: تحریر سنگر بلوچ ہمارے شہید اسد جان
ہمارے شہید اسد جان
تحریر: سنگر بلوچ
اگر بلوچ قومی تحریک پر نظر دوڑائیں تو ہمیں بلوچ سرزمین کی آزادی کی راہ میں ایسے جانثار راہی و سرمچار ملیں گے جنہوں نے اپنے آپ کو بلوچ سرزمین کی دفاع کیلئے قربان کرکے بلوچ قومی تحریک کو نیا روح بخش دیا، قومی تحریک کو تقویت دے کر اس کو ناقابل شکست مقام پر پہنچایا۔ ان بلوچ سرزمین کے جانثاروں میں سے ایک جانثار اور بہادر سرمچار شہید شکیل عرف اسد بھی شامل ہے۔ آپ نے بھی اپنی قیمتی جان، وقت، توانائی، عیش و عشرت سب کچھ بلوچ قومی تحریک کیلئے قربان کردیا جس کیلئے بلوچ قومی تاریخ آپ جیسے کرداروں کی گواہی دے کر اپنے سنہرے پنوں میں رکھتا ہے۔
آپ جیسے عظیم کرداروں کے بارے میں لکھنا مجھ ناچیز کیلئے محال ہے۔ میری قلم میں اتنی سکت یا طاقت نہیں کہ آپ کی عظمت و قربانیوں پر صفحیں کالے کرسکوں۔ اس کے علاوہ، جنہوں نے اپنے خون سے اپنی سرزمین اور قوم کو قوت بخشی وہ انمول ہو کر بے مثال بن جاتے ہیں۔
آپ نے یہ ثابت کردیا کہ آپ ہمیشہ بلوچستان کے رعب و دبدبہ سے لیس پہاڑوں میں دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے تھے اور دشمن کو
کبھی چین کی نیند سوئے نہیں دیا، جس کیلئے بلوچ قومی تاریخ میں آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔
آپ کا شمار بلوچ ریپبلکن آرمی کے نڈر اور باصلاحیت جنگجووں میں سے تھا اور آپ ہر وقت بلوچ قوم کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے اور اپنے کمٹمنٹ، خلوص اور محنت کی وجہ سے آپ بلوچ قومی تحریک میں ایک نیا کردار بن کر ابھرے اور آپ کی خون کی وجہ سے آج بلوچ سرزمین پھر سے رنگین ہوگیا۔ بلوچستان کے پاک ندیوں اور سمندروں میں آپ کے خون بہہ رہا ہے آج ہر کوئی آپ کے بہادری اور نڈری کا سخن گو ہے۔ ہر کوئی اس خواہش کا اظہار کررہا ہے کہ وہ آپ کا ہمراہ اور ساتھی ہوتا۔
آج آپ بلوچستان کے علاقے تمپ پھل اباد کی شان ہو۔ آج پھل آباد سمیت بلوچستان کے فرزند آپ پر فخر کررہے ہیں۔ آپ کی شہادت کے بعد بھی قابض فورسز آپ سے خائف رہا ہوگا کہ آپ دوبارہ کسی دوسرے روپ میں آکر ان پر قہر بن کر ٹوٹ پڑوگے۔
آپ کی شہادت کے روز شکست خوردہ فورسز نے آپ کے بھائی اور آپ کے بوڑے باپ کو اٹھا کر اپنے قید میں رکھا تاکہ وہ آپ کو جذباتی بلیک میل کرسکیں لیکن آپ اپنے موقف پر چٹان کی مانند سخت ڈٹے رہے۔ آپ سات یا آٹھ سالوں تک مستقل مزاجی کے ساتھ قومی تحریک کا حصہ تھے، جسے کوئی بھی کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کر سکے گا۔
اس کے علاوہ، آپ نے مکران کے کونے کونے میں مشن سرانجام دیئے۔ سائیجی زامران مزن بند تُربت کئی علاقوں میں آپ نے دشمن کو دن کے تارے دکھائے۔ آپ کی وجہ سے دشمن کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی دشمن ہمیشہ آپ کے انتظار میں بیھٹا تھا کہ کئی آپ اُن پر حملہ نہ کریں۔ آپ ہمیشہ کہتے تھے دُنیا کی کوئی بھی طاقت آپ کو بلوچ تحریک سے جدا نہیں کرسکے گا اور آپ اکثر و بیشتر یہ بھی کہتے تھے کہ بلوچستان میری سرزمین ہے میں اس کا وارث ہوں جس کیلئے میں ہر طاقت سے لڑوں گا چاہے وہ قابض پاکستان ہو، چین ہو یا کوئی بھی سامراج
ہو، جو بھی میری سرزمین پر دخل اندازی کریگا میں اپنے کمزور طاقت سے اس کو اپنے سرزمین پر موت کے گھاٹ اتار دوں گا اور آخری دم تک لڑوں گا۔ یہ آپ کا دو ٹوک موقف تھا اور آج آپ نے یہ ثابت کردیا کہ آپ کی محبت میں جنون تھی آپ سرزمین کی دیوانہ تھے آپ شے مرید تھے مگر ھانی کی عشق میں گرفتار نہیں تھے بلکہ آپ اپنے سرزمین کے عشق میں گرفتار تھے آپ شے مرید سے آگے تھے میرے خیال میں شے مرید جیسا دیوانہ آپ کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا، آپ دیوانہ تھے اپنے زمین کا جسے آپ حاصل کرنا چاہتے تھے اپنے قوم کو خوشحال کرنا چاہتے تھے آپ ہمیشہ ایک نئے مسقبل کے بارے میں سوچتے اور اس فکر میں آپ مشعول تھے۔
آج آپ زمین کے گود میں چین سے سو رہے ہیں۔ آج زمین سے منسلک پہاڑیں اور دریائیں اور سمندر آپ کی ہجر سے ماتم کدہ ہیں۔ آج آپ سب کی دلوں کے دھڑکن ہو، سب کے رول ماڈل ہو، آپ وہ ماہتاب ہو جس کی وجہ سے آج پوری دھرتی پر روشنی ہے۔ آپ نے اکیلے چاچا مراد بخش کا نام نہیں بلکہ پوری قوم کا نام روشن کردیا۔ آپ کی عشق نے واقعی دنیا میں واضح کردیا کہ دُنیا کی کوئی بھی طاقت بلوچ سرزمین پر بلوچ قوم کی مرضی و اجازت کے بغیر قدم نہیں رکھ سکے گا۔ آپ ہمیشہ کیلئے بلوچ قومی تحریک کے صفوں میں امر ہوگئے اور آپ کا کلاشنکوف اب بھی دشمن پر بادل کی طرح برس رہا ہے۔ بلوچ قومی تحریک آپ پر ناز کرتی ہے۔