بنی نوع انسان نے آج تک اس دنیا میں جو حیران کن انسانی عقل کوششدرو حیران کردینے والی سماجی ،معاشی ،سیاسی،سائنسی،صنعتی ترقی کے جومنازل طے کرکے پتھر کے زمانے سے لیکر آج جس اونچے مقام پر پہنچا یااس میں تمام قوموں کا کرادر شامل رہا ہیں۔اور بالخصوص ان قوموں کے زہین انسانوں کا اہم کردار۔ اسی طرح ایک عالم شخص “براقلیتوس”دنیا کو اپنے زاویہ ء نظر سے دیکھ کر یوں کہتاہے! کہ “جنگ سب کی باپ اور سب کی بادشاہ ہے۔جنگ ہی نے کچھ کو غلام اور کھچ کو آزاد بنارکھاہے۔ جب ہم بلوچ سماج کی اس موجودہ آشوبی تبدیلی کو”براقلیتوس”کی زاویہ نظر سے دیکھتے ہے۔تو واقعی جنگ ہی سب کی باپ اور سب کی بادشاہ ہے۔جنگ ہی نے بہت سے کرداروں کو واضع کیا۔ جنگ ہی نے سردار عطااللہ مینگل جیسے پاکستان کے پارلیمانی دلدادہ ریت کے بت کے مجسموں کو قوم کی مدد سے گرادیا۔ اس کے برعکس آج پنجابی دوبارہ بڑی تیزی اور مکاری سردار و سرکار کی آپسی سازباز سے اس ریت کے بت کو دوبارہ مجسمہ بنانے کی شاطرانہ کوشش کررہاھے۔تاکہ قوم کے سادہ لو ح لوگوں کو پیر پگاڑا کی طرح اس کی زیارت میں مصروف کراکے خود اپنی قبضہ گیریت اور ظلم کے پنجے کو مزید گھاڑ دیاجائے۔آج بلوچ وطن کے حقیقی فرزند کے پاس وقت کم مقابلہ سخت ہے۔ اور اس۔۔۔۔۔۔ جنگ ہی کی بدولت ڈاکٹر مالک،حاصل بزنجو اور اختر مینگل کی وطن فروشی کو تاریخ کی کتابوں میں لکھنے کیلئے تاریخ دان کے سامنے منظر عام ہر لایا۔جنگ ہی نے شہید اکبر خاں بگٹی اور دوسرے بے شمار گرانقدر قومی شہیدوں،کی قربانی کی بدولت قوم کے سر کو فخر سے بلند کیا۔جنگ ہی نے قومی غدار بنگان بگٹی کو قوم کے سامنے واضع کیا۔جنگ ہی نے شہید درویش ،شہید سلیمان عرف شیہک ،شہیدصدام بلوچ کی بہادری اور جرات کی فیصلے کو قوم کے سامنے لایا۔جنگ ہی نے موجودہ بہت سے جنگی کراداروں کی کمی بیشیوں اور نالائقیوں کو قوم کے سامنے لایا۔ جنگ ہی نے بلوچ دشمن غداروطن شفیق مینگل،راشد پٹھان اور سراج رئیسانی کے بدی کو قوم کو سمجھایا۔ جنگ ہی نے بلوچ دوست فرزند حیربیار مری کی منفرد صلاحیتوں ، ایمانداری و مخلصی، دانش،راجی انمول کردار کو قوم کے سامنے آشکار کیا۔ جنگ ہی نے صباء دشتیاری کی علمی جرات کو قوم کے سامنے واضع کیا۔ جنگ ہی نے میراحمد بلوچ کی قومی گلوکاری کو قوم کو سنایا۔۔جنگ ہی نے بہت سے کم حوصلہ بدبختوں کی دشمن کے سامنے ہتھیار پھینک کر دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکھ کر پنجابی پرچم کو سلامی سے قوم کو آگاہ کیا۔جنگ ہی نے آج کے بلوچ نوجوان سیاسی کارکن کو عالمی ،علاقائی سیاست کی اونچ نیچ کا علم سکھایا۔جنگ ہی نے بلوچ معاشرہ کے کچھ پرانے روایات کو تبدیل کرکے بلوچ خواتین کی تحریک آزادی میں شمولیت کو یقینی بنایا۔ جنگ ہی نے بلوچ شہیدوں کے خون سے سرخ لکیر کنھچ کر پنجابی اور بلوچ کی قومی جداگانہ شناخت اور قومی جبر،غلامی کو واضع کیا۔جنگ ہی نے بلوچ قوم میں نیشنل ازم کی بنیاد “قومی عصبیت” جو کہ قوم دوستی کا ستون ہوتا ہے کو پروان چڑایا۔ اسی نقطہ نظر پر مبارک قاضی کی تخلیق اس طرح سے ھے۔ “یہ جنگ مارابار کنت یہ جنگ مارا ھورکنت” بلوچ قوم اسوقت سے اپنی آزادی سے محروم ہوا جب آج سے ایک صدی پہلے اس کے رہبروں نے وقت کی نزاکت دنیا کی سیاست اور اپنی قومی طاقت، کمزوریوں کو نہ سمجھ کر اس دور اور آج تک کی سپر پاور برطانیہ سے پھنگا لے کر اپنی آزادی سے محروم ہوکر غلامی کی زندگی گذاررہی ہے اور ایسے دن اور غلطی بلوچ نے آج سے ایک صدی پہلے کیا۔جب کہ اسی طرح کی غلطیاں دوسرے قوموں کے رہبروں اور ان کی قوم سے بھی ہوئی۔جس میں 5 قوموں کی غلطیاں آج کے بلوچ سیاسی کارکن نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ھوگا۔یاتاریخ کے کتابوں میں پڑھا ھوگا۔ جس میں لیبین، روسی ،عراقی،شامی،اور سابقہ یوگوسلاویہ کے قومی رہبروں نے اسی طرح کی غلطیاں اور حماقتیں کی۔اور وقت نے ان کی غلطیوں کی سزا اس پوری قوم کو بڑی بے رحمی سے آج تک دے رہاہیں۔لاکھوں کے حساب سے لوگوں کی اموات ہوئی۔بے شمار لوگ بے وطن ہو کردوسرے قوموں کی دست اے نگر بن کر ہجرت اور بھیک مانگنے پر مجبورہوئیں۔ ہزاروں کے حساب سے کم سن لڑکیوں کی عزت تارتار ہو کر ان کی ریپ کی گئی۔بے شمار لوگ مختلف جسمانی اور زہنی امراض میں مبتلا ہوگئے۔اور ان کے حالات ابھی تک سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے۔ماسوائے روسی قوم کے جو دوبارہ سخت محنت اور سمجھداری کا مظاہرہ کر کے دنیا کی سیاست کی رخ کو سمجھ کر اپنے آپ کو ایک مقام پر پہنچایا۔ جب کہ باقی ماندہ عرب قومیں ابھی تک دنیا کے سامنے مقام عبرت بن چکے ہیں۔یہ سزا ان قوموں کو وقت نے دے دی۔کیونکہ انھوں نے وقت کی آواز اور وارننگ کو نہیں سمجھا۔اگر کچھ نے سمجھا بھی تو لیت و لعل سے کام لے کر اپنی آنکھیں بند کرکے اس دھوکہ میں پڑے رہے کہ سب کچھ خود سے ٹھیک ہوجائے گا۔آج نہیں تو کل۔یا یہ کہہ یہ کام میرا نہیں دوسرے کا ہے۔میں اپنے گھر کی زاتی کام سنبھال لونگا۔ لیکن ہم سب نے دیکھا سزا اس پوری قوم کو مل رہا ہیں۔آج وہ ہم سب سے زیادہ تکلیف برداشت کررہے ہیں۔لیکن ان کے حالات سدھرنے کا نام نہیں لے رہے۔۔ یہاں ایک اور اہم نقطہ یہ کہ قوم “عرب” کے مختلف اکائیاں جس درد و تکلیف سے گزر رہے ہیں۔ان کو مستقبل میں درپیش خطرات شاید ہم سے کم ہو۔ بلوچ قوم نے اگر حالات کو سمجھنے میں دیر کی تو بلوچ کو درپیش خطرات ان سے کئی گناہ زیادہ ہو سکتے ہیں۔! آج وقت چیخ کے پکار رہاہے۔کہ بلوچ تو اٹھ اور اپنے ،صدام،کرنل قزافی،بشارالاسد کو پہچان۔