اگر ایران کے حوالے سے عالمی اور علاقائی قوتوں کے پاس کوئی گیم پلان ہے تو بلوچ عوام کیلئے یہ ایک شرف کا مقام ہے کہ ایران کے زیر قبضہ محکوم اقوام نے بلوچ عوامی نمائندہ پارٹی فری بلوچستان موومنٹ کو یہمنڈیٹ دیا ہے کہ وہ ایک متفقہ روڈ میپ عوام کے سامنے لائے جس پر ایران میں تمام محکوم اقوام حق خود ارادیت بشمول علیحدگی کی روڈمیپ Democratic Transitional Plan For Iran پرمتفق ہوکرمشترکہ جہدوجہد کرنے پرمتفق ہوئے ہیں۔ مگر بی این ایم کی قیادت کو یہ بات ہضم نہیں ہوا اور وہی پرانی منتروں کو پھر سے regurgitating دہرا کر اپنی تنگ نظری کو ایک بار پھر عوام کے سامنے آشکار کیا۔
بلوچ قومی تحریک اب فری بلوچستان مومنٹ کے توسط سے جیو پالٹکس کے تزویراتی دور میں داخل ہوچکی ہے۔ چونکہ بلوچستان کی جغرافیہ کا آدھا حصہ ایران کے زیر قبضے میں ہے اور ایران مڈل ایسٹ میں ایک اہم ملک شمار ہوتا ہے۔مڈل ایسٹ، مغربی دنیا اور امریکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کی دھشت گری، ایران کی ایٹمی ڈرون ، میزائل پروگرام، ایران کی مذھبی انتہاپسندی، دوسرے ممالک میںاندرنی مداخلت، اندرون خانہ استبدادی نظام، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے کی لاپرائی وہ عوامل ہیں جن کی بنا پر دنیا کو یہ قانونی حق پہنچتا ہے کہ وہ ایران کی رجیم تبدیلی میں اسٹینڈ لے۔
دوسری طرف ایرانی جغرافیہ کے اندر مختلف اقوام کی تحاریک کو سپورٹ دینے کا آپشنز بھی عالمی قوتوں کے پیش نظر ہیں۔ یعنی بیرونی مداخلت کے بجائے ایران کے اندر ان محکوم اقوام کو سپورٹ دیا جائے جو مغربی ممالک کے حمایتی ہیں۔ اس اسٹراٹجی کے فوائد یہ ہیں کہ ایران میں پر امن اندرونی تبدیلی پرو ویسٹن فورسز کے ساتھ معاہداتی بنیادوں پر آئے۔
ڈیلی سنگر میں بنام ایک ’خصوصی رپورٹ ‘ کے معرفت یہ سرخہ لگائی گئی ہے کہ ’’ ایف بی ایم مغربی بلوچستان کی مسلح جہد آزادی کی حمایت سے دستبردار، ایران میں کثیرالقومی مشترکہ جدوجہد کا اعلان ‘‘۔
اس بیہودہ خصوصی رپورٹ میں بلوچستان یونیورسٹی کے ایک نامعلوم بلوچ پروفیسر کے نام پر حیربیاری مری اور فری بلوچستان مومنٹ پر کئی الزامات لگائے گئےہیں۔ عوام کی آگہی کیلئے ضروری ہے کہ ان بے ہودہ الزامات کی صحت کے بارے تفصیل سے لکھا جائے۔
سب سے پہلے یہ واضع کرتا چلوں کہ ان الزامات کی لبلبات اور سباق سے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تحریر بی این ایم کی عقل کل قاضی ریحان نے عین اپنی فطرت اور عادت کے مطاق لکھی ہے۔ اس رپورٹ میں حیربیارمری کے نام کو بلوچی رسم الخط کے مطابق ’’ھیربیارمری ‘‘ لکھا گیا ہے۔ اس تحریر کی لہجے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا مقصد یہ نہیں کہ وہ ایک اکیڈمک بحث پیش کررہے یا بھتر سے بھتر کی تلاش میں ایک اچھا معقول متبادل تجویز دیں گے، جہاں تجویز اور مشاورت کی خوشبو آئے، ’’رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبوآئے‘‘، بلکہ اس ساری تحریر کے ہر حرف کا ھدف حیربیارمری کی کردارکشی ہے۔
قاضی ریحان بی این ایم اور ایک نامعلوم بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسرکو منقول کرتے ہوئے یہ نقطہ اٹھا رہے ہیں کہ ’’حیربیارمری کے پاس قوت اور منڈیٹ کہاں سے آئی جو ایران کی مستقبل کے بارے منصوبہ پیش کر رہے ہیں‘‘۔
حیربیارمری کے پاس اپنے پارٹی کی عوامی قوت اور پارٹی منڈیٹ ضرور ہے۔ البتہ ’’قومی منڈیٹ‘‘ ابھی تک کسی پارٹی بشمول بی این ایم کو بھی حاصل نہیں۔ حیربیارمری ایک مقبول قومی رہنما ہیں اور اس کے پاس ایک مورل اتھارٹی بھی ہے۔ اگر جمہوریت پر کسی کو یقین ہے تو حیربیارمری کو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے مطابق یہ حق حاصل ہے کہ وہ قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے دوسرے ہم خیال اقوام کے ساتھ قومی مفادات کے تحفظ کے خاطر تعلقات قائم کرتے ہوئے منصوبہ بندی کرے۔
