کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے تنظیم کے کامیاب کونسل سیشن کے اختتامی دن کا احوال میڈیا کو جاری کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس او آزاد کا تئیسواں مرکزی کونسل سیشن بیاد لمہء وطن بانک کریمہ بلوچ و شہدائے آجوئی اور بنام بلوچ اسیران آج تیسرے دن کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا جس میں درپشان بلوچ بلامقابلہ چیئرمین جبکہ زروان بلوچ بلامقابلہ طور پر سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔

تئیسواں مرکزی کونسل سیشن میں مرکزی چیئرمین کا خطاب، آئین سازی، سیکرٹری رپورٹ، تنقیدی نشست، تنظیمی امور، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال، آئندہ لائحہ عمل اور چیئرمین کا آخری خطاب کے ایجنڈے زیربحث رہے۔

مرکزی کونسل سیشن کے پہلے روز مرکزی چیئرمین کا خطاب، آئین سازی، سیکرٹری رپورٹ، تنقیدی نشست کے ایجنڈوں پر بحث کیا گیا۔ جبکہ دوسرے روز تنظیمی امور، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے کے ایک حصے پر تفصیلی بحث و مباحثہ ہوئی۔ آج مرکزی کونسل سیشن کے اختتامی دن آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے میں دو سالہ تنظیمی پروگرام کو حتمی شکل دینے کے بعد موجودہ مرکزی ساخت کو تحلیل کرکے الیکشن کمیشن کا چناؤ عمل میں لایا گیا۔ سابق مرکزی سیکرٹری جنرل مہر زاد بلوچ کی سربراہی میں تین رکنی الیکشن کمیشن کا چناؤ ہوا جنہوں نے صاف شفاف الیکشن کا انعقاد کیا۔

انتخاباتی عمل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے سربراہ نے باقائدگی سے نومنتخب مرکزی کابینہ اور سینٹرل کمیٹی کے اراکین کا اعلان کیا جس میں درپشان بلوچ بلا مقابلہ چیئرمین جبکہ زروان بلوچ بلا مقابلہ طور پر سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔

انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعدبند کمرہ اجلاس کی کاروائی ختم کرکے حلف برادری کی تقریب منعقد کی گئی جس میں نومنتخب مرکزی کابینہ و سینٹرل کمیٹی کے اراکین اور کونسلران سے سابقہ چیئرمین ابرم بلوچ نے حلف لیا۔

حلف برادری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابقہ چیئرمین ابرم بلوچ نے کہا کہ امید کرتا ہوں بی ایس او آزاد کی نومنتخب قیادت قومی تحریک میں بلوچ نوجوانوں کی شمولیت کو اور منظم بنائے گی اور قومی تحریک کے جدید تقاضوں کے مطابق بی ایس او آزاد کے انقلابی کیڈرز کی تربیتی عمل کی زمہ داریاں سرانجام دے گی۔ بی ایس او آزاد کیلئے ان مشکل اور سخت حالات میں اس انقلابی عمل کو جاری رکھنا اور منظم بنانا یقینا انتہائی مشکل ہوگا لیکن اپنی پندرہ سالہ سیاسی کیرئر کے تجربہ سے کہہ سکتا ہوں کہ بی ایس او آزاد کے انقلابی کیڈرز میں ہر طرح کے سخت اور بدترین حالات کا سامنے کرنے کی جرات موجود ہے۔ بی ایس او آزاد کی قیادت اور کیڈرز نے تنظیمی ممبران اور لیڈرشپ کی شہادت، زندان، حتی کہ درجنوں مسخ شدہ لاشیں بھی اٹھائی ہیں لیکن ان کے سوچ و فکر اور عمل میں کبھی تضاد دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ بی ایس او آزاد کے کیڈرز نے نا صرف دشمن کی جبر اور وحشت کا مقابلہ کیا ہے بلکہ سخت اندرونی ناچاقیاں بھی برداشت کی ہیں لیکن قومی مقصد، سینٹرل ڈیموکریسی کے تنظیمی طرز جمہوریت، تنظیمی خودمختیاری اور آزادانہ حیثیت پر کبھی بھی آنچھ آنے نہیں دیا ہے اور یہی تنظیمی کامیابیوں کی اہم وجوہات ہیں اور اسی طرز فکر کے ساتھ ہی بی ایس او آزاد ایک منظم ادارے کی شکل میں فعال رہ سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے تحلیل ہونے کے بعد تنظیم کی زمہ داریاں نئی مرکزی کمیٹی کے سپرد کی گئیں۔ جس کے بعد نو منتخب چیئرمین درپشان بلوچ نے مرکزی کونسل سیشن کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے میں کونسل سیشن کے کامیاب انعقاد پر بی ایس او آزاد کے کونسلران اور بلخصوص سابق قیادت کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس مشکل وقت میں بھی کونسل سیشن کے انعقاد کو یقینی بنایا ہے۔ گوکہ انقلابی اداروں کیلئے حالات کبھی بھی سازگار نہیں رہتے اور بی ایس او آزاد کیلئے یہ حالات گزشتہ پندرہ سالوں سے موجود ہیں اس لیے تنظیم کا ٹارگٹ ہمیشہ عظیم اور سرگرمیاں تاریخی رہتے ہیں۔

