قومی جدوجہد میں سرگرم عمل وہ عناصر جنکے ابتداء میں صرف چند متضاد اعمال پر لیکن وقت کے ساتھ ہی ساتھ انکے سوچنے ،زاویہ نظراورکردار پر بھی بہت سے سوالات اٹھتے جارہے ہیں اسوقت تک تسلی بخش وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات بھی جنم لے چکے ہیں کیونکہ ان حضرات نے اٹھنے والے سوالات سے پیچھا چھڑانے کے لیے پچھلے تمام عرصے میں جو طریقہ کار اپنایا اور جو حرکتیں کئے ہیں وہ سیدہی طرح سے دھوکہ دہی کے زمرے میں آتے ہیں اگر دھوکہ دہی کے اس تسلسل کا جائزہ باریک بینی سے لیا جائے تو یہ رفتہ رفتہ حماقت کی انتہاء کو پہنچ کر اسکے حدوں کو پار کرنے لگیں ہیں اس عمل کو سمجھنے کیلیے اس سے جوڑے ہرنقطے کی وضاحت اس لئے بھی ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا تعلق برائے راست بلوچ عوام اور سیاسی کارکنان کو گمراہ اور بدظن کرنے سے ہے تاکہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹایا جاسکے اسی سلسلے کے بہت سے من گھڑت،بے بنیاداور گمراہ کن سوالات و الزامات پر قومی سوچ سے وابسطہ فکری ساتھیوں کے طرف سے کئی بارحقائق کی بنیاد پرروشنی ڈالاجاچکاہے یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے اس لئے زیر نظر مضمون میں بھی ایک ایسے ہی سوال پر روشنی ڈالنے کی کوششیں کروں گا کیونکہ ساتھیوں کی اکثریتی رائے مطابق اس سوال کو نظر انداز کرنا شاہد موجودہ حالات میں قومی سوچ سے وابسطہ ساتھیوں، ہمدروں اور آزادی پسند عام عوام کیلئے حوصلہ شکنی کا باعث بنے پچھلے کچھ عرصے سے تواتر کے ساتھ اس سوال کو اچھالا جارہا ہے کہ BLA بہت کمزورہوچکا ہے اور ختم ہونے کو ہے اگر اس سوال کے تہہ کو جانا جائے کہ اسکا حقیقت سے کوئی تعلق بھی ہے یا نہیں تو سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ BLAہے کیا یہ کیسی تنظیم ہے اور اس کے کام کرنیکاطریقہ کار کیا رہاہے ؟؟ ویسے تودوران جدوجہد کسی بھی زیر زمین مسلح تنظیم کے ڈھانچے کی تعریف تو عوامی سطح پر ہونے سے رہا میرے ناقص رائے کے مطابق جتنا ایک عام آدمی کے لئے سمجھنا ضروری ہے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے میں صرف اسی کی وضاحت کروں گا. ایک ایسی تنظیم جو بلوچ قوم کی آزادی کے لئے زیر زمین مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اس تنظیم کا ظہور 2000 میں اس کے طرف سے سر انجام دینے وا لے مسلح کاروائیوں کے تحت ہوا 2000 سے لیکر آج تک اس تنظیم نے نہ تو عددی اعتبار سے کبھی اپنے ارکان کے بارے میں کوئی دعوی کیا اور نہ ہی اپنے قیادت کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کی اور نہ ہی عہدے یا ذمہ داریوں کے حوالے سے سپاہی سے لیکرکمانڈر تک کسی بھی ایسے ایک فرد کی تعارف کی جسکو تنظیمی شناخت کے حوالے سے پہچاناجاسکے ماسوائے تنظیم کے اْن ساتھیوں کے جن کے قتل کے بعد انکے شہادت کو لیکر انکے کارکردگی و کردار کے حوالے سے قوم کو معلومات فراہم کئے گئے .