ہماری اگر سیاسی نفسیات سمجھنا ہو تو نہ ماؤ ، مارکس ، پاولو اور فینن کی ضخیم کتابیں ٹٹولنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی سیاسیات و نفسیات پر عبور حاصل کرنا شرط ہے بلکہ ہمارے مختصر سیاسی تاریخ کے روزمرہ کو ایک بار غور سے پر کھیں سب سمجھ آجائے گا ، ہم وہ قوم ہیں جب عطاء اللہ مینگل کوئٹہ میں چنگھاڑ کر کہتا ہے کہ ’’ نوجوانوں پہاڑ تمہیں پکار رہے ہیں ‘‘ تو ہم گلا پھاڑ کر نعرے لگاتے ہیں پھر مڑ کر نہیں دیکھتے کہ عطاء اللہ خود کہاں گیا ، ہم وہ قوم ہیں جہاں اختر مینگل کہتا ہے کہ ’’ اگر ڈیرہ بگٹی میں ایک گولی چلے گی تو جھالاوان میں پانچ‘‘ ہم زور سے تالیاں بجاتے ہیں لیکن جھک کر اختر مینگل کے بندوقوں کے زنگ کو نہیں دیکھتے ، ہم وہ قوم ہیں جہاں لیڈر کہتا ہے کہ ’’ آزادی اب افغانستان تک پہنچ چکی ہے اور بہت جلد بلوچستان میں داخل ہوگا ‘‘ ہم اس امید میں بجلی کے بِل تک جمع نہیں کرتے پھر سالوں گذرنے کے باوجود کسی کا گریبان پکڑ کر پوچھتے تک نہیں کہ بجلی تو کاٹ دی گئی لیکن یہ آزادی ابتک پہنچا کیوں نہیں ، ہم وہ قوم ہیں جہاں کا طلباء رہنما بارہ بجے نیند سے اٹھ کر آنکھوں میں نشے کا خمار لیئے تپتی دھوپ میں ہمیں روڈ پر بٹھا کر سرخ آنکھوں کے ساتھ گرجتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ہم خون اور پسینہ دیکر اس ریاست کو نیست و نابود کرکے اپنی آزادی چھین لیں گے ‘‘ پھر جلسے کے بعد ہاسٹل کے کمرے میں بیٹھ کر پبلک سروس کمیشن کی تیاری کرنے لگتا ہے اور ہم اسے وقت کا چی گویرا قرار دیکر چندہ کرکے اسکے پوسٹر بنواکر اس پر انقلابی رہنما لکھتے ہیں لیکن شعلہ بیانی کے پیچھے چھپے ان تضادات پر ایک سوال تک نہیں کرتے، ہم وہ قوم ہیں جہاں ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ توہین آمیز خاکے جاری کرنے والے میگزین چارلی ہیبڈو کے ’’ آزادی اظہارِ توہین ‘‘ کے حق میں ٹوئٹ کرکے اس پر حملوں کی مذمت کرتا ہے لیکن خود پر تنقید کرنے والے سلام صابر کے سر کو عمران فاروق کی طرح اینٹوں سے کچلنے کا اسکا دل کرتا ہے اور ہم اسے ایک آزاد جمہوری معاشرے کیلئے رہنما سمجھتے ہیں۔
تضادات کے ان گھاٹیوں سے پانی پینے کے بعد اب ہم دعوؤں اور حقائق کے بیچ پہچان مکمل طور پر فراموش کرچکے ہیں ، ہم سر اونچا کیئے تاروں کو گن رہے ہیں لیکن رستے کا کھڈا تک ہمیں دِکھتا نہیں۔ ہم ان دعوؤں میں اب اتنے کھوچکے ہیں کے اب جھوٹے داعیوں کو بھی اپنے ہی من گھڑت دعووں پر یقین ہوچلا ہے اور خوبصورت منظر کشیوں کے ایک ایسے دنیا میں کھوگئے ہیں کہ دیومالائی کردار نارسس کی طرح پانی میں اپنا چہرہ تکتے جارہے ہیں اور خود پر ہی فریفتہ ہوئے جارہے ہیں پیاس کے باوجود پانی کے سطح کو اسلئے نہیں چھوتے کہ کہیں وہ عکس ٹوٹ نہ جائے۔ میرے سامنے بکھرے صفحات پر بی این ایم کے کونسل سیشن کے پہلے دن کا بیان ، بی ایس او کے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس کا بیان اور بہن کریمہ کا ایک آرٹیکل پڑا ہوا ہے ، میں تضاد در تضاد کی اس چلتی بھٹی سے صرف دو جملے آپکے سامنے رکھتا ہوں ، بہن کریمہ کہتی ہیں’’بی ایس او آزاد وہ واحد اداراہ ہے جس نے ہمیشہ سیاسی اداروں اور جمہوری رویوں کو پروان چڑھا کر معاشرے میں ایک ایسی تبدیلی کی بنیاد ڈالنے میں