 بی ایس او آزاد کے انقلابی ساتھیو! جدوجہد، ہمت و قربانیوں سے تنظیمی قیادت تک پہنچنے کا عمل جہاں ایک عظیم اعزاز ہے وہیں یہ ایک انتہائی بڑی زمہ داری بھی ہے جو دوستوں نے اپنے کندھوں پر لیا ہے۔ ذاکر مجید جو گزشتہ 14 سالوں سے زندان میں قید ہے، کمبر جیسے عظیم نوجوان جو ٹارچر سیلوں میں بھی دشمن کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہتے ہیں کہ ہم شہادت قبول کر سکتے ہیں لیکن غلامی نہیں، زاہد جیسے عظیم رہنماء آج قیدِ زندان میں ہیں، ان سب نے یہ عظیم قربانیاں اس لیے برداشت کیں کہ بی ایس او آزاد ہر حال میں منظم رہے۔ اس لیے نو منتخب دوستوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ یہ چھوٹی زمہ داری نہیں جو ہمارے کندھوں پر ہے۔ امید کرتا ہوں کہ تنظیم کے آنے والے دو سالہ پروگرام کو منظم و متحرک شکل میں سرانجام دینے کیلئے تنظیمی ساتھی کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔

‎نو منتخب چیئرمین درپشان بلوچ نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کو مزیدمنظم اور فعال بنانے کیلئے اداراتی سطح پر مزید کام کرتے ہوئے جدوجہد کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری جنگ ایک فرد یا قوم سے نہیں بلکہ ریاستی سطح پر بنائے گئے منظم اداروں سے ہے جن پر سالانہ کھربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ ہزاروں ایسے اداروں سے ہماری جنگ ہے جو اس ریاستی ڈھانچے کو اپنے مفادات کیلئے زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ اس قبضے کو ختم کرنے کیلئے اداراتی سیاست اور جدوجہد کو مزید منظم بناتے ہوئے انفرادی سوچ کو تحریک سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو صرف جذبات سے نہیں بلکہ عقل اور صلاحیتوں سے اس تحریک کو اپنانے کی طرف جانا چاہیے اور اس میں شرکت کرنی چاہیے۔ منظم ادارے، جدید سائنسی صلاحیتوں اور ہنر سے ہی بلوچ قومی تحریک کو منطقی انداز انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے ۔بلوچ قومی تحریک اس وقت اداروں کی شکل میں موجود ہے جبکہ کسی بھی ریاست کے خلاف آزادی کی جنگ اور اس کی کامیابی کیلئے قومی تحریک کو ریاست کے متبادل ادارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلوچ نوجوان اپنی صلاحیتوں پر بھرپور انداز میں کام کرتے ہوئے قومی تحریک میں سینٹرل ادارے کی داغ بیل ڈالنے پر اپنی توجہ دیں ، ایک آزاد ، خودمختیار بلوچستان ہی بلوچ قومی شناخت، زبان، ثقافت، سائل و وسائل کی حفاظت اور ایک خوشحال مستقبل کی ضمانت ہو سکتی ہے۔

‎چیئرمین نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ بلوچ نوجوانوں کو کچھ سخت حقیقتوں سے آشناء ہونا ہوگا کہ وہ 21 ویں صدی میں ایک ایسی ریاست کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جو ایک طرف امریکہ جیسے سامراج کا ساتھی تو دوسری طرف چین جیسے نام نہاد کمیونسٹ ملک کے اتحادی ریاست خلاف قومی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہم سردجنگ کے بائی پولرآرڈر سے نکل کر ایک ایسے عہد میں داخل ہو چکے ہیں جہاں یونی پولر کیپیٹلسٹ سسٹم کے اندر خود کو منظم کرنا ہے ،بلکہ آج کے دور میں مضبوط، منظم، باصلاحیت اور عظیم طاقت سے لیس قومیں ہی اس دنیا میں ہمدردی اور حمایت کے قابل بن چکے ہیں۔کمزورقومیں آزادی کے دعوے دار نہیں ہوسکتے بلکہ طاقت ، قوت اور صلاحیت سے ہی قومیں آزاد اور مضبوط ہو سکتی ہیں۔ ہمیں اپنے ذہنوں سے محکومیت کا رٹا نکال کر ایک عظیم طاقت و قوت بننے کی سوچ کے ساتھ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ بلوچ قومی تحریک کو اس وقت جدید صلاحیتوں کی ضرورت ہے جس سے وہ ریاست کے اداراتی اسٹیکچر کو تھوڑ کر اس کا متبادل بلوچ ریاستی ڈھانچہ تشکیل دیں جس کیلئے محض قومی جذبات ہی کافی نہیں بلکہ اس کیلئے صلاحیتوں اور ہنر کی ضرورت ہے جو اس ریاستی ڈھانچے کا بہترین متبادل ہو سکیں۔ ہمیں سطحی سوچ و فکر اور جذباتی نعروں سے نکل کر حقیقی بنیادوں پر ایک ریاست کی تشکیل کا عمل مطالعہ کرنے کی طرف جانا چاہیے ۔ اس جدید دور میں ناقابل تلافی صلاحیتوں اور ہنر کے بغیر قبضہ گیر کے خلاف لڑنا ممکن نہیں جو جدید ہتھیاروں سے لیس اور سینکڑوں انسٹی ٹیوشنز پر قائم

