دوشنبه, سپتمبر 30, 2024
Homeآرٹیکلزتنقید ،بحث ،ا لزام تراشی اور مجموعی بلوچ تا ریخی اور تحریکی...

تنقید ،بحث ،ا لزام تراشی اور مجموعی بلوچ تا ریخی اور تحریکی حالات ۔ تحریر، رستم بلوچ

 بحث مباحثہ خیال سوچ اور فکر میں اختلاف رائے اور اختلاف نظر کی فرق کی وجہ سے کیا جاتا ہے ،ساتھ ہی ساتھ مفادات میں ٹکراﺅ کی وجہ سے بھی بحث مباحثہ ہوتا ہے ،سلجھے ہوئے اور حل پذیر مسئلے پر بحث نہیں ہوتا ہے جیسے ۲جمع ۲ برابر ۴ ایک حقیقت ہے اس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے اور یہ حل پذیر ہے اس پر مکالمہ اور مباحثہ کی ضرورت نہیں ہے کسی نے لکھا ہے کہ بحث مباحثہ ایک گیم ہے جسے بحث کندہ جیتنا چاہتے ہیں اس گیم کے کچھ اصول ہیں جو تمام کھلاڑیوں پر یکساں لاگو ہوتے ہیں ۔کتاب Reconstructing criticism میں لکھا ہے کہ تنقید ایک سائنس نہیں ہے بلکہ ر وایتی انداز میں ہوتاہے ،تنقید کا پہلا مرحلہ ز یادہ تر ذاتی ہوتا ہے اور اس میں پختگی نہیں ہو تی زیادہ تر ذات پر حملہ ہوتا ہے ،کردار کشی ہوتی ہے ،دوسرے مراحل میں زیادہ تر ا س کا تعلق ا قدار سے ہوتا ہے جس میں کسوٹی عقل ،دلیل کے بجائے جذبات ،احساسات ہوتے ہیں ا ٓخر میںیہ اپنی اصل صورت لیتا ہے اور بحث مباحثہ منطق اوردلائل کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔جب بحث دلیل منطق اور استدلال کی بنیاد پر ہو تو اسکا پھل میٹھا ہوتا ہے اور پورے سماج و تحریک کو فائدہ دیتا ہے ۔بحث مباحثہ کے کچھ اصول ہیں
۱) کسی کی ذات پر حملہ نہیں کیا جائے گا اسکی کردار کشی نہیں کیا جائے گا بلکہ اسکے پروگرام پر سوال کیا جائے گا
۲)ایک چھوٹے گروہ کو استعمال کرکے بڑے گروہ کی نمائند گی نہیں کی جائے گی
۳) اس بات پر تکیہ نہیں کیا جائے گا کہ وہ پارٹی ،شخصیت مشہور ہے ،لہذا اس سے سوال نہیں ہو گا بلکہ جائز سوال سب سے کیا جائے گا ۔
جو بھی دلیل اور بحث ہم کرتے ہیں وہ اخلاقی مفروضہ کی محاصل ہے ،لوگوں کو اخلاقی گومگوکی حالت کا جو سامنا ہوتا ہے اس کو سمجھنا اور ظاہر کرنا اور اس میں اخلاقیات کی تصور کو جاننا ضروری ہے اور اس کے تحت بحث کو سمجھا جاسکتا ہے ،اخلاقیات کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے
۱)metaethics
۲) normative ethics
۳)applied ethics
میٹا اخلاقیات یہ ہے کہ یہ جاننا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ،اچھائی ،خوبی اور نیکی کو جاننا ، صحیح اور غلط کے فرق کو جاننا اورآزادی اور ذمہ داری کے رشتہ کو جاننا ، اس بات کو جاننا کہ کیا آزادی اپنی فطرت میں صحیح ہے اس کو مفید اور مناسب طریقہ سے ادا کیا جا رہا ہے ۔اس بحث میں مسئلے کی تشخیص ہوتی ہے مسئلہ کیسے پیدا ہو ا ، وجہ کیا تھی اس کی گہرائی تک جانا جاتا ہے ، نارمیٹو اخلاقیات میٹا اخلاقیات سے مختلف ہے اور یہ ہمارے سمجھنے کی صلاحیت کی رہنمائی کرتی ہے اور ہمیں صحیح اور غلط کے فرق کو بتاتی ہے پھر ہمیںاس قابل بناتی ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہے ۔یہ ہماری اخلاقی رویوں کا تعین کرنے میںمدد دیتی ہے ،تیسرا applied ethics اخلاقی طور پر مفید ،عمدہ اور معقول عمل کا شناخت ہے اور اسی کو مختلف فیلڈ میںاستعمال کرتا ہےausten freeley کتاب Arguementation and Debate میں کہتا ہے کہ بحث کے لیے کچھ اصول ہوتے ہیں،خود مختاری کا اصول ہمیں دوسروں کی ذاتی آزادی کے ا حترام کا درس دیتا ہے اور ہمیں کسی کی ذاتی آزادی پر حملہ کرنے سے باز رکھتا ہے۔ نقصان پہنچانے کا اصول بحث میں ایک اعتقاد ہے جواظہار آزادی کو اس وقت روکتا ہے جب وہ کسی کی ذات پر حملہ اور ہوتا ہے ۔