یکشنبه, سپتمبر 29, 2024
Homeآرٹیکلزتنقید کیوں؟ تحریر:طیب بلوچ

تنقید کیوں؟ تحریر:طیب بلوچ

سیاسی مسائل اور رویوں کو(چاہے وہ نظریاتی ہوں یا عملی) لیکر بحث کرنا ایک صحت مند قومی رجحان ہوتا ہے،سیاسی وسیع النظری،تنوع اور فکری ارتقاء کیلئے اس کی افادیت سے کو ذ ی شعور انکار نہیں کر سکتا اگر بحث و تنقید کو نکال دیا جائے توسیاسی مزاج اورا عمال تنوع،ارتقا ء اور انقلاب کے بجائے یک رخی اور قالبی شکل اختیار کر کے بلآخر جامدیت کا شکارہوتے ہیں۔مگر مثبت تبدیلی کیلئے بحث و تنقید کا ایک معیار لازمی ہے اور معیار کیلئے دونوں فریقوں کا سیاسی،کرداری ا ور علمی لہٰذ سے ہم پلہ ہونا ضروری ہے،مگر بد قسمتی سے ہماری بحث و تنقید سیاسی و علمی حساب سے اس معیار کی نہیں کہ جس سے ایک وسیع مثبت سیاسی تبدیلی ممکن ہو،اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں پہلی مسائل کی نوعیت مکمل طور پر نظریاتی یا سیاسی نہیں کہ اصول ،طریقہ کاراور نقطہ نظر کو لے کر بحث و تنقید کو آگے بڑھایا جاسکے بلکہ اصولی طور پر تمام بنیادی اصولوں پہ متفق ہونے کے باجود غیراعلانیہ کچھ ایسے منفی اور نقصادہ عمل مسلسل کیئے جا رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے قومی تحریک کی جڑیں کٹ رہی ہیں۔ان اعمال کی بطور پالیسی بیان مکمل مخالفت کی جاتی ہے مگر زمینی حوالے سے یہ منفی اعمال ان افراد اور گروہوں سے مسلسل سرزد ہو رہے ہیں جو کہ ان اداروں اور لیڈر شپ سے منسلک ہیں کہ جن پہ تنقید ہو رہی ہے۔اب اگر ایک قومی فوج سے منسلک سرمچار ڈکھیتی میں پکڑا جائے اور اس کی اعلیٰ قیادت مکمل علم کے باوجود اس عمل پہ خاموش رہے تو اول تنقید کس پہ ہو اس سر مچارپہ ،اس ادارہ پہ یا کہ لیڈر شپ پہ او ر دوسرے اس تنقید کاعلمی و سیاسی معیار کیا ہوگا ظاہر کہ یہ تنقید اس لیول کی نہیں ہوگی کہ جسے سیاسی اور علمی قرار دیا جائے اور اسی پیمانوں میں رکھا جائے۔دوسرے فریقوں کے سیاسی و کرداری معیار میں بھی واضح فرق ہے بعض دفعہ ان منفی اعمال سے ہٹ کر سیاسی رویہ اور اپروچ کو لے کر اگر ایک فریق تنقید کرتا ہے مثلاً قومی سیاسی پارٹی کو مسلح آرگنائزیشن کے ماتحت کرنا ایک رد انقلابی عمل ہے تو فوراً ایک بے سر و پا اور غلیظ الزام لگتا ہے کہ فلانہ غیر اخلاقی حرکت میں ملوث ہے اب کردار اور سیاسی سوچ و رویہ میں اس قدر خلیج موجود ہو تو ثمر آور سیاسی و علمی بحث و تنقید کی گنجائش کہاں رہتی ہے۔بیچ کا ایک طبقہ اپنی دور اندیشی کے زعم میں اس تنقیدی عمل کی مخالف ہے ان کے نقطہ نظر میں اس تنقید کو مکمل طور پربند کیا جائے، بجائے اس مطالبے کے ہمیں سب سے پہلے دیکھنا چاہئے کہ تنقید کن چیزوں پہ ہورہاہے کیا تنقید محض بغض و کینہ کی بنیاد پہ کیا جا رہا ہے یا ان اعمال پہ جو زمینی حوالے سے اپنا وجود رکھتے ہیں اور جن کی وجہ سے قومی تحریک پر منفی اثر پڑ رہاہے ایک خلائی الزام اور ایک ٹھوس زمینی منفی اعمال میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اگر ہم میں قوم دوستی اور سیاسی انصاف پسندی ہے تو کیوں پہلے اس منفی عمل کی روک تھام نہیں کرتے ہیں اس منفی عمل پہ خاموشی اور اس کے رد عمل میں تنقید کے جواب میں اتحاد اور قومی یکجہتی کی نصیحت کیا ہماری سیاسی کوتاہ اندیشی اور منافقت کی دلیل نہیں؟پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ان منفی اعمال سے کون متاثر ہو رہا ہے کیا اس کے متاثریں دشمن فوج یا دشمن قوم ہے یا کہ بد قسمتی سے متاثریں ہمارے اپنے لاچار بلوچ ہیں۔ اپنی قوم کے خلاف کیئے گئے منفی اعمال پہ ہم تنقید کرتے ہیں تو مجرم اور جو یہ عمل کر رہے ہیں وہ قوم دوست۔بنیادی طور پر دیکھا جائے تو ان منفی اعمال پہ تنقید کے جواب جب یہ نصیحت کیا جاتا ہے کہ خاموش رہو اس سے دشمن کو فائدہ ہو گا تو اپنی نفسیات میں ہم نے دو چیزیں فرض کی ہیں پہلی کہ قوم سے مراد صرف وہ افراد اور گروہ جو ان کاغذی اداروں اور لیڈر شپ سے منسلک ہیں اور اس کے باہر سب دشمن لہٰذا ان کی پریشانی اور نفع نقصاں جائے بھاڑ میں اور دوسرے قومی تحریک کے نام پہ اور ان کی صفوں کے درمیان رہ کر ہم جو بھی کریں اس کا نفع نقصان کے حوالے سے قومی تحریک سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا ان تمام منفی اعمال اور رد انقلابی کرتوتوں کو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چلنے دو بس دشمن پر نظر رکھو یعنی صرف دشمن سے نقصان ہو سکتا ہے دیمک پہ تنقید قوم دشمنی بس کلہاڑی اور لکڑ ہارے پہ نظر رکھو ایسے سیاسی فلسفے پہ چل کر ہم قومی آزادی کے طلب گار ہیں۔ میرے لئے یہ قطعاً خوشی کا مقام نہیں کہ ایک قومی فوج (سابقہ) اور اس کا لیڈر( اپنی ما تحت گرہوں بی این ایم،بی ایس اوکے ساتھ) اپنی فنا کی منطقی انجام کی جانب تیزی سے گامزن ہے کیونکہ ان پودوں کو تناور درخت اور فرد کولیڈر بنانے میں ہم نے بھی سالوں پہ محیط جہدو جہد کی ہے۔بات یہ نہیں کہ آپ کا تعلق بلوچ قوم سے ہے یا نہیں ،بات یہ بھی اہم نہیں کہ آپ کاتعلق قومی جہد سے ہے یا کہ نہیں بلکہ سب سے اہم بات ہے کردار کی،قومی تحریک انسانی جسم کی مانند ہے انسانی جسم کو بیماریوں کی شکل میں بہت بیرونی خطرات کا سامنا ہوتا ہے جو بیکٹیریا،وائرس اور پیراسائیٹ کی شکل میں اس پہ حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان بیرونی حملہ آورکے خلاف انسانی قوت مدافعت سخت مزاحمت کرتا ہے اور زیادہ تر موقعوں پہ اسے کامیابی نصیب ہوتی ہے مگر جب ا نسا نی جسم کے بنیادی خلیے یعنی سیل کہ جن کے اجتماع سے جسم کا وجود ہے جب اپناکردارتبدیل کرتے ہیں تو آہستہ آہستہ جسم کی تباہی کا عمل شروع ہوتا ہے کہ جسے عام زبان میں کینسر کہتے ہیں حالانکہ جسم کا وجود انہی سیل کی بدولت ہے اور یہ جسم سے الگ کوئی چیز نہیں مگر صرف کردار کی ہلکی سی تبدیلی تعمیر سے تخریب کاسبب بنتی ہے اور تخریبی عمل جسم کی مکمل فناتک جاری رہتی ہے۔ یہی حال ڈاکٹر اللہ نظر اور اس کے ماتحت گروہوں کا ہے جو کہ گر چہ بلوچ قومی دھارے میں شامل ہیں اور اس سے بڑھ کر اس آجوئی کے کارواں میں ہمراہ سفر بھی ہیں اور قومی جسم کی تعمیر میں بھی ان کے کردار سے کسی کو اعتراض نہیں مگر ابتدائی کامیابیوں کے بعد پچھلے چار پانچ سالوں سے آہستہ آہستہ ان کے کردار بدلنے شروع ہوئے ہیں جس کی وجہ سے قومی تحریک کے جسم پہ کینسر کے آثار نمودار ہونا شروع ہوئے ہیں۔ میں انہیں کینسر اس لئے کہوں گا کیونکہ یہ ابھی تک قومی تحریک کی جسم کا حصہ ہیں۔اب کینسر زدہ خلیوں کا حل یہ ہے کہ انہیں جسم سے الگ کیا جائے تاکہ باقی صحت مند اور تعمیری خلیے اپنی تعمیر جاری رکھ سکیں اور یہی کچھ چند دن پہلے بی ایل اے نے ایک پمفلٹ کی شکل میں کیا تھا،اس میں قوم کو بتایا گیا تھا کی کہ یہ کینسر زدہ خلیے اب قومی تحریک میں اپنے کردار کے خود زمہ دار ہیں اور تعمیری خلیوں کو ان سے الگ سمجھا جائے،یہ تنقید کسی کو ہیرو اور کسی کو زیرو بنانے کیلئے نہیں ہورہا بلکہ بطور مجبور ی ایک آخری ہتھیا کے طور پر ہو رہاہے کیونکہ خوش قسمتی سے ہمارا تصور قوم پرستی آپ کی طرح اپنے گروہ تک محدود نہیں اگر کوئی ہم سے سیاسی طور پر متفق نہ بھی ہو پھر بھی بطور قوم کے ایک فرد کے اس کا دکھ درد ہمارا ہے،مکران و آواران کا ایک بھی باشعور کرکن کہ جو خود گراؤنڈ پہ موجود ہو کیایہ کہہ سکتا ہے کہ ہماری تنقید کا زمینی حوالے وجود نہیں؟ اگر ایسے سنگین غلطیاں یا کہ قومی جرائم مسلسل ہورہے ہیں کہ جس وجہ سے قومی تحریک کا رخ موڑ رہا ہے تو اس کا زذمہ دار کون ہے،اول تو ان منفی اعمال سے دلیل کی بنیاد پہ انکار کرو اگر انکار ممکن نہیں تو پھرکوئی تو ذمہ دار ہے اس کے تعین سے فرار کیوں، اگر بقول آپ کے یہ تنقید سنگت حیربیار کے دوست ملٹی نیشل کمپنیوں کے ایماء پہ کر رہے ہیں تو یہ منفی اعمال آپ کس کے ایماء پہ کر ر ہے ہو ؟؟ایسا عمل ہی کیوں ہو رہا ہے کہ جس پہ تنقید کا جواز پیدا ہو۔ منفی عمل پہ در گزر اور اس پہ محض زبانی و تحریری تنقید قابل گردن زنی،سرمچاروں کو ڈیتھ اسکواڈ کی طرح یہ کھلی چھوٹ دینا کہ جو چاہے
کرو بس ہمارے لئے بھی کام کرو پتہ نہیں قومی تحریک کو کس منزل پہ پہنچائے گا،خلیل کہنے کو تو بی این ایم کا سربراہ ہے مگر عملی طور پہ بی ایل ایف کے ایک دھڑے کا سربراہ ہے جو کہ بالگتر روٹ میں منشیات کی لوٹ اوراسمگلنگ میں براہ راست ملوث ہے کیا کوئی دانشور اور انقلابی سورما اس کی تردید کر سکتا ہے یا کہ کہہ سکتا ہے کہ یہ محض ایک ہوائی الزام ہے،اپنے رشتہ داروں کو جو کہ ایک پرانی خاندانی دشمنی میں ملوث ہیں کہ جس میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں بی ایل ایف کی بندوق تھما دینا کس انقلابی اور سیاسی قوانین کے تحت ہے کیا یہ بندوق قومی کاز کیلئے استعمال ہو گا اب دوسرا فریق کہاں جائے کس سے مدد لے بجائے اس مسئلے کو حل کرنے کے ایک فریق کو مسلح کرنا کیا یہ بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چال ہے،آپ کا عمل قابل گرفت نہیں مگر ہماری تنقید قابل گردن زنی، پنجگور کے علاقے خدابادان میں کسی بھی غیر جانب شخص سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے، ہم نے کسی پہ ناجائز الزام نہیں لگایا کہ اس کا ذاتی کردار کیسا