خاران(ہمگام نیوز ) پولیس پر حملے میں اہلکار سعید احمد کی مشکوک موت ، پولیس کے من گھڑت بیانیے، پولیس کے اندر گرو بندی کا انکشاف ہوا ہے ۔ اس طرح کے واقعات خاران شہر اور گردونواح میں سینکڑوں کی تعداد میں پیش آچکے ہیں یہ پہلا واقعہ ہے جو مختلف طرزِ بیانیہ اور مشکوک محرکات کو لیکر انتہائی پوشیدہ ہوچکا ہے۔ حملے کے روز سے لیکر ہنوز دانستہ طور پر لاتعداد من گھڑت بیانات پولیس کی جانب سے پھیلائے جاچکے ہیں.
28 اکتوبر کو شام کے وقت خاران شہر میں پولیس پر حملے کی خبر سامنے آئی تھی، اس حملے میں ایک پولیس اہلکار سعید آحمد زخمی ہوگیا تھا اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگیا تھا۔
ویسے تو اس طرح کے واقعے خاران میں سینکڑوں کی تعداد میں پیش آچکے ہیں مگر یہ واقعہ اپنے پوشیدہ اور مشکوک محرکات کو لیکر انتہائی انوکھا ہے۔ حملے کے روز سے لیکر ہنوز دانستہ طور پر من گھڑت معلومات پھیلائے جارہے ہیں۔ اور تہلکہ خیز بات یہ ہے کہ یہ تمام تر جھوٹے معلومات پولیس محکمہ خود ہی پہلا رہی ہے۔
پولیس اہلکار کی شہادت میں کون ملوث ہے؟ یہ حملہ کیسے اور کس طرح ہوا؟ یہ تمام معلومات ابھی تک واضح نہیں۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش یا منصوبے کے تحت پولیس و سرکاری ذرائع معلومات میں ہیرا پھیری کرکے کنفیوژن پہلا رہے ہیں۔
ایک وسیع جدوجہد کے بعد ہم نے یہ رپورٹ تیار کی ہے جس کا مقصد اس پورے معاملے کو حقائق کی روشنی میں خاران کے عوام کے سامنے آشکار کرنا ہے۔ اس سے قبل پھلین خاران نیوز ٹیم اُن تمام ذرائع کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہے جنہوں نے اس ایک ہفتے کے دورانیے میں ہر طرح سے ہمارے ساتھ تعاون جاری رکھا اور ہمیں ہر طرح کے عام یا حساس معلومات کے ساتھ اپ ٹو ڈیٹ رکھا۔
*28 اکتوبر کا واقعہ، پولیس کا فیملی کو جھوٹا دلاسہ*
28 اکتوبر کی شام کو یہ خبر سامنے آئی کہ خاران میں پولیس کی ایک گشتی ٹیم پر فائرنگ ہوا ہے جسکے نتیجے میں ایک پولیس حوالدار جسکی شناخت المعروف ہردلعزیز سعید آحمد کے نام سے ہوئی زخمی ہوگیا ہے۔ سعید آحمد کو ایک گولی سر کے قریب لگی تھی جسکی وجہ سے اس کی حالت تشویشناک تھی۔ حملے کے بعد اسے خاران سول ہسپتال لے جایا گیا۔ مگر وہاں حسب معمول ابتدائی سہولیات تک موجود نہ ہونے کی وجہ سے زخمی پولیس حوالدار کو طبی امداد کیلئے خاران ایف سی کیمپ منتقل کیا گیا۔ تاہم وہاں سے بعد میں اسے فیملی کی مدد سے کوئٹہ ریفر کردیا گیا۔
اس دوران پولیس نے سعید آحمد کی فیملی کو جھوٹا دلاسہ دلایا گیا کہ راستے میں اسے لینے کیلئے آئی جی پولیس کی ہدایت پر ایک ہیلی کاپٹر آئے گا۔ مگر! سعید آحمد ایک غریب پولیس ملازم تھا ناکہ ایک فوجی اہلکار یا ڈیتھ اسکواڈ کا کارندہ جسکے لینے لیے کوئی ہیلی کاپٹر آتا، چنانچہ وہ راستے میں ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ اس کے بعد پولیس نے کس طرح سے پے در پے جھوٹے معلومات کا انبار لگا دیا اسے آگے جاکر واضح کریں گے، البتہ اس سے قبل یہ سعید آحمد کی ذاتی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
*نامعلوم و مشکوک گولی کا شکار پولیس حوالدار سعید آحمد کون تھے۔*
سعید کی ذاتی زندگی اور سماجی تعلقات کو مزید بہتر انداز میں سمجھنے کیلئے ہم نے ان کے فیملی و خاندانی ذرائع، رشتہ داروں، دوستوں اور دیگر قریبی لوگوں سے رابطہ کیا۔