قانونی اخلاقیات بھی ایک اصول ہے جو سماجی اخلاقیات کے خلاف لکھنے کو روکتی ہے جو تمام قوم کی احساسات کو مجروح کررہے ہوںیہ اسے روکتی ہے principle of non maleficenceبھی ایک اصول ہے یعنی دوسروں کی ذات پر حملہ نہ ہو یہ تنقید میں ذاتی حملہ کی ممانعت کرتا ہے جبکہ تنقید میں سب سے مشہور اصول Golden rule ہے جوزیادہ تر قبول کیا گیا ہے اورگولڈن اصول کے تحت تنقید ،بحث مباحثہ میں ایک فرد دوسرے کے خلاف ایسا ہی برتاﺅ کریںکہ وہ چاہتا ہے کہ کئی دوسرے بھی اس کے ساتھ وہی برتاﺅ کر ے ،کتاب influencing through argument میں لکھا ہے کہ بحث مکمل طور پر دلیل کی بنیاد پر ہوتا ہے جہاںتنازع ہوتا ہے وہاں بحث و مباحثہ ہوتا ہے اس میں ذاتی حملہ کے بجائے دلیل سے اپنی بات منوائی جاتی ہے ،کسی کی کردار کشی بحث کا حصہ ہی نہیں ہوتا ، مباحث اور بحث کرنے والے اپنی دلائل کی وجہ سے بزرگ تر اور غالب ہوتا ہے جبکہ دوسرا مبالغہ آمیز اور بیان بازی تنقید rhetorical criticism بھی ہے ۔دلائل ،ترغیب ، علمی استدلال ،منطق،اصول عقلی ،دل سوزی ،رقت انگیزی ،قومی مزاج ،قومی اخلاق ،چوب قلم ،ثبوت گواہ ،پروپیگنڈہ ،تعلیم و تربیت ،چھان بین ،تفتیش ، ،اور مبالغہ آمیز بحث کے حصہ ہوتے ہیں لیکن دلیل منطق اور استدلال کی بنیاد پر بحث جیتا جاتا ہے اور وہ بحث قوم ملک اور تحریکوں کو فائدہ دیتا ہے جس طرح ۰۷۹۱ میں کرد تحریک کے اندر بحث شروع ہوا کہ انکی شناخت کو کیسے بچایا جائے دوسرا بحث ہوا کہ tksp and kip /ddkdنے ترکی کے سوشلسٹ موومنٹ کے ساتھ اشتراک اور تعاون پر زور دیا جبکہ pkkنے مکمل آزادی کی تاکید کی اور اس پر زور دیا ،پھر pkk نے ذمہ داری اور دلیل سے سب کو اپنی طرف مائل کرتے ہوئے آزادی کی جہد پر سب کو راضی کیا اور قومی داہرے میں سب کو لانے کی کوشش کی ۔ نمبیا میںاپنی جہد کے لیے بحث مباحثہ ہوئی کہ کس طرح جہد کو کامیاب کیا جاسکتا ہے نمبیا میں جہد کاروں نے ازم اور کنفیوژن سے نکلنے کے لیے واضح کہا کہ انکی جہد سیاسی اور نظریاتی حوالے سے oppressed and oppressorمظلوم اور ظالم کے درمیان ہے اسی حوالے سے و ہاں تعمیری بحث مباحثہ ہوا اور انھوں نے اپنے دشوار مسئلوں کے حل ڈھونڈ کر اپنی طاقت قوت اپنے دشمن کے خلاف لگائی ۔کتاب national liberation movement in office forging democracy with african میں لکھا ہے کہ نمبیا میں SWAPOنے غلط بحث کی ممانعت کرتے ہوئے کہا کہ اس نے نقصان دیا ہے اس تنظیم نے کہا کہ صرف ایک مسئلہ ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قومی آزادی جو صرف نیشنلزم کے تحت حاصل کی جاتی ہے ،ان لوگوںنے باقی نظریات کو زیر بحث ہی نہیں لایا بلکہ کنفیوژن سے اپنی جہد کو نکالنے کی کوشش کی ،انکے تحریروں میںایک چیز پر زور دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ انکی کھوئی ہوئی آزادی کو کس طرح حاصل کرنا ہے ۔
اسی کتاب میں لکھا ہے کہ SWAPO میں چھوٹی تعداد میں موجود تعلیم ےافتہ ذمہ داران نے شعوری بحث کو روکنے کی ہرممکن کوشش کی کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ اس عمل سے نئے قا بل اور تعلیم ےافتہ نوجوان سامنے آسکتے ہیں جس سے پہلے سے موجود تعلیم ےافتہ ٹولہ کو پارٹی میں اپنی اجارہ داری کھونے کا ڈر تھا۔ اسی وجہ سے عقلی بحث سے سب کو روک رہے تھے ۔۔لیڈر شپ میں بھی علم کی کمی اور مسئلوں کو حل کرنے کے لیے صلاحیت کی فقدان تھی اس لیے تنظیم میں بحث سے روکا جا رہا تھا۔ renewellek کتاب History of modern criticism میں لکھتا ہے کہ اٹلی میں جدید بحث ۶۱۸۱ میں madame de stael کی متاثر کن ارٹیکل سے شروع ہوئی کتاب میں مزید کہتا ہے کہ تنقید کی تاریخ جذبات اور احساسات سے بھری شاعری ،خوف ڈر اور تخویف سے انکار ،تردید، ناپسندی اور نامنظوری کا نام ہے
۔ Karl Wilhelm Friedrich Schlegelنے جرمن میں تنقید کے حوالے سے کافی لکھا ہے اس نے کہا کہ ایک اچھے تنقیدی ماحول بنانے کے لیے کچھ چیزیںضروری ہیں جیسے کہ جغرافیہ ،باطنی و روحانی جمالیات ،علم تعمیر و فن تعمیر ،فطرت ،تلفظ اور رقت انگیز آواز،نفسیاتی مسئلے ،بحث میں ان چیزوںکا سامنا ہوتا ہے ۔ بحث میں دم نفس ،ولولہ ،toneعام تاثر اہمیت کا حامل ہوتا ہے ،اور جو بحث کرتا ہے اسکا مقصد ہی تجدیدی عمل ہوتا ہے ، تنقید کا مقصد تعمیر ہوتا ہے ،اسی کے تحت بحث ہو تو وہ بحث نظام تبدیل کر کے ا نقلاب برپا کرتا ہے جبکہ اسکے برعکس بحث ہو تو وہ فائدہ نہیں دیتا ہے ۔