تاریخ اگر بندوق کی نوک پہ لکھی جاتی تو ہٹلر سے لے کر موسولینی تک، جنرل یحیی سے لے کر جنرل مشرف تک تاریخ ان کے قدموں کی خاک ہوتی۔ مگر تاریخ نہ شاعر ہے نہ گلوگار کہ فرمائش پہ من پسند نظم و گیت لکھوا کر واہ واہ سمیٹے۔ تاریخ بے رحم ہے، تاریخ ظالم ہے۔طاقت کے نشے میں چور، بندوق کی نوک پر نرگسیت کے شکار لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخ ان کی ہے، اور وہ جیسے چاہیں اسے اپنے حق میں لکھوا کر فانی دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔ لیکن وہ دراصل تاریخ کی غلط سمت پر کھڑے ہوتے ہیں۔اور انہیں اس بات کا دور دور تک اندازہ نہیں ہوتا۔

کچھ لوگ جب تاریخ لکھنے بیٹھتے ہیں، تو شاید انہیں ماضی میں جھانکنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، کیونکہ تاریخ ان کے سامنے سے گزر رہی ہوتی ہے۔ وہ تاریخ میں زندہ ہوتے ہیں، وہ خود تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں۔ جب وہ قلم اٹھاتے ہیں، تو نہ بندوق کی نوک انہیں متاثر کرتی ہے، نہ طاقت کا خمار ان پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی تاریخ سے ناانصافی کرنے کی جسارت نہیں کرتے۔نہ ہی وہ کسی بھی شخص کو تاریخ میں اس کا حصہ الگ اور اس کا بندوق کا حصہ الگ دینے پہ رضامند ہوتا ہے وہ ہیرو ازم اور نرگسیت کے شکار بیمار ذہنوں کی جراحی اپنے قلم سے کر دیتے ہیں۔ ان کے لیے قوم، وطن اور نظریہ اہم ہوتے ہیں، نہ کہ سماج میں جاہ و منصب، طاقت یا شہرت۔

جاہ ،طاقت ، شہرت ، منصب وہ بیماریاں ہیں جو قومی تحریک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، ایسا نہیں کہ کوئی جانتا نہیں، کسی نہ کسی حد تک لوگ جانتے ہیں، جو اس سرزمین کے لیے خون دے رہے ہیں وہ زیادہ جانتے ہیں، لیکن آواز اٹھانے سے کتراتے ہیں ، کہ کونے کھدرے لائن نہ لگ جائے اس لیے سوال نہیں اٹھا سکتے تنقید نہیں کرسکتے، بس بے بسی کے عالم میں سر جھکا کے گمنام راہوں میں بے موت مارے جارہے ہیں، آج یہ قول کہ “عفریت سے لڑتے لڑتے لوگ خود عفریت بن جاتے ہیں”، کس قدر اس تحریک کے لیے بھیانک ثابت ہو رہا ہے پھر سوال یہ کہ اس عفریت کو فرمائشی کالم و فرمائشی گیتوں سے کب تک تاریخ سے چھپاۓ رکھی جاسکتی ہے، آخر کار تاریخ کا ایک سفر ہوتا ہے جو بے رحمی سے آگے بڑھتا رہتا ہے اور بہت سے چہروں سے پردہ اٹھاتا ہے۔

جب پردہ اٹھتا ہے، تو وہ شہدا کے خون سے نہیں چھپتا، نہ ہی عین اس وقت پیادوں کو میدان میں بھیج کر اپنی طُرہ کی خاطر قربانی کا بکرا بنایا جا سکتا ہے۔ پیادوں کی قربانی سے وقتی ہمدردی حاصل ہوسکتی ہے لیکن پردہ اٹھتا ہے، تو سب کچھ واضح ہو جاتا ہے۔کون کس کا ترجمان بنا ہوا ہے؟جب فکر کی کمزوری اس حد تک کمزور ہو جائے، اور ہاسٹل کی سیاست سے بندہ ذہنی طور پہُ نکل نہ سکے تو پھر حال یہی ہوتا ہے کہ ریاست کے پالے ہوئے کتوں کو بھونکنے کے لیے شہہ دیا جاتا ہے، اور ریاست کے پالے ہوۓ کتوں سے اپنی ترجمانی کراتے ہو شرم و حیاء بھی محسوس نہیں کرتے لیکن تاریخ بے رحم ہے وہ سوال اٹھاتا ہے کہ ان شہدا کے خون کا حساب کون دے گا جنہوں نے انہی کتوں کے خلاف اپنی جانیں قربان کیں؟اپنے بچوں کی قربانیاں دیں؟اپنے جسموں کو بارود کی سپرد کی ؟ کیا اسی دن کے لیے ریاست کے پالے ہوئے کتے بعد میں ان کوڑھ مغز و ریاست کے ایماء پہ اپنے سنگتوں پہ غرٗاے ۔ وہ بھی چند سکوں کے عوض آپ ان ریاستی کتوں کو شہ دے رہے ہیں تاکہ کسی علاقے پر آپ کا تسلط برقرار رہے۔

آپ نے قومی تحریک کو ایک دوڑ بنا دیا ہے، جسے کسی بھی قیمت پر جیتنا ہے،چاہے اس کے لیے ریاست ایڈوینچر ازم کی بدولت بلوچ عورتوں کی تذلیل کرے، انہیں جیلوں میں ڈالے، یا ریاستی درندے غراتے پھریں۔

یہ انڈیا کی کوئی فلم نہیں، نہ ہی ٹارزن کی سیریز ہے، کہ پوری زندگی لابنگ، سازش، اور وقتی سیاست سے چھلانگیں لگا لگا کر ٹارزن بننے کی کوشش کی جائے۔یہ ایک میراتھن ہے —جہاں تیز دوڑنا یا اونچی چھلانگ لگانا نہیں، بلکہ فکری اصول ہی آپ کا مقام تاریخ میں طے کریں گے۔آج آپ ذرا نظر دوڑائیں کتنے سیاسی سنجیدہ لوگ ان خدشات کا شکار ہیں کہ قومی تحریک کے ساتھ کیا کھلواڑ جاری ہے ؟ ان خدشات کا جوابدہ ہر وہ بندہ ہے جو دوڑ جیتنے کی خواہش میں جنگی اصول و قومی فکر کو یکسر بھول چکے ہیں۔

تاریخ ہر فرد کو بہت قریب سے دیکھ رہی ہے۔تاریخ میں پراکسیز، تماشہ گروں، اور اچھلنے کودنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔قربانی دینے والے آخرکار ضرور سوچیں گے کہ کیا ہم اسی دن کے لیے قربانی دے رہے تھے؟کیا ہم نے اپنے جسم کو بارود میں صرف اسی لیے اڑایا تھا کہ آزادی پسند آپس میں سرد جنگ کا حصہ بن کر چند سکوں کے عوض اور ایک علاقے پہ اپنا طُرہ اوپر کے لئے ریاست کے پالے ہوئے کتوں کو آگے کرکے قومی تحریک کے خلاف غرانے دیں۔ کیونکہ تاریخ محض واقعات کا اندراج نہیں کہ ریاستی کتے قومی تحریک کے خلاف کب بھونکے بلکہ اس کے محرکات، اور اثرات محفوظ کرتی ہے، تاریخ جذبات سے خالی ہوسکتی ہے کہ واہ واہ نہ سمیٹا جاسکے لیکن سچائی کے اظہار میں بے رحم ہوتی ہے۔