بہت سارے دوستوں کی یہ شکایت رہی ہے کہ فری بلوچستان موومنٹ اپنے بیانات اور جلسے جلوسوں میں صرف پاکستان اور ایران کے خلاف ہی کیوں احتجاج اور نعرے لگاتا ہے اور افغانستان کے خلاف نہیں لگاتا، بلکہ افغانستان کے پاس بھی بلوچستان کا ایک حصہ موجود ہے اگر فری بلوچستان موومنٹ افغانستان کے خلاف کچھ نہیں کہتا تو کیوں دوسرے بلوچوں کو ایران کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے کہتا ہے. ان ساری باتوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے دوست شاید بلوچوں پر کئے گئے پاکستانی اور ایرانی مظالم سے انکاری ہیں یا پھر شاید تاریخ  سے ناواقف ہیں. اگر ہمارے دوست تاریخ سے بھی واقف ہیں اور پاکستانی و ایرانی مظالم سے بھی انکاری نہیں ہیں، تو وہ یہ ثابت کردیں کے افغانستان بھی وہی ظلم بلوچوں پر کرتا ہے جو پاکستان اور ایران کرتے ہیں. یا پھر خان محراب خان سے لے حیر بیار مری تک، ان دو سو سالوں میں افغانستان نے کسی بھی بلوچ کو نقصان پہنچایا ہو یا کسی تحریک کو کچلا ہو.
چلو ہم اس چیز کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ آخر فری بلوچستان موومنٹ صرف ایران اور پاکستان ہی کے خلاف کیوں ہے اور افغانستان کے خلاف کیوں نہیں. تو یہ جواب ڈھونڈنے کیلئے ہمیں دو سو سے تین سو سال پہلے کے کچھ واقعات اور تاریخی پس منظر پر نظر ڈالنی پڑے گی. اگر ہم پیچھے جائیں اور تاریخ کو باریکی سے دیکھیں تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ آخر کیوں فری بلوچستان موومنٹ افغانستان کے خلاف اپنی آواز بلند اور احتجاج نہیں کرتا.
یہ سارہ معاملہ سترہویں صدی سے شروع ہوتا ہے. سترہویں صدی میں افغانستان کے کچھ علاقوں پر ہندوستانی مغلوں کی حکومت تھی اور باقی افغانستان اس وقت ایران کے قبضے میں تھا. 1707 میں مغلوں کے بادشاہ اورنگزیب کا جب انتقال ہوا تو مغلوں کی بادشاہت کمزور پڑگئی. تو ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے پورے افغانستان پر قبضہ کیا پھر برصغیر پر حملہ کر کے پشاور اور سندھ کے بہت سارے علاقے اپنے سلطنت میں شامل کر کے دہلی تک گیا. 1747 میں جب نادر شاہ کا انتقال ہوا تو احمد شاہ ابدالی افغانستان کا بانی حکمران بنا اور اس نے افغانستان کو ایران سے بھی آزاد کروایا. احمد شاہ ابدالی کے دور حکمرانی میں افغانستان، موجودہ افغانستان سے لے کر خیبر پختون خواہ اور ہندوستان کے کچھ علاقوں تک پھیلا ہوا تھا. اس کی سلطنت کو سلطنتِ درانی بھی کہتے ہیں.
 1782 میں احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد ہندوستانی رنجیت سنگھ نے پنجاب کو تو افغانوں سے چھینا ساتھ ہی ساتھ افغانستان کا علاقہ (آج کے خیبر پختون خواہ) پر بھی قبضہ کر لیا. اس وقت برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے برصغیر میں گھس چکا تھا اور وہ اپنی طاقت کے زور پر برصغیر کو آہستہ آہستہ قبضہ کر رہا تھا اور وہاں سے روس بھی ایشیا کے بہت سارے ممالک پر قبضہ کر چکا تھا. برطانیہ کو ڈر تھا کہ کہیں روس برصغیر پر قبضہ نا کردے اور روس کو ڈر تھا کہ کہیں برطانیہ اس کے قبضے کیے گئے ممالک تک نہ پہنچ جائے. سو سال تک ایشیا میں برطانیہ اور روس کے درمیان بنتے اور بگڑتے حالات اور مذاکرات کو ( the great game) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے.
