بلوچ سیاسی منظر نامے کے نصیب میں شاید کوئی قرار نہیں، دو پل کا اطمینان نہیں، سیاسی ہلچل اور ہر آن ایک نئی بھونچال ہم پر ایسے سوار ہیں کہ اب ایک عادت سی ہوگئی ہے، ٹوٹ جانے کی بکھرنے کی بگڑنے کی اور اپنی عاقبت اندیشوں پر ماتم کرنیکی، اب بلوچ راجی سیاست میں یہ عمل معمول کی طرح معمولی بنتی جارہی ہے، ایک ایسی عمل جہاں بہتے لہو کی دھاریں بانٹی جائیں یہ تیرا وہ میرا، یہ جان کن عمل بھی معمول کے عام مسائل کی طرح ہم پر مسلط ہوئی جارہی ہے، اسباب کیا ہیں کہ ہر بھاری گزرتے لمحے کو اپنے ساتھ اس آلام زدہ پس و پیش کو مزید پیچیدہ کرنے والے گوناگوں مسائل ساتھ ہیں، مسائل کا ہونا فطری عمل ہے لیکن ان مسائل کو بحرانی کیفیت میں تبدیل کرنا تحریک اور اس سے جڑے عہد کی سراسر نفی ہے، ایک پٹاری ہے جہاں ہر روز ایک نیا چہرہ نئی بین کے ساتھ آکر بین بجانا شروع کرتا ہے اور مسائل سپولے کی مانند نکلتے جاتے ہیں، وہ الگ بات ہے کہ نئے زمانے کی میکاولیانہ چالبازیوں و شاطر دماغیوں سے مزین راوی و راقم اسی منظرنامے کی قرطاس پر چین ہی چین لکھتے اور پڑھتے ہیں. جھوٹ، مکر و فریب اور دغابازیوں و چالبازیوں کے سلسلے اور اصولوں سے بھاگی کردار کو سیاسی بالیدگی سے اور سادگی، سچائی، دور اندیشی اور عوامی خواہشات کی ترجمانی کو سیاسی ناکامی سے تعبیر کیا جاتا ہے، ایک ایسے منظر نامے میں جہاں بلوچ کو ہزارہا اندرونی معاملات و مشکلات کے ساتھ ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جو نہایت ہی کمین اور سفاک ہے جو اپنی تحفظ کے لئے پوری دنیا سمیت سب چیزوں کو داو پر لگانے کو تیار ہے، اور لچکداری و بے شرمی میں اس کا کوئی ثانی نہیں، اس کے لئے کوئی حرف حرف آخر نہیں جہاں خطرے کی نشان انتہا تک پہنچ جائے تو وہاں رام رام کی ملا جپنا شروع اور جہاں کہیں ایک ہلکی سی ریلیف مل جائے تو پھر وہی پرانی من مانیاں، مختصر یہ کہ کوئی پالیسی کوئی شئے یا عہد اسکے لئے نا حتمی ہے اور نہ پتھر پہ لکیر، وہ اپنے ایک نظرئیے کے ساتھ چہار سو مڑنے کا فن بخوبی جانتی ہے، وہ نظریہ ہے فوج اور فوج کے بندوبست کے لئے لازمی پاکستان کی حدبندیاں، ریاست پاکستان کی سیاسی حماقتیں اپنی جگہ لیکن بلوچ کو ایک اجتماعی قوم کی حیثیت سے اسی ریاست کی فوج جیسی ایک مکمل اور علی الاعلان دشمنی کا سامنا ہے. ایک ایسی بحرانی حالت میں بلوچ قوم کے پیش رو سمجھے جانے والے قوتوں سے یہی توقع تھی کہ وہ ایک ( گو کہ اجتماعی نہیں) لیکن ایسی پالیسی کا اعادہ کریں گے جو لائحہ عمل کے حوالے سے پاکستانی ریاست بالخصوص اسکے عسکری زہنیت، سیاسی کردار، کرائے کی جنگ اور جنگجوانہ ماضی کی الشمس و البدر جیسی پالیسیاں، اسکی ممکنہ حربی قوت اور اسکی شدید ترین استعمال کے ساتھ ساتھ اسی عسکری ادارے کی ماضی میں کی گئی کاونٹر انسرجنسی، بنگلا دیشی نسل کشی، کشمیری کاز کو گدلا کرنے سمیت افغانستان میں عرصہ دراز سے ہونے