مغالطوں میں غوطہ خور بی این ایم کا ترجمان گستاخی کے تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے حیربیارمری کو اپنے ہی سرزمین بلوچستان سے بے دخل کرتے ہوئے ساتھ یہ بھی کہ رہے ہیں ’’ھیربیار کو مغربی بلوچستان کے فیصلے کا مینڈیٹ کس نے دیا‘‘؟ توجناب عرض ہے کہ بلوچ عوام کی نظر میں بلوچ قوم اور متحدہ بلوچستان ایک ہی وحدت ہیں۔ بلوچستان کو مغرب اور مشرق میں تقسیم کرنے والے غیر بلوچ تھے اور اس تقسیم کو برقرار رکھنے والے بھی غیر بلوچ ہیں اور اگر بی این ایم کی تحریر کا مقصد اس تقسیم کو تسلیم کرنا اور برقرار رکھنا ہے تو بی این ایم کے ورکروں کیلئے یہ ایک افسوس کا مقام ہوگا۔
جب آدمی شدید غصے اور ہیجانی کیفیت میں ہو تو انکی باتیں بے ربط ہوجاتے ہیں۔ قاضی ریحان یک ہی سانس میں دو تضاد ایک ہی لائن میں لکھتے ہیں کہ ’’ھیربیار بلوچستان کی مسلح جدوجہد کے ذریعے ایران سے آزادی کی جدوجہد سے دست بردار ہوچکے ہیں‘‘ جبکہ دوسری طرف یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ ’’ یہ خطرناک سوچ ہے کہ ھیربیار ان کے (پتہ نہیں کون) وعدہ فردا پر ایک جنگ لڑنا چاہتے ہیں، جس میں یقیناً بلوچ ایندھن کے طور پر استعمال ہوں گے‘‘۔۔ اب اس تضاد بیانی پر کیا بات کریں،؟ ایک طرف خود کہہ رہے ہیں کہ حیربیاری ایران سے مسلح جدوجہد سے دسبردار ہوچکے ہیں، پھر دوسری سانس میں یہ کہہ رہے ہو کہ ’’حیربیارمری ایک ایسا جنگ لڑنے جا رہے ہیں جہاں بلوچ ایندھن ہونگے‘‘ اور ساتھ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ’’حیربیارمری کے پاس طاقت بھی نہیں‘‘۔ اس تضاد کو کیا نام دوگے؟؟
بی این ایم کے ترجمان نے حیربیارمری پریہ الزام بھی لگایا ہے کہ ’’بلوچوں کو دوسروں کی لڑائی میں پراکسی بنا کر لڑانا ایک خطرناک سوچ ہے اگر اسے مناسب فنڈ کیا جائے تو وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ یہاں یہ بات واضع ہونا چاہیے کہ حیربیارمری قومی پالیسی کے حوالے سے ہمیشہ شفافیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک سال پہلے جرمنی میں ورکروں کے ساتھ کھلی کچھری میں حیربیار مری نے کہا کہ ہندوستانیوں نے مجھے کہا کہ ’’آپ ایرانی مقبوضہ بلوچستان حوالے کوئی قدم نہیں اٹھائیں‘‘ تو ہم آپ کی مدد کرنے کیلئے تیار ہیں۔ تو میں نے ان پر کھل کر واضع کر دیا کہ آپ میرے کہنے پر اسرائیل اور ایران کےساتھ تجارت اور تعلقات بند کرینگے‘‘؟
بی این ایم نے فری بلوچستان مومنٹ کے طرف سے ایران کے لیے جمہوری عبوری منصوبہ کو ’’ایک ناقابل عمل تصوراتی دستاویز‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس کا مستقبل بھی ھیربیار مری ’ بلوچستان لبریشن چارٹر ‘ جیسا ہوگا جو بلوچستان کی سیاست اور جدوجہد میں فی الحال ایک غیرمتعلق دستاویز ہے اور اس پر دیگر آزادی پسند جماعتوں کا اعتماد نہیں۔ یہ وہی قاضی ریحان ہیں جس نے سب سے پہلے حیربیارمری پر سنگ باری کرتےہوہے کہا کہ حیربیارمری ایک فرد ہے کوئی ادارہ نہیں جو چارٹر لکھے۔
اس آرٹیکل کے توسط سے یہاں میں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ چارٹر کا تجویز خود بی این ایم کے چیئرمین شھید غلام محمد اور انکے دوستوں کے طرف سے آئی اور اسکی ذمہ داری حیربیارمری کو دی گئی تھی تاکہ وہ اس پر کام کرسکے۔ اس بات کے شواہد بہت ہیں جو ابھی تک زندہ ہیں۔ آج پھر اسی چارٹر کو لیکر بی این ایم کی موجودہ قیادت گمراہ کن پروپگنڈہ کر رہا ہے۔
ایران میں جن غیرفارسی اقوام کے نمائندوں نے فری بلوچستان مومنٹ کو یہ منڈیٹ دیا کہ ایف بی ایم ایک قابل عمل روڈ میپ تیار کرے توان اقوام میں کسی کو اس transtional plan پر کسی کو اعتراض نہیں، لیکن اپنے ہی ہم فکری آزادی پسند پارٹی کو اعتراض ہے!
