ہمگام کالم:
ان دنوں وبا کے دن ہیں اور دنیا کے قریباً بیش تر ممالک میں آج کل لاک ڈاؤن
ہے تو میں نے سوچا کیوں نہ کچھ مغز ماری کی جائے۔ویسے ہم جیسوں کی زندگی کا کوئی خاص مقصد تو ہے نہیں جس سے پوری دنیا اور انسانیت کی فلاح کے کام آسکے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ خودپرستی ہی سہی جو اپنی قوم کے لئے سوچنے کی زحمت کیا کرتے ہیں۔ بلوچ سرزمین کی آزادی کا خواب آنکھوں میں سجائے میں نے بھی سی ایس ایس اور کمیشن کے باقی امتحانات کی تیاری کے بجائے انقلابی کتابیں پڑھنا شروع کیں اور ایک آزادی پسند جماعت میں شمولیت بھی اختیار کی۔ وقت گزرتا گیا سیاست کے الف ب سے بھی ناواقف میں بہت ساری چیزوں سے آشنا ہوتا گیا۔ بلوچ سرزمین کی آزادی کے لئے برسرپیکار جماعتیں کس قدر بلوچ عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہیں اور آیا وہ اس قابل ہیں کی ایک آزاد ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکیں؟ اس بے ترتیب تحریر میں کچھ اسی موضوع پر لب کشائی کی جسارت کروں گا۔
کسی بھی جماعت میں کارکن ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اسکے بغیر پارٹی پالیسی کو عملی جامعہ پہنانا اکیلے لیڈر کے بس کی بات نہیں۔ پارٹی ورکر کی قابلیت اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ اس کی تربیت یافتہ ہونا بھی پارٹی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اہم قرار پاتا ہے۔ کارکن اگر تربییت یافتہ ہو تو پارٹی پالیسی کو عملی جامعہ پہنانے میں بہت آسانی ہوتی ہے مگر یہی کارکن اگر غیرتربیئت یافتہ ہو اور محض شوق کی بنا پر آپکے ساتھ ہو تو کافی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ بلوچ سیاسی جماعتوں میں کارکنان کی تربییت کا سرے سے کوئی نظام ہی نہیں ہے جس کسی میں بھی زرا سا قومی جذبہ ہو اسکی تربیئت کئے بغیر ہی اسکو قومی زمہ داریاں تھما دی جاتی ہیں جس سے آج تک قومی تحریک میں تحریک نہیں بلکہ جمود آچکا ہے۔ اسکو اب تک یہ سمجھ ہی نہیں کہ تنظیم کیا ہوتی ہے کیسے آپریٹ کرتی ہے۔ ہم شروع سے لیکر آج تک ہوٹل میں بیٹھ کر گپیں مارنے اور جرگہ ٹائپ سیاست کے قائل ہیں ہماری سیاست میں رواداری حد سے زیادہ سرائیت کرچکی ہے ہمارا ہرکارکن ازخود ایک لیڈر، ایک آئین اور ایک پارٹی ہے جس سے ساری تنظیمی نظام تتر بتر ہوچکا ہے۔ ہمارے سیاسی کارکنان کے لئے پارٹی سے زیادہ ذاتی مراسم زیادہ عزیز ہیں جہاں میرے زیادہ دوست ہیں میں نے وہی پارٹی جوائن کرلی کیونکہ وہاں مجھے ہوٹل والی سیاست کے مواقع میسر ہوتے ہیں، وہاں بیٹھ کر میں دوسری جماعتوں اور انکے لیڈران کا بہتر انداز میں مذاق اڈا سکتا ہوں بہتر انداز میں گالم گلوچ کرسکتا ہوں۔ بدقسمتی سے ایک مخصوص جماعت نے ایسے لوگوں کے لئے سیک کمفرٹ زون کا بہترین انتظام بھی کررکھا ہے۔ مگر یہ تمام کوتاہیاں ان سیاسی جماعتوں کی ہیں جو اپنے کارکنان کی تربیئت نہیں کرتے انہیں تنظیم اور اسکے آئین کی اہمیت نہیں سکھاتے جس سے یہ تمام تر مسائل جنم لے چکے ہیں۔ بقول جیس جیکسن “سیاست میں ایک منظم اقلیت بھی ایک سیاسی اکثریت ہے” مذکورہ قول سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی سسٹم میں نظم و ضبط اولین حیثیت رکھتی ہے جسکا سب سے زیادہ ہماری جماعتوں میں فقدان ہے ہمارے کارکنان ہی نہیں بلکہ رہنما بھی نظم و ضبط کے قائل نہیں انکا دم گھٹتا ہے پابندی سے، ہم اپنے تئیں بادشاہ ہیں یہ بے نظمی ہمارے لیڈران سے ہی جنم لے چکی ہے اور کارکنان تک سرائیت کرچکی ہے۔ آج اگر آپ کسی بھی کارکن کو نظم و ضبط کا پابند کرنے کی کوشش کریں تو وہ با آسانی پارٹی کے خلاف محاذ کھول دیتا ہے اور بدقسمتی سے بلکہ میں تو کہونگا کہ یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے جسکا آگے چل کر بھیانک انجام بھی ہمیں دیکھنے کو ملے گا، ایک مخصوص گروہ ایسے تمام لوگ جنکو انکی پارٹی نے اپنی آئین کی خلاف ورزی یا نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے ارتکاب کی وجہ سے معطل یا رکنیت ختم کردی ہے اسے سرانکھوں پہ بٹھاتا ہے، انکو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے اسکی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے نتجتاً ایسے تمام کارکنان جوپابندی سے گریزاں ہیں انکو شہ ملتی ہے۔ یہ بات قطعی طور پہ غلط نہیں کہ ایک پارٹی سے مستعفی یا برخاست کئے ہوئے کارکن کو دوسری جماعتیں اپنے اصولوں پہ اتفاق کی صورت میں انہیں اپنی پارٹی میں رکنیت دیں کیونکہ اگر ایک کارکن کسی ایک پارٹی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتا دوسرے سے کرتا ہو تو اسکا حق ہے کہ اسے اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع دیا جائے شاید وہ وہاں بہتر کام کرسکے مگر ہر اس شخص کو کہ جسے معطل یا برخاست کیا گیا ہو آپ اسے سر پہ چڑھا کر یہ تاثر دیں کہ اپ نے اپنی پارٹی آئین کی خلاف ورزی کرکے بہت بہترین کام کیا ہے ایک طرح سے آپ تمام جماعتوں کو کمزور کرنے کی روایت ڈال رہے ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ روایات جب رواج پکڑ لیتی ہیں تو وہ کسی میں بھی تمیز نہیں کرتیں تمام قومی جماعتیں اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ جم روہن نے بخوبی کہا ہے کہ “نظم و ضبط آپکے مقاصد اور انکی تکمیل کے مابین پل کا قردار ادا کرتی ہے” یعنی مقاصد ہوں اور ڈسپلن نہ ہو تو انکی تکمیل ممکن نہیں ہوتی۔ نظم ضبط سے عاری کوئی بھی نظام زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا، آج جو بلوچ تحریک کی سیاسی دگرگوں صورتحال ہے وہ محض اسی بدنظمی اور آزاد خیالی کی وجہ سے ہے۔ دنیا میں آپ کسی بھی کامیاب فرم کو بھی دیکھ لیں اسکی کامیابی کا راز یہ ہرگز نہیں کہ اس کا عملہ پیدائشی باصلاحیئت ہے بلکہ آپ کو یہ نظر آئیگا کہ ان میں ایک ایسا نظام رائج ہے جسکی پابندی کرکے نابلد لوگ بھی باصلاحیت بن جاتے ہیں ایک باقائدہ نظام پہ چل کر آپ ایک کامیاب فرم کے لئے کامیاب عملہ تیار کرپائینگے مگر جب ایک فرم میں انتہائی باصلاحیت عملہ کام کررہا ہو مگر وہاں کوئی نظم وضبط نہ ہو انکی محنت نشانے پہ کبھی نہیں لگ پاتی اور نتیجتاً فرم ڈھ جائیگا۔ ایک فرم ایک نجی کمرشل ادارہ بھی بغیر ڈسپلن کے نہیں چل پاتا تو ایک ایسی تحریک جو ایک آزاد ریاست بنانے اور اسے چلانے کے لئے چلائی جارہی ہے وہ کیونکر کامیاب ہوسکتی ہے؟