سعید آحمد عرف ساحل جوکہ خاران پولیس کے حاضر سروس حوالدار تھے۔ ایک شریف اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک انتہائی با اخلاق با کردار شخصیت کے مالک تھے۔ یوں تو سب ہی جانتے ہیں کہ خاران پولیس میں بعض کم ظرف اہلکار اور ملازم ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی دو کوڑی کے حوالدار، کانسٹیبل یا سٹیشن افسر کے عہدے پر پہنچ کر اپنی اوقات بھول جاتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کی تذلیل کرتے پھرتے ہیں۔ مگر سعید احمد نے آج کے روز تک کسی بچے، جوان یا بزرگ کے ساتھ کوئی معمولی ایذا رسانی یا بدتمیزی تک نہیں کیا۔
ہر عام و خاص کے ساتھ عزت اور اخلاق کے ساتھ پیش آنے والا یہ نوجوان اپنے کریکٹر اور کریئر دونوں میں انتہائی صاف رہا ہے۔ کبھی بھی پولیس کے بیج کا غلط استعمال کرکے کسی بھی برائی میں شامل نہیں رہا ہے۔ ان کی موت پر خاران کے ہر طبقہ فکر نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
*واقعے میں اصل حقائق کو چھپانے کیلئے سرکار و پولیس نے کس طرح سے غلط معلومات کا انبار اِکٹا کیا*
28 اکتوبر کے اس واقعے کے شروع دن سے ہی ہر طرح کے معلومات کو دانستہ طور پر غلط پیش کیا گیا۔ اس میں نا صرف حملہ کیسے ہوا بلکہ حملے کے مقام تک کو پولیس نے دانستہ طور پر صحیح ظاہر نہیں کیا۔ بلا کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ پولیس کی اپنی گشتی ٹیم پر ایک حملہ ہوتا ہے اور پولیس کو ابتدائی طور پر حملے کے مقام تک کا علم نہ ہو؟ اس پورے دورانیے میں اس واقعے کے متعلق آنے والے ہر معلومات کو ہم انتہائی گہرائی سے دیکھ رہے تھے اور ہمیں یوں لگا کہ جیسے سرکار و پولیس اس واقعے میں حقیقت کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یا تو پولیس حقائق کو چھپانے کیلئے خود تذبذب اور کنفیوژن کا شکار ہے یا پھر دانستہ طور پر عوام کے اندر کنفیوژن پہلا رہی ہے۔ البتہ ایک بات کنفرم تھی کہ یہ افواہیں اور جھوٹی خبریں برائے راست خاران پولیس محکمہ اپنے اہلکاروں و ملازموں کے ذریعے علاقے میں پہلا رہی ہے۔
یہاں تک کے حملے کے وقت سے لیکر کافی وقت گزرنے کے بعد تک پولیس کی طرف سے آنے والی متضاد خبروں کی وجہ سے واقعے کے اصل مقام کا تعین بھی نہیں ہو پارہا تھا۔ کلان، جنگل روڈ نوتانی، شیروزئی کراس، بائی پاس نوروز آباد سمیت پے در پے قریب 5 سے 6 مختلف مقامات بتائے گئے۔
اسی طرح یہ سوال کہ آخر یہ واقعہ پیش کیسے آیا، جہاں سعید احمد کی فیملی سے لیکر خاران کا ہر شخص کنفیوژن کا شکار تھا وہی دوسری جانب مزید کنفیوژن پھیلانے کیلئے پولیس ہر باری میں ایک بلکل ہی الگ کہانی پیش کررہی تھی۔
پہلے صرف اتنا بتایا گیا کہ پولیس کی گشتی ٹیم پر فائرنگ ہوا ہے، اس کے ساتھ ہی ابتدائی طور پر یہ معلومات دی گئی کہ ایک شخص جوکہ حملہ آور تھا وہ فصلوں میں سویا ہوا تھا اور پولیس کے پہنچتے ہی اس نے فائر کھول دیا اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ نہیں حملہ آور درخت کے پیچھے تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر سامنے آئی کہ بائی پاس سے چند میٹر دور ایک آلٹو گاڑی کھڑی تھی جس میں عورتیں بھی سوار تھیں، پولیس کی گشت اس جانب جارہی تھی تو گاڑی والے نے ان پر فائرنگ کیا۔ ایک وقت میں یہ بھی بتایا گیا کہ گشتی ٹیم جوکہ دو موٹر سائیکل اور چار اہلکاروں پر مشتمل تھا، حملہ آور آئے ہیں اور آگے والے کو چھوڑ کر سیدھا پیچھے والے موٹر سائیکل کو نشانہ بنایا جس پر سعید احمد سوار تھا۔
