کوئٹہ (ہمگام نیوز) بی ایس او آزاد نے 28 مئی کے پاکستانی ایٹمی تجربات کے حوالے سے پمفلیٹ جاری جاری کردیا جو درج ذیل ہے۔
عزیز ہم وطنوں!
اٹھائیس مئی بلوچستان کی تاریخ کی ایک ہولناک ترین دن ہے جب ریاست نے اپنے مذہوم عزائم کی تکمیل کے لئے چاغی کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا تھا اور آج بھی اس کے اثرات بڑی شدت کے ساتھ بلوچستان خاص کر چاغی میں محسوس کئے جاتے ہیں۔ چاغی میں عین انسان آبادی کے درمیان ایٹمی تجربات کرنا دنیا کے تمام تر قوانین کو پاؤں تلے روند کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا اور اس طاقت کے بل بوتے پہ بلوچ عوام کی زندگی کو زہر آلود بنا کر بلوچستان کو مزید تاریکی کی جانب دھکیلنا تھا۔
عزیز بلوچوں!
ایٹمی ہتھیاروں کو خالص انسانی نسل کشی کے لیے بنایا گیا۔ ریڈیو تھراپی کے علاؤہ ایٹمی پروگرام جس بھی طریقے سے استعمال کیا جائے یہ انسانیت کے لیے مہلک ہے۔ وہ مادہ جو تابکاری توانائی رکھتا ہے اس سے مسلسل تابکار شعاؤں کا اخراج ہر زندہ شے کے لیے نقصاندہ ہے، مسلسل خارج ہونے والےتابکار شعائیوں کے اثرات سے جاندار حیاتیاتی مادے کی ساخت کو برقرار نہیں رکھ سکتے، چرند پرند پودے انسان کوئی بھی شے اسکے مضر اثرات سے محفوظ نہیں، نہ صرف جاندار اشیاء بلکہ غیر جاندار اشیاء بھی تابکار شعاعوں کی وجہ سے متاثر ہوجاتےہیں۔ موسمی حالات سے لیکر زمینی ساخت تک متاثر ہوجاتی ہے۔ دنیا بھر میں پہلی مرتبہ ایٹمی ہتھیار کے زریعے ہیروشیما اور ناگاساکی میں دو لاکھ کے قریب لوگوں کو محض اس لیے لقمہ اجل بنایا گیا کہ دنیا کو اس ہیبت ناک چیز کا قہر دکھایا جائے ۔ دنیا کےطاقت ور ترین ہتھیار نے طاقت کے جنگ کو جب غیر مساوی کردیا تو دوسرے اقوام بھی اس کے جستجو میں لگ گئے۔
باشعور بلوچ عوام!
جب بھارت نے 1974 میں اپنے ایٹمی پروگرام افشاں کئے تو پاکستان اپنے لڑھکڑاتی معشیت اور عوام کی خستہ حالت کو فراموش کرکے اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹم بم بنانے اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد پاکستانی ادارے مناسب جگہ کی تلاش میں تھے جہاں ایٹمی تجربات کئے جائیں تو اس تجربے کے لئے پاکستان جیسے ریاست کو راکھ کرنے کے لیے بلوچستان سے زیادہ موزوں اور مناسب جگہ کہیں بھی نہیں مل سکتی تھی۔ تاکہ ایک طرف اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا خواب پورا کیا جاسکے اور دوسری طرف بلوچستان کے ہر سبزے، چرند و پرند کو راکھ و ڈھیر میں تبدیل کیا جائے اور بلوچوں کی موجودہ نسل سے لیکر آنے والے کئی نسلیں اس تابکاری کے اثرات سے زہنی و جسمانی حوالے سے عام انسانوں کے مقابلے میں کمزور اور اپاہج ہو۔
اٹھائیس مئی 1998 کےدن راسکوہ اور خاران میں مقامی آبادی کو اطلاع دئیے بغیر ایٹمی دھماکے کرکے راسکوہ کے پہاڑ اور خاران کے ریگستان کو بھسم کردیا گیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں انسان متاثر ہوئے۔ مال و مویشی بھی اس تجربات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ چاغی کی سرزمین بنجر اور خشک ہوگئی، سرطان، تھلیسمیا اور دیگر کئی مہلک بیماریوں نے وہاں ڈھیرے ڈال دئیے۔ اموات کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے لیکن ریاست نہ وہاں انسانی آبادی پہ اس ایٹمی تجربات کے مضر رساں اثرات کو قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ وہاں بنیادی سہولیات جیسے کہ ہسپتال میسر کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست بلوچ نسل کشی کی ہر طریقے پر کامل ایمان رکھتی ہے۔
آج بھی چاغی سے معدنی وسائل کو لوٹا جارہا ہے لیکن بدلے میں چاغی کے عوام صرف بھوک افلاس اور بیماریوں کا سامنا کررہے ہیں۔ چاغی ہو یا کوہ سلیمان،خضدار ہو یا کراچی،تربت ہو یا ڈیرہ بگٹی بلوچ ہر جگہ بدترین حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ریاست نہ صرف فوجی آپریشنز، ماورائے عدالت گرفتاریاں اور مسخ شدہ لاشوں کے پھینکنے کے عمل سے بلوچ نسل کشی کو تقویت فراہم کررہی ہے بلکہ منشیات فروشی، گینگ وار، ڈیتھ اسکواڈ، راسکوہ میں ایٹمی دھماکوں کے تابکاری کے مسلسل اثرات جس نے ہزاروں زندگیاں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا کردئیے ہیں اور قاتل شاہراؤں پہ ہزاروں لوگوں کی ہلاکت محض سانحہ نہیں بلکہ اس سانحے کے پس پردہ عزائم ریاست اور اسکے ماتحت اداروں کے تشکیل کردہ ہے۔
باشعور بلوچ عوام!
آج بلوچ قوم ایک جنگی صورتحال کا سامنا کررہی ہے۔ ریاست نسل کشی کو تیز کرنے کے لئے مختلف پالیسیاں تشکیل دیکر بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔آج اپنے بقاء کے لئے صرف جدوجہد کا راستہ بچا ہے اور جدوجہد کا راستہ ہی قوم کو نئی زندگی کی راہوں کا تعین کرنے میں مددگار ہوسکتی ہے۔ آج ہر باشعور بلوچ کی ذمہ داری ہے کہ وہ میدان عمل میں اپنا کردار ادا کریں اگر آج بھی ہم خواب غفلت میں پڑے رہے تو ہم دائمی غلامی کے شکنجے میں پھنس جائیں گے اور غلامی ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کاسبب بن سکتی ہے۔