والے دست درازی جیسے ان تمام پالیسیوں کو زہن میں رکھ کوئی ایسی بلوچ قومی پالیسی بناتے کہ جسے دشمن آسانی سے نہ توڑ سکتے، مگر یہاں تو شروع دن سے پارٹی بازیوں، سیاسی دلالیوں، وفاداریوں کو تبدیل کرنے کی دباؤ جیسے حربوں کا ایک طوفانی ریلہ در پیش رہا، ماضی کی اگر داستانیں دیکھیں تو چلو مان بھی سکتے ہیں کہ وسائل کی قلت راہ میں روڑے اٹکاتی رہی، عسکری تربیت کی کمزوریاں پاوں کی بیڑیاں بنی رہیں اور کمیونیکیشن کے مسائل بھی آڑے آتے رہے سو جو ماضی میں ہوا اسے اس حد تک ہی غنیمت مان لیتے ہیں کہ وہ ایک تسلسل کی بنیاد بنا اور گرتے پڑتے بنتے بگڑتے اس خونی کھیل کو آج کی نسل تک پہنچا گیا، یہاں پالیسیاں بننی ضروری تھیں، اور ایسی پالیسیاں جو دشمن کے لیے ناقابل تسخیر پہاڑ بنتے ناکہ رائی کے پہاڑ کہ ایک ہی ہوا کے جھونکے سے سب ہوا ہو گئے، یہ اپنے اندر ایک ایسی المیہ ہے جس پر آج ہم سب کو بین کرنا چاہئیے، سر پیٹنا چاہیے، پہلے ہی دن یہ سوچنا چاہیے تھا کہ مڈل کلاس سردار زادگی کا نقطہ کہاں سے اٹھا، کیوں اٹھا اور کس نے اٹھایا، دشمن کے خلاف حربی و سیاسی پالیسی بنانے کی بجائے آپسے چپقلشوں کی بنیاد کیونکر پڑی، اور دشمن کے خلاف بننے والی پالیسیاں نتائج کے حصول میں کیوں ناکام. رہیں، پالیسیاں تو سب بناتے ہیں ایک دس سال کا بچہ بھی اپنے دل میں کچھ سوچتا ہوگا، اسی کے مطابق عمل کرتا ہوگا، وہ اپنی دوستوں کے ساتھ ملکر کچھ منصوبہ بندی کررہا ہوگا، یہ سوچنے کی حس ہے جو انسان کو بنیاد سے آمادہ کرتا ہے کہ وہ سوچے مگر ایک بچے کی اپنی کچھ دوستوں کے ساتھ کی جانے والی سوچ و بچار کے بعد لی جانے والے فیصلے میں اور ایک قومی تحریک کے لئیے کی جانے والے فیصلے میں فرق کیا ہے، دونوں کی بنیاد سوچ و بچار ہے، دونوں کچھ ممکنات میں سے چنتے اور رد کرتے ہیں، دونوں کا سوچ و بچار کے بعد کسی ایک نقطے پر پہنچ جانے کے عمل کو فطری اعتبار سے ہم فیصلہ ہی کہتے ہیں، دونوں میں بنیادی فرق سامنے والے فریق کی ہے، اور اوپر دئیے گئے مثالیے میں بچوں کی طرف سے ہونے والے فیصلے میں مخالف فریق ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی، لیکن کسی قوم کو غلامی کی چنگل سے آزادی دلوانے کے فیصلے میں نہ صرف مخالف فریق موجود ہے بلکہ وہ زہنی و جسمانی ساخت و قوت کے اعتبار سے بے حد تگڑا بھی ہے، تو اس طرح کی منظرنامے میں کی جانے والے فیصلے کیا ایسے ہونگے اور انکے نتائج اس طرح کے آئینگے جیسے کہ پچھلے ڈیڑھ دہائیوں سے بلوچ آزادی پسند سیاسی منظر نامے میں دکھائی دے رہا ہے، کیا ایک ایسی صورتحال میں ایسی سیاسی عیاشی کا متحمل ہوا جاسکتا تھا، کہ جہاں روز. اول سے سب کا زور یہی تھا کہ وہ سیاسی پارٹی بنائے اور بلا شرکت غیر اسکا سب کچھ اسی کے ہاتھ میں رہے، زبانی کلامی بنیادوں پر تو بلوچستان کو ابھی تک ہمارے رہنما کئی مرتبہ آزاد کروا چکے ہیں اور دشمن ریاست کے بخیے ادھیڑنے کی