ہے ورنہ غیر اخلاقی تہمت ہم بھی باندہ سکتے تھے اگر ہماری نیت سیاسی اصلاح کے بجائے کسی کوہیرو اور کسی کو زیرو بنانے کی ہو تی، چند شاعروں اور ادیبوں کو جنہیں کل تک یہ لوگ گھاس تک نہیں ڈالتے تھے (بلکہ بعض ان سے اپنی جان کے خوف سے بھاگ کر خلیج پہنچ گئے) راتوں رات ہیرو بنا کے ان کو خلیج میں جمع کرنا اور ان پہ عنایتوں کی بارش کر نا کہ اس تنقیدی عمل سے بچا سکیں گے مگر ان غریب سیاسی ورکروں پہ ایک پھوٹی کوڑی بھی خرچ نہیں کی جا رہی ہے کہ جن کی زندگیوں کو واقعی خطرہ لاحق ہے ان لوگوں کا سوائے آپ کی ذاتی دوستی و وفاداری کے سیاسی کردار کیا ہے ان پہ ساری عنایات اور بی ایس او اور بی این ایم کے کار کن دربدر اب سیاسی معیار قومی نہیں بلکہ صرف آپ کی ذات سے وفاداری تک محدود ہے،مکران اور آواران میں تباہی و بربادی ،عوامی مایوسی ،خوف و حراس ، ایسے سنگین جرائم کہ جنہیں ضبط تحریر لانا ممکن نہیں اور تحریک سے عوام کی کنارہ کشی جیسے حقیقی مسئلوں سے آنکھ بند کر بس اتحاد کے رٹا لگانے سے کیا ہم منزل پر پہنچ سکتے ہیں،کہنے کو ہم لوگ قوم پرست ہیں ہمیں صرف قوم کا درد ہے ہمیں اپنی قومی زبانوں اور کلچر سے پیار ہے اور ہم اس قوم کی ترقی اور خوشحالی کیلئے لڑ رہے ہیں مگر مجھے سیاسی کارکنوں،سرمچاروں،لیڈروں ،ادیبوں شاعروں اور خلیج میں بیٹھے چند بلوچوں کی بے حسی دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے میں سوچتا ہوں کہ اپنے لوگوں کیلئے اتنے بے حس لوگ کیسے قومی جہد کار ہو سکتے ہیں،قابض کے فوجی ایک معمولی شک پہ ایک نوجوان کو اذیتیں دے کر شہید کر دیتے ہیں انہیں نہ نوجوان سے کوئی ہمدردی ہوتی ہے نہ اس کی بوڑھی ماں باپ اور بہن بھائیوں کے درد کا احساس اور بالکل یہی رویہ ہمارے سرمچاروں کا بھی ہے،قابض کی طرح ہمیں بھی اس بوڑھی ماں باپ کے درد سے کوئی تعلق نہیں،آج مکران اور آواران میں ایک گھر میں اگر قابض کی وجہ سے ماتم ہے تو دوسرے گھر میں ہمارے سرمچاروں کی وجہ سے۔جسے اپنے مظلوم اور بے بس لوگوں کا درد محسوس نہ ہومیں ایسے سرمچاروں،سیاسی ورکروں،لیڈروں،اور ادیبوں و شاعروں پہ لعنت بیجتا ہوں، ا گر کوئی چاہتا ہے کہ یہ تنقیدی عمل بند ہو تو آئے ہمارے ساتھ مکالمہ کرے،ہمیں حقائق اور دلیل کی بنیاد پہ سمجھائے کہ ہماری باتیں ناجائز اور غلط ہیں ہم بے جا اور جھوٹا الزام لگا رہے ہیں اور سب اچھا ہے جیسے پی ٹی وی خبر نامہ ورنہ اگر یہ مسائل تو ہیں صرف تنقید کو بند کریں تو یہ انصاف نہیں ہے بلکہ منافقت ہے یہ تنقید چند لوگوں کو مراعات دینے سے بند نہیں ہو گا نہ ہی وہ گالی گلوچ سے اس کو بند کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ایک ردعمل ہے اگر تنقید بند کرنا ہے تو پہلے ان منفی اعمال کو بند کرو ذمہ داروں کا تعین کرو ان کو سزا دو پھر تنقید خود بخود اپنا اخلاقی اور سیاسی جواز کھو کر بند ہو گا اس کیلئے کسی کی منتون اور مراعات دینے کی ضرورت نہیں نہ ہی کسی بد اخلاق کے پیچھے چھپنے کی ورنہ جب تک آگ ہے دھوان تو اٹھے گا۔

 

یہ بھی پڑھیں

فیچرز