1837 میں ایران نے روس کی مدد سے افغانستانی علاقہ “ہرات” پر قبضہ کر لیا تو برطانیہ کو روس کا یہ عمل ناگوار گزرا اور اس نے اس وقت کے افغانی امیر دوست محمد سے کہا کہ ہرات کو واپس لینے کی کوشش کرلو تاکہ روس برصغیر تک نا آسکے. برطانیہ کا روس سے اسی ڈر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوست محمد نے برطانیہ سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ہرات کو واپس لے کر روس کو روکنے کی کوشش کرے گا اور بدلے میں برطانیہ افغانستان کو اس کے علاقے (خیبر پختون خواہ) واپس کروائے گا جو کہ احمد شاہ ابدالی کے بعد ہندوستان کے رنجیت سنگھ نے قبضہ کر لیے تھے. اس وقت کے برطانوی جرنیل لورڑ اکلینڈ کو یہ منظور نہیں تھا. اور اس نے ایک افغانی سابقہ بادشاہ شاہ شجاع کی مدد سے افغانستان پر حملہ کردیا اور دوست محمد کا تختہ الٹ دیا اور شاہ شجاع کو افغانستان کا نیا امیر بنا دیا. اس حملے سے افغان عوام ناخوش تھے تو انہوں نے 1841 میں بغاوت کی اور برطانیہ کو افغانستان سے باہر نکال دیا اور برطانیہ کا افغانستان کو حاصل کرنے کی پہلی کوشش ناکام ہوئی. دوست محمد پھر سے افغانستان کے امیر بن گئے.
افغان بغاوت سے دو سال پہلے 1839 میں انگریزوں نے بلوچستان پر قبضہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا اور اس وقت بلوچ قوم کے عظیم رہبر خان محراب خان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا. خان محراب خان کے دادا نوری نصیر خان کی پھیلائی ہوئی سلطنت بلوچستان جو آج کی مغربی بلوچستان کے شہر چاھبار سے لے کر جیکب آباد تک پھیلا ہوا تھا اور جن کا مرکز یا یوں کہیں کہ دارالحکومت قلات ہوا کرتا تھا. تو انگریزوں نے اپنی ایک اس وقت کی طاقتور ترین فوج لے کر قلات پر حملہ کیا. ایک بہت بڑی فوج اور توپوں کی مدد سے  فتح حاصل کی. قلات پر قبضہ کرنے کے بعد پورے بلوچستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے.
چونکہ اس وقت تک برطانیہ پورے برصغیر پر قبضہ کر چکا تھا تو اب برطانوی ہندوستان اور افغانستان باقاعدہ ہمسایہ بن چکے تھے. 1855 میں پھر سے ایران نے روس کی مدد سے افغانستان کے علاقے ہرات اور کندھار پر قبضہ کر لیا. دوست محمد نے مجبور ہو کر برطانوی ہندوستان سے مدد مانگی اور بدلے میں انگریزوں نے خیبر پختون خواہ کے علاقے کو ہمیشہ کے لیے برطانوی ہندوستان کا علاقہ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا. افغانی امیر نے مجبور ہو کر معاہدہ تسلیم کر لیا.
1863 میں دوست محمد کی وفات کے بعد اس کا بیٹا شیر علی افغانستان کا امیر بنا. شیر علی انگریزوں کا بہت بڑا دشمن تھا اور روسیوں سے اس کے تعلقات تھوڑے بہتر تھے. یہ چیز انگریزوں کو گوارا نہ ہوا اور 1872 میں افغانستان پر ایک بار پھر سے حملہ کردیا شیر علی کو شکست دے کر افغانستان پر قبضہ کر لیا اور انگریزوں نے ایک ایسے شخص کو تخت پر بٹھایا جو ہمیشہ انگریزوں کا پیروکار بنا رہا. انگریزوں نے عبدالرحمن کو برطانوی زیر اثر افغانستان کا امیر بنا دیا.
