بولان میڈیکل کالج انتظامیہ کی جانب سے ری الاٹمنٹ کےلیے پورٹل کھولنا ہاسٹلز کو غیر معینہ مدت تک بند کرنے کی سازش ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔ بغیر کسی تاخیر کے ہاسٹلز اور کالج فی الفور کھولا جائے۔

بروز جمعہ بولان میڈیکل کالج سے بلوچستان اسمبلی تک احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔

طلباء تنظیمیں بلوچستان

بلوچستان کے طلباء تنظیموں کی جانب سے بولان میڈیکل کالج کی ملٹرائزیشن، طالبعلموں پر کریک ڈاون ، ہراسانی و جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی تحریک پچھلے 15 دنوں سے جاری ہے ان پندرہ دنوں کے اندر ابھی تک صوبائی حکومت ، کالج انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی قسم کی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔ حالانکہ کالج کو بند ہوئے ایک ماہ مکمل ہو چکا ہے لیکن ابھی بھی کالج انتظامیہ حیلوں بہانوں کے ذریعے کالج و ہاسٹلز کو تا دیر بند رکھنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔

بولان میڈیکل کالج پر پولیس نے دھاوا بول کر طلباء پر شدید تشدد و گرفتاریوں کے بعد ہاسٹل کو مکمل سیل کیا جو کہ سراسر غنڈہ گردی اور غیر قانونی ہے۔ اس وقت کالج انتظامیہ کہاں تھی؟۔ جب طالبات کے ہاسٹلز کو خالی کرنے کےلیے انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا رہا، طالبات کے فیملیز کو لیٹرز بھیجے گے اور مختلف ذرائع سے ہراساں کیا جاتا رہا ہے اس وقت کالج انتظامیہ کہاں تھی؟۔ اب جب طالبعلموں نے کالج و ہاسٹلز کو دوبارہ کھولنے کےلیے احتجاجی کیمپ لگائی تو آپ انہیں سننے کی بجائے مزید سازشیں کررہے ہیں۔ ابھی کالج انتظامیہ کی جانب سے ری الاٹمنٹ کےلیے ایک پورٹل کھولی گئی ہے جسے ہم مکمل مسترد کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پہلے سے الاٹٹڈ ہاسٹلز کو دوبارہ الاٹ کرنا اور نام نہاد میرٹ کا شوشہ ہاسٹلز کو انہی پراسس کے زیر سایہ تا دیر بند کرکے بھرپور ملٹرائیز کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔

کالج انتظامیہ کی جانب سے بیانیہ سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہاسٹلز میں غیر قانونی افراد رہائش کررہے ہیں اس لیے ہم ری الاٹمنٹ کریں گے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہاسٹلز میں غیر قانونی افراد رہائش کررہے تھے تو آپ پہلے کہاں سو رہے تھے۔ اس کے علاوہ اس سے پہلے کالج کے مرمت کے نام پر پرنسپل سمیت کالج انتظامیہ نے کروڑوں روپے وصول کیے ہیں وہ کہاں گئے؟ ۔ کالج انتظامیہ جو کہ کرپشن کے بیشمار کیسوں میں ملوث ہے اگر میرٹ کا شوشہ کیا جارہا ہے تو ہم ان کو سامنے لاتے ہیں سب کا قانونی احتساب کیا جائے۔ کالج انتظامیہ خود لابنگ کا شکار ہے اور صرف بولان میڈیکل کالج کو کرپشن کا گڑھ بنایا ہوا ہے سب سے پہلے تو آپ اپنے انتظامیہ عہدوں سے دستبردار ہو جائیں کہ ایک کالج و ہاسٹل کو آپ نہیں چلا سکتے ہیں۔ اپنے نااہلی کو چھپانے اور خود کو بری الذمہ کرنے کے چکر میں تمام ملبہ طالبعلموں پر ڈالا جارہا ہے جو کہ شرمناک ہے۔ اس کے ساتھ کالج انتظامیہ نام نہاد میرٹ کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔ تو یہاں سوال ابھرتا ہے کہ پہلے ہاسٹلز پر میرٹ پر نہیں تھے تو آپ کہاں تھے اس سے صاف ظاہر آپکی ناہلی کی ہے تو پہلے اپنا احتساب کریں اور دوسری بات جب پرنسپل خود ہی میرٹ کے خلاف تعینات ہے تو وہ کس میرٹ کا دعوی کررہی ہے؟ اس کے علاوہ یہی ہاسٹلز پہلے ہی طالبعلموں کےلیے نہایت ہی کم ہیں اب نئی سرے سے ری الاٹمنٹ ایک اور سنگین مسئلے کو جنم دے گا کیونکہ پہلے کم کمروں کے باوجود زیادہ اسٹوڈنٹ رہائش کررہے ہیں جبکہ جو فارمولا اور نام نہاد میرٹ فارمولا کالج انتظامیہ لے کر آنا چاہتی ہے وہ اتنے بڑے تعداد میں طالبعلموں کو ایڈجسٹ نہیں کر پائے گئ اور اس سے طالبعلموں کے درمیان پھر سے غلط فہمیاں اور لڑائی جھگڑوں کو وسعت دینے کا سبب بنے گی۔ اس وقت بی ایم سی میں 07 سیشن بیک وقت پڑھ رہے ہیں اور ہاسٹل میں رہائش پزیر طلباء کی تعداد تقریباً دو ہزار سے زائد ہے جبکہ ہاسٹل کی تعداد صرف دو ہے۔ اور ان ہاسٹلز میں کمروں کی شدید کمی ہے۔ نئے فارمولے سے بیشتر طالبعلم بے گھر ہو جائیں گے اور کافی سارے سیشنز کے طالبعلموں کو کمرے میسر نہیں ہونگے اس کے علاوہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں کے طالبعلم تعلیمی بیس میں کمزوری کی بنا میرٹ میں جگہ نہیں پائیں گے جس سے کافی سارے علاقوں کے طالبعلموں کو ہاسٹل کی بنیادی سہولت سے محروم کیا جانے کا خدشہ ہے۔

ہم کالج انتظامیہ کی اس سوچی سمجھی سازش کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ فی الفور بغیر کسی جواز، حیلے بہانے کالج اور ہاسٹلز کو اسی حالت میں فعال کرے تاکہ طالبعلم اپنے کمروں میں جا کر اپنا تعلیمی کیرئیر جاری رکھ سکیں۔ اور ہم تمام طالبعلموں کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ریاست کی جانب سے اس وقت بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں کو ملٹرائز کیا جارہا ہے ۔