‎ہے۔

‎بلوچ تحریک کو مزید

Central Institutionalization

‎کی جانب لے جانے کی ضرورت ہے ، کیونکہ ہمارا مدمقابل کوئی ایک فرد یا افراد کا کوئی گروہ نہیں بلکہ سینکڑوں Institutions پر مبنی ایک ریاستی ڈھانچے سے ہے۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ادارے ہی ان کے مدمقابل کھڑے ہو سکتے ہیں اور ان کا تھوڑ نکال سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو روایتی طریقے سے نکل کر جدید سائنسی ، علمی، انقلابی ہنر اور صلاحیتوں سے تحریک میں شرکت کرنے کی ضرورت ہے۔

‎انہوں نے کہا کہ حالات جنگ سے دوچار قوموں کے اندر سماجی و انقلابی تبدیلیوں میں نوجوانوں کا کردار انتہائی کلیدی رہتا ہے۔ بلوچ نوجوان اس انقلابی دور میں محض کچھ ذاتی مفادات کیلئے اپنی صلاحیتوں کا سودا پارلیمانی پارٹیوں، نام نہاد میر و معتبر و سرکاری زرخریدوں سے نہ کریں اور اپنی انفرادی زندگی میں مشغول نہ ہوں بلکہ قومی اور زمینی حقائق کے ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لائیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بلوچ اس وقت غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچ جیسے جنگ زدہ اور غلام قوم سے تعلق رکھنے کے بعد مغرب جیسی آزاد زندگی کا خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ بلوچ قومی تحریک کے ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر بلوچ نوجوان اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔

‎ قابض ریاست گزشتہ ستر سالوں سے بلوچ نوجوانوں کو زیر کرنے میں مصروف عمل ہے۔ کہیں ظلم جبر اور وحشت سے تو کہیں لب و لالچ کے ذریعے بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کوششوں میں صرف دشمن ہی نہیں بلکہ وہ بلوچ بھی شامل ہیں جنہوں نےروزِاول سے بلوچ قومی نظریہ کا سودا کیا ہے۔ لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ تاریخ ان کے مجرمانہ کردار پر انہیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی لیکن اس وقت اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ بلوچ نوجوان بلخصوص بی ایس او آزاد کے انقلابی کیڈرز اپنی دن رات ایک کرکے بلوچ عوام اور نوجوانوں کو تحریک کی ضرورت اور اہمیت سے آگاہ کریں۔

‎بلوچ شہداء کے عظیم وارثوں سے مخاطب ہوکر کہہ رہا ہوں کہ قومی آزادی کے منزل اور کامیابی کے سوا بلوچوں کا کوئی مستقبل نہیں، اس دھرتی کی آزادی کیلئے ہزاروں کی تعداد میں نواجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ اور عام عوام نے عظیم نقصانات برداشت کیے ہیں لیکن دنیا کی تاریخ یہی گواہی دیتی ہے کہ قوموں کی تشکیل کا عمل اسی طرح سخت، دشوار اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ایسی کوئی خوشحال قوم نہیں جنہوں نے سختیوں سے نہ گزر کر قومی ریاست کی تشکیل کی ہو۔ آج ہزاروں بے گھر اور مشکلات سے دوچار بلوچ عوام کی امیدیں ہم سے وابستہ ہیں اس لیے ہمیں ایمانداری، خلوص نیت اور انقلابی جذبے کے ساتھ اس کاروان کی کامیابی کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کرنی چاہیے۔

‎جبکہ نومنتخب سیکرٹری جنرل زروان بلوچ نے نئی تنظیمی زمہ داریوں کو سنبھالتے ہوئے بی ایس او آزاد کی تئیسواں مرکزی کونسل سیشن بیاد لمہء وطن بانک کریمہ و شہدائے آجوئی و بنام بلوچ اسیران کے اجلاس کا رسمی طور پر اختتام کیا۔