1884 میں جب روس نے افغانستان کے ہمسایہ ملک ترکمانستان پر قبضہ کر لیا. تو اس سے برطانیہ کو یہ خدشہ ہوا کہ روس کا اگلا قدم افغانستان ہو سکتا ہے. تو برطانیہ نے روس کو تجویز دی کہ کسی بھی جنگ سے بہتر ہے کہ افغانستان کو ہم دونوں کے بیچ ایک بفرزون بنایا جائے تاکہ دو بڑی طاقتوں کے درمیان ایک علاقائی حدود واضح ہو جو روس اور افغانستان کے علاقائی حدود واضح کرتی ہو. چنانچہ “اینگو رشین باؤنڈری” کمیشن بنی جس میں روس اور برطانیہ کے نمائندے تو موجود تھے مگر کوئی بھی افغانی موجود نہیں تھا.
 اینگو رشین باؤنڈری والے معاملے کے بعد برطانیہ نے اس وقت افغانستان کے امیر عبدالرحمن کو زور دیا کہ برطانوی ہندوستان اور افغانستان کے درمیان علاقائی حدود واضح کرنے ہونگے. 1893 میں دونوں فریقوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا اور اس معاہدے کو ڈیورنڈ لائن معاہدہ کہتے ہیں. اس سرحدی لائن کا نام ہنری مورٹیمر ڈیورنڈ کے نام پر رکھا گیا تھا جو اس وقت بھارتی انتظامیہ کے وزیر خارجہ تھے اور دونوں اطراف سے معاہدے کے ذریعے برطانوی دباؤ کے تحت اسے اپنایا گیا تھا۔ حد بندی کی لکیر جان بوجھ کر پشتونوں کی بستیوں کے ذریعے رکھی گئی جس کی وجہ سے کچھ پشتون قبائل مثلا خروٹی علیحدگی اختیار کر گئے اور سینکڑوں افغان دیہاتوں کی علیحدگی ہو گئی۔ افغان علاقے کا تقریبا ایک تہائی حصہ انگریزوں کے حصے میں آ گیا اور بلوچستان کا ایک حصہ افغانستان میں چلا گیا۔ برطانیہ کا مقصد بفرزون قائم کرکے پھیلتے ہوئے روس کے خلاف اپنے علاقے کی شمال مغربی سرحد یعنی اس وقت کے برطانوی ہندوستان کی بہتر حفاظت کرنا تھا۔
 یہ معاہدہ برطانیہ اور برطانیہ کا ہی بنایا ہوا امیر، امیر عبدالرحمن کے درمیان طے پایا تھا اور 18 لاکھ روپے کی امداد دینے کا وعدہ بھی کیا گیا. یعنی ان دونوں میں سے کوئی بھی نا رہے تو یہ معاہدہ خود بہ خود ختم ہو جائے گا. عبدالرحمن کے گزر جانے کے بعد 1901 میں اس کا بیٹا حبیب اللہ امیر بنا. اور 18 لاکھ کے لالچ میں بیٹے نے بھی وہی کیا جو باپ نے کیا تھا. یوں یہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ پھر سے آگے بڑھا. 1919 میں امیر حبیب اللہ خان کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے امان اللہ خان امیر بنے تو انہوں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک قرار دیا اور برطانیہ سے ہمیشہ کے لیے الگ ہونا اور ایک آزاد ملک کی قیمت تھی کہ ڈیورنڈ لائن کو ہمیشہ کے لئے تسلیم کرنا. اس دوران برطانیہ اور افغانستان کے درمیان ایک جنگ بھی ہوئی، جنگ کے بعد افغانستان برطانیہ سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوگیا مگر پھر سے افغانستان کو ڈورنڈ لائن کا معاہدہ تسلیم کرنا پڑا. چونکہ افغانستان برطانیہ سے آزاد ہوچکا تھا تو اس بار یہ معاہدہ ایک افغانی امیر کے ساتھ نہیں بلکے افغانستان کے ساتھ ہوا. اس کا مطلب یہ تھا کہ جب تک افغانستان ہے تو معاہدہ رہے گا اور اس کے ہمسایہ برطانیہ ہی ہے تو یہ معاہدہ رہے گا.