باتیں روز کے معمول کا حصہ بنتے جارہے مگر مقام شرم یہ ہے کہ شوق لیڈری اور مادر پدر خودسری کے خواہشات تلے دبے ہم اور ہمارے ہی بخیے روز بروز ادھیڑے جارہے ہیں. ویسے روزانہ کی بنیاد پر بلوچ قوم کو یہ جھوٹی تسلی دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور تاحال کی جارہی ہے کہ ادارے موجود ہیں، نہ صرف موجود ہیں بلکہ مضبوط بھی ہیں، نظریاتی و وژنری لیڈر بلکہ لیڈروں کی ایک کیمپ موجود ہے، پارٹی، پارٹی کی آئین، تعین کردہ اصول و ضوابط اور انکے تحت چلنے والے ادارے، جمہوری انداز میں ہونے والے فیصلے اور سب سے بڑی اور بونڈی جھوٹ کہ جمہوری فیصلے جمہور کی رائے کے تحت، یہ سب موجود ہے مگر اخبارات، میڈیا اور باتوں کی حد تک، گراؤنڈ پر حالت زار کا عالم ہی مت پوچھو، حمایت تو خیر کیا رہنی تھی، اب لوگ بھی تنگ آکر دہائیاں دے رہے ہیں، ابھی تک پالیسی سازی کے عمل کو معدودے چند لیڈروں کے کسی نے سنجیدگی سے لیا نہیں ہے، اور جنہوں نے پالیسی سازی کو سنجیدگی سے لیا وہ بدقسمتی سے ان پر یقین کر بیٹھے تھے کہ سیاسی محاز کو گراؤنڈ پر انکے مطابق لوگ مل چکے ہیں مگر بھید جب کھلا تب معلوم پڑا کہ گراؤنڈ باہمی ناچاکیوں اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا محض ایک حربہ ہے، ہر کوئی باتوں کا قانع ہے اور اسی پر اپنے سیاسی گزر اوقات کے لئے زہنی طور پر تیار بھی ہے، یعنی دشمن کی پالیسی اپنے بارے میں کیا ہے، وہ ہمیں کیسے مارنا یا گھیرنا چاہتا ہے، وہ سیاسی داؤ کھیلے گا تو کس طرح کھیلے گا، جنگ اور اسکی شدت کیا ہوگی، اور اسے کس طرح کلی طور پر ناکام نہیں تو کم از کم جزوی بنیادوں پر غیر موثر ہی کیا جائے، لیکن ان چیزوں کے بجائے ہماری گناہگار آنکھوں نے دیکھا کہ جنگ کے دوسرے فیز کو پھلانگ کر ہمارے لیڈر اسے تیسرے فیز میں لے آنے کے دعوے کرتا رہا، لیکن ابھی تک گراونڈ ان تمام بلند بانگ دعووں سے خالی خولی ہی نظر آتی ہے، سب کارکن سب لیڈر سب سیاسی جماعتیں اور انکی سبھی ہمدرد سب جانتے ہیں اور سب اپنی اپنی کلی اڑنے سے ڈرتے ہیں، کیونکہ یہ جرم اور اس جرم کی خوف سب کے دلوں میں موجود ہے سب ایک دوسرے کی سیاسی سفید پوشی کی بھرم کو قائم رکھے ہیں تاکہ مجھ پر گند نہ اچھلے، لیکن ان تمام سے ایک ہی سوال ہے کہ جھوٹ، مکر، فریب اور ریاکاری سے کب تک اپنی دل کو بہلاتے اور قوم کو دھوکہ دیتے رہوگے، جن دوستوں نے پالیسی سازی کی عمل کو نتائج سے نتھی کرکے عملی بنیادوں پر سیاسی عمل کو آگے بڑھایا انکے عمل کردار انداز اور حکمت عملیوں کے غیر متزلزل نقوش بلوچ قومی تحریک کے ماتھے پر محراب کی طرح آج بھی ثبت ہیں وہ الگ بات ہے کہ کچھ نا عاقبت اندیش لوگ اپنی کج روی اور شوق لیڈری میں گرفتار ایسے سیاسی سنجیدگی و جمہوری قائدانہ طرز کی قیادت کی اعتبار کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اور انکی طرف سے دی جانے والی زمہ داریوں کو کلی