شال (ہمگام نیوز ) وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما نصر اللہ بلوچ، ماما قدیر بلوچ اور حوران بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے کے حوالے سے کسی بھی حکومت اور نہ ہی انصاف کے فراہمی کے لیے بنائے گئے اداروں نے عملی اقدامات اٹھائے جسکی وجہ سے ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو تسلسل سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور لا پتہ افراد کو فیک انکاونٹر میں قتل کیا جارہا ہے جسکی وجہ سے لاپتہ افراد کے لواحقین شدید ذہنی کرب اور اذیت میں مبتلا ہے۔

انہوں نے نے کہا کہ 2012 میں ہم نے تنظیمی سطح پر لا پتہ افراد کے بازیابی کو یقینی بنانے کے حوالے سے ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا جس پر 2018 تک سماعت ہوتی رہی جہاں پر سپریم کورٹ نے لا پتہ افراد کے کیسز میں جوڈیشل انکوائری کروائی تو یہ ثابت ہوا کہ پاکستان میں شہریوں کو جبری لاپتہ کرنے میں ملکی ادارے ملوث ہیں لیکن اعلی عدلیہ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کی روک تھام میں اپنی آئینی اختیارات استعمال نہیں کی اور 2018 میں لاپتہ افراد کے تمام کیسز کو لا پتہ افراد کے حوالے سے

بنائی کمیشن کو فراہم کر دیا لیکن کمیشن کی کارکردگی مایوس کن رہا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھ کر ہم نے تنظیمی سطح پر فیصلہ کیا ہے کہ لاپتہ افرادکی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک دفعہ پھر ایک آئینی درخواست دائر کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ تنظیمی سطح پر یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ سینئر وکیل اعتزاز حسن نے جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے سپریم کورٹ میں جو درخواست دائر کیا ہے اس میں ہم فریق بنے گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ درخوست میں ہم سپریم کورٹ سے یہ استدعا بھی کرینگے کہ اسلام آبا د ہائی کورٹ کے حکم پر لاپتہ افراد کا مسئلہ اور بلوچ طلباء کی پروفائلنگ اور انہیں حراسان کرنے کے حوالے سے جو کمیشن سرداراختر جان مینگل کی سربراہی میں بنا تھا جس نے اپنار پورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ اس رپورٹ پر عمل درآمد کرانے کے حوالے سے سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم آپ معز ز صحافی حضرات کو یہ بھی بتاتا چلے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر جو کمیشن سردار اختر جان کی سربراہی میں بنا تھا وہ کمیشن کوئٹہ آ کر اس احتجاجی کیمپ میں وائس فارمسنگ

پرسنز کے رہنماؤں اور لا پتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات بھی کیا تھا تو اس ملاقات میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تقریباً 6 سو لاپتہ افراد کے لواحقین احتجاجی کیمپ میں موجود تھے جن کے لاپتہ پیاروں کے کیسز مکمل تفصیلات کے ساتھ ہم نے کمیشن کا فراہم کر دیا اور ساتھ میں ہم نے 2016 میں اقوام متحدہ کے اسمبلی سے لاپتہ افراد کے حوالے سے جو تجاویز پاس کئے گئے تھے وہ تجاویز بھی ہم نے کمیشن کو فراہم کردئے تو کمیشن نے 6 سو کے قریب لاپتہ افراد کے کیسز کی مکمل تفصیلات اقوام متحدہ کے اسمبلی سے جبری گمشدگی کے مسلے کو حل کرانے کے حوالے سے پاس کئے گئے تجاویز سمیت 159 پتہ بلوچ طلباء کے جبری گمشدگی کے کیسز اور بلوچ طلباء کی بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں پروفائلنگ اور انہیں حراسان کرنے کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ اسلام آیا دہائی کورٹ میں جمع کرا دی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اسلیئے ہم بہتر سجھتے ہیں کہ سب سے پہلے سپریم کورٹے اسلام آبا دہائی کورٹ کے حکم پر بنائی گئی کمیشن کے رپورٹ پر عملی اقدامات اٹھائے تو اس کے بعد ہم تنظیمی سطح پر دیگر لاپتہ افراد کے کیسز بھی مراحلہ وار سپریم کورٹ کو فراہم کرتے جائے گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آپ لوگوں کے توسط سے لاپتہ افراد کے لواحقین سے گزارش کرتے ہیں کہ جن لا پتہ افراد کے لواحقین نے اپنے لاپتہ پیاروں کی کیسز وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ساتھ جمع نہیں کئے ہیں وہ فوری طور پر مکمل تفصیلات کے ساتھ کیسر جمع کرا دے تا کہ ہم انہیں سپریم کورٹ میں جمع کرا سکے ۔ آخر میں ہم یہ امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسی اس کیس میں لاپتہ افراد کے بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کے روک تھام کے حوالے سے اپنا آئینی اختیارات استعمال کرینگے۔