اِک چراغ علم کا روشن تھا بُجھا تیرے بعد. دہر میں پھر کوئی تجھ سا نہ رہا تیرے بعد! 16 مارچ 2010 آج بھی ہزاروں دلوں کو غمزدہ کرتا ہے بلوچ قوم ایک عظیم دانشور اور عالم دین سے محروم ہوئے لیکن اس عظیم شخصیت کا فکر و فلسفہ آج بھی ہمارا رہنمائی کرتا ہے مولانا عبدالحق بلوچ علماء کرام میں وہ یکتا عالم دین تھے جو بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے سرکل’ سیمنارز میں نوجوانوں کا فکری تربیت کرتے رہے. مولانا عبدالحق بلوچ اپنی سیاسی وابستگی سے بلند سوچ کے مالک اور بلوچ تحریک آزادی کے پرجوش حامی تھے ۔اُن کے تمام قوم دوست جماعتوں کے ساتھ قریبی تعلقات تھے مولانا کا وہ فتویٰ تاریخ کا حصہ بن چکاہے جس میں انہوں نے ببانگ دہل جنگ آزادی میں لڑنے والے سرمچاروں کو اسلامی نکتہ نظر سے بھی شہیدقرار دیا تھا’ مولانا وقت کے فرعون کے سامنے سجدہ زیر نہیں رہا بلکہ ہر اسٹیج اور دیوان میں کہتا تھا کہ بلوچستان ایک آزاد خودمختار سرزمین تھا پاکستانی قبضہ ناجائز اور بلوچ جنگ آزادی جائز ہے. مولانا عبدالحق بلوچ نے قوم کو بیدار کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی نے بلوچ سرزمین کو دولت اور وسائل سے مالا مال کیا ہے اور انکی حفاظت بلوچ قوم پر فرض ہے. مولانا طویل عرصے سے اپنی علالت کے باعث سیاسی طور پر متحرک کردار ادانہ کرسکے لیکن بلوچ سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اور اصلاح احوال کے لیے وقتا ًپہ وقتاًاپنا کردار اداکرتے رہتے تھے ۔ان کی شخصیت اور کردار بلوچ علما ءکے لیے ایک مثال ہے ۔ان کی وفات سے بلوچ قوم ایک ایسی ہستی سے محروم ہوگئی ہے جواسلامی اصولوں پر کاربند رہنے کے باوجود بلوچ رسم ورواج کا پیکر تھے. سادہ مزاج درویش صفت مولانا عبدالحق بلوچ دزمال کو دستار اور بلوچی سواس کے ساتھ ہر وقت بلوچ دود ربیدگ کا پاسبان تھا. مولانا عبدالحق بلوچ فرماتے ہیں کہ قومیت ایک غیر اختیاری اور فطری وحدت ہے ‘ جب کہ مذہب ایک اختیاری وحدت ہوتی ہے ‘ جسے انسان اپنے اختیار سے بناتا ہے’ لہذا مذہب کا قوم اور قومیت سے تصادم درست نہیں لیکن ایک طرف ہمارے علماء کرام نے ایک اختیاری چیز کو غیر اختیاری دائرے سے متصادم کردیا. مولانا عبدالحق بلوچ اپنے فکر سوچ خیالات سے کبھی اپنے قوم اور وطن کو فراموش نہیں کرسکے جس طرح دیگر علما کرام نے مذہب کو اپنے ہر عمل میں لپیٹ کر ہر طرح سے اپنے قوم اور وطن سے دور بھاگ جاتے ہیں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا. ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ جہاد ظالم بادشاہ کو حق بات کہنا ہے۔ تشریح.. کلمۂ حق سے مراد ظالم بادشاہ کو کسی نیکی کا حکم یا کسی برائی سے روکنا ہے یہ کام خواہ الفاظ سے کرے یا لکھ کر یا اس کے علاوہ کسی اور طریقہ سے کرے۔ لیکن مولانا عبدالحق بلوچ کے بعد ہمارے ھان ایسے علماء کی شدید قلت پیدا ہوا ہے جو مظلوم بلوچ قوم کے ساتھ ظلم و ستم پر حق گوئی تو کجا ‘ مذمت تک گورا نہیں کرتے ہیں اور اکثر علماء پاکستانی طاقت کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ہیں- اور ہمارے بیشتر علماء کرام جو دشمن کے کھود میں بیٹھ کر پاکستانی جبر پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور اپنے خطبہ میں لوگوں کو جہنم سے ڈرتے ہیں. لیکن جہان ایک قابض ‘ ظالم درندہ نے بلوچستان کو جہنم بنا دیا ہے بچوں’ خواتین سب اسکے بے رحم جبر کے شکار ہیں۔ قرآن و حدیث کی رو سے اس درندگی پر علماء نے چُپ کا روزہ رکھا ہے. اپنے گھر کے سامنے ہمسایہ کا جلتا گھر ‘ روڑ کے کنارے پڑا مسخ شدہ لاش ‘ 20 ہزار ماؤں کا چیخ و پکار درجنوں خواتین کا پِس زندان اور معصوم بچوں کی چیرتے ہوئے سینے پر میرا علما کرام اندھا بہرا اور گنگا اور یہان ہزاروں دور میل کشمیر فلسطین برما پر انکا غیرت ایمانی جوش مارتا ہے اب اسکو چاپلوسی کہوں یا ظالم ریاست کا خوف ؟ بقول شہید صبا دشتیاری کے تمام بلوچ ملا مولانا عبدالحق کے قبر پر قربان ہوجائیں. مولانا عبدالحق صرف لفاظیت نہیں بلکہ عملاً بلوچ سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ ہر سرکل میں انکا رہنمائی فرماتے رہے. ایک دیوان میں مولانا عبدالحق نے بلوچ نوجوانوں کو لیکچر دیا اور سوال جواب کے نشت میں کسی مدرسہ کی طالب علم نے مولانا سے سوال کیا کہ ہم دین اسلام کے داعی چونکہ یہ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام حق سچ دین اور محمدؐ ہمارا رہبر قائد ہے پھر ہم کس طرح ان ( لینن’ مارکس ) والوں کے تعلیمات کا پرچار کرنے والوں کے ساتھ کام کر سکتے ہیں. تو مولانا نے مُسکراتے ہوئے فرمایا جب زمین ہوگا تو ملا اپنا مسجد بنائے گا ‘ شرابی اپنا شراب خانہ. بلوچستان سب بلوچوں کا وطن ہے بلوچستان ہوگا تو ہم ہونگے پہلے سب اپنے وطن کی حفاظت کرو جب وطن ہوگا ہر کوئی اپنے فکر او سوچ کا تشریح کرے’ مولانا عبدالحق بلوچ کی زندگی بڑی سادہ اور ہرقسم کے تعصب سے پاک تھی۔ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری نقش ان کی سادگی، اور ظاہر اور باطن کی یکسانی ہی کو اُبھرتا ہے۔ حق کی تلاش، حق کا قبول اور حق کی راہ پر استقامت ان کی زندگی کا خلاصہ تھا۔ علم و عمل کے اعتبار سے بلندمرتبہ انسان تھا کتابوں سے ان کو غیرمعمولی شغف تھا۔ مولانا عبدالحق بلوچ ایک عالم دین ‘دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ سرزمين بلوچستان کا ایک حقیقی فرزند اور عاشق تھا۔ وہ بلوچ اتحاد کا داعی اور طلبگار تھا. وہ کئی مرتبہ بلوچ آزادی پسند قیادت اور ورکروں سے گھنٹوں کا نشستیں کرتا تھا اور اتحاد کے حوالے سے انکو نصیحت کرتے رہے اور ہر سرکل میں وہ اتحاد پر زور دیتا رہا . ایک دیوان میں کسی نے مولانا سے سوال کیا کہ آپ ایک وفاق پرست مذہبی جماعت میں ہوتے ہوئے بھی آزادی کا بات کرتے ہو تو مولانا نے مسکراتے ہوئے فرمایا یہ زمین کسی ایک طبقہ کا نہیں ہے جب یہ خوشحال ہوگا تو مُلا میان دہری سیکولر لبرل بلوچ شوان امیر غریب سب خوشحال ہونگے جب زمین نہیں ہوگا تو ہمارا کوئی شناحت نہیں ہوگا. ایک آزاد وطن کے لیے ایک قوم زمین زبان کی ضرورت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بلوچ کو ایک خوبصورت زمین زبان اور رسم و رواج سے نوازا ہے ہر بلوچ پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے زمین کا حفاطت کرے اور یہی زمین ہمارا پہچان ہے’ واجہ مولانا عبدالحق کے عظیم فکر او سوچ پر اگر اسکے ہمسر علما دین پورا نہيں اترتے لیکن آج نئے نسل کے دینی مدارس کے طلبا مولانا کے فکر او فلسفہ کی پرچار کرتے ہیں اور جہد آزادی کے پر جوش حامی ہیں.اور اُمید کرتے ہیں کہ بلوچ قوم سے تعلق رکھنے والے دینی طلباء علماء کرام مولانا عبدالحق بلوچ کی فکر و سوچ پر عمل پیرا ہوکر مظلوم بلوچ قوم کی رہنمائی کریں گے اور اس قومی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرینگے.