور بدل جاتے ہیں لہذا بلوچ قوم کیلئے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہونا چائیے کہ اُنکے حقیقی ہمدرد وہی قوتیں جو بلوچ کی شناخت کیلئے لڑ رہے ہیں اور وہ پاکستان سے کسی مراعت کے طلبگار نہیں دوسرا بی وائی سی ہے جو ریاستی جال(پاکستانی پارلیمنٹ) میں نہیں پڑی ہے. بلوچ قوم اگر واقعی بی وائی سی جدوجہد کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے تو اُسے ان نام نہاد قوم پرستوں کے آسرے کے بغیر خود بلوچستان گیر نہ ختم ہونے والے احتجاجوں کا سلسلہ شروع کرنا ہو گا نہیں تو میدان میں چیخنے والے قوم پرست ریاست کے ساتھ ملکر بی وائی سی قیارت کو یا تو توڑیں گے یا لمبی سزائیں دلواکر میدان پاکستانی پارلیمانی سیاسدانوں کیلئے خالی کروائیں گے جیسے پہلے اُنکے خالی بیانات ہوئے ہیں بعد میں بھی ایسے سخت و تُند بیانات ہوں گے جن پر نہ پہلے عمل ہوا ہے نہ بعد میں ہوگا اور یہ ریاست کیلئے میدان صاف کرکے اقتدار میں آکر جشن منائیں گے اور بلوچ قوم کے ساتھ مل کر بی وائی سی کے تباہی پر مگر مچھ کے آنسو بہائیں گے. بعد میں کوئی اینکر ان سے نہیں پوچھے گا کہ آپ مستقل سیاست دان کہاں غائب ہوئے اور ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی کہاں سے آگئی؟ کیونکہ میدان ایک بار اُن کیلئے خالی ہو چکا ہو گا جن کی سیاست کو بی وائی سی نے مکمل طور پر غیر موثر کردیا تھا. اس تاریخی موڑ پر فیصلہ بلوچ قوم کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنے خلاف اس سازش کو کیسے ناکام کرے گی جس سے اسکی بقا وابستہ ہے۔