بحث میں polemics تکرار ،مناظرہ ،مناقشہ ،بحث مباحثہ schlegel کے بہترین الفاظ تھے اوراسن نے کہا کہ تنقید کی روح یہی ہے اور بحث میں نقلی ،بناوٹی اور کھوٹے کو نکال کر اچھائی اور بہتری کے لیے جگہ بنانا ہوتا ہے اور وہ حدف صرف اور صرف تکرار ،مناظرہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔تمام بحث ومباحثہ سے ایک چیز واضع ہے کہ جس طرح پگلنے والی برف سے پہاڑ نہیں بنا یا جاسکتا ہے بالکل اس طرح دلیل منطق اور مناظرہ ،مناقشہ کے بغیر بحث سے کسی بھی ملک قوم اور جہد میں بہتری بھی نہیں لائی جا سکتی ہے literary criticism a new history میں gary day کہتا ہے کہ تنقید گریک لفظ krisis سے نکلا ہے جسکے بہت سے معنی ہیں جیسے کہ علیحد گی ،جدائی ،چناﺅ،اور فیصلہ ،شروع کے وقت اس میں کنفیو ژن تھا کہ مسئلے کیسے حل کیے جائیں،ضروری فیصلے کیسے لئے جائیں، بعد میں اصل بحث مباحثہ سے انکے حل نکل گئے ۔بلوچ قوم جو ہزاروں سال کی تاریخ رکھتا ہے جس نے ۶۶۶۱ سے لیکر انگریز کی آمد تک اس گلزمین پر حکمرانی کی ہے پھرانگریز کے ساتھ بلوچ حکمران مہراب خان نے ٹیپو سلطان کی طرح اپنی دھرتی کا دفاع کرتے ہوئے جان قربان کی ،مہراب خان جو بادل کی طرح گرج کر شبنم کی طرح برستا تھا اسن نے اپنی زندگی اپنی دھرتی کی آزادی کی خاطر قربان کیا ،جس طرح ہندوستان میںوطن پر جان نچاور کرنے کے لیے ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ مر کر بھی احترام، عزت ،قدر و منزلت ،توقیراور سربلندی کے معراج تک پہنچ چکے ہیں اور جعفر و صادق غداری ،راج دروہی ،وطن دشمنی ،شرمساری ،سے مر کر بھی اپنا دامن نہیں بچا پائے ہیںاور دنیا میں لعنت کی نشانی بنے ہوئے ہیں ،انکی نسل کو انکی کرتوتوں کی وجہ سے شرمندگی محسوس ہورہی ہے ہاں مگر صرف پاکستان جیسے ملک جو خود قابض انگریر کی طرف سے دی ہوئی پنجابی کو نعمت تھی اس میںسکندر مرزا جو میر جعفر کا پوتا تھا کو ملک کا پہلا صدر بنایا گیا ، باقی سب انکے نسل اپنے آباو اجداد کی عمل کی وجہ سے سر نہیں اٹھا سکتے ہیں ،اسی طرح خان مہراب خان بھی ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کی طرح سرخ روح ہوکر پوری قوم سرزمین کے لیے شرف کا باعث بنا عزیز بگٹی کتاب تاریخ بلوچستان میں کہتا ہے خان مہراب خان کے ذکر کے بغیر بلوچستان کی تاریخ رقم ہی نہیں ہو سکتی ،مہراب خان نے یہ جانتے ہوئے بھی انگریز فوج کا مقابلہ کیا کہ اس وقت انکی قوت انگریزمقابلے میں بہت کمزور تھی ،اسکے اپنے سارے سردار غدار بن کر وطن کو غلام بنانے پر تلے ہوئے تھے مہراب خان نے مصلحت اور خوف کے بغیر انگریز سے ٹکر لیکر شہادت حاصل کرکے بلوچ تاریخ کے صفحات پر ایک لازوال نقش چھوڑا بقول عزیز بگٹی اس نے ایک آزاد سرزمین پر بسنے والی عظیم قوم کے ایک آزاد حکمرا ن کی حیثیت کے تحفظ کی خاطر اپنی زندگی قربان کردینے کو ایک محکوم و مطلع امیر بن کر زندہ رہنے پر ترجیح دی جبکہ اس کے ساتھ اور پوری بلوچ قوم کے ساتھ غداری کرنے والا اسکا وزیر اخوندہ فتح محمد جو افغانستان کا باشندہ تھا بلوچو ں نے اس کو شرف دیا اس نے آخر میں غداری کی اسی طرح قندھار کے باشندے اخوندہ صالع محمد نے بھی بے ایمانی غداری اور نمک حرامی کی۔ اسی طرح محمد صدیق دغاباز مکار کے روپ میں ظاہر ہوئے ، ملامحمد حسن بھی باقیوں کی طرح دومار آستین نکلا ، ان لوگوں نے بھی جعفر ،صادق کو اپنی غداری اور نمک حرامی کی وجہ سے پیچھے چھوڑ دیا ۔آج بھی بالکل اسی طرح بہت سے بلوچ بھی قابض پنجابی کا ایجنٹ بنے ہوئے ہیں اور پنجاب کی دلالی میں اس حد تک گر چکے ہیں کہ اپنے بھائیوں کو بھی پیسوںکی خاطرشہید کروا رہے ہیں جس میں ثنا زہری ،شفیق،راشد پٹھان ،مقبول ،مالک حاصل سمیت بہت سے بلوچ شامل ہیں ،انگریز کے ساتھ سرداروں کی تمام غداریوں اور نمک حرامی کے باوجود خوددار اور آزادی پر مرمٹنے والے بلوچوں نے قربانیاں دیں اور اپنے ملک کو انگریزکی غلامی سے آزاد کیا اس میں مریوں نے کلارک اور انگریز فوج کو شکست دی اور انگریز کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئے ۔میر نصیر خان دوئم نے بھی انگریز اور میر شہنواز خان کے خلاف جہد کیا اس لیے کہ میر شہنوازخان کو انگریز نے بقول گل خان نصیر ،مہراب خان کی خون سے رنگین تخت پر بٹھایا تھا ، نصیرخان کا نام محمد حسن تھا اور مہراب خان کا بیٹا تھا جب انگریز نے قلات پر حملہ کیا تو مہراب خان نے اسکا نام تبدیل کرتے ہوئے نصیرخان رکھ دیا تاکہ وہ بلوچستان کو نصیرخان نوری کی طرح دوبارہ منظم کر ے اور نوری نصیر خان کی سرحدوں کی بحالی ممکن ہوں ، را ئے بہادر ہتو رام اپنی کتاب تاریخ بلوچستان میں کہتا ہے کہ میر نصیر خان کے وقت بلوچستان کے سرحد کیچ مکران ایران سے لیکر دجل و ہڑند ڈیرہ غازی خان اور کراچی تک تمام ملک ماتحت نصیر خان کے تھا اور نصیر خان شجاعت سخاوت و راستی اور ایمانداری ،انصاف کے معاملوں میں بڑا نامور خان تھا ،اس لیے مہراب خان نے اپنے بیٹے کا نام مشکل وقت میں تبدیل کر کے نصیر خان رکھ دیا آج کے جہد میں صرف حیر بیار مری نصیر خان نوری کی باونڈری کی بحالی کے لیے کوشاں ہے ،باقی سب پاکستانی انتظامی یونٹ کی سیاست کر رہے ہیں نصیر خان دوئم نے بعد میں انگریز سے تو اپنا ملک لے لیا لیکن نصیرخان نے ایک بلوچ فوج رکھنے کی کوشش کی تاکہ مستقبل میں بلوچ قومی سرحد کی حفاظت بلوچ قومی فوج کر ے اور مہراب خان کی طرح سرداروں کی ضرورت ا نہیں نہ پڑے لیکن انگریز نے سرداروں کے ذریعے اس عمل کی مخالفت کی اور اس کو سبوتاژ کیا اگر وہ فوج اس وقت ہوتا تو بلوچ نہ انگریز کے غلام ہوتے نہ ہی پاکستان کے ، اس عمل کو بلوچ تاریخ میں ایک عظیم مصلحت پسندی کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ جو بلوچ قوم کے ساتھ کیا گیا آج تک قوم اپنی فوج نہ ہونے اور سرداروں اور نوابوں کی مرہون منت فوج پر انحصار کرنے کی وجہ سے غلامی اور دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔کیونکہ بلوچ قومی فوج کی تشکیل جب نصیرخان دوئم نے کی تو انگریز نے اپنی ترکش کا تیر سرداروںکے ذریعے استعمال کیا ، خان نے مجبوری میں بلوچ قومی فوج کو ختم کرکے پھر سے قبائلی فوج پر انحصار کرنے لگے ۔ پھر انگریز کے خلاف جہد ہوا اور انگریز کے چلے جانے کے بعد گورے قابض کی جگہ کالے پنجابی قابض بن کر بلوچستان میں داخل ہوئے اور اسکے خلاف مزاحمت ہوئی جہد ہوا لیکن وہ منظم شکل اختیار نہ کرسکے اسکی وجوہات آج تک صحیح تحقیق کی صورت میں سامنے نہیں لائی جاسکی ہے ،کسی بھی جہد میں تسلسل کو قائم نہ کیا جا سکا بلکہ ہر مزاحمت کے بعد ساز باز کیاگیایا کہ کسی سازش کے تحت اس تسلسل کو سبوتاژکیا گیا لیکن حالیہ جو تحریک شروع ہوئی اس کا کریڈٹ حیر بیار مری کو جاتا ہے کہ اس نے اس جہد کو بقول اسکے (ہمگام کو دئیے گئے انٹرویو کے) کہ ماضی کی جہد کو مدنظر رکھ کر اس جہد کی داغ بیل جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر ڈالا ۔اس میں شروع میں چیزیں صحیح سمت میں صحیح طریقہ سے جا رہی تھیں مگر بعد میں اس میں بھی ماضی والے جراثیم ڈال دیے گئے ۔ تحریک کے آغاز میں بلوچ قوم کو یہ امید تھی کہ نصیر خان کی فوج کا سپنہ پورا ہونے والاہے کہ کوہلو ڈیرہ بگٹی خضدار ،خاران ،حب سے گوادر تک ایک بلوچ قومی فوج بن رہی تھی جو سرداروں نوابوں اور مڈل کلاس کے بجائے ایک منظم قومی فوج ہو نے جارہی تھی لیکن افسوس کہ اس جہد میں اس فوج کو بھی پھر بگٹی مینگل ،ڈومکی ،مکرانی ،فوج میں تبدیل کرنے کی کوشش ہوئی اور یہاں بھی سردار کے دستہ کی طرح یہ مڈل کلاس ا ور سرداروںکی فوج قوم کے بجائے انکے مفادات اور بین الالقوامی حوالے انکی دوکانداری کے لیے استعما ل ہونے لگا ۔ صرف بی ایل اے قومی فوج بننے کے مراحل میں ہے جو اب کاہان سے لیکر تمپ تک موجود ہے، اور قومی فوج کی طرح اس میں تمام علاقے قبائل کے لوگ فوجی ڈسپلن کے تحت جہد کر رہے ہیں لیکن ان میں بھی بہت سی کمزوریاں اور مشکلات ہیں جن کو قابو پا نے کے بعد ہی بی ایل اے قومی فوج کا سپنہ پورا کر سکتا ہے ،باقی انقلابی پارٹیوں میں جھتہ بندیوں اور سازشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہوا ،بی ایل ایف ،بی آر اے ،بی این ایم، بی ایس او ،بی آر پی والے غفلت کی گہری نیند سے بیدار ہوئے لیکن انکی بیداری قوم اور آزادی کی تحریک اور لوگوں کے بجائے تحریک کی بربادی کا باعث بن رہی ہے ۔ ہر ایک گروہ خود مطلب اور لیڈری کے شوق میں پھنس چکے ہیں یہ سب گروہوں میں بٹ کر چرب زبان درباریوں کی ذاتی مفاد پر شہدا ءکی قربانیاں چڑھانے لگے ہیں ،مکران میں تحریک کو ختم کرنے کے تابوت میں کیل ٹھونکنے کے لیے بی آر اے اور بی ایل ایف نے خود ہتھوڑے اٹھائے رکھے ہیں اسلئے قومی فوج قومی سوچ کی جگہ گروہیت نے لی ،آزادی کی تحریک کاروبار بن گیا ،بی ایل ایف اور بی آر اے نے اسے کاروباربنایا ہے قومی تحریک کے نام پر بلیک میلنگ ،چوری چکاری ،اغواء،بے گناہوں کا قتل ، روزکا معمول بن چکا ہے اس بار جہد کو نقصان اپنے لو گوں کے غلط اعمال ہی کی وجہ سے ہورہا ہے گھر کو آگ گھر کے چراغ سے لگی ،اب سوال اٹھتا ہے کہ اس گھر کے چراغ کا کیا کیا جائے چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ ماضی کی قبائلی اور علاقائی فوج کی طرح ہوجائے اور بلوچ قوم کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے غلام بنایا جائے ،باقی ماندہ تحریک کی طرح جہد کو انکے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے کہ وہ اپنی مرضی سے جو دل میں آئے کریں کہ ساری قوم اور جہد کار ان چند نام نہاد میڈل کلاسوں ، نوزائیدہ سرداروںکی وجہ سے ڈوبتے ہوئے انسان کی طرح طوفانی موجوں کا شکار ہو ں یا اس جہد میں مصلحت پسندی ،ذاتی پسند نا پسند ،تعلق داری ،خاطر لحاظ ،رشتہ داری کے بندھنوں سے نکل کر مکمل طور پر تحریک ،قوم، اور سرزمین کی آزادی کے مفادات کو مقدم سمجھتے ہوئے ماضی کی طرح آ نکھیںبند نہیں کر نا چاہیے اور ہر اس عمل کی مخالفت کرنی چاہیے جو قومی سوچ ،قومی پروگرام ،کے سامنے رکاوٹ ہے ۔اس کے لیے آسان طریقہ بحث مباحثہ ،تحریر ،مناظرہ ہے ۔لیکن بدقسمتی سے جو پارٹیاں تنظیمیں اور شخصیات بلوچ قومی مسلے کو حل کرنے اور اسے قومی آزادی تک لے جانے کے لیے نکلے تھے آج وہ سارے خود مسلے بنے ہوئے ہیں ۔تحریک کے آگے رکاوٹوں کو دور کرنے کے سلوگن کے تحت جہد میں جو لوگ آئے تھے آج وہ خود تحریک کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں مگربدقسمتی سے ان کو اس بات کا ا حساس تک نہیں ۔ اگر ہم افیون کے کاروبار کا زکر کریں تو افیون کا کاروبار بہت سی تحریکوںمیں ہوا ہے جیسے کہ تامل ،ائرش،کرد،اسام میں ulfa،کولمبیا کیfarc وغیرہ وغیرہ]نے کی مگر انہوںنے بی ایل ایف اور بی آر اے کی طرح منشیات چوری کرکے علاقائی منڈیوں میں نہیں بیچے اور نہ ان تنظیموں کی طرح منشیات کے پیسے ان کے ذاتی آسائشات اور دیگر سہولتوں کے لئے استعمال ہوئے ،بلکیںمنشیات سے حاصل کئے گئے پیسے ان کی قومی جہد کے لیے استعمال ہوئے ۔جب ان چیزوں پر، مسلے مسائل اور تحریک کے اندر کمزوریوں پر بحث مباحثہ ہوتا ہے تو اسے تعمیری بحث کے بجائے پوتاری بحث میں تبدیل کیا جاتا ہے اور پوتاری بحث اور دلیل منطق کے درمیان بحث میں زمین آسمان کا فرق ہے پوتاری بحث چاہے کوئی بھی کرئے تعمیر کے بجائے تباہی لاتا ہے جو نقصانات کا باعث بنتا ہے اور نہ یہ قومی جہد کے حق میں اچھا ہے اور نہ ہی کسی اور چیز میں اس نے مثبت نتائج دیا ہے ۔بلوچستان میں۸۸ کے بعد ا س پوتاری بحث کا نتائج قوم نے دیکھ لیا کہ کس طرح اس نے پوری جہد کا ستیا ناس کیا پھر وہی لوگ جو اس طرح کے بحث کرتے تھے ایک دوسرے کو مخبر نقصاندہ ،غداروںکے تین نشان رازق جالب ،کہور خان ،اور دوسری طرف یاسین وغیرہ کا کیا ہوامکران کے دیواروں میں اس پوتاری بحث کے چاکنگ آج تک بھی کسی نہ کسی جگہ موجود ہونگے ۔کیونکہ وہ صرف اور صرف الزام تراشی ،بہتام، تہمت ،ایک دوسرے کے اوپر کلنگ لگانے کے لیے تھے ۔جنھوں نے فائدہ کے بجائے نقصان دیا ۔آج بھی جہد کا تقاضہ ہے کہ اس کو صحیح کرنے کے لیے دانشور ادیب اور بلوچ قوم کے پڑھے لکھے لوگ آگے آئیں اور اس پر تعمیری بحث کریں ۔ ایک طرف کچھ دوست اپنے علم اور دلائل اور تحقیق کی بنیاد پر لکھ رہے ہیں لیکن زیادہ تر وہی پوتاری بحث ہوری ہے ،ہر ایک اپنی طعنہ آمیزکمنٹس اور پوسٹ سے دوسرے کی صرف توہین کر رہا ہے ،اصلاحی ،تعمیری بحث اپنا اثر رکھتا ہے جب ایک تحقیقی آرٹیکل نظام تبدیل کرتا ہے ۔تعمیری بحث تاریک میں ڈوبے یورپ کا نقشہ تبدیل کر سکتا ہے اور دنیا کی بہت سے تحر یکوں میں تعمیری بحث نے اپنا اثر ڈالا ہے، اور بحث کبھی بھی کسی کی ذاتی کردارکشی کے لیے نہیں ہوتا ہے ۔ ہم اپنے بحث میں تحقیق ،ثبوت ،دلائل ،منطق کی بجائے صرف اپناغصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے الزام درالزام کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں یہ بحث کم entertainment زیادہ ہے ۸۸ میں یہ دیواروں اخباروں اور ہر تنظیم کے آرگن میں ہوتا تھا اب سوشل میڈیا اور اخبارات میںہو رہا ہے صرف فرق یہی ہے کہ ماضی میں یاسین مالک ،ایوب جتک ،کہور خان رازق کو ایجنٹ کہتے تھے جبکہ دوسری طرف و ہ انھیں دوسرے لیبل لگاتے تھے آج دونوں قابض کے نقیب بن چکے ہیں آج ا نکے عمل کو بی ایل ایف بی این ایم دوہرا رہے ہیں کھبی کہتے ہیں حیر بیار خطرہ ہے ڈیل کیا ہوا ہے کوئی اور جہدکار نے اپنے ساتھیو ں کو مروایا ہے کسی نے قبضہ گیر کے ہاتھ بیعت کیا ہو ا ہے وہی الزام کا تسلسل ہے اور آج تک ایک بھی اپنا الزام کسی کے خلاف ثابت نہیں کر سکے ہیں ، د وسری طرف بھی کچھ دوست قیاسی استدلال کی بنیاد پر ا لزام درالزام بغیر ثبوت کے لگا رہے ہیں ،کیا یہ باتیںہو ا میں تبدیل ہونگے ،ختم ہونگے یا کہ زندگی بھر آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کے لیے ہونگے ،تو پھر وہ نسل ان کا بہتر جج ہوگا کہ کس کو کتنا نمبر دیا جائے ۔جس طر ح کے آجکل کے نسل مالک یاسین کہور خان ،جالب رازق اور ایوب جتک کے اعمال کو دیکھتے ہوئے انھیں انکے اعمال کے مطابق کے نمبر ز دے چکے ہیں ۔ آج بلوچ تحریک مسائل کا شکار ہے اور اس مسلے پر بحث بھی ضروری ہے لیکن بحث کونسی ہو ایک پوتاری بحث ہے جو ۸۸ اور اس سے پہلے بھی ہوا ہے اور آج اکسویں صدی میں کیا ہم وہی بحث کریں،دنیا ترقی کر کے آگے سفر کر رہی ہے اور ہم پھر پیھچے کی طرف مڑ کر وہی ناکامیاب تجربہ اکسویں صدی میں کریں یا کہ صحیح بحث مباحثہ ،مناطرہ کر کے جہد کو نقصان سے بچا ئیں ۔ جس طرح دلائل ،ترغیب ، استدلال ،منطق،اصول عقلی ،دل سوزی ،رقت انگیزی ،قومی مزاج ،قومی اخلاق ،چوب قلم ،ثبوت گواہ ،پروپگینڈا ،تعلیم و تربیت ،چھان بین ،تفتیش ، ،اور مبالغہ آمیز بحث کے حصہ ہوتے اور ترغیب ،ثبوت علمی ،ا ستدلال ،چھان بین ،تفتیش ،منطق ،قومی و سیاسی اخلاق سے ہم اس بحث کو بہتر کر سکتے ہیں ،اگر اس بحث کوان چیزوں کو مدنظر رکھ کر آگے لے جایا گیا تو یہ قومی تحریک میں صحیح اور غلط ،اصلی اور نقلی ، تاریکی اور روشنی ،جھوٹ اور سچ،آزادی کی جہد کے پیھچے چھپے رزیل الطبع ،خودمطلبی لوگوں کو ظاہر کرے گا اور آزادی کی خاطر حقیقی جہد کرنے و الوںکی ننگ داری اور شجاعت کو بھی قوم کے سامنے واضع کرے گا ۔حیر بیار مری اپنی مردم شناس آنکھوں سے بلوچ قومی جہد کی تباہی کا نظارہ کرچکا ہے ا س لیے اس نے تعمیری اور اصلاحی بحث مباحثہ کی کھل کر حمایت کی ہے ۔جس طرح پوتاری بحث نے ماضی کی جہد کو فائدہ نہیں دیا ہے اور اسے ڈبویا ہے اس لیے آج کے جدید دور میں کامیاب تحریکوں اور دنیا کی تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے constructive بحث کرتے ہوے وہ عمل جو نقصان دہ ہیں انکی نشاندہی کرتے ہوے انکی بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا ۔خوف دھمکی الزام ،بھتام ،شگان ،گالی گلوچ کی پرواکئے بغیر علمی ،عقلی ،شعوری ،منطقی ،تحقیقی ،بحث کرتے ہوئے جہد کو نقصان سے بچانا ہوگا ،الزام ،بہتام ،گالی،دھمکی،خوف،لالچ ،نام کی بدنامی،متنازعہ ہونے کی ڈر کی پرواکئے بغیر تنقید کی اصل روح کے تحت تکرار ،مناظرہ ،مناقشہ ،بحث مباحثہ سے قومی تحریک کو اسکی اصل ٹریک پر لانا ہوگا بقول ایک دانشور کہ مردار ہے وہ معاشرہ جہاں مظلوم یہ نہ بتا سکے کہ ظالم کون ہے ۔