شال (ہمگام نیوز ) بی ایس او کے چیئرمین چنگیز بلوچ نے پریس کلب پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس او کا تئیسواں قومی کونسل سیشن بنام “مادر وطن کے دفاع میں“ بیاد ”عبدالعزیز کرد، شہید حمید شاہین اور شیرو مری” جنوری میں منعقد ہوگا ۔ انہوں نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ،جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آج کے عہد میں سرمایہ دارانہ نظام ہر گزرتے لمحے کے ساتھ نٸے بحرانات کا شکار ہورہی ہے اور اپنے ان داخلی بحرانات کا سدباب کرنے کےلیے اس سفاک نظام کے چیمپیٸنز کو مسلسل نٸی جنگیں چھیڑنی پڑ رہی ہیں تاکہ وہ محکوم اقوام کے وطن، وساٸل، شناخت، مارکیٹ، اور معیشت پر قابض ہو کر اپنے اقتدار کو کوٸی سہارا دے سکیں۔ یہ سامراجی طاقتیں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر اب تک مسلسل جنگوں میں رہی ہیں اور آج بھی جنگی معیشت ایک بہت منافع بخش کاروبار ہے۔
اسی تناظر میں بلوچ وطن بھی سامراجی جنگوں کے گھیرے میں ہے، تمام تر عالمی قوتیں اپنے سامراجی عزائم کیلئے اس خطے میں جنگی سرمایہ کاری کررہی ہیں جو مستقبل قریب میں مذید تباہی کا باعث بنے گی۔
اس سامراجی جنگ کے تناظر میں بلوچ وطن کا تحفظ ہمارا اولین مقصد ہے، عالمی پراکسی جنگوں سے لے کر استحصالی پراجیکٹس کے ذریعے بلوچ قوم کو مذید غلامی میں دھکیلنے کی کوششیں ہورہی ہیں جو ایک قومی جڑت اور شعوری مزاحمت کی مانگ کرتی ہے۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ ہمیں قوم کی سیاسی تربیت پر زور دینا ہوگا اور ایک عوامی فرنٹ کی تعمیر کو ممکن بنانا ہوگا، جو ہر بلوچ کو ان حالات میں اپنے تحفظ کی خاطر منظم کرسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سامراجی قوتوں کی آپسی رسہ کشی اور جنگ و جدل میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہمیشہ محکوم اقوام و کمزور طبقات ہوتے ہیں، آج اگر یوکرین میں امریکہ و نیٹو سمیت عالمی استعماری اسلحہ ساز یوکرین کے عام عوام کے خون سے دَھن دولت سمیٹ رہے ہیں تو وہیں پر مشرق وُسطیٰ میں بھی ایک بار پھر محکوم فلسطینیوں کی جارحانہ نسل کشی کی جا رہی ہے اور اس پورے خطے میں ایک نٸی جنگ کےلیے بھرپور تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔
عالمی حالات بہت تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں، سامراجی طاقتوں کی آپسی رسہ کشی اور سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری نے ملٹی پولر سیاسی تناظر کو جنم دیا ہے جس کا بنیادی مظہر مسلسل جنگوں کی صورت میں ہمارے سامنے آرہا ہے۔ ایک طرف دنیا کی سپر پاور مقامی سطح پر شدید ترین بُحرانات کا شکار ہے وہی اربوں ڈالر جنگوں میں جھونکے جا رہا ہے اور سامراجی قوتیں کسی بھی صورت میں اپنی بالادستی ثابت کرنے اور منوانے کےلیے کوشاں ہے۔
مگر آج کا عہد جہاں چین و روس جیسے سامراجی طاقتوں کے ابھار کا عہد ہے تو وہیں پر عالمی سطح پر رَد استعماری عوامی جذبات کا بھی عہد ہے، اسی طرح لاطینی امریکہ بار ہا اس سامراج وادی اور سرمایہ دارانہ تسلط کے خلاف نکل پڑا ہے۔ لولا ڈسلوا، پیٹرو گستاوو، گیبریٸل بورک جیسے سیاستدانوں کا ابھار و اقتدار کا حصول اسی سرمایہ دارانہ مخالف سلسلے کی کڑی ہے۔
