لندن (ہمگام نیوز) فری بلوچستان مومنٹ کے سربراہ اور بلوچ قومی رہنما حیر بیار مری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران نے نہ صرف بلوچ قوم کو جبری طور پر غلام رکھا ہوا ہے بلکہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر بلوچ قومی نسل کشی میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ بلوچ کو ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر ایران کے ہاتھوں شناخت کے بحران کا سامنا ہے، ایسے میں کسی بھی ملک کا ایران کے ساتھ بلوچ ساحل و وسائل پر کی گئی کسی بھی معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی بلوچ ایسے کسی بھی معاہدے کو تسلیم کرتی ہے۔

یاد رہے کہ کچھ دن پہلے بھارت نے ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے ساحلی شہر چابہار میں انفراسٹرکچر کے مد میں ایک سو بیس ملین ڈالر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ دوسوپچاس ملین ڈالرز کا لائن آف کریڈٹ دیتے ہوئے دس سالہ معاہدے پر دستخط کیئے ہیں۔

بلوچ رہنما نے مزید کہا کہ انڈیا کو چاہیئے تھا کہ بلوچ قومی آزادی کی اس جد و جہد میں بلوچوں کو اخلاقی و سیاسی مدد فراہم کرتے کیونکہ انڈیا کی طرح بلوچ قومی غلامی بھی برٹش سلطنت کی برصغیر میں آمد کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہے جہاں بلوچستان کو مختلف ادوار میں ایران اوربعد ازاں دیگر خطوں میں تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضے کو بھی بلا واسطہ ممکن بنانے میں ہر طرح کی مدد کی۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بلوچ جس طرح کی جد و جہد میں مصرف عمل ہے بالکل ایسے ہی حالات کا سامنا انیس سو سینتالیس سے پہلے انڈیا کو کرنا پڑا تھا جہاں برطانوی سلطنت نے بھارتی قوم کو غلام بنایا تھا اور اسکے بعد متحدہ ہندوستان کا ایک حصہ کاٹ کر اسکا نام پاکستان رکھا اور آج انڈیا اپنے اس زمین سے دست بردار ہوچکا ہے لیکن بلوچ اپنی سرزمین کی ایک ایک انچ کے حوالے سے نہایت حساس ہے۔

بلوچ رہنما نے کہاکہ ماضی میں خود برطانوی سلطنت کے زیر تسلط رہنے والے انڈیا نے مقبوضہ بلوچ سرزمین کے ایک حصے پر قابض ایرانی حکومت کا ساتھ دیکر بلوچ قوم کے خلاف اسکی جبر و استبداد میں ساتھ ہونے کی حامی بھر لی ہے۔

واضح رہے کہ ہندوستانی ریاست ایک طرف اپنے آپ کو بلوچ قوم کا دوست اور خیرخواہ کہتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ بلوچ قوم پر قابض ملک کا ساتھ دے رہا ہے یہ بذات خود ایک انتہائی افسوسناک امر ہے۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا وسطی ایشائی ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنی تجارت کو بہتر بنانے کے واسطے پاکستانی زمینی راستوں پر اس لیئے مقبوضہ بلوچستان کے چابہار پورٹ کو ترجیح دے رہا ہے کہ اس سے اسے اپنی حریف پاکستان کی شرائط کو ماننے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ بہتر طریقے سے بذریعہ افغانستان اپنی تجارتی سامان وسطی اشیا کہ ممالک تک پہنچا سکتا ہے لیکن اس تمام معاہدے میں بلوچوں کی موقف کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ بلوچوں نے کبھی بھی پاکستانی و ایرانی جارحیت و قبضہ گیریت کو قبول نہیں کیا ہے اور ہنوز بلوچ قوم ہرلحاظ سے ایرانی و پاکستانی قبضہ گیروں کے خلاف جد و جہد کررہا اور قربانیاں دے رہاہے۔

حیربیار مری نے مزید کہا کہ کسی بھی قوت کی ایرانی قبضہ گیر حکومت کے ساتھ بلوچ سرزمین پر کسی بھی قسم کی سیاسی یا تجارتی معاہدے کو بلوچ کسی صورت قبول نہیں کریگا اور ماضی میں بھی چین نے بلوچ قومی منشا و مرضی کے برعکس بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پورٹ سمیت بلوچستان کی وسائل کی بکثرت لوٹ مار اور بہتر عسکری نقل و حرکت کے لیے بلوچستان میں سڑکوں کی جال بچھانے کے لیئے کئی بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی لیکن بلوچ قوم نے اس سرمایہ کاری کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا اور اسکے خلاف اپنی مزاحمت کو جاری رکھا بھارت جیسے ممالک کو ایسے معاہدات سے پہلے بلوچ کی جد و جہد اور قابضین کے خلاف سیاسی مزاحمت کی تسلسل کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔

بلوچ رہنما کا کہنا تھا کہ انڈیا کی سیاسی و معاشی مفادات اپنی جگہ لیکن بلوچ اپنی سرزمین پر اپنی نسل کشی اور شناخت کو ختم کرنے والے قابضین کے ساتھ کسی بھی ملک کو ایسے معاہدوں یا سیاسی شراکت داری کی اجازت نہیں دے سکتی۔ بھارت کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایران و پاکستان دونوں بلوچ قوم کا ازلی دشمن ہیں اور درون خانہ دونوں ریاستیں آپس میں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ستر کی دہائی میں پاکستان کے خلاف ہونے والی بلوچ قومی مزاحمت کے دوران بھی پاکستان کی امداد کے لئے ایران نے اپنے ائیرفورس اور فائلٹس بھیجے تھے تاکہ وہ بلوچ قومی مزاحمت کو کچل سکیں اور ابھی گزشتہ سال زاھدان کے اندر ایرانی ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے پر ایران نے سینکڑوں بلوچوں کو گولیوں سے بھون کر شہید کیا ۔اسکے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر نام نہاد اور جھوٹے الزامات کے تحت عام بلوچوں کو گرفتار کرکے سرعام پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے اور کئیوں کو اغوا کرکے بے رحمانہ تشدد کے بعد انکی لاشیں ناگفتہ بہہ حالت میں بلوچستان کے اندر پھینک دی جاتی ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ان تمام ظلم وجبر اور ناروائیوں کا بنیادی سبب یہی ہے کہ بلوچ سرزمین مقبوضہ ہے اور بلوچ قوم اپنی مقبوضہ حیثیت کو ختم کرنے لیئے ایران جیسے فاشسٹ ریاست کے خلاف برسرِپیکار ہے۔ ایسے میں بھارت کا ایرانی ریاست کی مدد کو آنا یہی پیغام دیتا ہے کہ انڈیا بلوچ قومی نسل کشی کی ان کارروائیوں میں ایرانی ریاست کے ساتھ کھڑا ہے لیکن یہ بات واضح رہے کہ قابض پاکستانی و ایرانی ریاست کے ساتھ بلوچ قومی مفادات کے خلاف کوئی بھی ملک یا قوت شراکت داری رکھنا چاہتی ہے تو بلوچ قوم ان تمام ممالک اور قوتوں کو بلوچ قومی نسل کشی میں ایران و پاکستان کا شریک سمجھے گی۔