تحریر:حفیظ حسن آبادی
درحقیقت غلام قوموں کی عید ایک خود فریبی سے بڑھکر کچھ نہیں ہوتا تاہم وہ اپنے محرومیوں، اپنے ساتھ روا رکھا ذلت آمیز رویوں ،غیر محفوظ چادر و چاردیواری و غیر محفوظ مستقبل کے غموں سےقلیل مدت ہی سہی نجات پانے دنیا کیساتھ رسم دنیا کیلئے یہ دن مناتے ہیں جو خوشی کے اظہار کیلئے اندر کے غموں کو دباکر چہرے پر مسکاں سجانے کاکربناک تریں مرحلہ ہوتاہے ۔
جب کوئی قوم بلوچ قوم کی طرح حالت جنگ میں ہو اور نسل کُشی کے عمل میں صحراؤں، میدانوں، گلیوں کوچوں سے مسخ شدہ لاشیں سمیٹ کر اُن کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ سے محروم رکھا گیا ہو،اُسکے چھوٹے سے چھوٹے گاؤں سے لیکر چھوٹے بڑے شہروں تک کوئی ایسی آبادی نہیں جہاں کوئی غائب نہ ہوا ہو وہ کیسے دنیا کی طرح اپنے درد سے لاتعلق ہو کر خوشی منا سکتا ہے؟۔
ایسے خوشی کے موقع پر جو چیز سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے وہ اپنے پیاروں کے کھونے یا اُنکے غائب ہونے کے غم کیساتھ یہ دکھ الگ سینے میں انگار ماند دہکتا ہےکہ اس قومی و اجتماعی المیہ کے غم شریک کیوں اتنے قلیل ہیں ؟ ہرطرف موت کا رقص باوجود کیوں ایسے سیاسی گدھ اپنی کاروائیاں برقرار رکھ سکے ہیں جو اس غم سے نڈھال ماوں بہنوں کی ایک ایک آنسوکی موتی اپنی سیاسی کامیابی کیلئے بیچنے سے نہیں ہچکچاتے اور اُوپر سے ہمدردی کا ڈھونگ کرنا بھی ترک نہیں کرتے ؟
بلوچستان میں علماء ہوں کہ دائیں بائیں بازوکے سیاستداں یاقوم پرستی کا نام لینے والے سورما سب کے سب اقتدار پانے بلا امتیاز اس بے حسی کے سنگین جرم میں ملوث ہوکر وطن فروشی و برادر کُشی کے مرتکب رہے ہیں ۔ اس دوراں کوئی بھی ایسا سیاسی جماعت نہیں کہ اُس نے ووٹ لیتے وقت ان بدنصیبوں کی مسخ لاشوں کا سلسلہ روکنے اور گمشدگاں بازیابی کی جھوٹی تسلی نہیں دی ہو مگر منزل تک پہنچے بعدہر ایک دوسرے سے زیادہ لاچار ی کے عذر میں بے زباںومنافق نکلا ہے ۔
گمشدگیوں کاجو نیاسلسلہ اٹھارہ اکتوبردوہزار ایک سے اصغربنگلزئی کے اغواء و گمشدگی سے شروع ہوا وہ تاحال ایک تسلسل کیساتھ جاری ہے یہ الگ بات ہے اس میں نرمی اور تیزی ضرور آتی رہی ہے وہ بھی ریاست نے اپنے مخصوص منصوبے کے تحت ایسا کیاہےاور کرتا رہے گا اسمیں نہ کسی کی سفارش کا عمل دخل ہے اور نہ کسی آہ وبکا کاکیونکہ اگر کوئی ایک دن میں دو گمشدگان کی بازیابی کا کریڈٹ لینے بغلیں بجاتا ہے تو وہ اگلے دن دس بیگناہوں کے غائب ہونے پر اپنی شرمندگی و ناکامی کابھی اعتراف کرتا اگر ایسا نہیں ہے تویہ سستی شہرت اور معصوم و مجبور لوگوں کے جذبات کیساتھ کھیلنے کے سوا کچھ نہیں۔
اس المیے کا ایک اور پہلو بھی بہت افسوسناک ہے کہ آزادی پسند قیادت اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں بھی اُس عالمی دنیا کوبلوچ کے بلا امتیاز قتل اور گمشدگیوں پر سنجیدہ اقدامات اُٹھانے قائل نہ کرسکے جو انسان تو کیا ہر جاندار شے کی حقوق کیلئے لڑتے ہیں ۔نہ اپنے درمیان ایک یک نکاتی ایجنڈے پر کام کرنے اتفاق رائے قائم کرسکے اور نہ ہی اپنے جیسے مظلوم پشتون اور سندھیوں کے درمیان اشتراک عمل کا کوئی موثر و قابل عمل فارمولا طے کرسکے نتیجے میں سب ایک دوسرے سے ہمدردی رکھنے اور ایک دوسرے کا درد محسوس کرنے باوجود الگ الگ قسطو ںمیں بے توقیر ،غائب اور مسخ لاش میں تبدیل ہوکر مار جارہے ہیں ۔
مظلوم بلوچ ،پشتون سندھی اُس وقت تک دنیا کی طرح عیدکو خوشی نہیں منا سکتے جب تک اُنھیں اُنکے بچوں کی لاشیں پھینکنے والوں،اُنکے بچوں ،بزرگوں ،ماوں ،بہنوں کو غائب کرنے والوں اوراُنکی چادر وچاردیواری کا تقدس پائمال کرنے کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا جاسکے اور ایسا ہونا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک ظالم اور مظلوم کے رشتے کے تعین کیساتھ ظالم کی شکست اور مظلوم کی آزادی ممکن نہیں ہوئی ہے۔
بلوچ چونکہ اس سلسلے میں پہلے سے آزادی کے نعرے کیساتھ میداں میں نبرد آزما ہیں اور سندھیوں اور پشتونوں میں بھی ایسے طبقے کی موجودگی قابل مسرت ہے کہ جوپاکستان کے نام پر پنجابی کی قبضہ گیریت کے حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں اور اپنی تاریخی حیثیت کی بحالی کیلئے آزادی حاصل کرنے اپنی تہیں کوششوں کا آغاز کرچکے ہیں ۔
ابتدائی مرحلے میں بلوچ آزادی پسند قیادت اپنے درمیان ثانوی حیثیت کے مسائل سے صرف نظر کرکے ایک ساتھ کام کرنے اور اپنی آواز کو موثر بنانے یکجہتی کی طرف قدم بڑھائیں بعد میں مظلوم پشتون و سندھیوں کیساتھ ملکر اُن نکات پر مشترکہ جدوجہد کافارمولا طے کریں جہاں اُن میں کوئی تضاد موجود نہیں اور ایسا کرکے وہ ایک دوسرے کیلئے معاون و مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔کیونکہ اگربلوچ قیادت نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرکے پہلے اپنی بکھری قوت کو سمیٹا اور بعد میں پشتون و سندھیوں کو ایک ساتھ چلنے اورمشترک جدوجہد کی راہیں تلاش کیں تو دنیا کی کوئی طاقت اُنکی کھوئی ہوئی آزادی واپس حاصل کرنے اور اُنکی نسلوں کو خوشحال زندگی گزارنے اور دنیا کی مانند عید کو عید کی طرح منانے سے روک نہیں سکتا ۔
{ختم شُد}