سامراج کی آپسی رسہ کشی اور گٹھ جوڑ کے اس پورے سلسلے میں محکوم قومیتوں کی بقا و آزادی کو مذید چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ سامراجی طاقتوں کے اس بٹوارے نے محکوم قومیتوں کی آزادی کے عمل و تحریک کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ نامی ادارہ اب تک مکمل ناکام ہو چکا ہے اور اس سے اب کوٸی امید لگاٸے رکھنا، یا لبرل انسانیت پسندی کے بھروسے رہنا محکوم قومیتوں کے ساتھ ایک سنگین دھوکہ و غداری کے مترادف ہے۔
بلوچستان نہ صرف ایک کالونی کے طور رکھا گیا ہے بلکہ وہاں پر اپنی نوآبادیاتی عزاٸم کی تکمیل کےلیے مسلط حاکم نے تمام تر سیاسی مزاحمتی انسانی آزادیوں پر قدغن لگا کر مذہبی انتہاپسندوں، ڈیتھ اسکواڈی لشکروں اور مصنوعی سیاستدانوں کے پورے کے پورے لشکر تیار کیے ہیں، طالبان کا تین ولایتیں ڈیکلیٸر کرنا، لشکر جھنگوی کی مضبوطی، انتہا پسند مذھبی مدارس کا پورا منصوبہ بند جال اور داعش خراسان کی جارحانہ کاررواٸیاں اس تباہی کی نشانیاں ہیں۔ جو کسی بھی وقت مذید متشدد شکل میں سامنے آسکتی ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اس پورے منظرے نامے میں مادر وطن کی حفاظت کےلیے پارلیمانی و غیرپارلیمانی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوٸی سیاسی مزاحمت و تیاری دیکھنے کو نہیں ملتی۔
دوسری طرف بلوچستان میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کچھ گِنے چنے ادارے بھی ہیں تو ان پر کرپٹ و نا اہل انتظامیہ مسلط کرکے انہیں مکمل طور پر ملٹراٸز کیا جا چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز پر پابندی از خود آمریت اور آمرانہ نفسیات کی عکاسی ہے۔ لیکن طلبا سیاست پر اس کے علاوہ بھی شدید ترین بندشیں عاٸد کر دی گٸی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کا فقدان، نیو لبرل پالیسی کے تحت ان کی پراٸوٹاٸزیشن، اور فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ طلبا سے تعلیم مکمل طور پر چھیننے کے مترادف ہے۔ بلوچ طلبا پر اضافی جبر یہ ہے کہ انہیں ایک منظم منصوبے کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کی زندگی و کیریٸر کو خطرے میں ڈال کر انہیں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
محترم صحافی حضرات!
بی ایس او نے نہ پہلے کبھی کسی بیرونی قوت کو بلوچ دھرتی پر قبول کیا ہے نہ ہی آٸندہ کرے گا اور ان بیرونی قوتوں کے خلاف عوامی شعور کو ابھارنے کا کام کرے گی۔ تاکہ کسی بھی ممکنہ صورتحال میں ہم قومی سطح پر اپنی بقا ممکن بنا سکیں۔
آج ہمیں جس سطح کے چیلنجز کا سامنا ہے اس کےلئے ضروری ہے کہ قومی جہد میں شامل تمام اداروں کو آپسی اتحاد پر زور دیتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن ہمیشہ بلوچ طلبا کو شعوری و نظریاتی سیاست سے جوڑنے، ان کے بنیادی حقوق کی جدوجہد کرنے، قومی و طبقاتی جدوجہد کے تاریخی پیراٸے میں منظم کرتے ہوٸے آگے بڑھ رہی ہے اور تمام تر غیر سیاسی رویوں اور سیاسی عمل پر پابندیوں کے باوجود بی ایس او اپنی اس کاوش میں کامیاب رہی ہے۔
معزز صحافی حضرات
بی ایس او نے قومی غلامی کا سدباب کرنے کےلیے انقلابی کیڈر سازی پر ہمیشہ سے توجہ مرکوز کی ہے اور اس میں کامیابی پاٸی ہے۔ اس کامیابی کا ضامن انقلابی نظریہ، ساتھیوں کا قومی کاز کے ساتھ کمٹمنٹ، اور اداروں کی باقاعدہ فعالی ہے۔ اسی لیے گزشتہ سیشن کا دور پورا ہونے پر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن اپنا تیٸیسواں قومی کونسل سیشن جنوری 2024 میں بنام: ”مادر وطن کے دفاع میں“ اور بیاد ”عبدالعزیز کرد، شیر و مری، اور شہید حمید شاہین “منعقد کرنے جا رہی ہے۔ یقیناً یہ قومی کونسل سیشن بی ایس او سمیت طلبا سیاست اور مجموعی قومی سیاست میں ایک معیاری جست کا باعث بنے گا۔