قابض دشمن کے طرف سے اس تنظیم کے ارکان کے خلاف مقدمات انکے سر کی قیمت مقرر کرکے ان کے خلاف جو بھی معلومات عوامی سطح پر لائے گئے ان اقدامات سے قطع نظر تنظیم کی ترجمانی کے حوالے سے بھی مختلف فرضی نام میڈیا کو فراہم کئے گئے ہیں اوراب تک الیکڑک میڈیا پر انٹرویوز وغیرہ میں بھی اپنے ممبران کی اصل شناخت کو مخفی رکھا گیا ہے. ہتکہ شھید بالاچ مری جب جلاوطنی ترک کرکے وطن لوٹے اور پارلیمنٹ سے ہوتے ہوئے جب مسلح جدوجہد کا فیصلہ کیا اور اپنے آبائی علاقے میں مسلح ہوکراپنے مسلح ساتھیوں سمیت ریاست سے جنگ کا آغازکیا تب سے تا وقت شہادت بالاچ مری نے نہ تو تنظیم کے حوالے سے اور نہ ہی کسی تنظیمی عہدے یا قیادت کے حوالے سے کوئی بھی دعویٰ کیا اور نہ ہی بحیثیت تنظیم BLA نے کبھی شہید بالاچ مری کے لئے اس کی زندگی میں ایسی کوئی تنظیمی شناخت ظاہر کی. شروع دن سے لیکر آج تک تنظیم کی کاروائیاں اور انہی کاروائیوں کے بل بوتے پر قومی سوچ کا پرچار اور مجموعی کارگردگی ہی تنظیم کا شناخت بنا رہا.شخصی شناخت سے آزاد اس تنظیم کی پہچان شروع سے ہی قومی سوچ و اجتماعی قومی مفادات کی نگہبانی رہاہے اسکے علاوہ BLA کے ظہور کے بعد سے اس تمام عرصے میں جتنے بھی آزادی پسند قوتیں سامنے آتے گئے ان تمام کے منظم کرنے اور وسعت دینے میں BLA کا ایک اہم اور بنیادی کردار رہاہے یہ دیکھنے اور سمجھنے کیلئے اگر ہم ماضی پر سر سری نظر ڈالیں تو ہمیں صاف طور پر نظر آتاہے کہ BLF اورBRA کے زیر کنٹرول علاقوں میں BLA نے اپنا کوئی بھی ونگ و دستہ تشکیل نہیں دی اور نہ ہی کوئی کاروائی سر انجام دی قطع نظرمکران میں ابتدائی دنوں کے مشترکہ کاروائیوں کے. باوجود اسکے کہ BLA کے زیر کنٹرول علاقوں میں باقی تمام مزاحمتی تنظیموں کے طرف سے کئے گئے ایسے تمام اقدامات کی نا صرف BLA نے حوصلہ افزائی کی بلکہ علاقائی حوالے سے انکو مکمل راہنمائی بھی فراہم کی تاکہ قومی سوچ کو جلد از جلد پروان چڑھایا جا سکے بلوچوں کی تحریک آزادی کی تاریخ میں یہ سہرا بھی BLA کے سواء کسی اور تنظیم کو نہیں جاتا یہ وہ ظاہری خاکہ ہے اس تنظیم کا جو اس تمام عرصے میں ابھار کر سامنے آیاہے. اس تنظیمی خاکے کو مدنظر رکھ کر اب آتے ہیں اس سوال کے طرف جس میں ایک طاقتورتنظیم کی کمزوری اور خاتمے کا عندیہ دیا جارہا ہے. ایک ایسی تنظیم جس کا مطمع نظر ہی قومی سوچ اور قومی سوچ کی پختگی اور وسعت رہاہو جو تنظیمی تعصب گروہیت اور علاقائیت جیسے محدود سوچ سے پاک ہو جو ایک مکمل قومی پروگرام پر عمل پیرا ہو شروع دن سے لیکر آج تک صرف اسی ایک تنظیم BLA کا دامن روایتی سیاست سے داغ دار نہیں ہوا BNP اور NP طرز پر میرا سیاسی پارٹی میرا طلبہ تنظیم یہ میرا وہ میرا وغیرہ وغیرہ کی کسی بھی سطح پرکوئی بھی اقدامات اس تنظیم کی طرف سے سامنے نہیں آئے اور نہ کبھی اس تنظیم کے طرف سے ایسی کوئی کوشش کی گئی شہیدغلام محمد سے فکری ہم آہنگی کے سواء نہ تو کبھی انکے کام میں مداخلت کی گئی اور نہ کبھی انکے ادارے میں کسی بھی سطح پر اثر رسوخ پیدا کرنے کے لئے کوئی بھی چال بازی یا لابنگ کیا گیا اور نہ ہی BRP طرز کی دوسری پارٹی بنا کر تیرا میرا کے رویتی طرز سیاست کو برقرار و مضبوط رکھا گیااور