تحریر: ثناء بلوچ
بی ایل اے گزشتہ دو دہائیوں سے قابض پاکستانی فوج پر مسلسل کامیابی کے ساتھ کاری ضرب لگاتا چلا آرہا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ بی ایل اے کی کارروائیاں بھی مزید شدت اختیار کرگئی ہیں، بی ایل اے جسے گوسٹ آرگنائزیشن کہا جاتا ہے اور اپنے قوم سمیت پورے دنیا میں اپنی بہترین گوریلہ حکمت عملیوں کی وجہ سے معروف و مشہور ہے۔
بی ایل اے اپنے بہترین قیادت کی نگرانی میں بہترین حکمت عملیوں کو اپناتے ہوئے اور منظم تنظیم کاری کے ساتھ کچھ ہی سالوں میں کوہلو کاہان سے لیکر گوادر تک اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوگیا اور آج دشمن پر ہر طرف سے کاری ضرب لگا رہی ہے.
اس سے قبل بھی میں اپنے تحاریر میں یہ واضح کرچکا ہوں کہ جنگ میں اتار چڑھاؤ ہوتے رہتے ہیں، جیسے دن کے بعد رات کی تاریکی ہے اور تاریکی کے بعد ایک اور روشن صبح، اسی طرح بی ایل اے میں بھی 2017 کے بعد کچھ وقت کیلئے کمزوریاں آشکار ہوئیں مگر وقت کے ساتھ بی ایل اے ایک بار پر میدان میں شدت کے ساتھ آں پہنچا ہے۔
اگر بی ایل اے کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بی ایل اے کبھی خاموش نہیں رہی ہے، البتہ اپنی کمزور حالات کے ساتھ بھی دشمن پر کاری ضرب لگاتی رہی ہے. مگر 2020 سے کوہلو، کاہان، رخشان، بولان سمیت مکران کے پہاڑوں نے بھی اپنے محافظوں کا ایک بار پر شدت سے سواگت کیا ہے.
وقت گزرنے کے ساتھ بی ایل اے مضبوطی کی جانب گامزن ہوتا دکھائی دیا ، بولان، کوہلو، کاہان، گوادر، رخشاں اور کیچ میں آئے روز قابض فوج پر بی ایل اے کی جانب سے حملوں کی خبریں نشر ہونے لگیں۔
کچھ دنوں قبل ہمگام نیوز میں بی ایل اے کی جانب سے کی گئی حملوں کی ایک شائع کردہ رپورٹ پڑھا، جو گزشتہ برس 2022 کی تھی جس میں بی ایل اے کے سرمچاروں نے پاکستانی چیف جسٹس، ایم آئی آفیسرز، سی ٹی ڈی آفیسرز و ڈیتھ اسکواڈز کے اہم کارندوں سمیت اپنے کامیاب حملوں میں کئی فوجی افسران و دوسرے اہلکاروں کو ہلاک و زخمی کردیا تھا۔ مگر جونہی سال بدلی تو بی ایل اے کے تیور بھی بدلتے دکھائی دیے، سال کے پہلے ہی دو مہینوں میں بی ایل اے کی حملوں میں مزید شدت دکھائی دینے لگی، پہلے بولان میں جعفر ایکسپریس کو حملے کا نشانہ بنایا جس کی زمہ داری بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ نے قبول کرتے ہوئے بتایا کہ “ہمارے سرمچاروں نے کوئٹہ سے پنجاب اور پشاور کینٹ جانے والی جعفر ایکسپریس کو بولان کے علاقے مشکاف میں پنیر اسٹیشن کے قریب ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں انجن سمیت ٹرین کی 8 بوگیاں پٹری سے اُتر گئیں” ترجمان آزاد بلوچ کے مطابق یہ ایک انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن تھا جس کے نتیجے میں 10 ایف سی اہلکار ہلاک جبکہ 25 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
قابض پاکستان فورسز نے ابھی تک ٹرین کے ڈبوں کو اٹھا بھی نہیں پایا تھا کہ بی ایل اے کی جانب سے ایک ایسی جگہ پر حملہ کیا گیا، جسے وہ مقبوضہ بلوچستان میں اپنا سب سے مضبوط قلعہ اور دنیا کے سامنے امن ترین علاقہ کرار دیتا ہے یعنی گوادر جیوانی میں بی ایل اے نے حملہ کرکے 4 اہلکاروں کی ہلاکت اور 5 کے زخمی ہونے کی زمہ داری قبول کی، جبکہ اور کچھ دیر بعد ہمگام نیوز کی جانب سے ایک اور ایف سی اہلکار کے ہلاک ہونے کی نیوز سامنے آئی.