اور ظلم چاہے اپنے کریںیا کوئی اور، ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے اگر مکران میں ،بی ایل ،ایف ،بی آر اے قابض کی طرح ناانصافی اور ظلم کرتے ہیں بے گناہوں کو مارتے ہیں تو عام لوگ خوف کی پروا کئے بغیر اسکے خلاف خود اٹھ کٹھرے ہوں ،اگر چوری چکاری ،ظلم جبر پر وہ خاموش ہوئے تو آسمان سے کوئی فرشتہ انکو اس ظلم سے نجات نہیں دے گا بلکہ انھیں اس ظلم کے خلاف خود اٹھنا ہوگا مردار معاشرے کے بجائے زندہ معاشرے کی عملی نمونہ دیکھانا ہوگا ۔دوسری طرف تعمیری بحث سے بھی سب کچھ اشکار کیا جا سکتا ہے اگر بحث تعمیری اور اصلاحی انداز میں ہو تو جو تحریک کو سبوتاژکرنے والے ہیں وہ ظاہر ہونگے اور ساتھ ہی ساتھ اس تعمیری اور اصلاحی بحث کے ذائقہ دار ،شیریں ثمر اور میوہ کا اثر مستقبل میں بھی باقی ماندہ خوشحال قوموں کی طرح بلوچستان مین بھی دیکھائی دیگا اور ہمیں ماضی کی بدبودار پوتاری بحث سے بھی کنارہ کش ہونا ہوگا اور جن لوگوں نے مکران میں قومی جہد میں اپنا منہ کالا کیا ہے اور جو قابض کے پیرول پر چل رہے ہیں وہ ضرور ماضی کی بدبودار پوتاری بحث کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے قومی تحریک میں مایوسی پھیلانے کی کوشش کریں گے اور قوم کی امید ،آس کو توڑنے کی کوشش کریں گے لیکن جو بحث اور الزام تراشی کے فرق کو سمجھتے ہیں وہ تعمیری اور اصلاحی بحث کی طرف راغب ہوکر قومی جہد میں ایک نئی تاریخ رقم کریںگے ۔آج پاکستان بھی کسی حد تک انگریز کی طرز پالیسیوں پر گامزن ہے ۔پاکستان کا بلوچ جہد کو کاونٹر کرنے کا طریقہ بہت ہی محتاط قسم کا ہے ،وہ ایک طرح کچھ پارلیمانی بلوچوں اور اپنے ایجنٹوں کو آزادی پسندوں کا حلیف بناکر دوسرے حریف کی قوت اور اثر کا خاتمہ کردیتے ہیں اور عوامی حمایت کا جنازہ نکال دیتے ہیں ا ٓخر میں حریف اور حلیف دونوں انکے غضب کا شکار ہونگے ہاں جو ذاتی خوہشات ،لیڈری ،نمود نمائش ،بھڑک بازی ،جالب کی طرح دیکھاوے کے جہدکار ہیں آخر میں وہ اس قومی تحریک کی کشتی کو بھنور میں ڈبو کر خود کو نکالیں گے ،باقی تحریکوں کی طرح نقصان پوری قوم سرزمین اور جہد کا ہوگا ،لوگوں نے اتنی بڑی قربانیاں دی ہیں انکا تقاضہ ہے کہ ماضی کی تمام غلطیوںاور قابض کی چالبازیوں کو سمجھتے ہوئے بقول ایک دوست کے اپنے مسلوں کے حل اپنے سماج سے ڈھونڈتے ہوئے علمی ،عقلی تحقیقی بحث مباحثہ کرتے ہوئے تعمیر کرلینے کی کوشش کرلینا چائیے کیونکہ تخریب ،بربادی آسان ہے اور یہ کام کوئی پاگل بھی کر سکتا ہے لیکن تعمیر مشکل ہے اورصبر آزما ہے برداشت کا تقاضہ کرتا ہے ۔ اس لیے ہر کمزور دل انسان تعمیر کے بجائے تخریب کو اہمیت دیتا ہے ۔بلوچ جہد میں مسلہ ہے اور اس سے کوئی بھی زی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا ہے ۔بی ایل ایف ،بی ار اے ،یو بی اے ،آج اس مشکل وقت میں قوم کا نجات دہندہ بنے کے بجائے قوم کو قابض کی طرح اپنے ظلم کا شکار بنا چکے ہیں ،اب ان شکاریوں کے منہ کو بلوچ قوم کی مال ،عزت ،جان ،اور خون کا ذائقہ لگ چکا ہے اور آئے روز لوگوں کو اپنی ظلم کا شکار کئے جارہے ہیں ،حیر بیار مری جس نے اس جہد کے لیے اپنی پوری جوانی وزارت ،سرداری ،نوابی،تیاگ دیا ۔ بقول ایک دوست کے حیر بیار نے جہد آزادی کے لیے مکران میں جہد کی بنیاد ڈلوایا اور اپنا سارا پیسہ ،وسائل مکران میں جہدکو منظم کرنے کے لیے لگا یا ،اس نے باقی جہد کاروں کے ساتھ ساتھ مکران کے جہدکاروں کو بھی وسائل فراہم کیا اپنے لوگ بھیجے تاکہ قومی جہد کامیاب ہو جا ئے لیکن دوسری طرف بی ایل ایف کے لوگ اپنے دل ودماغ میں ایک الگ خاکہ بنارہے تھے ،قومی سوچ ،فکر اور فوج کو جھتہ بنانے کا پلان بنا چکے تھے ، کیونکہ انھیں لیڈری کا نشہ لگ چکا تھا لیڈری کا نشہ ،نام ،نمود نمائش کا نشہ دنیا میں تمام نشہ ہیروئن افیون سے زیادہ خطرناک ہے،بی ایل ایف کی لیڈر شپ کا مقصد آزادی کی جہد کو بیساکھی بناکر باقیوں کی طرح رتبہ حاصل کرنا تھا ،جس طرح جالب،رازق،ایوب جتک،،مالک،یاسین،وغیرہ نے کیا ،اور اب وہ حیربیار کے خلاف تواتر کے ساتھ بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیںکیونکہ حیر بیار نے انکے ساتھ اصولی اختلاف رکھا کہ تحریک کو ذمہ د اری سے چلاو¾