اس دوران حملہ آور کی تعداد کو لیکر بھی پولیس نے لاتعداد من گھڑت معلومات فراہم کیے۔ پہلے یہ بتایا گیا کہ حملہ آور ایک تھا جو با آسانی تین جدید اسلحہ رکھنے والے تربیت یافتہ پولیس اہلکاروں کے سامنے سے پیدل فرار ہوگیا، پھر بتایا گیا کہ نہیں دو تھے۔ چلو اتنا سمجھ آتا ہے کہ شاید تفتیش ذرا برابر اونچ نیچ ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے بعد یہ خبر بھی سامنے آئی کہ حملہ آور نہ ایک نہ دو بلکہ دو موٹر سائیکلوں پہ سوار چار تھے۔
یہ تمام خبریں 99 فیصد پولیس پہلا رہی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کیونکر اتنے متضاد بیانیے اور خبریں پہلا رہی ہے۔ حالانکہ اس طرح کے واقعات خاران میں درجنوں کی تعداد میں پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ پولیس کی گشتی ٹیم پر حملہ ہوتا ہے، ایک کو چھوڑ کر باقی تمام اہلکار سلامت ہیں اور پھر بھی پولیس کا بیان ایک نہیں ہے کہ حملہ کیسے ہوا۔
اسکے علاوہ پولیس کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعید احمد خود اپنے یا اپنے ہمراہ دوست کے پسٹل سے کا غلطی سے نشانہ بنا ہے.
پولیس کے مطابق حملہ 142 فیٹ دور پسٹل سے کیا گیا ہے۔ جبکہ 142 فیٹ دور سے وہ بھی شام کے وقت پسٹل سے کسی کو نشانہ بنانا قریب ناممکن ہوتا ہے اور نا ہی اتنی دور سے پسٹل کی گولی اتنا اثر انداز ہوتا ہے۔
پولیس کے من گھڑت بیانات یہاں نہیں رکھے۔ اس کے بعد پولیس نے واقعے کو اس طرح بھی بیان کیا کہ پولیس کی گشتی ٹیم نے ایک مشکوک موٹر سائیکل دیکھا اور اس کا پیچھا کیا، اسی دوران اس موٹر سائیکل پر سوار شخص نے پیچھے دو، تین فائرنگ کیے اور ایک گولی حوالدار سعید آحمد کو لگی۔
ایک وقت میں پولیس کی جانب سے یہ بھی خبر سامنے آئی کہ حملہ آور منشیات فروش تھے۔
*کیا خاران پولیس پر اعتبار کیا جاسکتا ہے؟*
اس واقعے سے ایک روز قبل رات بارہ بجے بھی پولیس کے اوپر حملہ ہوا تھا، سوال یہ ہے کہ وہ حملہ کس نے کیا تھا؟ کیا ان دونوں واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے یا پولیس زبردستی ان کو آپس میں جوڈنا چاہتا ہے
ان تمام جھوٹے خبروں کے علاوہ خاران پولیس کی ماضی بھی یہی ثابت کرتی ہے کہ یہ محکمہ کسی بھی اعتبار سے قابل اعتماد نہیں ہے۔
چند سال قبل کسی معمولی جرم کے الزام میں گرفتار ایک نوجوان کو دوران حراست پولیس نے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ لاکپ میں ہی دم توڑ گیا۔ پولیس نے اپنی گریبان بچانے کی خاطر اسے رسی سے باند کر لیٹرین کے اندر لٹکا دیا اور یہ خبر پھیلایا کہ اس نے خودکشی کی ہے۔ اس طرح کے اور کہیں واقعات ہیں جو پولیس کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہیں۔
حال ہی میں پولیس کے اندر گروپ بندی کے انکشافات بھی سامنے آئے ہیں۔ اس وجہ سے اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سعید آحمد اسی گروپ بندی اور آپسی جگڑے کا شکار ہوا ہے۔
*پولیس کا ایک حملہ آور کو گرفتار کرنے کا دعویٰ*