کردار ادا کیا جہاں پر ایک جامع بحث کا آغاز ہوا‘‘ اور چیئرمین خلیل کہتا ہے ’’بلوچستان کے طول وعرض میں بلوچ نیشنل موؤمنٹ ایک معتبر پارٹی کے نام سے نہ صرف جانا جاتا ہے بلکہ عوامی اور خصوصاََ بلوچ نوجوانوں اور خواتین کی بھرپور شمولیت اور فعال کردار پارٹی پروگرام کو ہر سطح پر پہنچانے میں معاون ثابت ہورہے ہیں ‘‘ ذرا زمینی حالات و حقائق سے چشم پوشی کرکے ان جملوں کو پڑھیں تو انکی حرارت دل و دماغ میں بلا کی سی گرمی پیدا کردے گی لیکن حقائق کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھیں تو ان دعوؤں کا تعلق کم از کم بلوچ و بلوچستان سے ہمیں نہیں ملے گا شاید مریخ پر ایسے حالات ہوں ، بحث کے آغاز کا داعی کریمہ بلوچ اظہار اختلاف پر تنظیم کو دو لخت کروا بیٹھی اور بلوچستان کے طول و عرض میں بی این ایم کو دیکھنے والا خلیل بی این ایم کی نیم مردہ جسم کو مکران کے چند خشک ندیوں میں گھسیٹ رہا ہے۔ بلوچستان کے حالات دیکھیں اور ان حالات میں ان تنظیموں کی بے کیفی و بے وقعتی دیکھیں اور پھر ہر بیان و ہر تقریر کی متن کو ان پر پرکھ کر پڑھیں آپ کو حقائق و دعوؤں میں ایک بہت بڑا خلیج آسانی سے دِکھے گا ، اس کی وجہ کیا ہے ؟ صرف یہی کہ یہ ہمارے سیاسی کلچر و سیاسی نفسیات کا وہ حصہ ہے جو ماضی سے مستعار لیئے ہم آگے جارہے ہیں ، سیاست حقائق کے بنیاد پر نہیں بلکہ مفروضات و دعوؤں کے بنیاد پر کرو ، ان دعوؤں پر خود بھی یقین کرو اور دوسروں کو بھی ہمیشہ یقین دلاتے رہو ، \”باتیں کروڑوں کی دکان پکوڑوں کی\” کے مصداق اپنے اپنے سیاسی دکان اور دکاندار کی قیمت بڑھاتے جاؤ، اور یہ طریقہ ہمیشہ سے کامیاب بھی رہا ہے کیونکہ غیر حقیقی کے سامنے کوئی حقیقی چیز سامنے نہیں آئی ہے کہ تمیز ممکن ہو ، بدتر کا سامنا کبھی بہتر سے ہوا ہی نہیں ، جھوٹ کے میراتھن میں کبھی سچ دوڑا ہی نہیں ہے اسی لیئے جتنا کرارا جھوٹ اتنا زیادہ کامیاب۔ لیکن میں ماضی کو مسترد کرکے صرف حال پر اکتفاء کرکے تجزیہ کروں تو حیرت و پریشانی ہوتی ہے کہ جھوٹ اور مفروضات کے بدولت ہم ایک آفاقی اور قطعی سچائی سماجی آزادی تک آخر کیسے پہنچیں گے۔بی ایس او کے قائم مقام متنازعہ چیئرمین بانک کریمہ کے حالیہ ایک مضمون اور ایک بیان کو پڑھنے کے بعد موقع محل جان کر میں اپنا موضوع بحث محض بی ایس او تک ہی محدود کرتا ہوں۔ سماج میں سیاسی تحریک کسی بھی سطح کا ہو ، ایک مقامی زمیندار ایکشن کمیٹی ہی کیوں نہ ہو میں اسے صحت مند عمل سمجھتا ہوں بی ایس او کے قریباً پانچ دہائیوں پر محیط تاریخ کے نشیب و فراز سے قطع نظر میں اس امر سے صرفِ نظر نہیں کرسکتا کہ بلوچ سیاست کے کسی بھی بحث میں بی ایس او قابلِ ذکر ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی ضروری ہے کہ حقائق کے صراحی کو انڈیل کر تہہ تک جھانک کر دیکھیں کہ آیا وہ دعوؤں سے میل کھاتے بھی ہیں کہ نہیں۔ اپنے دورِ بلوغت سے لیکر آج تک بی ایس او کے یہ دعوے سنتا آرہا ہوں کہ ، بی ایس او تحریک کا ہر اول دستہ ہے ، بلوچ سیاست کی ریڑھ کی ہڈی ہے ، واحد انقلابی ریڈیکل تنظیم ہے ، انقلابی سیاست کا معمار ہے، قائد ہے ، نمائندہ ہے ، بانی ہے اور پتہ نہیں کیا سے کیا ہے ، لیکن اب ذرا حقائق کی طرف جائیں تو یہ بات اب بِلا بحث طے شدہ ہے کہ بلوچ مقصد قومی آزادی ہے اور یہی سیاست کا محور ہونا چاہئے پھر اسکا مطلب یہ ہے کہ ہر اول دستہ ، ریڑھ کی ہڈی ، انقلابی ، معمار اور قائد وہ ہوگا جو اس مقصدکے بابت قوم کی قیادت و رہنماء کرے گا جبکہ بی ایس او کی تاریخ کچھ اور بتاتی ہے۔ اس کا قیام خود مختاری کے نعرے سے ہوا ، پھر کبھی پارلیمانی قوم پرستی کا داعی یا سردار مخالف رہا پھر بیرونی حالات سے متاثر ہوکر نعرہ آزادی تک پہنچا ، بیرونی حالات کا اثر انداز ہونا ختم ہوا تو پھر کبھی خود مختاری ، کبھی حق خود ارادیت پھر بدل کر حق خود ارادیت بشمولِ حق علیحدگی ، تعلیم یافتہ سماج ، انٹی سردار سے ہوتے ہوئے جب ایک بار پھر بیرونی حالات کسی اور کے بدولت بدل گئے تو ایک بار پھر بی ایس او آزادی کا نعرہ لگانے لگا۔ یعنی گذشتہ پانچ دہائیوں کے دوران جب بھی بی ایس او نے قومی آزادی کا نعرہ لگایا ہے وہ ان حالات کے مرہونِ منت رہی ہے جو اس نے خود پیدا نہیں کیئے ہیں بلکہ باہر سے ظہور پذیر ہوئے اور ہمیشہ باہر سے کسی نے اسکے منہ میں یہ نعرہ ٹھونسا ہے۔ صرف بی ایس او کے جدید تاریخ پر ایک نظر دوڑائیں کہ اس تحریک کا آغا ز آخر بی ایس او سے کیوں نہیں ہوا؟ پہلے بی ایل اے کی مسلح کاروائیاں شروع ہوتی ہیں ، حالات میں تبدیلی آنے لگتی ہے پھر بی ایس او آزاد بنتا ہے اور آزادی کا نعرہ بشمولِ ہر اول دستے کے نعرے کے ساتھ لگنے شروع ہوجاتے ہیں۔ یہاں ایک بہت بڑا سوال اٹھتا ہے کہ حقیقی قومی مقصد آزادی کو بی ایس او نا پہچان پاتا ہے اور نا اسکے پیچھے ہوتا ہے بلکہ اس کا آغاز کسی اور کی طرف سے ہوتا ہے پھر بی ایس اوکیسے تحریک کا بانی ، ہر اول دستہ اور قائد ہوسکتا ہے ؟بقولِ کریمہ بلوچ بی ایس او نے پہلی بار انقلابی سیاست کو متعارف کرایا اور اسکے پڑھے لکھے کارکن جو عالمی حالات کا تجزیہ کرتے ہیں جذباتی نعروں سے نکل کر عملی سیاست کرتے ہیں تو وہی سوال یہاں دوسرے الفاظوں میں سامنے آجاتا ہے کہ آخر کیوں بی ایس او کے پڑھے لکھے ، عالمی حالات کا تجزیہ کرنے والے ، تربیت یافتہ ، عملی کارکنان آزادی کے بابت قومی رہنمائی کا فریضہ سر انجام نہیں دے سکے اور تحریک کا آغاز وہ کرتے ہیں جو بقول آپکے بین اسطور الفاظوں کے انقلابی نعروں سے عاری ، کٹور قبائلی ہوتے ہیں؟ یہ قصہ صرف موجودہ تحریک کا نہیں یہی صورتحال ستر کی دہائی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔کیا قومی رہنمائی یہ ہوسکتی ہے کہ بی ایس او اپنے پانچ دہائیوں پر محیط زندگی میں دو درجن سے زائد مختلف نعرے لگا چکا ہو اور جب بھی اسکے زبانوں پر آزادی کا نعرہ آیا ہو تو وہ بھی کسی اور کے رہنمائی میں آیا ہو ، تاریخ توپھر یہی ثابت کرتی ہے کہ بی ایس او حقیقی راستے کیلئے خود ہمیشہ کسی اور کے رہنمائی کا محتاج رہا ہے اور جو خود رہنمائی کا محتاج ہو تو کیا وہ کسی طور پر بھی ہر اول دستہ ، قائد یا بانی کہلایا جاسکتا ہے ؟ جب موقف و مقصد تک میں استقلال نہیں رہے اور ایک موقف سنبھال یا پیش نا کرسکیں تو وہ کیسے رہنما ہوسکتا ہے؟ گودی کریمہ کہتی ہیں کہ ہمیشہ طالع آزماوں نے بی ایس او پر اثر انداز ہوکر اسے تقسیم کرکے اپنے ایجنڈوں پر چلایا ہے ، میں بی ایس او کے اندرونی آزادی کا حمایتی ہوں لیکن یہاں سب سے بڑا طنز یہ ہے کہ اگر بی ایس او کے تاریخی تناظر و حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو اس پر گر کوئی اثر انداز نہیں ہوتا تو پھر آج بی ایس او آزادی کا نعرہ بھی نہیں لگارہا ہوتا ، یعنی بی ایس او کا وقعت و افادیت بڑھانے اور صحیح راستے پر چلانے کیلئے بی ایس او ہمیشہ اس عمل ( بیرونی اثر اندازی) کا محتاج رہا ہے ، جو بی ایس او کے سیاسی کلچر میں قبیح ترین فعل تصور ہوتا ہے۔ اب ایک بار پھر وہی سوال گھوم پھر کر آجاتا ہے کہ اس موجودہ تحریک کا آغاز بی ایس او سے کیوں نہیں ہوا ؟ کیوں ایک ڈاکٹر اللہ نظر مسلح کاروائیوں سے پہلے ایک بی ایس او آزاد نہیں بناتا ہے ؟ اسے کیوں ضرورت پیش آتی ہے کہ پہلے غیر سیاسی و غیر بی ایس اوی لوگ اس تحریک کا آغاز کریں؟۔ ویسے مزے کی بات یہ ہے کہ اگر بی ایس او کے قیام کے مقاصد اور پہلے بی ایس او پر نظر ڈالیں تو اس میں آزادی کہیں نہیں ملے گی بلکہ اگر اس بی ایس او کو حقیقی بی ایس او تسلیم کرتے ہوئے ہم اسے آج ڈھونڈیں تو وہ بی ایس او پجار یا مینگل ہوسکتا ہے لیکن بی ایس او آزاد نہیں اور اگر بی ایس او آزاد کو واحد چیز ان تنظیموں سے ممتاز کرتی ہے تو وہ اسکے آزادی کا نعرہ ہے اور یہ نعرہ بھی اسکی تخلیق نہیں بلکہ اس نے مسلح تنظیموں سے متاثر ہوکر وہاں سے مستعار لیا ہوا ہے یعنی بی ایس او آزاد کا خاصہ و روح اندر سے نہیں پھوٹی بلکہ سے باہر سے آئی۔ اب اگر یہی نعرہ بی ایس او آزاد سے نکال لیں تو اس میں اور پجار میں کوئی فرق نہیں رہے گا ، بات کو مزید واضح اور طنزیہ کرکے دیکھیں تو بی بی کریمہ اور ڈاکٹر کہور میں واحد فرق آزادی کے نعرے کا ہے اور یہ نعرہ بی بی کریمہ کو وہاں سے ملا ہے جس پر میری چھوٹی بہن یہ الزام عائد کرتی ہے کہ انہوں نے بی ایس او کو برباد کیا ہے، یہ دلیل مکمل کرتے ہی میں بی ایس او کے قائدانہ و ہر اول دستانہ دعووں کو مستر د کرنے کے پوزیشن میں آجاتا ہوں۔ میرا مقصد ہرگز یہ ثابت کرنا نہیں کہ بی ایس او پر اثر انداز ہونا جائز ہے بلکہ میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ بی ایس او آج جو دعوؤں میں خود کو ظاہر کررہا ہے وہ حقیقت میں بالکل نہیں ہے اور بی ایس او نے کبھی بھی نا اپنے اصل کردار کو سمجھا ہے اور نا اس پر عمل پیرا رہا ہے اور نا اس وقت ہورہا ہے ، اسلئے حقیقی معنوں میں بی ایس او انتہائی کم افادیت کا حامل رہا ہے اور اسکے یہ معمولی فوائد بھی اس وقت بالکل بے معنی ہوجاتے ہیں جب یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسکے ہوتے ہوئے کوء حقیقی انقلابی طلباء تنظیم بھی بلوچ سماج میں نہیں پَل سکی پھر میں بی ایس او کے جمعی حاصل حصول کو منفی اور نقصان قرار دوں گا۔مجھے ذاتی طور پر بی ایس او ایک انقلابی تنظیم سے زیادہ ایک اشتہاری ادارہ (ایڈورٹائزنگ ایجنسی ) لگتا ہے ، جسے ہر کوئی ٹھیکے پر لیکر اپنے اشتہارات چلواتا ہے۔ جب مارکیٹ میں اختر و حئی کا پروڈکٹ آیا تو یہ انکے اشتہار چلاتا تھا اسی طرح مارکیٹ میں آزادی کے پروڈکٹ کے آنے کے بعد یہ اسکا اشتہارچلاتا رہا پھر ڈاکٹر اللہ نظر کو احساس ہوا کے اس کمپنی پر تو اسکا حق ہے اسلئے انہوں نے بغیر بولی کے سستے دام اسکا ٹھیکا ناجائز طریقے سے حاصل کرکے صرف اپنے پروڈکٹ کا اشتہار چلوارہا ہے ، اور دنیا کے ہر اشتہاری ادارے کی طرح اپنا مانگ بڑھانے اور خود کو باقی کمپنیوں سے ارفع ثابت کرنے کیلئے بی ایس او کا دوسرا کام ساتھ میں اپنا اشتہار چلانا بھی ہوتا ہے۔ یہ بیان یقیناًطنزیہ ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو آپ کو حقائق ہر گز مختلف نہیں ملیں گے ، باریک بینی سے غور کریں بی ایس او کا حاصلِ حصول ( آوٹ پٹ) ابتک کیا رہا ہے ، کارکنوں کو چھوڑیں صرف اعلیٰ قیادت بلکہ صرف چیئرمینوں یعنی قیادت اعلیٰ کو ہی دیکھ لیں تو عبدالنبی بنگلزئی ، ڈاکٹر اللہ نظر اور بشیرزیب کے علاوہ آپ کو کون نظر آئے گا ؟ یعنی درجنوں قومی رہبر و رہنماوں سے صرف تین ٹِک پائے اور ان تینوں کے بندوق کو آئیڈیلائز کرنے کے بجائے ان کے مکمل کردار کو بھی جانچیں پھر فیصلہ کریں کے آیا وہ انکے نام و شہرت کے کماحقہ ہے بھی کہ نہیں یا یہ بھی محض زیادہ ایڈورٹائز شدہ بی ایس او کے پروڈکٹ ہیں ؟ ذرا سوچیں میر عبدالنبی بنگلزئی کے چالیس سالہ جہد کا ایک بھی فائدہ سامنے آیا ہے یا کوئی بھی اسکا دِین اس تحریک کو ہے؟ یا اسکے سالوں پر محیط تجربات سے ہمارے سیاست پر کوئی ایک مثبت فرق پڑا ہو جسے انہوں نے متعارف کیا ہو ؟ نہیں میں اسے بے فائدہ کہوں گا اور ڈاکٹر اللہ نظر کے خود پرستی نے جتنا نقصان دیا وہ اسکے دیئے ہوئے فائدے سے کئی گنا زیادہ ہے بچتا بشیر زیب ہے تو ذاتی تعلق کے بنا پر شاید میں انصاف پر مبنی تجزیہ نا کرسکوں لیکن گو کہ آج تک انکی طرف سے دعوے دیکھنے کو نہیں ملے لیکن پھر بھی ابتک انہیں اپنا کماحقہ کردار ثابت کرنا ہے۔باقی بی ایس او کا تحریک کو دیئے گئے کارکنوں کا جائزہ لیں تو لاکھوں میں سے آج صرف چند سو ہی نظر آئیں گے ، اسی پر ایک دوست نے ایک بار خوبصورت جملہ ادار کیا کہ ’’ آج بی ایل ایف میں غالب اکثریت ان سرمچاروں کی ہے جو چند سال پہلے بی ایس او میں متحرک تھے یا بی ایس او کے کیڈر تھے ، انہیں تربیت یافتہ انقلابی درکنار اگر بی ایس او تربیت کرکے انہیں کم از کم اچھا انسان ہی بنا لیتا تو آج کم ازکم مکران میں عام لوگ ان سے بیزار نہیں ہوتے‘‘۔ اس کے باوجود بھی اگر بی ایس او کی طرف سے کوئی اچھا انقلابی یا اچھا جہد کار تحریک کو نصیب ہوا ہے تو اسکے پیچھے بھی بی ایس او کی تربیت نہیں بلکہ اس شخص کا انفرادی کردار و سوچ رہا ہے ، اگر بی ایس او بطور تربیتی ادارہ بلوچ سماج میں انقلابی پیدا کررہا ہوتا تو میرا یقین کریں اس وقت صورتحال اور آزادی پسندوں کی تعداد دونوں بہت مختلف ہوتے ، جن کا کریڈٹ اگر بی ایس او اپنے سر لے رہا ہے وہ اس لئے کہ بلوچ طلباء سیاست پر بی ایس او کا اجارہ رہا ہے ، کوئی قصداً یا انجانے میں ، چاہت کے ساتھ یا مجبوری میں اس سے گذرتا رہا ہے ، ان کے کردار کا سہرہ اپنے سر پر سجانا ایسا ہے جیسے تربت سے کوئی نوبل پرائز جیتے تو اس شخص کا پرائمری اسکول دعویٰ کرے کہ اسکا کریڈٹ مجھے جاتا ہے کیونکہ وہ یہاں پڑھا تھا ، پھر اس اسکول کے فارغ شدہ طلباء کا جمعی بے فیض نتیجہ دیکھنے کے بعد ہم اس بوسیدہ تعلیمی نظام کو ہرگز اس کامیابی کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے کیونکہ اگر کمال ادارے میں ہوتا تو وہ جوہر کمال دوسرے طلباء میں بھی کسی نا کسی حد تک دِکھتا پھر یقیناً سہرا اس شخص کے انفرادی سوچ و محنت کو جائیگا۔ جن تین چیئرمینوں کا نام میں نے لیا ہے ان میں سے بشیر زیب بلوچ کو میں نے یہ تسلیم کرتے ہوئے سنا ہے کہ میرے تربیت کے پیچھے بی ایس او کے بجائے دوسرے دوستوں کا ہاتھ تھا ، اسی طرح میر نبی ہمیشہ بی ایس او کے بجائے بابا مری کو استاد مانتے رہے اور ڈاکٹر اللہ نظر کا مجھے پتہ نہیں لیکن اتنا تو میں جانتا ہوں کے بی ایس او حئی نے کم از کم اسے یہ سوچ نہیں دیا ہوگا بلکہ کہیں اور سے آیا ہوگا۔ تلخیصِ بحث یہ کہ بی ایس او نے آج تک نہ منزل کے بابت قوم کی رہنمائی کی ہے ، نہ اپنے تنظیمی سا لمیت کو بچا سکی ہے اور نا ہی پانچ دہائی بلوچ طلباء سیاست پر اجارہ رکھنے کے باوجود وہ کماحقہ یا قابلِ ذکر کردار ادا کرسکی ہے اور نا ہی مادر تنظیم و تربیت گاہ کے دعووں کے باوجود نوجوانوں کی تربیت کرسکی ہے۔ اسلئے میں موجودہ رنگ و ڈھنگ، طریقہ و سوچ کے اندر بی ایس او کے وجود کا خلاف ہوں۔ میرے خیال میں ہر ذی شعور شخص کو اختلاف ہوگا سوائے اسکے جو اس کمپنی سے اپنے پروڈکٹ کا اشتہار چلوانا چاہتاہے۔ وگرنہ اس بات سے انکار ہر گز ممکن نہیں کہ بی ایس او کے کردار کو بدل کر از سر نو وضع کرنا ہوگا۔ ایک دفعہ دوستوں بشمولِ سنگت بشیر زیب پر تنقید کرتے ہوئے میں نے پوچھا تھا کہ بی ایس او کے تاریخی پس منظر اور حالات کو جاننے کے باوجود اس وقت بی ایس او کو حقیقی معنوں میں استوار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی ، تو جواب ملا کے اس وقت پوری توانائی بی ایس او کو پارلیمنٹ پرستوں کے نرغے سے نکالنے میں لگ گئی اور پوری کوشش کے بعد اتنا ہوسکا کہ پانچ سال اطمینان بخش نہیں تو تھوڑا بہت اس نے صحیح رخ اختیار کرنا شروع کیا لیکن اس مختصر مدت کے بعد بی ایس او ایک بار پھر کسی اور کے نرغے میں آگئی جو اس بار آزادی پسندوں کی صورت میں تھے ، شاید بی ایس او کی بنیاد ہی اس طرح بنا ہوا ہے کہ موم کی ناک کی طرح کسی طرف بھی موڑا جاسکتا ہے ، شاید ٹیڑھی بنیاد پر کوئی سیدھی دیوار قائم نہیں ہوسکتی۔
بی ایس او جس طرح پہلے صرف نعروں اور دعووں پر زندہ تھی آج بھی اسی طرح زندہ ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ہے جب میں بی ایس او کے کسی کارکن یا لیڈر کی شہادت کا سنتا ہوں کیونکہ میری نظر میں اتنی قیمتی جان بالکل سستے چیز کیلئے ضائع کی گئی ، تحریک میں شہادتیں ناگزیر حصہ ہیں لیکن مجھے اپنے اس کاش پر کوئی قابو نہیں کہ اتنی شہادتیں زیادہ کار آمد اور زیادہ نتیجہ خیز کام میں ہوتیں بلکہ ہونی چاہئے تھی ، بی ایس او نا صرف مخلص بلوچ طلباء کی مخلصی اور سچے جذبات کا استحصال کررہا ہے بلکہ اپنے اشتہار بازانہ سیاست کو ان نوجوانوں کے قیمتی خون سے چلارہا ہے ، اور اس مکروہ دھندے کو دو درجن سے زائد رہنما اسلئے سدھار نہیں رہے کیونکہ اگر بی ایس او صحیح راستے پر چلا تو انکے اشتہار چلنا بند ہوجائیں گے ، اور ہمارے جیسے آشفتہ سر جو بلوچ نوجوان کے اس ضیاع پر ماتم کرتے ہیں وہ پھر اشتہاری کمپنی ( بی ایس او ) کے منفی اشتہار بازی کا شکار ہوجاتے ہیں ، ویسے بھی جیسا کے پہلے میں نے کہا کہ بی ایس او نے کسی کو ہیرو اور کسی کو ولن بنانے کے سوا تحریک میں اور کیا ہی کیا ہے؟ ویسے مجھے ایک بات پر کافی ہنسی آتی ہے ، ڈاکٹر اللہ نظر و خلیل کو دنیا کے ہر چیز میں ملٹی نیشنل کمپنیا ں نظر آتے ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انکا اپنا سوچ مکمل طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پالیسی سازوں کی طرح استوار ہے ، یعنی بی این ایم میں اللہ نظر کچھ اپنے ایجنٹ بھیجتا ہے اور کچھ کو اختیار کا لالچ دیکر اپنے ساتھ ملاتا ہے پھر اس پر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایسے بلو اسطہ قبضہ کرتا ہے جس طرح ملٹی نیشنل کمپنیاں کسی ملک میں اپنا ایجنٹ اس ملک کا سربراہ بناکر اس پر قبضہ کرلیتے ہیں ، ڈاکٹر صاحب نے یہی سلوک بی ایس او کے ساتھ بھی کیا ، بی بی کریمہ ، حئی و جواد کی صورت میں اسکے ایجنٹوں نے بی ایس او پر قبضہ کرلیا اور اس پر موروثی ملکیت کی طرح ایسے چمٹے ہوئے ہیں کہ کسی طور چھوڑنے پر راضی نہیں۔ اب جو بھی انکے حقیقت سے آگاہ ہوکر سامنے کھڑا ہوجائے تو اسے راستے سے ہٹانے کا بندو بست کیا جاتاہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بی بی کریمہ سمیت باقی قابضین کو لگتا ہے شاید ریاست اور تنظیم ایک ہی طرح ہوتے ہیں ، جیسے کسی ریاست میں ایک ڈکٹیٹر کے ہاتھ اقتدار کی کرسی لگے تو وہ سالوں سب کو کچل کر اس سے چمٹے رہتا ہے ، اسی طرح انہوں نے بی ایس او آزاد کے نام کو وہی کرسی سمجھ کر قبضہ کرکے اس کی جاگیر کی طرح حفاظت کررہے ہیں ، لیکن کاش کوئی جاکر انہیں سمجھائے کہ ایک انقلابی تنظیم کسی کرسی کی طرح نہیں ہوتا جو قسمت سے ہاتھ لگا تو پھر زندگی سنور گئی بلکہ یہاں کل اساس بلکہ وجود کوئی عہدہ یا کرسی نہیں بلکہ وہ اعتماد ہوتا ہے جو لوگوں کی طرف سے حاصل ہوتا ہے۔ اب بی بی کریمہ و ڈاکٹر اللہ نظر اس بی ایس او آزاد اور اسکے چیئرمین شپ کو اپنے نام پیٹنٹ بھی کروالیں تو کوئی مسئلہ نہیں ان کے ہاتھ اب صرف نام رہ چکا ہے ، وہ اس تنظیم اور اسکے سربراہی کیلئے عوامی اعتماد اور اخلاقی جواز مکمل طور پر کھو چکے ہیں اور ان دو عناصر کے سوا بی ایس او آزاد یا کوئی بھی تنظیم ہے ہی کیا ؟ محض ایک نام اور مردہ جسم؟ اسکی حقیقی روح آہستہ قبض ہوتے ہوتے نکل گئی ، اب کم از کم مجھے کوئی مسئلہ نہیں بی بی کریمہ اسکا تاحیات چیئرمین بنتی ہیں یا اللہ نظر ایجنٹس بدلتا رہے کیونکہ اسکی اہمیت ختم ہوچکی ہے۔
اسی بات کو لیکر ایک دوست نے مجھ سے ایک اہم سوا ل پوچھا کہ اگر اسکی اہمیت اب ختم ہوچکی ہے تو پھر آپ بی ایس او اور اسکے قیادت (
خودساختہ ) پر کیوں تنقید کرتے ہیں میرا جواب سادہ سا تھا ’’ تاکہ نوجوان نام کے دھوکے میں اسکے آسیب کا شکار نا ہوجائیں ، انہیں پتہ چل جائے کہ اگر وہ مخلصی کے ساتھ تحریک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ جگہ بی ایس او نہیں لیکن اگر وہ اشتہار بازی یا کسی مخصوص مفاد یا ذاتی تعلق داری کیلئے جانا چاہتے ہیں تو پھر بالکل جاسکتے ہیں ، میں تو ایک نوجوان کے مخلصی ، جذبات اور خون کا استحصال روکنا چاہتا ہوں اور جب تک یہ استحصال جاری رہے گا ، میری ادنیٰ کوشش بھی جاری رہے گی ‘‘ اسکے بعد ایک بہت ہی جائز سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ غلط ہے تو پھر نوجوان جائیں بھی تو کہاں جائیں ؟ میرا سادہ سا جواب ہے یا تو کسی معجزے یا کرامت کا انتظار کریں کہ بی ایس او کی یہ خود ساختہ قیادت ہوش کے ناخن لیکر اسکی از سر نو حقیقی تعمیر کریں اب بدقسمتی سے معجزوں کا دروازہ تو بند ہوچکا ہے تو پھر بی ایس او کے روایتوں کو توڑ کر کسی باہری مددگار کا تلاش چھوڑ کر نوجوان خود ہی آگے آئیں اور ایک حقیقی تعمیر کا آغاز کریں۔
