عظیم قومی مفاد کے لیے ہمارا جن لوگوں پر اندھا اعتماد تھا اس اعتماد سے بلوچ قوم اور پارٹی نے نقصان اٹھایا اس باب میں غلام محمد کی شہادت سرفہرست ہے، ایک زیر زمین مسلح تنظیم اقوام متحدہ کے نمائندے کو اغواء کرتا ہے تو کس سیاسی اخلاقیات کے تحت جمہوری و سرفیس سیاست کے لیڈر کو نمائندہ بنایا جاتا ہے، اس سے دشمن اور دنیا کیا تاثر لیتا ہے، اس میں ہم بری الذمہ نہیں لیکن ہمارا جن لوگوں پر اندھا اعتماد تھا سب سے بڑی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ دشمن غلام محمد یا ہمارے دوسرے رہنماؤں کو نقصان نہیں دے گا لیکن یہ عمل براہ راست غلام محمد کی شہادت کا ایک ا ہم محرک بن گیا۔ یہ تھے بی این ایم کے سیکریٹری جناب ڈاکٹر مراد بلوچ جو گذشتہ دنوں پارٹی کی چوتھی کونسل سیشن کے انعقاد کے موقع پر خطاب کررہے تھے۔
مجھے نہیں معلوم کہ جناب ڈاکٹر مراد صاحب کی حافظہ کمزور ہے یا پھر وہ جان بوجھ کرشہید غلام محمد بلوچ کے قائدانہ صلاحیتوں پر انگلی اٹھا رہے ہیں، اپریل دو ہزار نو کو جب بلوچ یونائٹڈ لبریش فرنٹ نامی ایک زیر زمین بلوچ مسلح تنظیم نے بلوچستان میں اقوام متحدہ کے زیلی تنظیم یو این ایچ سی آر کے سربراہ جان سولیکی کو کوئٹہ سے اغوا کیا تو اس کی ذمہ داری بھی اس مسلح تنظیم کےترجمان شیہک بلوچ نے قبول کی تھی۔ بی ایل یو ایف نے اقوام متحدہ کے صدر دفتر کو تمام لاپتہ بلوچ اسیران کی فہرست ارسال کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ وہ تمام لاپتہ بلوچوں کی رہائی کے بدلے جان سولیکی کو رہا کردیں گے۔ اس فہرست کا جائزہ لینے کے لئے اور اس میں پیشرفت سے قوم کو آگاہ کرنے کےلئے سیاسی رہنماوں کو ذمہ داری دی گئی تھی تاکہ وہ قبضہ گیر فریق پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے لاپتہ بلوچوں کی رہائی کو ممکن بنانے کے لئے رابطہ کرے۔ اس سیاسی فرنٹ پر رابطہ سازی اور پیش رفت سے اقوام متحدہ کو بلوچ سیاسی و سفارتی کمیٹی مسلسل آگاہ کرتا رہا۔
بی ایل یو ایف کی اس اقدام کے بعد نہ اقوام متحدہ نے نہ کسی دوسرے ملک نے جان سولیکی کے واقع کی مذمت کی تھی، بلکہ اقوام متحدہ نے جان سولیکی کی رہائی کے لئے بلوچ سیاسی قیادت سے فوری رابطہ قائم کیا اور انہیں اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے کی اپیل کی تھی۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جن بلوچ رہنماوں کو پاکستانی خفیہ ادارے، اسٹیبلشمنٹ مسلح تنظیمیں چلانے کا ذمہ دار ٹہراتے تھے اس واقعہ سے ریاست کا بلوچ سیاسی قیادت کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ یہاں دم توڑ دیا کیونکہ عالمی تنظیم اقوام متحدہ اور امریکہ نے بلوچ نواب خیر بخش مری (مرحوم) اور بلوچ رہنما حیربیار مری کو کردار ادا کرنے کی باقائدہ سرکاری طور پر درخواست کی تھی ۔