پے در پے لاتعداد جھوٹے بیانات کے بعد اب پولیس کا یہ کہنا ہے کہ حملے میں ملوث حملہ آور کا ایک ساتھی گرفتار ہوچکا ہے جوکہ منشیات فروش ہے۔ لیکن ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود اس حملہ آور کی شناخت سامنے نہیں آئی ہے حالانکہ پولیس قانونی طور پر کسی بھی گرفتار ملزم کو ایک دو دن کے اندر عدالت میں پیش کرنے کا پابند ہے۔ اس دلاسے پر پولیس نے سعید آحمد کی فیملی کو احتجاج کرنے تک سے روکے رکھا ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ہم ملزم کا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے کہ کہیں اسکا ساتھی بھاگ نہ جائے۔
کبھی پولیس کہتی ہے کہ منشیات فروش ہے اور کبھی کہتی ہے کہ سرنڈر شدہ کوئی شخص ہے۔ چونکہ یہ دونوں کیٹگری کے لوگ ریاستی فوج کی حفظ و امان میں رہتے ہیں تو اس میں پولیس سے یہ امید رکھنا کہ وہ ایسے کسی ریاستی آلہ کار کو پکڑ کر سزا دلوائے گا، فضول ہے۔
*اس واقعے میں آزادی پسند تنظیمیں کہاں کھڑی ہیں؟*
اس واقعے کے رونما ہوتے ہی عوام کی اکثریت بشمول سعید آحمد کے قریبی لوگوں نے یہ سوچ کر کچھ بولنے یا احتجاج کرنے سے گریز کیا کہ شاید یہ کسی آزادی پسند تنظیم کی کاروائی نہ ہو۔
پھلین خاران نیوز ٹیم نے سب سے قبل بلوچ لبریشن آرمی اور اس کے بعد دیگر آزادی پسند تنظیموں کے تمام علاقائی ذمہ داران اور سرمچاروں سے رابطے کرکے اس حملے کے متعلق ان سے سوالات کیے۔ تمام سرمچاروں اور ذمہ داران نا صرف اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ اکثر نے ذاتی پہچان کی بنیاد پر افسوس کا اظہار کیا کہ سعید آحمد ایک بہت ہی اچھا اور تحریک کا انتہائی ہمدرد انسان تھا۔
چونکہ ہر ذی شعور اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ اس طرح کے کسی بھی حملے کے پیش نظر ریاست کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ اس حملے کو آزادی پسند تنظیم کے اوپر ڈال کر معاملہ رفع دفع کرے، اس بابت یہ بھی خدشہ ہے کہ اس واقعے میں بھی اگر ریاستی اداروں بشمول پولیس پر پریشر پڑا تو شاید وہ حسب فطرت کسی بے گناہ نوجوان کو اُٹھا کر اسے آزادی پسند تنظیم کا سرمچار ظاہر کرکے ذمہ داری اس کے اوپر ڈال دیں اور اپنی جان خلاصی کریں۔
محمد نور مسکانزئی کے واقعے میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح پاکستانی خفیہ اداروں نے سی ٹی ڈی کے زریعے ایک بے گناہ نوجوان کو اٹھا کر اس کے اوپر محمد نور کے قتل سمیت 5 الگ تنظیموں بی ایل اے، بی ایل ایف، بی ار اے، بی ایل ٹی. یو بی اے، کے کاروائیاں ڈال کر اپنے تاریخی جھوٹ کا پول کھول دیا۔
آزادی پسند تنظیمیں کبھی پولیس کی گشتی ٹیم پر حملہ نہیں کرتے۔ اگر پولیس کے اندر عبدالرحمن لالو یا عید محمد جیسا کوئی آلہ کار ہو تو اسے برائے راست سزا دیتے ہیں۔ کیونکہ سب ہی جانتے ہیں کہ لوکل پولیس محمکہ مجموعی طور پر سرمچاروں کا نشانہ نہیں ہے۔
آخر میں ایک بات تو صاف واضح ہے کہ پولیس محکمہ کچھ چُھپانے کی کوشش میں جھوٹ پہ جھوٹ بولے جارہی ہے۔ اب اگلے کچھ دنوں میں سرکار و پولیس اپنی جان خلاسی کیلئے کیا کریں گے، کس کو بھلی کا بکرا بنائیں گے یہ وقت بتائے گا، البتہ پولیس یا کسی بھی سرکاری ادارے فوج ایجنسیز کی بیانیے پر یقین کرنا خود کی آنکھوں میں مٹی ڈالنے کے مترادف ہے۔