دوسری طرف شروع دن سے ہی ہماری سیاست میں جذباتی پن حاوی رہاہے کبھی یہ نعرہ ہوا کرتا تھا کہ چونکہ ہم انقلابی جدوجہد کررہے ہیں اسی لئیے ہمیں کسی قسم کی خوشی نہیں منانی چاہیئے مگر سب نے دیکھا کہ یہ نعرہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا پڑھ گیا اور سب حسب معمول خوشیاں بھی مناتے رہے شادیاں بھی کرتے رہے مگر جنہوں نے یہ جذباتی باتیں کیں انہیں یہ احساس ہی نہ تھا کہ انکی باتیں یوں ہی ہوا میں تحلیل نہیں ہوتیں بلکہ بہت سے آپ سے سیکھنے والے ان باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور جب آپ خود اپنی باتوں کی نفی کرتے ہیں تو اسکا نہایت ہی تباہ کن اثر پڑتا ہے مگر خود انہیں یہ احساس ہی نہ تھا کہ قومی آزادی کی تحریکیں ایسے پرووکینگ الفاظ سے نہیں بلکہ ایک سنجیدہ روڈ میپ پہ اپنی تحریک کو استوار کرنے سے منزل مقصود تک پہنچ پاتی ہیں۔ خیر یہ تو ہوگئی ماضی کی بات مگر شومئی قسمت کہ روش آج بھی وہی ہے کچھ نام نہاد لوگ آج تک اس قوم کو جذباتی کرکے ہی اپنی جگہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں وہ کل بھی بلوچ کارکنان کو جذبات کی بنا پہ اپنے ساتھ کرلیتے تھے یا ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے، آج بھی اسی بیساکھی کا سہارہ لئے ہوئے ہیں انہی نام نہادوں نے بلوچ سیاست میں جذباتی پن کو اس قدر جڈ تک پھنچایا ہے کہ شاید اب اسکو نکالنا بھی مشکل ہوگیا ہے، حالت یہ ہے کہ ہر سیاسی کارکن جسکا تعلق صرف اور صرف ایک سیاسی جماعت سے بھی ہو وہ خود کو کبھی بھی اس سوچ پہ قائل نہیں کرپاتا کہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں مگر وہ بلوچ سرمچاروں کی قربانیوں اور شہادتوں کی پرچار کو ہی اپنی اصل پہچان سمجھتا ہے وہ ہی کیوں ہمارے ایک اکیسویں صدی کے افلاطون ہیں جو لمبی چوڑھی تحریریں ہوا کے رخ کو دیکھ کر لکھتے ہیں کئی بار برملا کہہ چکے ہیں کہ آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر سیاست کرنے والے اور پہاڑوں میں موجود سینے پہ گولیاں کھانے والے سرمچار میں کوئی برابری نہیں ہوتی، ویسے ہمارا حافظہ بہت ہی کمزور ہے یہی افلاطون کئی بار اپنی لکھی ہوئی باتوں کی اپنی دوسری تحریروں میں نفی کرتا رہتا ہے کیونکہ جس وقت اسے جذباتی باتوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ کرلیتا ہے اور جب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ سنجیدگی بھی چاہئے ہوتی ہے تو اسکا بھی تڑکا لگادیتا ہے۔ مگر ان باتوں کا اس قدر منفی اثر پڑا ہے کہ آج پوری بلوچ سیاست مسلح کاروائیوں کی بیساکھی کے سہارے کا محتاج ہوچکا ہے۔ فیس بک پہ موجود بلوچ آزادی پسندوں کی آئی ڈیز پہ ایک تزیاتی نظر دوڑائی جائے تو آپکو سب کے سب محض مسلح کاروائیوں کوشئیریا پھر کسی کی شہادت پہ نوحہ کرتے ہوئے ملینگے جو بری بات نہیں مگر انہی سیاسی کارکنان جو خود سیاسی پارٹیوں کے ہی ممبرز ہیں آپکو کبھی بھی کوئی خالص سیاسی پوسٹ کرتے ہوئے نہیں دکھینگے۔ جذبات چونکہ بہت جلد ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں لہٰذا ان دنوں جب کوئی مسلح کاروائی نہیں ہوتی تو یہ لوگ یا تو غائب رہتے ہیں یا پھر پوتاری کرتے ہوئے ملینگے۔
بلوچ فرزندوں کی قربانیوں کو ضائع کرنے میں محض یہ ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت ساری غیرسنجیدگیاں شامل ہیں، بلوچ سرڈگار کی آزادی کے نام پہ لمبی چوڑھی چھوڑنے والے بہت سے افراد اس قدر اپنے نظرئیے میں نہیف بن گئے ہیں کہ بہت سوں نے اب اس تحریک کا رخ موڈ کر اسے انسانی حقوق اور طبقاتی تحریک میں تبدیل کرنے کی نادانستہ کوشش کررہے ہیں۔ مغربی ممالک میں بیٹھے ہوئے بلوچ سیاسی کارکنان کو مغربی این جی اوز اور کچھ مبہم افراد کی باتوں میں آکر یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہ تحریک خالصتا آزادی کی تحریک ہے ہمیں کم از کم اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ایک ایسے راہ کے مسافر ہیں جس میں سب کچھ قربان ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی جاتی اسکے لئے ایسی اذیتیں برداشت کرنی پڑ سکتی ہیں جن کا شاید ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا یہ لاپتہ افراد، یہ مسخ شدہ لاشیں کوئی حقوق مانگنے کے نتائج نہیں ہیں۔ آزادی مانگنا آج کی دنیا میں ایک بہت ہی چیلنجنگ کام ہے کسی بھی قوم کی ازادی کو دنیا کی کوئی بھی طاقتور ملک یوں ہی ببانگ دہل حمایت نہیں کرسکتی، ہم نے دیکھا ہوگا کہ بلوچ جب بھی کسی فورم پہ اپنی آزادی کی بات کرتا ہے تو مغربی ممالک کے افراد آپکی بات کو حقوق کی مانگ میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی تو وہ آپکو آزادی کی مانگ کو یہ کہ کر دستبردار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب کے یہ ممکن نہیں کہ دنیا ایک ریاست کو توڑ کر ایک نئی ریاست بنائے ایسی باتوں سے میں نے کئی سیاسی دوستوں کو مایوس ہوتے دیکھا ہے کچھ عرصے بعد یہی دوست انسانی حقوق کی بات کرتے ہوئے پائے گئے۔ دوسری جانب ایک ایسا حلقہ بھی ہے جو اس قومی تحریک کو طبقاتی تحریک میں بدلنے پہ تلا ہوا ہے۔ ایسے دوستوں کی بہت ساری باتیں حقیقت پہ مبنی بھی ہیں کہ بلوچ سماج میں برابری ہونی چاہیئے، سردار اور غریب میں قومی حوالے سے فرق نہیں ہونا چاہیے، بلوچ خواتین کو مردوں کے برابر درجہ ملنا چاہئے وغیرہ مگر وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ یہ تحریک ایک قومی تحریک ہے اور قوم ایک طبقے پہ مشتمل نہیں ہوسکتی اج اگر اپ بلوچ کو قوم کی بجائے طبقوں میں بانٹ دینگے تو یہ قومی تحریک نہیں رہ جاتی ایک طبقاتی تحریک بن جاتی ہے۔ آپ نے امیر کو ناراض کیا، آپ نے سردار اور وڈیرہ، مولوی کو تحریک سے علیحدہ کردیا آپ نے مرد اور عورت میں پھوٹ ڈال دی تو یقینا آپکے ساتھ محض وہ طبقہ رہ جائے گا جو
آپکی منظور نظر ہو باقی تمام طبقے جو نہایت ہی مضبوط طبقے ہیں آپکی تحریک کے سامنے آکر کھڑے ہوجائینگے جو قابض کے لیئے سب سے آسان ترین موقع ہوگا آپکو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے اور وہ بھی آپکے اپنے بھائیوں کے ہاتھوں۔ طبقاتی نابرابری کا ناسور ہمارے سماج میں حد درجہ موجود ہے اس سے کم از کم میں تو انکاری نہیں ہوں اور نہ ہی طبقاتی جدوجہد کے خلاف ہوں مگر اس وقت طبقاتی سوچ ہی ہماری قومی جڑیں کمزور کردیگا اس وقت ہمیں خود کو ایک قوم ثابت کرنا ہوگا ہر طبقے کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا ہر طبقے کو محض یہ درس دینا ہوگا کہ ہم سب بلوچ ہیں اور یہ جدوجہد بلوچ کے لیے ہے بلوچ کی بقا کے لئے ہے۔ جب ایک آزاد ریاست کی بھاگ ڈور ہاتھ لگی تب کوئی بھی تحریک چلائی جاسکتی ہے آپ اپنے پارلیمنٹ میں قوانین بھی پاس کرواسکتے ہیں آپ سوشلسٹ، کمیونسٹ یا اسلامی تحریک بھی چلاسکتے ہیں اس وقت آپکو اپنی قومی یکجہتی کہ جسکی اب آپ کو سخت ضرورت ہے کے پارہ پارہ ہونے کا اندیشہ نہ ہوگا کیونکہ آپ ایک قومی ریاست ہونگے باہر والا قابض آپکو تقسیم نہیں کرپائیگا۔
آخر میں کہنا چاہونگا کہ ضروری نہیں آپ ان باتوں سے اتفاق کریں پر اس متعلق سوچھنے میں کوئی برائی نہیں۔