Homeآرٹیکلزجہد مسلسل کی علامت راسونا سعید سے حانی گل تک.

جہد مسلسل کی علامت راسونا سعید سے حانی گل تک.

تحریر :بیورغ بلوچ
ہمگام کالم:
راسونا سعید انڈونیشیا کی وہ بہادر خاتون تھیں جو جہد
 مسلسل کی علامت تھیں اور وہ اِس لحاظ سے ایک مختلف نام ہے کہ انہوں نے دوسری جنگِ عظیم میں اتحادی افواج کے خلاف لڑنے والی قوتوں کا کسی حد تک ساتھ دیا۔ وہ انڈونیشیا کی آزادی کی جدوجہد میں ایک اہم شخصیت تھیں۔ ان کا اصل دشمن جاپان نہیں بلکہ ان کے ملک پر نوآبادیاتی نظام مسلط کرنے والے ولندیزی تھے۔
راسونا سعید بہت کم عمری میں ہی سیاسی طور پر متحرک ہو چکی تھیں اور ‘دی انڈونیشین مسلم ایسوسی ایشن’ کے نام سے اپنی ایک سیاسی جماعت قائم کر لی تھی۔ اس وقت ان کی عمر بیس سال سے کچھ زیادہ تھی،انھوں نے اپنی جماعت مذہب اور قومیت کی بنیاد پر بنائی تھی۔
ان پر کتاب لکھنے والے ایک مصنف کے مطابق وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھیں۔ وہ بجلی کی طرح کڑکتی تھیں. ولندیزی حکام پر سخت نکتہ چینی کی ہمت کرنے کی وجہ سے لوگ انھیں شیرنی کے نام سے پکارتے تھے۔
ولندیزیوں نے کئی مرتبہ ان کی تقریروں کو روکا اور ایک موقع پر انھیں گرفتار کر کے 14 مہینے کے لیے قید میں ڈال دیا گیا۔ سنہ 1942 میں جب جاپانیوں نے آرکیپیلیگو پر حملہ کیا تو راسونا سعید جاپان کی حمایت کرنے والی ایک تنظیم میں شامل ہو گئیں لیکن انہوں نے آزادی کے لیے اپنی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا۔
انڈونیشیا میں جاپان کی شکست کے بعد بھی لڑائی جاری رہی کیونکہ ولندیزی اپنی حاکمیت کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے تھے اور شروع میں انہوں نے برطانیہ سے مدد بھی حاصل کی، اِس کی وجہ سے چار برس طویل ایک بہت پرتشدد تنازعہ شروع ہو گیا۔
یہ تنازعہ اس وقت ختم ہوا جب سنہ 1949 میں ولندیزی حکمرانوں نے انڈونیشیا کی خودمختاری کو تسلیم کیا۔ اِس جدوجہد میں راسونا سعید کا اہم کردار تھا۔ وہ صنفی برابری اور عورتوں کی تعلیم کی زبردست وکیل تھیں۔ ریسونا سیڈ انڈونیشیا میں ان چند خواتین میں شامل ہیں جنھیں وہاں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ سال سے اپنے منگیتر نسیم بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف سراپا احتجاج حانی گُل جو کہ ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ بھی ہیں نے بلوچ سیاسی تاریخ میں وہ مقام اس مختصر مدت میں حاصل کیا شاید کوئی اور حاصل کرسکا ہے، حالانکہ مقبوضہ بلوچستان کی طول و عرض پر اپنے گمشدہ پیاروں کی بازیابی کے لئے بلوچ عورتیں ہر لمحہ سراپا احتجاج ہیں لیکن حانی گُل وہ بلوچ زالبول ہیں جنہوں نے پہلی بار یہ تاریخ رقم کی کہ انہوں نے اپنے منگیتر کے ساتھ تین مہینے کی گمشدگی بھی دیکھی اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں گمشدگی سے جب وہ بازیاب ہوئیں تو انہوں نے بجائے خاموش ہونے کے اُن اداروں کو چیلنج کرکے لب کشائی کی۔ واضح رہے کہ نسیم بلوچ کو 14 مئی 2019 کو کراچی کے علاقے کورنگی امتیاز پُل کے سامنے ریاستی خفیہ ایجنسیوں نے اٹھایا اور اُسی رات قریب رات دو بجے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے نسیم بلوچ کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کی منگیتر حانی گل بلوچ کو بھی اٹھالیا تھا جبکہ تین مہینے بعد حانی گُل بازیاب ہوئیں تو انہوں نے اپنے آپ سے یہ عہد کرلیا کہ وہ آگے آئیں گی اور بالکل وہ آگے آئیں۔ انہوں نے بلوچستان میں خفیہ اداروں کے بدنما حرکات وسکنات کو طشت ازبام کیا اپنے اوپر ہوئے اُن اذیت ناک لمحوں کو ایک بہادر عورت کی طرح دنیا کے سامنے پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جب جب لوگ ریاست کے ہاتھوں بیگناہ اٹھا لئے جاتے ہیں تو اپنی بازیابی کے بعد چھپ کا روزہ نہ رکھیں بلکہ میڈیا کے سامنے یا میدان میں آکر اُن اداروں کے بدنما کرداروں کو دنیا کے سامنے طشت ازبام کرلیں۔

جی ہاں حانی گُل بلوچ نسیم بلوچ کی منگیتر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلوچ اکٹیوسٹ کی حیثیت سے وہ تمام بلوچ لاپتہ افراد کے کیس کو کراچی سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں سندھی قوم پرستوں کے ساتھ مل اجاگر کررہی ہیں۔ ایسا دن نہیں گزرتا کہ انہیں ریاستی اداروں کی طرف سے دھمکیاں نہ ملی ہوں۔ آج خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ انسانیت سے دور خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے ایک بار پھر ان کی آواز دبانے کے لئے انہیں اغواء کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل میں ناکام رہے اور دعا ہے کہ وہ ہمیشہ ناکام و نامراد رہیں۔ ان پر کئی بار خاموش ہونے کے لئے دباؤ ڈالا گیا حتیٰ کہ ان کے خاندان کی خاموشی بھی ان کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں لیکن اس تنِ تنہا زالبول نے اپنے ہمت و حوصلے سے یہ ثابت کیا کہ وہ ثابت قدم رہینگی اور اسی ثابت قدمی کے ساتھ وہ تمام لاپتہ بلوچ افراد کا کیس ہائی لائیٹ کریں گی۔ یقیناً حانی گُل بلوچ سماج کا راسونا سعید ہی ہیں جو جہد مسلسل کا سمبل ہیں، بہ بحیثیت ایک لکھاری کے میں تمام بلوچ سیاسی کارکنان سمیت ان تمام بلوچ جہدکاروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ حانی گُل سمیت ان تمام اکٹیویسٹس کا ساتھ دیں جو بلوچ لاپتہ افراد کے لئے اپنے دن رات قربان کررہے ہیں۔

Exit mobile version