نہ ہی کبھی موجودہ پارٹیوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ان تمام کو کام کرنے کے لئے پورے مواقع فراہم کئے گئے BSO سے بھی فکری ہم آہنگی سے زیادہ کوئی ایسا رشتہ نہیں رہا جو ہمارے روایتی طرز سیاست کا وطیرہ رہاہے یعنی کونسل سیشن گود میں بٹھاکر پرچی طرز سلیکشن سے اپنے کٹھ پتلی کابینہ تشکیل دو اور زیر دست کرو . قومی پروگرام کو لیکر اس کردار کے تحت چلنے والی تنظیم BLA کو شروع سے دن سے ہی عین قومی پروگرام کے وسعت دینے میں اندرونی طور پربلکل متضاد حالات کا سامنا رہاہے یعنی پارٹی بازی،گروہیت،قبائلیت، علاقائیت وغیرہ وغیرہ اس حقیقی منظر نامے میں اگر غور کیا جائے تو ایک بات بلکل صاف ہو جاتا ہے کہ فرائض اور ذمہ داریوں کے حوالے سے BLA کیلئے بلوچ قومی تحریک میں قومی سوچ کو لیکر مجموعی قومی پروگرام ہی اپنے بقاء کیلئے جدوجہد کا متقاضی رہا ہے اور دوسری طرف ہر تنظیم ہر پارٹی اورہرگروہ اپنے گروہی بقاء کیلئے سرگرم عمل نظر آتاہے اور یہ فطری حوالے سے باہم متضاد بنکر سامنے آچکے ہیں ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ یہ سب قومی سوچ و قومی پروگرام کے وسعت کے تحت قومی آہنگی اور قومی قوت کی تشکیل کا ذریعہ بنتے مگر بدقسمتی سے انہوں نے قومی سوچ و قومی پروگرام کو اپنے گروہی مضبوطی اور طاقت کا ذریعہ بنایا اب ایک طرف BLA قومی سوچ کے تحت پوری قومی تحریک کو ایک مشترکہ قومی مرکزیت فراہم کرنے کے لیے عملاً قومی قوت کے تشکیل کیلئے سرگرم عمل نظر آتاہے تو دوسری طرف بالکل اسی مقام پر باقی آزادی پسند خاص کر ڈاکٹر اللہ نذر اور براہمداغ بگٹی قومی سوچ کے بل بوتے پر گروہیت پارٹی بازی شخصیت سازی میں مصروف عمل نظر آتے ہیں اور اداروں کے جداگانہ شناخت کے نام پر قومی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرتے نظر آتے ہیں اب اس تمام سلسلے میں ایسے متضاد اعمال کے ٹکراو کی وجہ سے جنم لینے والے محاذ آرائی اور اس سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے مجموعی سیاسی صورتحال ،سیاسی اقدار کے حوالے سے ہونے والی پوری تبدیلی کے عمل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اور صرف ماضی میں اسی تنظیم کے اپنے ہی طرف سے سرانجام دینے والے مسلح کاروائیوں کی تعداد اور نوعیت سے اگر اس سوال کو پرکا جائے تو ہوسکتا ہے کہ اس خیال کو تقویت ملے کہ واقعی BLA ماضی کے نسبت آج کمزور حالت میں ہے مگرجب ہم ریاستی اقدامات اور اندرونی تضادات کے حوالے سے ہونے والے تبدیلیوں کے تناظر میں پورے سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں بہت سے حقائق کا سامنا کرنا پڑتاہے جنکا بحیثیت تنظیم BLA کو سامنا کرنا پڑرہا ہے اگر سطحی اور سر سری حالات پر نظر دوڑائیں تو صاف طور پر نظر آتا ہے کہ BLA سمیت ہمارے تمام آزادی پسند زیر زمین مسلح تنظمیں اور غیر مسلح بر سر زمین سیاسی پارٹیاں 2007 سے لیکر 2010 تک والی اپنی حالت میں آج نظر نہیں آتے ہیں ایسا کیوں ہے اس کے ٹھوس وجوہات ہیں جن سے مسلسل انکار کرکے آزادی پسند کارکنان و عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے اب اگر ہم صرف BLA کے کمزور ہونے کے حوالے سے سوال کو ا چھالنے والوں کے بات کو مان کر چلیں کہ واقعی BLA کمزور ہوکر خاتمے کو پہنچا ہے اور اس کی وجہ اسکے قیادت کے غلط فیصلے ہیں تو بلکل اسی مقام و حالات میں BLF و BRA یا BNM یاBRP وBSO کے ٹوٹ پھوٹ اورکمزوریوں کے وجوہات کو کہاں تلاش کئے جائیں گراونڈ پر موجود باقی تمام مزاحمتی تنظیموں کی مسلح کاروائیوں کی شدت و نوعیت کو اور غیر مسلح پارٹیوں کی کارگردگی کو مدنظر رکھ کر مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو غیر جانبدارانہ رائے قائم کرنے میں زیادہ مشکلات درپیش نہیں ہونگے کیونکہ بلوچ گل زمین پر موجودہ حالات بذات خود بہت سے تلخ حقائق کے لئے گواہی دیتے نظر آتے ہیں(غیر تصدیق شدہ بڑے بڑے دعووں راجی پارٹی اور راجی سنگر جیسے خود فریبوں اور BLF کے گہرام بلوچ کے بڑ ھک بازیوں سے قطع نظر.) مجموعی حوالے سے بلوچ قومی جدوجہد ایسے حالات سے کیوں دوچار ہوا اگر اسکے اصل وجوہات کو تلاش کیا جائے تو وہ بھی سمجھنے کیلئے زیادہ پیچیدہ نہیں ہیں کیونکہ BLA اور اس سے وابسطہ ساتھیوں کے طرف سے مسلسل ان وجوہات کی نشاندہی کیا جاتا رہاہے اب اگر BLA کے ظہور اور اس کے پس منظر میں کار فرما قومی سوچ اور اس تمام عرصے میں BLA کی کارکردگی اور باقی آزادی پسند بلوچ و غیربلوچ قوتوں کے ساتھ اسکے بنیادی حقیقی کردار کو لیکر جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف ہو جاتا ہے کہ قومی تحریک کے ایک بنیادی اور اہم ستون کی حیثیت حاصل کرنے والی تنظیم BLA کی کمزوری برائے راست قومی تحریک کے کمزوری کی ابتداء ہے اور اس بات کا دشمن سے زیادہ کسی اور کو کیا اندازہ ہوگاابتداء سے ہی قابض دشمن کے طرف سے BLA کو ختم کرنے کی کوششیں اپنی جگہ لیکن اب اس بات میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ پچھلے کچھ عرصے سے BLA کو اندرونی (آزادی پسندوں کے اندر سے) طور پر بھی کمزور اور ختم کرنے کی سازشوں کا سامنا ہے دراصل قومی تحریک میں جو مرکزیت طاقت اور کردار BLA کو حاصل رہا لازمی طور پر اس کے پیچھے وہ قومی اجتماعی سوچ ہی کارفرما تھی جس میں بلوچ قومی مفادات کے سوا کسی بھی قسم کے مفادات کے لیے ذرا برابر گنجائش نہیں تھی دوران جدوجہد جب گروہی و شخصی مفادات کئی نہ کئی قومی مفادات پر حاوی ہوتے نظر آتے تو ان کے سامنے روکاوٹ اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے کا اعزاز بھی BLA میں موجود اسی سوچ کو حاصل تھا جس طرح قابض دشمن یہ سمجھ چکا تھا کہ BLA اس کی راہ میں ایک ایسی روکاوٹ ہے جس کے خاتمے کے بغیر اسکے شیطانی عزائم کی تکمیل ناممکن ہے بلکل اسی طرح اندرونی طور قومی تحریک میں جڑ پکڑنے والے مفاد پرستوں کو بھی اندازہ ہو چکا تھا کہ اس قومی سوچ کی موجودگی میں انکے مفادات کا حصول تو در کنار تحفظ بھی مشکل ہوگا وہ شروع دن سے ہی اس قومی سوچ کے خلاف اپنے بساط کے مطابق کام کررہے تھے ایسے دھبے دھبے سوالات ذہنوں میں ڈالنے کے مواقع ہاتھوں سے جانے نہیں دیئے جاتے کہ سرداروں کا کیا بھروسہ ؟؟؟ اس حقیقت سے قطع نظر کہ 73 کے ناکام جدوجہد کے اثرات کو جہلنے 25 سالہ کھٹن جلاوطنی کی مار سہنے پارلیمنٹ اور وزارت کے مراعات کو چکنے کے بعد ٹکرانے اور قومی جدوجہد کو منظم کرنے کے ساتھ ہی ساتھ حقیقی رخ دینے کے لیے تمام مواقع عام بلوچوں کو فراہم کرنے والا شخص کیسے بے اعتبار سردار ہو سکتا ہے بے اعتباری کے خوف کا اظہار کرنے والوں کے کردار کی طرف اگر غیر جانبداری سے کوئی نظریں دوڑائیں تو BSO کے چیرمین یا کوئی عہدے دار بننے کے لیے روایتی سیاست کے اصولوں کی پامالی سے لیکر (انقلابی سیاست کے معیار کون جانے وہ تو درکنار ) بلوچی معیار ہتکہ دوستانہ تعلقات تک کو دھوکہ دینے جھوٹ بولنے چال بازی کرنے جیسے اعمال کے سواء کچھ نظر ہی نہیں آئے گا اب اعتبار و اعتماد کا رونا کون روئے؟؟؟؟ اور ایسے بہت سے بے بنیاد سوالات قبائلی و سیاسی ،وژنری اور فرد ،مقدس ادارے حقیقی لیڈر کون ،انقلابی لیڈر کون وغیر ہ غیرہ کے فرق سے یہ اپنے عزائم کی تکمیل چاہتے تھے لیکن اس وقت تحریک کے مضبوطی اورصیحح سمت میں روانی ان حضرات کو ایسے مواقع فراہم نہیں کررہا تھا کہ یہ کھول کر اپنے عزائم کی تکمیل کرسکیں مگر بدقسمتی سے زامران مری کے کرپٹ کردار اور نواب خیربخش مری کے طرف سے زامران مری کے حوصلہ افزائی نے ایسے تمام عناصر کو ایک ایسا مورچہ فراہم کیا جس میں بیٹھ کر یہ آسانی سے اپنے منفی عزائم کے تکمیل کے لیے کام کرسکیں اگر باریک بینی سے غور کریں تو چند بنیادی سوالات یہ باتیں ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں. بغیر کسی سیاسی اور اخلاقی جواز کے یو بی اے کی تشکیل کی حمایت کا سوال ایک ایساسوال ہے جسکی وضاحت آج تک کوئی نہیں کرسکا اسلئے کہ کوئی بھی حقیقی جہدکار یہ حمایت کیوں کرئے گا قطع نظر اس حقیقت کے کہ تنظیمی وسائل کو زامران مری وراثتی مال میں اپنا حصہ سمجھ کر ہڑپ کرتا رہا جب سرزنش کی گئی تو جوابدہی اور ندامت کے بجائے تنظیم کو بھی ذاتی جاگیر کی طرح تقسیم سے دوچار کرنے کی سازشیں کرنے لگا جیسا کہ مرحوم نواب خیربخش مری کے بعد انکے قبائلی جاگیر و نواب مری کے دستار پر حق جتا کر اپنے کرپٹ اور لالچی خصلت کا ثبوت دیا تو کوئی بھی سوشلسٹ انقلابی اور وژنری لیڈر یا قومی حقیقی جہد کار ایسے تمام اعمال اور ایسے شخص کی حمایت آخر کیوں کرئے گا.؟؟؟ لازمی طور پر یا تو حصہ دار بننے کے لیے یا پھر تنظیم کو کمزور کرنے اور اسکے خاتمے کے لئے ( قطع نظر سردار اور سرداری نظام سے نفرت کرنے کا دعوے دار بن کر بھی زامران مری کے نوابی کی حمایت کیا جاتا ہے) اب جاوید مینگل اختر مینگل براہمداغ بگٹی اور زامران مری کے تعلقات اور ڈاکٹر اللہ نذر کے عزائم سب ملکر ایک ہی نقطے پر متفق نظر آتے ہیں کہ BLA کا خاتمہ ہو یعنی حقیقی قومی سوچ کا خاتمہ ہو کیونکہ یہ تو طے ہے کہ حقیقی قومی کاز جس میں صرف بلوچوں کے اجتماعی قومی مفادات کا تحفظ ہو گا اس میں گروہی، قبائلی ،شخصی مفادات کا حصول ناممکن ہوگا آج کے حالات میں بلکل یہ صاف ہوچکا ہے کہ قومی تحریک میں کون کس طرح سے اپنے