مگر برطانیہ تو 1947 کو برصغیر کو چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا، تو اس معاہدے کا کیا ہوا جو ان دونوں ملکوں کے درمیان طے پایا تھا؟
برطانیہ برصغیر کو تقسیم کر کے جانے ہی والا تھا کہ افغانستان نے ڈورنڈ لائن کا مسئلہ کھڑا کردیا کہ جاتے جاتے اس کے وہ سارے علاقے واپس دے دئیے جائیں جو احمد شاہ ابدالی کے دور کے بعد رنجیت سنگھ پھر انگریزوں نے ان سے چھینے تھے (آج پاکستان کا خیبر پختون خواہ ہے). جب ایک نیا ملک اس کا ہمسایہ ہے تو اس نئے ملک سے اس کا کوئی معاہدہ نہیں. مگر انگریز نہیں مانے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق یہ معاہدے پاکستان کو منتقل کر دیئے گئے. مگر افغانستان نے بین الاقوامی سرحد ڈیورنڈ لائن سے انکار کر دیا اور اس وقت کی افغان حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ برطانوی ہندوستان کے ساتھ طے پانے والے علاقائی معاہدوں کا ناجائز وارث پاکستان کو تسلیم نہ کرے۔ اور اسی سال افغانستان نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں بھی اٹھایا مگر کسی بھی ملک نے اس کا ساتھ نہیں دیا. افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ووٹ دیا. 1947 میں پشتون علاقوں کی شمولیت سے ریاست پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس کے بعد 1949 کے افغان جرگہ نے ڈیورنڈ لائن کو ناجائز قرار دے دیا کیونکہ اصل معاہدہ پاکستانی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ انگریزوں کے ساتھ طے پا چکا تھا. 75 سال گزر جانے کے بعد بھی افغانستان نے ڈورنڈ لائن کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا.1947 سے لے کر افغانستان پاکستان کے اندر بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کی حمایت کرتا آرہا ہے.
اس پوری  تاریخ سے یہ پتا چلتا ہے کہ افغانستان پر کس طرح یہ ڈیورنڈ لائن زبردستی اور جان بوجھ کر مسلط کی گئی ہے جس سے بلوچستان کا ایک حصہ افغانستان میں چلا گیا تھا اور افغانستان کا علاقہ (خیبر پختون خواہ) پاکستان کے حصے میں چلا گیا تھا.
 افغانستان تو ایران اور پاکستان کو اپنا دشمن مانتا آرہا ہے. برطانوی قائم کردہ پاکستان نے اس کے علاقوں پر قبضہ جما رکھا ہے اور ایران تو اس پر صدیوں سے حملہ کرتا آرہا ہے. بلوچستان کے دونوں دشمن افغانستان کے بھی دشمن ہیں اور اس پوری کی پوری تاریخ میں افغانستان نے آج تک کسی بھی بلوچ کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ افغانستان میں کسی بھی پاکستانی ظلم سے آنے والے بلوچوں کو افغانستان کی طرف سے مدد ملی ہے. اور یقیناً بلوچستان کا پاکستان اور ایران سے آزادی کے بعد افغانستان خود بخود صرف مذاکرات سے ہی یہ بلوچستان کے حصے والا معاملہ حل کردیگا. جس کے بعد اس خطے میں ایک امن کا ماحول پیدا ہوگا جو آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کو فروغ دیگا.
وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے دوست اور دشمن کو پہچان لیں ناکہ دشمن کو نظر انداز کر کے دوست سے ہی الجھ جائیں.