مضمون کا آغاز میں نے دعوؤں اور حقائق کے بیچ کے فرق اور بی بی کریمہ کے حالیہ ایک بیان اور ایک آرٹیکل سے کیا۔ اسکا مقصد یہ ہے کہ آج پھر شعلہ بیانیوں ، بے بنیاد اور حقائق سے متضاد دعوؤں کی مدد لیکر بی بی کریمہ کھوئی ہوئی ساکھ اور تنظیم کے بے وقعتی کو بچانا چاہتا ہے۔ پوری تاریخ میں دھوکوں کے بعد اب کم از کم ہمیں اپنے تجزیوں کا مطمع نظر دعووں کے بجائے حقائق بنانا چاہئے۔ کم از کم ان کے بیچ کے تضادات کو سمجھنا چاہئے۔ اپنے ان چند لائنوں میں ہی بی بی کریمہ کبھی کہتی ہے کہ بی این ایف کی صورت میں ایک مضبوط اور نا قابل تسخیر اتحاد موجود ہے پھر اگلے ہی جملوں میں بین کرتے ہوئے یہ کہتی نظر آتی ہے کہ عالمی حالات کے تناظر میں ہمیں ایک مضبوط تنظیم یا اتحاد کی ضرورت ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ جس بی این ایف کے صفت و ثنائی میں پورا کاغذ آپ نے سیاہ کیا وہ آخر کیوں عالمی حالات کے تناظر کے مطابق وہ مضبوط پارٹی نہیں بن سکی اگر وہ ہے تو پھر آپ کو ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے اگر وہ نہیں ہے تو پھر اسکی صفت و ثنائی چے معنی دارد ؟ حیرانی ہوتی ہے وہ تمام کارکنان جو بی ایس او کو چھوڑ کر چلے گئے ، آج بی بی کریمہ کے دعوؤں کے مطابق انہیں اس نے اصل میں نکال دیا تھا۔اب یہ دعوے یقین کریں مزاحیہ لگنے لگیں ہیں اس سے زیادہ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ ، اس تنقید ی سلسلے کو جاری رکھنے کیلئے گوکہ دوستوں کو گالیوں سے لیکر تمغوں تک سب برداشت کرنا پڑا لیکن کم از کم بلوچ نوجوانوں کا سوچنے اور پرکھنے کا انداز اب بدل رہا ہے ، ایک نوجوان جو بی ایس او کا کوئی یونٹ سطح کا عہدیدار ہے کافی وقت سے میرے ساتھ فیس بک پیغامات کی صورت میں بحث و مباحثہ کرتا رہتا ہے اس مضمون کو لکھنے کے دوران اسی دوست کا ایک میسج آیا میں اسکی باتیں اس مضمون میں شامل کرنے سے خود کو نہیں روک سکتا تاکہ آپ بھی اس مثبت تبدیلی کو محسوس کریں۔ وہ دوست کہتا ہے ’’ سنگت آپ نے بانک کا بیان پڑھا کتنا پر تضاد ہے ، بانک ہر وقت کہتی ہیں کہ فیس بک پر ہونے والی تنقید اسکے تنظیم کے معاملات میں دخل اندازی ہے لیکن اپنے بیان میں بی ایل اے کا یو بی اے کے ساتھ محاذ آرائی پر وہ تنقید کرتی ہے ، پھر بانک کے منطق پر ہم پرکھ کر دیکھیں تو کیا یہ بی ایل اے کے تنظیمی معاملات میں مداخلت نہیں ؟ بانک تو تنظیم کو کنویں میں پہلے سے ہی لیجارہی ہے اب ہم سب کو کنویں میں پھینکنا چاہتی ہے ، ایک طرف تو ریاست ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے ، اب بانک اپنے بیان میں خود کہتی ہیں کہ ہم نے ثالث کی حیثیت سے مسلح تنظیموں سے رابطہ کیا اور ثالثی کرتے رہیں گے یعنی وہ خود تسلیم کررہی ہے کہ ہمارے
رابطے مسلح تنظیموں سے ہیں اور پھر بعد میں کہتی ہے کہ ہمارے کارکنوں کو سوشل میڈیا پر ظاہر کیا گیا اسلئے وہ شہید ہورہے ہیں،اور حقیقت میں وہ خود برملا میڈیا میں تعلقات کے بارے میں اعتراف کررہی ہے اور اب ہم سے یہ فرمائش کے ہم اوپن کام کریں ‘‘۔
(جاری ہے)
حصہ دوئم : بی ایس او آزاد کے اندرونی چشم کشا حقائق