جابر قوتوں کے پاس محکوموں کی آواز کو دبانے کے کئی حربے ہوتے ہیں جنہیں انہوں نے اپنے ترکش میں چھپا رکھا ہوا ہوتا ہے اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق اس ترکش سے حربہ نکال کر استعمال کرتے ہیں۔

اپنے ان مقاصد کے حصول کےلیے کاسہ لیسوں کی خدمات مستعار لی جاتی ہے وقت کی منڈی میں بکنے والے قلمکار اور مفتی اپنے ضمیرکو فروخت کرکے خدمت میں نظر آتے ہیں۔

جابر قوتیں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے “تین” کار گر طریقے استعمال کرتے ہیں۔

پہلا طریقہ واردات جو محکوموں پر استعمال کیا جاتا ہے وہ ظلم اور بربریت کے ذریعے محکوموں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اس طریقہ واردات میں لوگوں کو لاپتہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا تاکہ ایسا ڈر اور خوف لوگوں کے دلوں میں بٹھا دیا جائے کہ ظلم اور ناانصافی پر آنکھیں بند کریں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بھی نہیں اٹھا سکیں۔

ان ظالموں کے پیچ و خم سے ماؤں کے لختِ جگر چھین لیئے جاتے ہیں اور کئی معصوم بچے یتیم کردیئے جاتے ہیں  سینکڑوں ستم رسیدہ والدین ہمیں  کار زار سیاست میں اپنے گم شدہ بیٹوں کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں ان ظالموں کے ہوس ہائے جاہ طلبی کے آبگلوں سے کئی گھرانوں کے چشم و چراغ بجھا دیئے جاتے ہیں۔

ہاں لیکن آخر کب تلک ہاتھ دہرے اپنی لختِ جگر کی جدائی کا غم لیئے در بدر کی ٹھوکریں کھائیں ۔

بالآخر مائیں اپنی اولادوں گٹی میں مزاحمت پر برانگیختہ کرتی نظر آتیں ہیں جن کا روکنا اب ناممکن سی بات ہے۔

دوسرا طریقہ واردات حب الوطنی کا ہے اس طریقے میں ذہن و فکر کو نام نہاد حب الوطنی کی یلغار سے مرعوب کیاجاتاہے حکومتی ایوانوں سے کذب و ریاکاری کی صدائے باز گشت لگائی جاتی ہے مظلوم کو باغی،غدار اور غیر ملکی ایجنٹ جیسے خطاب دیکر قوم،ملک اور دنیا کے سامنے مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ ہرایک انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھے اور ہم اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو سکیں۔

جب ان جابر قوتوں کی یہ سوچ ہو تو جتنا بھی آپ حب الوطنی کا سوچ،فکر،جذبہ لوگوں دلوں میں ڈالنے کی کوشش کرے تو وہ ناتمام ہوجاتا ہے جیساکہ گذشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں ناکام و ناتمام رہا۔

جب ان جابر قوتوں کو اپنے ان دو حربوں میں منہ کی کھانی پڑتی ہے تو وہ اپنے ترکش سے سب سے خطرناک اور مہلک حربہ مذھبی منافرت کا نکال کر ان کے لیے عوام کے دلوں کو غیض و غضب سے بھرتے ہیں۔

افسوس تو اس وقت ہوتا ہے یہ نام نہاد اور جابر قوتیں مسلمان ہوکر اپنے زر خرید غلاموں سے مذہبی تنافرت پھیلانے کے لئے ایسی ناپاک وار کیا جاتا ہے کہ العیاذ باللہ

اس پر صرف کفِ افسوس مَلا جاسکتا ہے

بلوچستان کے حالات پر اگر غور کیا جائے تو ہمیں یہی تینوں حربے استعمال ھوتے نظر آتے ہیں۔

جب پہلے دو حربے بلوچستان میں ناکام ھوتے نظر آنے لگے تو ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کی معافی اور غلطی تسلیم کرنے کے بعد اس مسئلے کو اچھالنا در حقیقت اس تیسرے طریقہ واردات کوعملی جامہ پہنانا ہے۔

کہنے کو تو بہت ک

چھ تھا اگر کہنے پہ آتے