گروہی مفادات کے تحفظ کے لیے کس حد تک جا چکا ہے اور مزید کس حد تک جانے کے لئے تیارہے. دوستوں اور ہمدروں کے لیے اس حقیقت پر روشنی ڈالنا بھی ضروری ہے کہ BLA پہلے سے کئی زیادہ منظم اور بہتر انداز میں کام کررہاہے کیونکہ BLA کو 2010 تک صرف ایک ہی محاذ پر اپنے تمام توانائیاں صرف کرنا ہوتے تھے لیکن 2000 سے لیکر 2010 تک جو حالات سامنے آئے ان میں صاف طور پر نظر آنے لگا کہ سیاسی محاذ کو ہائی جیک کرنے کی سازشیں زور پکڑ کرکامیابی کی حد تک پہنچ چکے ہیں مسلح محاذ میں روایتی طرز سیاست اس حد تک سراہیت کرچکا ہے کہ مسلح تنظیموں کے دوستوں کا مراعات و مالی فوائد کے پیشکش سے وفاداریوں کی خرید و فروخت شروع ہوچکا ہے قومی اثاثوں کو ذاتی جاگیر سمجھ کر انکے حیثیت کو ذاتی و گروہی مفادات کے لیے استعمال کیا جانے لگاہے حیثیت و شخصیت سازی کے لیے BSO طرز پر لابنگ اور سازشیں شروع ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے نااہل اور سازشی لوگوں کے غالب آنے کے امکانات بڑھتے جارہے تھے اس تمام صورت حال کوکسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ یہ تمام عوامل و عناصر برائے راست قومی تحریک کے تباہی کا موجب بنتے جارہے تھے جب ایسے عناصر کی نشاندہی و حوصلہ شکنی کی ضرورت پیش آئی تو اس حوالے سے بلوچ عوام کی اکثریت شعوری حوالے سے ان معاملات کی باریکیوں کو سمجھنے سے قاصر تھاکیونکہ لوگوں کی اکثریت جذباتی حوالے سے تحریک سے وابسطہ تھے شعوری حوالے سے انکے بارے میں آگاہی پھیلانے کے ساتھ ہی ساتھ انکے سامنے روکاوٹ بننا ایک پورے محاذ کے حیثیت سے کم نہیں تھا کیونکہ ان حضرات نے جس انداز سے اپنے اعمال و عزائم کی پردہ پوشی کرنے کی کوششیں کئے اس نے ایک محاذ آرائی کی سی صورت حال کو جہنم دیا جو عام عوام کے لئے بلکل غیر متوقع تھا لیکن شعوری حوالے سے جب آزادی پسند حلقوں میں ان عوامل و عناصر کے خلاف شعور اجاگر ہوا اور وقت کے ساتھ اس خیال کو تقویت ملا کہ یہ عناصر اپنے گروہی مفادات سے کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تو تب نئے سرے سے صف بندیوں کی ضرورت پیش آئی عسکری محاذ جو مکران کے حوالے سے ماضی میں انہی عناصر کے ہاتھوں میں تھا وہاں قومی سوچ کے تحت لوگوں کو منظم کرنے کی ضرورت پیش آئی جو تیسری محاذ کے طور پر BLA کے ذمہ داریوں میں شامل ہوا اور اس حوالے سے مزید BLA کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا جہاں ایک طرف دوسری تنظیمیں صرف اور صرف اپنی بقاء کو لیکر BLA کے مدمقابل آئیں وہاں BLA انکو ایک محاذ کے طور پر لیکر مجموعی قومی تحریک کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر منظم ہونے کیلیے نئی صف بندیوں کی ضرورت پیش آئی نئے صف بندیوں کے مراحل سے گزرتے وقت پچھلے تمام ناکام تجربات کے نتائج اور مجموعی قومی مزاج اور سیاسی شعور کی کمی کے ساتھ ہی ساتھ وسائل کی کمی سست روی کا باعث بنا رہااور ہے اس تمام کے باوجود ایک منظم اور موثر کامیاب حقیقی جدوجہد کے روشن امکانات موجود ہیں جس پر حقیقی سمت میں جدوجہد جاری ہے۔