حیربیار مری نے بلوچ اقابرین کے ساتھ مشاورت کے بعد ایک کمیٹی (بلوچ قوم دوست کمیٹی ) تشکیل دی اور سیاسی فرنٹ سے بلوچ اسیران کا مقدمہ اقوام متحدہ کے سامنے رکھا۔ شہید غلام محمد اقوام متحدہ کے نمائندوں کے ساتھ رابطہ میں تھے، یہاں قارئین کے لئے اس بات کی وضاحت ازحد ضروری ہے کہ بی ایل یو ایف نے اپنے کسی بھی بیان میں بلوچ قوم دوست کمیٹی کے کسی بھی رکن کو تنظیم سے رابطہ کرنے یا مشاورت کرنے کی بات نہیں کی۔ بلوچ یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ کے ترجمان شیہک بلوچ نے اپنے تمام مطالبات اور جان سولیکی کی صحت سے متعلق لمحہ بہ لمحہ خبریں میڈیا کے توسط سے دنیا اور بلوچ قوم کے سامنے رکھا۔ یہاں بی این ایم کے رہنما کا بیان لغو اور حقیقیت سے کوسوں دور ہے کہ غلام محمد بلوچ کو مسلح تنظیم کا نمائندہ بنایا گیا تھا۔ آج کے نوجوانوں کی معلومات کے لئے بتاتا چلوں کہ شہید غلام محمد کے علاوہ کمیٹی میں کل گیارہ ارکان تھے جن کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔
شہید غلام محمد بلوچ کی ولولہ انگیز قیادت اورمسلح مزاحمت سے رجحان رکھنے والی تقاریر کو لیکر پاکستانی مقتدرہ ادارے انہیں مسلح تنظیموں سے جوڑنے کی کوشش کررتے تھے لیکن جان سولیکی کی اغوا کے بعد اور اقوام متحدہ کا بلوچ قوم دوست کمیٹی سے رابطہ سازی سے پاکستان کے سارے جھوٹ ، فریب اور پروپیگنڈہ دم توڑ گئے کیونکہ پاکستان اپنی پوری کوشش کے باوجود انہیں کسی مسلح تنظیم کا رکن ثابت کرنے میں ناکام رہے بالآخر فرسٹریشن کا شکار خفیہ اداروں نے انہیں اپنے ساتھیوں سمیت راستے سے ہٹا دیا کیونکہ انہیں معلوم ہوچکا تھاکہ اقوام متحدہ اور امریکہ نے غلام محمد بلوچ کو ایک سیاسی رہنما تسلیم کرلیا ہے۔ پاکستانی اداروں کو یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ ان کے خلاف خود ساختہ دہشت گردی کے دفعات اور مسلح کاروائیوں سے منسلک مقدمات کی اب کوئی قانونی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ پاکستان کو یہ بھی باور ہوچکا تھا کہ شہید غلام محمد کو اب عدالتوں کے ذریعے کسی بھی مسلح کاروائی کے مقدمات میں سزا دلوانا یا انہیں لمبی مدت میں سلاخوں کے پیچھے رکھنا ممکن نہیں رہا کیونکہ ایسا کرنے سے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیمیں آواز اٹھائیں گے لہذا انہیں شہید کرنا ہی آخری حربہ ٹھہرا۔ شہید غلام محمد اور ساتھیوں کی شہادت کے پیچھے نہ صرف پاکستان ملوث ہے بلکہ اس واقعہ میں ایران کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ غلام محمد شروع دن سے ایرانی مقبوضہ بلوچستان کی آزادی کے لئے سیاسی پرچار کرتے رہتے، تہران کو یہ خوف گیر چکا تھا کہ وہ آگے چل کر ایران کے زیر تسلط بلوچستان میں سیاسی طوفان برپا کرسکتے ہیں انہوں نے پاکستان کے ساتھ مل کر ہم سے اس عظیم رہنما کو چھین لیا۔
