شال(ہمگام نیوز ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے تربیتی پروگراموں کے سلسلے میں ’’آزادی کی تحریکوں میں سفارت کاری کی اہمیت و افادیت‘‘ کے عنوان سے پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض برطانیہ چیپٹر کے ممبر حفیظ بلوچ ، پروگرام سہولت کار کے فرائض بی این ایم نیدرلینڈز چیپٹر کے نائب صدر دیدگ بلوچ نے انجام دیے جبکہ منتخب موضوع پہ بی این ایم سینٹرل کمیٹی اور خارجہ ڈیپارٹمنٹ کے ممبر نیاز بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔

 سینئر وائس چیئرمین ڈاکٹر جلال بلوچ کی سربراہی میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کے مرکزی سطح کے تربیتی پروگراموں کے سلسلے کا یہ نواں پروگرام تھا۔

 موضوع پہ روشنی ڈالتے ہوئے نیاز بلوچ نے کہاکہ سب سے پہلے تو یہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ڈپلومیسی کیا ہے؟اور کوئی کسی سے ٹیکٹیکل انداز میں کس طرح تعلق بناتا ہے۔جب ہم پروفیشنل ڈپلومیسی کی بات کرتے ہیں تو اس میں جماعت یا کوئی ملک کس طرح اپنے مفادات کے حصول کے لیے دنیا سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔اس ضمن میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایک ڈپلومیٹ کو اس بات کی جانکاری ہونی چاہیے کہ وہ یہ دیکھے کہ سامنے کون بیٹھا ہے اور اسے یا انھیں کیسے متاثر کیا جاسکتا ہے۔ہم چوں کہ ایک ملک نہیں بلکہ مقبوضہ خطے سے تعلق رکھتے ہیں لہذا ہمیں آئینی جانکاری اور وقت و حالات کا ادراک ہونا چاہیے ، اس سے ہوتا یہ ہے کہ ماحول آپ کے حق میں سازگار بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ رابطہ کاری جو کہ خارجہ امور میں انتہائی اہمیت کا حامل سمجھاجاتا ہے اس کے علاوہ اس پہ دسترس اور گفت و شنید اور لکھنے کے ہنر سے آشنائی عمل کو پروان چڑھانے میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔اسی لیے جسے یا جنھیں بھی یہ ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے اس میں یا ان میں درج بالا تمام صلاحیتیوں کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے ۔

نیاز بلوچ نے مزید کہا کہ ہم چونکہ ایک مقبوضہ خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں گذشتہ پچھتر سالوں سے ہماری قوم آزادی کی تحریک چلارہے ہیں لہذا ہم دنیا کو کیسے اپنے حقوق کے لیے آگاہ کرسکتے ہیں؟ اس حوالے سے ہم اکثر یہ کرتے ہیں کہ ہم مختلف ممالک اور بااثر اداروں سے تعلق استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، مزید ان کے سامنے اپنے مقاصد رکھتے ہیں۔

نیاز بلوچ نے مزید کہا کہ ڈپلومیسی میں یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ جنگی سماج کے لیے کس طرح ڈپلومیسی کی جاتی ہے۔ ویسے بھی اس کی طویل تاریخ ہے ۔لہذا ہم چونکہ ایک ایسے سماج سے تعلق رکھتے ہیں جہاں گذشتہ پچھتر سالوں سے ہماری جان و مال محفوظ نہیں ، حتیٰ کہ شناخت بھی خطرے میں ہے لہذا ہمیں عالمی قوانین جو مقبوضہ خطوں کے یا جہاں آزادی کی تحریک چل رہی ہوتی ہیں انہی کو مدِ نظر رکھ کر اپنے اس عمل کو دوام بخشنے کی کوشش کرنی چاہیے جو کہ ہم کررہے ہیں۔ایک بات کی میں وضاحت کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہم بھی ایک ملک کی طرح اس عمل کو آگے لے کے جائیں ایسا ممکن نہیں کیوں بعض عالمی قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے۔اس ضمن میں این جی اوز بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں اسی طرح مزید لابنگ کی جاتی ہے جو اس ملک کو یا ممالک کو آپ کے مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

 نیاز بلوچ نے کہا کہ جب بھی کوئی ڈپلومیٹ کسی بھی جماعت یا ادارے کے ذمہ سے بات کررہا ہوتا ہے تو وہ اس بات کو مدِ نظر رکھتا ہے کہ سامنے والے کے پاس اختیارات کس حد تک ہیں اور ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہماری جماعت کل نہیں بلکہ دیگر تنظیموں اور جماعتوں کا کرداربھی ہے ۔ اور جب تمام سٹیک ہولڈرز یک مشت ہوں گے تو رکاوٹوں کا سدِ باب ممکن ہوگا۔مزید یہ کہ خطے میں بسنے والی دیگر محکوم اقوام کے ساتھ متحدہ محاذ بنانا بھی مخالف قوت کو زوال پذیر کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے اس سے یہ ہوتا ہے دنیا خطے کے مسائل یا دشمن کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کو اجاگر کرنے اور اس اس کے سدباب کے لیے اقدامات پہ مجبور ہوسکتی ہے۔

مزید انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں جماعتی کارکنان سوشل میڈیا کو بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بہتر انداز سے استعمال کرسکتے ہیں اس سے یہ ہوتا ہے آپ جس مقصد کے لیے جدوجہد کررہے ہیں وہ پیغام ہر عام و خاص تک پہنچ جاتا ہے جس میں ممکن ہے کہ جہاں اور جن ممالک میں آپ زیادہ متحرک ہیں وہاں کے عوام بھی آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔

آخر میں نیاز بلوچ نے کہا کہ یہ تنہا خارجہ کمیٹی کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم قوا نین کی رو سے اس عمل کو آگے لے کے جائیں کیوں کہ اگر ہم قوانین سے بے خبر رہیں گے تو ہم خارجہ معاملات کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