اختیارات میں تبدیل کرنے اور خود کو مختار کل بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل رہے ہیں مگر مقدر کیا ہے قوم کے سامنے رسوائی اور رو سیاہی، ماضی میں سیاسی پارٹیوں و تنظیموں پر شب خون مارنے والوں اور تحریک کو ” من و تو” میں بانٹنے والے لوگ بھی کبھی سنجیدہ سیاسی حلقوں میں قابل قدر ہوا کرتے تھے، اور یہ من و تو میں بانٹے جانے کی عمل ہے کہ جو تادم تحریر جاری ہے، ہر دفعہ اس سیاسی بکھری کی بھونڈے پن کو شخصی خواہشات کے تابع نہ رہنے جیسے اصطلاحات سے تعبیر کیا گیا، بلوچ سیاسی اجتماعی قوت میں دراڑ ڈالنے اور اسے بانٹنے کا عمل ہی سب سے غلیظ ترین عمل ہے یہ وہ عمل جسے طاقتور سے طاقتور ترین دشمن بھی سرانجام نہیں دے سکتا جب تک اپنے صفوں سے جعفر و صادق جیسے سیاسی کمینوں کا ظہور نہ ہوتا. ‎ یہی ایک عمل ہے جس نے بلوچ تحریک کو روز اول سے نقصانات سے دوچار کئیے رکھا، مرکزیت گریز نفسیات، مرکزیت سے بھاگنے والے لوگ ہمیشہ خود کو مرکز میں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور ان کی تمام تر جد و جہد کا مطمع نظر یہی ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایک ایسے اسٹیج تک پہچا جائے جہاں آپ چیزوں پر اثر پذیری کی حیثیت حاصل کرسکیں، اور انکا یہ نیت دوران عمل کبھی ظاہر نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اس اسٹیج کو پانے کی خاطر انتھک محنت کرتے ہیں، لیکن جب وہ کسی ایسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں تحریک سے جڑے رہنے، اس سے حاصل شدہ تجربات و تلخیوں کے سبب جب لوگ انہیں مرکزی حیثیت سے تسلیم کرنا شروع کردیتے ہیں تو وہ اپنی داؤ کھیلنے کا عمل شروع کرتے ہوئے خود کو بزور تحریک یا پارٹی پر مسلط کرنے کی کوشش شروع کرتے ہیں چونکہ ایسے لوگ اور بھی ہیں جو مرکزیت گریز رویہ رکھتے ہیں سو وہ بھی بالکل انہی کی طرح اپنے باری کا انتظار کررہے ہوتے ہیں کب جاکر وہ اس قابل بن جائیں کہ اپنا داؤ مہارت کے ساتھ کھیل کر سو ڈیڑھ سو لوگوں کے ساتھ اپنی ایک الگ پہچان بنا کر خود مرکزیت کی حیثیت عطا کریں، یہ عمل آج کا نہیں، چند مستثنیات کو چھوڑ کر پوری تحریکی عمل کو چھان لیں اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نظر نہیں آئیگا، سب کو لیڈر بننا ہے سب کو اپنے من چاہے اصول و ضوابط بنانے ہیں بس ایک لمحے کا انتظار ہوتا ہے اور اسی لمحے کو یہ لوگ پانسا پلٹ کا نام دیتے ہیں جہاں وہ اپنے حد تک کھیل کو اپنے حق میں پلٹنے کی کوشش کرتے ہوئے پوری تحریک کو داؤ پر لگا دیتے ہیں، چونکہ حلقہ اثر بھی ہے، مرکزیت گریز لوگ بھی ہیں، ماضی کی مخالفین بھی ہیں، سیاسی بساط سے نکال باہر کئے ہوئے لوگ بھی ہیں، سیاسی متاثرین بھی ہیں، دشمن کہ بیجھے ہوئے لوگ بھی ہیں، کچھ آدھے ٹیڑھے چاپلوس بھی، سو ایک اچھی خاصی جم عفیر کے ساتھ ساتھ ایک نامیاتی اتحاد کا بن جانا بھی اچنبے کہ بات نہیں، کیونکہ یہ لاوارث سیاسی شادولے کسی بھی طرح کرکے اپنی ذات کی پرچار سے نہیں رکتے چاہے اس کے لیے سیاسی اخلاقیات، تحریکی مفادات و قومی امنگوں سمیت سب کچھ کیوں نہ داؤ پر لگ جائے، اور انکا سب بڑا ہتھیار ہے جھوٹ کا ہتھیار اور انہیں کبھی بھی اس بات پر تاسف نہیں ہوگا کہ ہماری جھوٹ کو لوگ سمجھ رہے ہیں، کیونکہ انکو لوگوں سے نہیں اپنے گروہ کے ہمخیال مرکزیت گریز لوگوں کے ٹولے سے واسطہ ہے. انہیں سمجھنے کے لیئے بس انکی اور ان جیسے تحریک دشمن لوگوں کی ماضی کی ان کرداروں پر نظر کریں جو کہ اس بانٹنے کی عمل کے بانی مبانی اور آپس میں مبینہ طور پر اتحادی بھی ہیں، یہ بلوچ تحریک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ یہ لوگ ایک عرصے تک تحریک میں رہتے ہوئے اپنی میکاولیانہ زہنیت سے باز نہیں آتے اور ستم بالائے ستم یہ کہ جو کھیل پندرہ سال کی انتھک محنت سے پالیسی بنا کر زہنوں کی قوت کو صرف کرکے، باریک بینی سے سوچ و بچار کرکے دشمن کے خلاف بنانے چاہئیں تھیں وہ یہی پالیسی قومی تحریک کی یگانگت کے خلاف بنا رہے ہوتے ہیں، جھوٹ کی بازار ایسے گرم ہے کہ سب بڑی ڈھٹائی سے خود اپنی ہی باتوں کی نفی کرتے پھر رہے ہیں، اگر یہی بلوچ آزادی کے کارواں کے سپہ سالار مانے جائیں تو اس تحریک کی بالیدگی و سیاسی معیار کیا ہوگی؟ اس تحریک میں سنجیدگی کا معیار کیا ہوگا جہاں ان جیسوں کو سنجیدگی سے لیا جائے جو خود اپنی ہی زبان سے ادا کردہ و قلم سے تحریر کردہ باتوں کو ایک ایک کرکے نفی کررہے ہیں، کل کو یہی باتیں کرتے تھے بس نام کسی اور کا تھا آج بھی وہ یہی باتیں کسی اور سے منسوب کرکے کرتے ہیں، اتنا خون اور پسینہ بہا کر کیا یہی سیاسی معیار حاصل کرناتھا کہ جہاں جھوٹ کو سوا سیر کرکے تولا جائے اور جھوٹوں کے سروں پر سہرے سجا دئیے جائیں، ان تحریک دشمن، مرکزیت گریز، اصولوں سے بھاگی ہوئی ٹولے کو تحریک کا نمائندہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا، بہتے ہوئے انسانی خون اور پسینے کی زمہ داری لینے کے کچھ معیارات ہیں، اور ان معیارات میں جھوٹ و اصولوں سے رو گردانی سب سے حقارت آمیز ترین چیز ہیں. ایک کارکن یا سیاسی سنگت کو اپنے سنگت یا لیڈر میں کم از کم دو اساسی اور بنیادی معیارات کو ضرور دیکھنا اور ملحوظ رکھنا چاہیے ایک ہے سچائی پر ڈٹے رہنا اور دوسرا ہے اصولوں کی پیروی کرنا، جب یہ سیاسی معیار قائم رہیگا تو بلوچ تحریک مزید شکست اور ٹوٹ پھوٹ سے بچ کر ایک نئی پود کی طرح پھل پھول کر قوم کی امنگوں کا بہترین انداز میں ترجمانی کرسکے گا، یہ سمجنا لازم ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اگر ہر سیاسی سنگت اپنی کردار و عمل کو جتا کر خود کو پوری تحریک کا والی وارث سمجھنا شروع کردے تو پھر آج کے ڈیڑھ درجن سیاسی پارٹیوں میں ڈیڑھ سو درجن مزید اضافہ ہوگا اور زمین پر کردار و عمل کا معیار صفر کا صفر ہی رہیگا.