کیا وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ بیانات الفاط جملہ تحریر جو میڈیا میں شائع ہوتے ہیں وہ تاریخ بنا رہے ہوتے ہیں ایک دانشور نے کہا کہ اصل تاریخ روز کے بیانات آرٹیکل کی شکل میں ہوتے ہیں ،یہ بیانات الفاظ جملے تحریریں حضرت انسان کی طرح نہیں مرتے ہیں اور جانوروں کی طرح انھیں ذبح بھی نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ چین کے پہلے حکمران Qin shihuangجو چین کا پہلا حکمران اور دیوار چین کو تعمیر کرنے والے تھے جنھوںنے ہلاکو خان کی طرح تمام کتاب جلائے تھے ،آج کے جدید دور میں ان حکمران کی طرح فیس بک ،ٹیوٹر،اخبارات ،کتابوں میں موجود جزبات کی بہاو میں آئے ہوئے بیانات ،پوسٹ ،کمنٹس کو جلایا نہیں جا سکتا ہے ۔آج جو بھی لکھا جاتا ہے یہ تاریخ کے صفحہ میں درج ہورہے ہیں ،جب آنے والی نسل آئینگی وہ تاریخ کے ان صفوں کو دیکھے گی تو وہ پوتاری کمنٹس اور بی ایل ایف کی سلطان راہی کی طرح بھڑک بازی اور جھوٹ اور الزام پر مبنی بیان پڑے گا تو وہ ضرور ان لیڈری کے شوقین ،بھڑک باز،شہرت کے بھوکے ،گروئیت کے شکار لیڈروںکو لعن طعن اورزجر وتوبیخ کریگی ساتھ ہی ساتھ ۱۲ ویں صدی کے تمام مخلص ،ایماندار،کمٹٹ کارکنوں پر بھی سوال ا ٹھائے گا ۔کیونکہ آج ہمارے پاس کمپوٹر ہے ،کتابیں ہیں ،دنیا کا تجربہ ہے اور اپنے قوم کے بھی تجربات ہیں انکی روشنی میں ہم قابض کے ایجنٹوں اور کسی کی ذاتی ،گروہی مفادات کا شکاراگر ۹۳۸۱ اور ۳۷،اور ۸۸ کی طرح ہوں تو قصور وار شکاری نہیں بلکہ شکار ہوگا جو اپنا بچاو نہ کر سکاٍٍٍٍٍٍٍ۔ الزام در الزام کی سیاست ۸۸ میںہوا۔البرٹ آئنسٹائن نے کہا کہ ایک چیز بار بار کرنا اور مختلف نتائج کی آرزو کرنا پاگل پن ہے ،اسی لیے اب ۸۸ کی تاریخ کو دہرا کر پوتاری بحث کے بجائے تمام مسلے مسائل کی وجہ دریافت کرنی ہوگی کہ بار بار کیونکر قوم کا نام لیکرشہرت رتبہ ،طاقت حاصل کرتے ہوئے وہی رتبہ طاقت پھر قوم کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے ،جہد کو انکی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہر ایک الگ سے نام کمانے کے چکر میں ہوتا ہے ،ان تمام خرابیوں کی تہہ تک پہنچے بغیر مسلے مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہونگے ایک مسلہ ختم ہو تو دوسرا مسلہ سر اٹھائے گا ۔ان تمام کی تہہ تک پہنچنے کے لیے علمی ،تحقیقی ،دلیل کی بنیاد پر تعمیری بحث کی ضرورت ہے ۔اور انکا حل بھی قیاسی استدلال کے بجائے منطق دلیل ،تحقیق ،تفتیش ،چھان بین اور علمی استدلال کی بنیاد پر تعمیری بحث سے ہے اور بلوچ قومی جہد اور، شہدا کی مشن کی کامیابی کے لیے کام بھی کرنا ہے جس طرح مہراب خان نے آخری وقت میں دروغہ گل محمد کو جو اپنا آخری پیغام دیا وہ آج بھی ہمارے لیے رہنما اصول بھی ہے اس نے کہا کہ میں اپنا آخری خون کا قطرہ قلات پر نچھاور کرونگا اس دن کے بعد ننگ تمہارے ہاتھوں میں ہوگا ،چاہے مردانہ وار میرا خون چکا کر وطن کی لاج رکھ لو یا عورتوں کی طرح چادر اوڑھ کر بیٹھے رہو اس وقت میں نہیںہونگا تم جو چاہو کرو ،آج ہمارے لیے بھی یہی راستہ ہے کہ جہد کی کامیابی کے لیے کام کریں وہ کام کریں اور اسکے لیے اپنے ذاتی دا ئر ے سے نکل کر پوری جہد کے لیے سوچنا اور عمل کرنا ہوگا تب جاکر شہدا کی مشن کی تکمیل ممکن ہو سکے گی ۔یا کہ قابض کی چوکیداری کرتے ہوئے ننگ کا سود اگر بن جا ہیں اگر وطن کی لاج رکھنی ہے اور جہد کی کامیابی کے لیے کام کرنا ہے تونمود نمائش ،شہرت،لیڈری،جہد کے نام دوکانداری ،تجارت،سودابازی ،بے ایمانی،منافقت،فریب سے اجتناب کرتے ہوئے سنجیدگی اور ذمہ د اری سے جہد کرنی ہوگی اور تحریک کے اندر جو مسلے مسائل ہیں انھین تعمیری اور اصلاحی تنقید سے زیر بحث لاتے ہوئے انکا حل ڈھونڈنے کی کوشش ہونا چاہیے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز