دنیا میں ہر سال 8 مارچ کو یوم خواتین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ آج سے تقریباً 117 سال پہلے یعنی 1908ء کو امریکہ میں یہ دن خواتین کے حقوق کی نسبت سے مقرر کیا گیا تھا ۔ اور بعد میں اس دن کو عالمی وسعت دی گئی ۔ 1977ء میں اقوام متحدہ نے بھی اس کو تسلیم کرلیا ۔ اب یہ دن پورے عالَم میں منایا جاتا ہے۔

اس کے پیچھے کیا وجوہات تھیں کہ اس دن کو عالمی یومِ خواتین کا نام دیا گیا ؟ آپ اگر غور کریں اور دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں پہلے خواتین کو کچھ بھی حقوق نہیں دیے جاتے تھے بلکہ ان کے حقوق چھینے جاتے تھے، ان کے استحصال کا یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔ پہلی بار خواتین نے اس سے قبل فرانس میں ایک انقلاب برپا کیا ۔ اسی طرح انہوں نے اپنے سیاسی، معاشی و سماجی حقوق لینے میں کامیاب ہوگئیں۔

117 سال سے اس دن کو منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی اگر آپ دیکھیں تو آج تک خواتین کے حقوق برابر ان کو نہیں مل پائے ۔ خواتین کو آج بھی سیاسی و سماجی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔

اس دن کو منانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ خواتین کے حقوق دیے جائیں یعنی معاشی، سماجی و تعلیم کا حق وغیرہ۔ خواتین کو آج بھی ہمارے معاشرے میں حقیر نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ ان کا استحصال کیا جاتا ہے ۔ ان سے صرف گھریلو کام لیے جاتے ہیں ۔ حالانکہ یہ سوچنے کی بات ہے کہ خواتین بھی انسان ہیں ان کے بھی حقوق ہیں جس طرح مرد کے حقوق ہیں۔

خواتین ایک انقلابی معاشرے میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ انقلاب کی رو سے دیکھا جائے تو عورتیں ہی مزاحمت کی جڑ ہیں ۔ انقلاب فرانس اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اگر ہم بلوچ معاشرے میں دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں بھی انقلاب خواتین کے بغیر ادھورا ہے۔

خواتین ہماری قومی تحریک کی روح ہیں ۔ اس کی مثال آپ اس طرح لے لیں کہ اگر ایک درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جائے تو وہ خشک ہو جاتا ہے۔ اس کی ہریالی ختم ہو جاتی ہے ۔ اور اس کے اوپر لگے پھول خشک ہو جاتے ہیں اور پھل گل سڑ جاتے ہیں ۔ تو ہمیں اس سے یہ اندازہ لگانا چاہیے کہ ہماری جڑوں کے اکھڑنے کے بعد ہم بھی کمزور ہو جائیں گے ۔ایک بلوچ عورت کےلیے یہ جاننا ضروری ہے کہ میرے اس معاشرے پہ کیا کیا حقوق ہیں ؟ اور اس کو ان کےلیے جدوجہد کرنی چاہیے ۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں کے بنیادی حقوق میں ان کی تعلیم بھی آجاتی ہے ۔ اکثر ہماری خواتین غیر تعلیم یافتہ ہیں۔

آپ اندازہ لگائیں کہ ان کا دسواں حصہ بھی تعلیم سے محروم ہے۔ لیکن جتنی بھی تعلیم یافتہ ہیں ان کی جدوجہد کی وجہ سے آج ہماری قومی تحریک کس قدر اہمیت حاصل کر چکی ہے ۔ اگر ہمارے معاشرے میں عورت کی تعلیم پر زور دیا جائے تو لوگ انقلاب فرانس کی طرح یہاں بھی انقلاب کا منظر دیکھ سکیں گے ۔ خواتین اپنے تمام انسانی حقوق کے معاملے میں استحصال کا شکار ہیں۔ ہمیں خواتیں کو برابر کا انسان سمجھنا چاہیے اور ان کے حقوق کی تحریکوں میں فکری و عملی طور پر شامل ہونا چاہیے۔ خواتین ہی ہماری جڑ ہیں۔ اگر ہماری جڑ مظبوط ہوگی تو ہمیں گرانا آسان نہیں ہوگا نہ کہ ہماری زبان ، تاریخ اور جغرافیہ کو مٹایا جاسکے گا ۔