انھیں راہ راست پر لا۔ اپنے قوم دوست لیڈر حیربیار مری بلوچ کے ہاتھ کو مضبوط کرلے۔ وگرنہ تیرا حال ان سے بہت برا ہوگا۔ آج کے اس بلوچ جنریشن پر ماضی کی جو طوق اے غلامی گلے میں لٹکا ہو ہے۔اور وہ اسے بڑی غفلت سے اپنے گلے کا فطری حصہ سمجھ کر گھما رہاہیں۔یہ تو وہی ماضی کی تکلیف دہ غلامی ہے۔جس نے اس کی قومی وحدت کو تقسیم کیا۔ اس کی زبان و ثقافت کو تہس نہس کردیا۔اس کی آسودگی کو دربدری میں تبدیل کیا۔یہ وہ غلامی ہے جس نے بلوچ نوجوانوں کی خوبصورت جوانی کو دشمن کے ہاتھوں بڑی بے رحمی سے مسخ شدہ لاش میں تبدیل کیا۔یہ وہ غلامی ہے۔جس سے بلوچ کی دشمن ترقی کرکے 1 سے 3 تک پہنچے۔پنجابی کا پاکستان،ایران،اور چاہنا۔ یہ وہ غلامی ہے۔جس سے آج بلوچ کی آزادی کیا۔خاکم بدھن قومی بقاء مکمل خطرے میں ہوسکتا ہو۔ اس صورت میں اگر بلوچ قوم نے آج کے وقت و حالات کی نزاکت اور جہد میں شامل سر کردہ افرادکے کرداروں کو نہ سمجھا۔ اگر جس نے سمجھا خواہ مخواہ سیاسی سید بننے کی کوشش کی۔ یا سمجھ کرزاتی خوف اور لالچ سے قومی جہد سے سیاسی بیگانہ رہا۔ قومی آزادی صرف کپڑے کے ایک میٹر پرچم کانام نہیں۔بلکہ قومی آزادی کا مطلب ہے۔قوم کی معاشی خوشحالی،قومی وقارو عزت،سکون اور آسودگی کی زندگی۔آج جب ہم ماضی کی طرف پلٹ کر دیکھے اپنے اس دور کے بلوچ حکمران اور قوم کی مجرمانہ خاموشی کے سیاسی غلطیوں اور وقت کی نبض کو نہ سمجھنے کی جائزہ لے۔تو ایک لمبی ہا اور افسوس کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہے؟ لیکن ہمارے آج کا افسوس کس درد کا دوا ہوسکتا ہے۔؟ نتیجہ۔۔۔۔۔۔آج کی تکلیف دہ غلامی۔ اب ہم اس دور کی حالت کو زہن میں رکھے۔تو یہ بات ذہن میں آجاتاہے۔کہ قوم کی تقدیر کا فیصلہ کیوں ایک فرد کے ہاتھ میں ہوا۔؟دوسرے لوگ وقت کی نبض کو کیوں نہ سمجھے۔؟ اگر سمجھے تو کیوں بیگانہ رہے؟ اس دور میں ہمارے پیشرو آباواجداد نے وقت کی جس طرح ناقدری اور اپنے فیصلے میں ناسمجھی کی۔وقت بڑی بے رحمی سے اس کی سزا آج ہماری پوری قوم کودے رہاہیں۔
اب اج کے وقت میں قوم کیا فیصلہ کریگا۔؟ البتہ فیصلہ کرتے وقت اسے تنظیمی عصبیت کا شکار نہیں ہونا چائیے۔تنظیم سے بالاتر ہو کر اسے قومی مفاد کا خیال رکھنا چائیے۔ اپنے ماضی سے سبق سیکھ کر درست فیصلہ کریگا۔یا اپنی روزمرہ “زور کی زندگی غلامی “میں مشغول ہوگا۔؟ یہ بات بھی تحریر ہو کہ ماضی کیان قومی رہبروں کی قربانیوں سے ہم قطعاں انکاری نہیں۔!اور نہ ہم یہ کہتے ہیں۔کہ انھوں نے قوم کے ساتھ دھوکہ کیا۔نہیں ہر گز نہیں۔آج کی اس تاریخی دورائیے پر ہماری اس زاویہ نظر کو ملٹی ویڑن سے دیکھاجائے نہ کہ ٹنل ویڑن سے۔ وہ اس طرح کہ “ڈارون”کہتاہے۔کہ اس دنیا میں وہ جاندار زندہ نہیں رہ سکتا جو زہین ہو،محنت کش ہو۔بلکہ صرف اس جاندار کی بقاء کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔جو حالات کے موافق چلے گا۔جس کہ واضع مثال ڈائنوسار کی دی جاسکتی ہے۔جس کی نسل آج سے 65 ملین سال پہلے دنیا سے ختم ہو چکا ہے۔کیونکہ اس نے حالات کی موافق نہ چلا۔جس کی قدو قامت ڈھانچہ اور طاقت کی نشانیاں دنیا کے عجائب گھروں اور کتابوں میں داستانوں کی شکل میں باقی ہے۔ اب بلوچ نہ ڈائنوسارسے زیادہ سخت جان ہے۔اور نہ اسے عراقی ،شامی،لیبن کے طرح کے حالات کا انتخاب کرنا چائیے۔ وقت یہی ہے کہ قوم کی ہر فرد حق کا ساتھ دے۔اور باطل،ونادان کی حوصلہ شکنی کرے۔ تو عنقریب بلوچ قوم بڑی خوشحالی اور شان وشوکت سے اپنی قومی بیرک کے سائے تلے آزاد بلوچستان میں زندگی گزارے گا۔ ایک اہم نقطہ یہ کہ جو قومی طاقت کو وسعت دینے سابقہ غلطیوں ،قوم دشمن اعمال ، بلوچ کی قومی طاقت کو دوسرے طاقتوں خاص کر ایران جس کی بلوچ دشمنی قوم صاف صاف اپنی آنکھوں سے نظارہ کیا ہوگا۔ان کی پراکسی نہ بننا۔ بلوچ راجی راہشون واجہ حیربیار مری نے قومی طاقت کو بڑھانے اور یکجا کرنے کیلئے جو شرائط پیش کیئے یہ نہ صرف دوسرے سرکردہ افراد کیلئے ہیں۔بلکہ پوری قوم کے سامنے واضع انداز میں رکھ کر اسے اعتماد میں لنے کیلئے بیان کیئے گئے ہیں۔ آج قوم خود اپنی مکمل سنجیدگی اور توجہ سے دیکھے۔اگر دوسرے تنظیموں کے سرکردہ لوگوں نے اس کی مثبت انداز میں جواب نہ دیا۔قوم کے ساتھ انہوں نے روایتی انداز میں سیاست اور بلیک میلنگ کی۔قوم کے ہر فرد کو چائیے کہ وہ اپنا ذاتی فیصلہ کرے۔اور حق کا ساتھ دے۔ وقت کا انتظار کیئے بغیر۔ کیونکہ اصل طاقت بلوچ مسلح تنظیموں کے پاس نہیں بلکہ بلوچ قوم کے پاس ہے قوم ہی طاقت کا سرچشمہ ہوتا ہیں۔ اسی بنا ء پر امریکہ کو جب ویتنام میں سخت مزاحمت کا سامنا ہوا تھا۔تو ایک امریکی جنرل نے کہا تھا۔کاش ہمارا جنگ ویتنام کی فوج کے ساتھ ہوتا۔نہ کہ ویتنامی قوم کے ساتھ۔ آج قوم نے اس اہم تاریخی موڑ سے بیگانہ رہا۔تو آنے والا سزا پوری قوم کو برداشت کرنا ہوگا۔ مستقبل کا مورخ یہ نہیں کہے گا کہ بلوچ قوم میں اللہ نہ کرے تحریک کی ناکامی میں غلطیاں صرف حیربیارمری ،براھمدغ بگٹی ،ڈاکٹر اللہ نظر سے ہوئی بلکہ پوری بلوچ قوم سے ہوئی بالخصوص آج کے نوجوان سے۔جو سب کچھ کرسکتا تھا۔لیکن مجرمانہ خاموش رہا۔ بلوچ قوم کی اتحاد و آزادی اور کامیابی کی چابی بلوچ قوم کے اپنے ھاتھ میں ہیں۔اب قوم کے ہر فرد کا زہنی سوچ اور ایمان کہ وہ کس طرح کا فیصلہ کرے گا۔آج وقت ہے۔قوم کے پاس صحیح فیصلہ کرنے کا۔وگرنہ۔۔۔ لمحوں نے غلطی کی صدیوں نے سزاپالی۔ راجی راہشون واجہ حیربیار مری بلوچ کا کام تو قوم کی رہنمائی و راہشونی ہے۔جسے اس نے بہترین انداز میں سرانجام دیتا آ رہاہے