ہم نے دیکھا ہے کہ شہدائے مرگاب کے واقعہ کے فورا بعد اقوام متحدہ کے صدر دفتر سے جاری سرکاری بیان میں شہید غلام محمد کی سیاسی رول کو سراہا گیا اور ان کی شہادت کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ ان کی شہادت کا شفاف تحقیقیات کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ جان سولیکی کے اغوا سے بلوچ تحریک کو نقصان نہیں بلکہ عالمی سطح پر فائدہ پہنچا، اس اقدام سے پاکستان کا مکروہ چہرہ اور بھی بے نقاب ہوا کہ انہوں نے سیاسی رہنماوں کو شہید کیا، بلوچ مسلح تنظیم نے پاکستان کے منصوبوں کو بھانپتے ہوئے جان سولیکی کو رہا کردیا جس سے بلوچ مسلح تحریک کی ساکھ عالمی سطح پر اور بھی مثبت ثابت ہوا۔ انہوں نے عالمی دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بلوچ قومی تحریک طالبان کی طرح شدت پسند نہیں کہ اغوا کاروں کی گردنیں کاٹی جائیں یا بوکوحرام کی طرح نہیں کہ بے گناہوں کو نشانہ بنائے۔
بی این ایم کے مخلص اور سیاسی حالات کے نبض پر ہاتھ رکھنے والے اور ارد گرد میں رونما ہونے والے ملکی اور عالمی حالات پر نظر رکھنے والے کارکنوں کو چاہے کہ اپنی قیادت سے شعوری، اور نتیجہ خیز بحث کو دوام دے کہ بی این ایم کی آئین میں ایرانی مقبوضہ بلوچستان سے آزادی کی شق موجود ہے لیکن ایسا کیوں ہے کہ ان کی قیادت شہید غلام محمد کی تعلیمات اور نقش قدم پر چلنے کی بجائے مادی مجبوریوں کا شکار ہوکر ایران کے زیر تسلط بلوچ ماوں بہنوں اور نہتے بہن بھائیوں کی آئے روز شہادت پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے؟
آپ یہ بھی اپنی قیادت سے پوچھ سکتے ہیں شہید غلام محمد کے ماضی کے کردار کوکس کے اشارے پر متنازعہ بنایا جارہا ہے؟
ڈاکٹرمراد کا حالیہ بیان اس بات کی غماز نہیں کہ وہ غلام محمد بلوچ سیاسی طور پر ناپختہ تھے؟
بی این ایم کے کارکنان اپنے قیادت سے یہ بھی استفسار کریں کہ جان سولیکی کی اغوا سے امریکہ اور اقوام متحدہ کی بلوچ رہنماوں سے کردار ادا کرنے کی اپیلیں تحریک کے لئے نقصاندہ تھے یا پھر کراچی میں چینی کونسل خانہ، گوادر پرل کنٹی نینٹل ہوٹل پر حملوں کو لیکر بی ایل اے کو دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دینا تحریک کے لئے نقصان کا باعث بنا جن بی ایل اے کا وہ حریف سے حلیف بن گئے ہیں۔
آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ غلام محمد بلوچ نے شہادت تک جو بھی کردار ادا کیا ان میں ان کی اپنی قائدانہ صلاحیتیں، سیاسی بصیرت سے محروم نادان انسان تھے، کیونکہ وہ سب کچھ اندھا اعتماد کے تحت کررہے تھے؟
شہید غلام محمد انقلابی سیاسی سفر پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات جاننے کو ملتا ہے کہ وہ اپنا اکثر وقت بابا مری کے ساتھ گزارتے تھے، انہوں نے ماضی میں آزادی کی پرچار کرنے کی غرض سے بیرون ممالک کا بھی سفر کیا تو کیا وہ بھی کسی پر اندھا اعتماد تھی؟ وہ ڈیرہ بگٹی، سوئی میں نوابزادہ براہمدغ اور کاہان میں شہید بالاچ مری سے ملتے اور سیاسی لائحہ عمل طے کرتے کیا وہ بھی غلام محمد کا اندھا اعتماد تھا؟
جان سولیکی کے اغوا سے گو کہ بلوچ اسیران کی رہائی ممکن نہیں ہوسکی لیکن یہ بلوچ اقابرین اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا ہر ذی شعور شخص اس حقیقیت کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ ایک بہترین حکمت عملی تھی کیونکہ اس سےعالمی سطح پر بلوچوں کی سیاسی رول کو تسلیم کیا گیا ، آج ایک طرف طالبان افغانستان میں مسلح کاروائیاں کررہے ہیں لیکن دوسری طرف امریکہ طالبان کی سیاسی قیادت سے مزاکرات کررہا ہے۔ دنیا میں ہر تحریک کی ایک سیاسی چہرہ ہوتی ہے اور مزاکرات اور سفارتی میدان میں سیاسی قیادت ہی قوم کی نمائندگی کرتی ہے۔ شہید غلام محد بلوچ بلوچوں کا سیاسی اور سفارتی محاذ پر ایک مضبوط رہنما تھا جن کی تجربہ، اور غیرمعمولی کردارادا کرنے کی وجہ سے دشمن کو انہیں شہید کرنا پڑا۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ جس وقت مرگاب کا سانحہ رونما ہوا اسی اثنا میں دشمن نے باقائدہ ایک منصوبہ بنایا لیا تھا جن پر عمل درآمد شہید غلام محمد ، شہید لالہ منیر اور شہید شیرمحمد کی شہادت سے ہوا۔
اگر شہید غلام محمد بلوچ بقول ڈاکٹر مراد کسی مسلح تنظیم کے نمائندہ بنا دئے ہوتے تو کیا اقوام متحدہ اس واقعہ کی مذمت کرتا۔ شہدائے مرگاب کی شہادت کے اگلے روز اقوام متحدہ کا بیان آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
’’ نیویارک: اقوام متحدہ نے پاکستان میں تین بلوچ رہنماؤں کی قتل پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور پاکستانی حکومت سے کہا ہے بلوچ رہمناؤں کے قتل کی تحقیقات کرائی جائے۔
اقوم عالم کے ادارے نے بلوچ رہنمائوں کے خاندانوں سے تعزیت کا اظہار بھی کیا ہے۔ یہ بات جمعرات کی دو پہر نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر میں سیکریٹری جنرل بان کی مون کی ترجمان نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔
سیکریٹری جنرل کی ترجمان نے اقوم متحدہ میں موجود میڈیا کے ارکین کوبتایا کہ قتل ہونے والے تین بلوچ رہنما اس بلوچ قوم دوست کمیٹی کے رکن تھے جو بلوچستان میں گمشدہ افراد کے کیسوں کی تحقیقات کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔
سیکریٹری جنرل کی ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ حکومت پاکستان سے بلوچ رہنماؤں کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ بلوچ دوست قوم کمیٹی اپنا اہم کام جاری رکھے گي۔
ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ بلوچ رہنماؤں کے خاندانوں سے انکے قتل پر گہرے رنج اور تعزیت کا اظہار کرتی ہے‘‘
مجھے بی این ایم کے موجودہ قیادت کی سیاسی ناپختگی، اور بلوچ آزادی پسند تنظیم اور قیادت سے بغض پر حیرانگی ہوتی ہے وہ سیاسی کردار کشی پر اس حد تک گئے ہیں اپنے پارٹی رہنما شہید غلام بلوچ اور انقلابی ساتھیوں کی شہادت کے ذمہ داری بلوچ مسلح تنظیم کی قیادت پر ڈال کر در اصل پاکستان کے وحشی، درندہ صفت فوج اور دہشت گرد آئی ایس آئی کو بری الزمہ قرار دے رہے ہیں۔ میرے دانست میں شہید غلام محمد بلوچ کی روح کو آج سکون و چین نہیں ہے کیونکہ ان کی سیاسی تعلیمات اور انقلابی فیصلوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے، کارکنوں کو حکمت عملی کے نام پر اندھیرے میں رکھ کر موجودہ قیادت اپنی سطحی سوچ سے معمولی مراعات کی حصول کو فوقیت دی جارہی ہے۔