بی این ایم ’’کچھ معلوم وجوہات‘‘ کی بنا پر دوسروں سیاسی قوتوں کے ساتھ اشتراک عمل یا اتحاد کرنا نہیں چاہتا اور اسے اس بات پر بھی کوئی غرض نہیں کہ قومی تحریک کی قوت تقسیم ہوچکی ہے۔ اس کا فائدہ دشمن کو پہنچ رہا ہے، اور جہدکار بے سروسامانی کو وجہ سے دشمن کا آسان ہدف بنے ہوئے ہیں۔ خاص کر انسانی حقوق کے حوالے بیرون ملک پاک پرکوئی دباؤ نہیں۔
بی این ایم کے تمام ورکروں کو یاد ہوگا کہ ایک سال پہلے بی این ایم نے ایک بیان دیا کہ وہ اس نے قوم اتحاد کے کیلئے 12 نقاد پر مشتمل ایک ڈرافت تمام آزادی پسند پارٹیوں کو پیش کیا ہے۔ لیکن آج تک عوام اور دوسرے پارٹیوں کو کیا، بلکہ اپنے مخلص ورکروں کو بھی یہ نہیں بتایا کہ اس ڈرافٹ کا کیا بنا؟ جن پارٹیوں کو یہ ڈرافت پیش کی گئی تھی، کیا انکی طرف سے بی این ایم کو کوئی منفی یا مثبت جواب دی گئی ہے یا نہیں؟۔
اتحاد کے حوالے سے بی این ایم کی اپروچ وہی کاسمٹک والی اقدام کی سی ہے ، اپنے ورکروں کو اتحاد کے حوالے مطمئن کرنے کی خاطر بی این ایم نے یہ راہ نکالی ہے کہ یورپ میں ایف بی ایم اور بی این ایم کے وررکرز مل کر احتجاج کریں۔ مرکزی سطح پر اتحاد کر ضرورت نہیں ہے۔
اس حوالے فری بلوچستان مومنٹ یہ کہتا ہے کہ اشتراک عمل سے فری بلوچستان مومنٹ کا مراد مرکزی سطح پر ’’تحریکی اتحاد‘‘ ہے جہاں مشترکہ طور پر ’’پالیسیاں اور لائحہ عمل‘‘ تیار ہوتے ہیں۔ ورکروں کی سطح کی اشتراک عمل وہی کاسمٹک اقدام ہوگا۔ کاسمٹک سرخی پوڈر سے وقتی طور پر کسی کے چہرے پر داغ دھبے چھپائے جاسکتے ہیں مگر سرخی پورڈر کے اتر جانے کے بعد پھر وہی داغ دھبے والی چہرہ نمایاں ہوگا! یہ کوئی پائیدار اپروچ نہیں ہے۔
واحد کمبر کی گرفتاری جیسے بڑے واقعات جن میں ایرانی ہاتھ صاف نظر آ رہے ہیں۔ مگر بی این ایم کے کرتا دھرتا اتنے بے بس ہوچکے ہیں کہ ایک رہنما کے گرفتاری پر بھی ایران کا نام تک لے نہیں سکتے ۔ راشد حسین کی گرفتاری پر جرمنی میں متحدہ امارات کے سفارت خانہ کے سامنے ہڑتال کی گئی مگر ایرانی سفارت خانوں کے سامنے ہڑتال اپنی جگہ، استاد واحد کمبر ایران کے ہاتھوں گرفتاری اور پھر اسے پاکستان کے حوالگی کے بارے ایران کا نام تک لے نہیں سکتے۔ یہ ایک بہت بڑا تضاد ہے۔
حرفِ آخر: بی این ایم اب ایک خودمختار پارٹی نہیں رہا جہاں آزادانہ جمہوری بنیادوں پر قومی پالیسیوں کو سنٹرل کمیٹی تشکیل دے اور اسکا کابینہ آزادانہ فیصلہ سازی کرے۔ اس پارٹی کے پاس ایف بی ایم کی کردارکشی اور الزام تراشی کے علاوہ اور کوئی ایجنڈا نہیں جسے ہم ’’قومی‘‘ کہہ سکیں!