ان دو کامیاب حملوں کے بعد بی ایل اے نے ایک بار پر کوہلو میں قابض پاکستانی فوج کو بم حملے کا نشانہ بناتے ہوئے میجر و کیپٹن سمیت 9 اہلکار ہلاک کئے اور اس کے تین دن گزرنے کے بعد ایک بار پر قابض پاکستانی فوج کو گوادر کے علاقے جیوانی میں نشانہ بنایا گیا جس سے قابض فوج کا ایک اہلکار ہلاک جبکہ 1 بری طرح زخمی ہوگیا۔
مقبوضہ بلوچستان کے دوسرے علاقوں سمیت گوادر میں بھی قابض پاکستانی فوج پر پے در پے حملوں کے نتیجے میں قابض فوج حواس باختگی شکار ہوچکا ہے اور گوادر میں قابض فوج پر حملے کے روز دینی مدرسے میں زیر تعلیم طالب سمیت عام افراد کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور نام نہاد پاک ایران بارڈر کو کاروبار کے لئے مکمل بند کردیا گیا۔ جس کے بعد یہ بات عام کردی گئی کہ سرمچاروں کے حملوں کے نتیجے میں ہم اس بارڈر کو بند کر رہے ہیں اور ساتھ میں قابض فوج کے کچھ دلالوں نے بھی سوشل میڈیا میں بی ایل اے کو اس روٹ کو بند کروانے کا زمہ دار ٹھہرایا، مگر بلوچ قوم اب قابض فوج کے تمام منافقانہ حربوں سے خوب واقف ہوچکی ہے، قابض فوج نے صرف بلوچ سرمچاروں سے عوام کو بدزن کرنے کیلئے بارڈر کاروبار کو بند کردیا ہے، جیوانی سمیت پورے بلوچستان کے لوگوں کو وہ دن بھی یاد ہیں جب یہاں پر سرمچاروں کا نام و نشان بھی نہیں تھا تب بھی قابض فوج نے گھی و آٹا لانے والے مزدوروں کو پکڑ پکڑ کر بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا تھا، معصوم کشتی چلانے والوں پر وولف کشتیاں چڑھا کر قتل کر دیے جاتے تھے، ان دنوں تو فوج پر تو کس نے حملہ نہیں کیا تھا. تب بھی سمندر کناروں پر کھڑے مزدوروں کی لائی گئی ساز و سامان کو اٹھا کر درندوں کی طرح فورسز کے اہلکار سمندر میں پھینک دیتے تھے۔
اب بلوچ قوم اچھی طرح سے قابض فوج کے منافقت سے واقف ہوچکی ہے بلوچ اب جان چکا ہے کہ یہ بارڈر بند کرنا تو صرف ایک بہانہ ہے تاکہ عوام کو سرمچاروں کے خلاف بھڑکایا جاسکے، دراصل یہ قابض فوج کی حواس باختگی ہے، جو خود تو بی ایل اے کے جانبازوں کا سامنا کرنے کا اہل نہیں، اب دوغلہ پن و منافقت سے کام لے کر بلوچ عوام سے اپیل کررہی ہے عام لوگ سرمچاروں کے خلاف احتجاج کریں تاکہ وہ جیوانی میں فوج پر حملہ نہ کرے.
مگر یہ طے ہے کہ بی ایل اے کے حملوں میں مزید شدت آتی رہے گی جب تک کہ قابض فوج مقبوضہ بلوچستان سے نکل نا جائے۔
شاید قارئین اس تحریر کو پڑھنے کے بعد اپنے ذہن میں سوچیں کہ میں نے اس تحریر کو لکھنے میں کچھ دیر کردی، جب بھی تحریر کا اختتام پر آتا تھا تو ٹیلیگرام میں نوٹیفیکشن آجاتا جاتا تھا کہ دشمن پر بی ایل اے کے جانثاروں کا ایک اور حملے کی خبر ہے۔ موبائل رکھ کر رات کو سوچتے ہوئے سوگیا کہ کل انشاء اللہ تحریر کسی دوست کے توسط ہمگام نیوز میڈیا کو پہنچا دوں گا مگر جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ صبح کے قریب آٹھ بجے ایک بار پر سے گوادر ہی کے علاقے جیوانی پانوان میں ایف سی اہلکاروں پر بم حملہ ہوا ہے، کچھ دیر انتظار کیا تو قبولیت بھی آگئی جس کی زمہ داری بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ نے قبول کرتے ہوئے بتایا کہ بم حملے کے نتیجے میں قابض فوج کے تین اہلکار ہلاک جبکہ 2 زخمی کردیے ہیں۔ اب آگے کیا ہونا، حسب معمول شکست خوردہ فوج نے حواس باختگی کی شکار میں ایک بار پھر سے عام بلوچوں کو جبری طور پر اغواء کرنا شروع کردیا جس کے بعد ہمگام نیوز و فیس بک میں ایک کے بعد ایک شخص کی جبری اغواء کی اطلاع آرہی تھیں۔
چونکہ کچھ نئے اپڈیٹس سامنے آئے تھے اور گوادر میں مزید بی ایل اے کی جانب سے کاروائی کی گئی تھی تو سوچا یہ اپڈیٹس بھی اپنے تحریر میں لکھ کر پھر شایع کردوں، مگر یہ ابھی تک کچھ مصروفیات کے باعث لکھی ہی نہیں تھیں کہ ایک اور خبر سامنے آئی کہ بی ایل اے کے جانبازوں نے خاران میں سیندک پروجیکٹس پر کام کرنے والے ٹرالروں پر حملہ کردیا ہے جس کے باعث پنجاب سے تعلق رکھنے والے 2 ڈرائیور ہلاک و زخمی ہوئے ہیں جبکہ ٹرالرز کو شدید نقصان پہچایا گیا ہے۔
ایل اے آنے والے وقت میں قابض فوج کو کاہان سے لیکر مکران تک ہر آنے والے دنوں میں اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ حملہ کرتی رہے گی آزاد بلوچ ہر وقت کہتے رہتے ہیں کہ “ہمارے اس طرح کے حملے مقبوضہ بلوچستان کی آزادی تک جاری رہیں گے” پوری قوم کو آزاد بلوچ کی اس جملے پر پختہ یقین ہے ۔