تحریر: رندانی گٹ
ہمگام کالم:
اب ہمارے ہاں بلوچ قومی تحریک کے حوالے کچھ کٹر ذہنیت کے لوگ بیہودہ سوال اٹھاتے ہیں کہ دنیا نے بلوچوں کیلئے کیا کیا ہے؟ ہم کیوں دنیا کے پروٹوکول اور قائد و قوانین کا احترام کریں؟ میرے بھائی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ورترین ملک امریکہ کے ایوان نمائندگان میں بلوچستان کی آزادی کے حق میں ایک قرارداد H.Con.Res.104 پیش کی گئی ۔۔ کیا آپ نے اسے فالو اپ کیا؟ کیا اسکی کامیابی کے لیے کوئی سفارتکاری اور لابینگ کی گئی؟ نہیں! وجہ؟ اس حد تک کانگریس میں ریپبلکن ممبراں کو سنگت حیربیارمری اور خان صاحب نے کنونس کرنے کی کوشش کی کہ وہ امریکی ایوان میں بلوچستان کی کیس کو سنوائیں مگر اسی وقت ہمارے دوسرے نام نہاد آزادی پسند پیٹھ پیچھے سنگت حیربیار کی کوششوں کو سپورٹ کرنے کی بجائے الٹا اسے یک و تنہا کرنے کی غلیظ حرکتوں میں مصروف تھے۔ دنیا کی تیسری طاقت ہندوستان کی عوام نے بھی بلوچستان کی آزادی کے مطالبے کو سپورٹ کیا اور میڈیا میں بھرپور انداز میں کوریج دی ہے۔ اسی طرح بنگلادیش جو پاکستانی جبر کا شکار بناتھا اسکی خارجہ پالیسی میں بلوچستان کی آزادی بھی شامل ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں نے سرکاری طور پر نہیں لیکن اہم عہدوں پر فائز اہل کاروں بلوچ آزادی کی تحریک کی حمایت کی ہے۔ سعودیہ کی میڈیا نے بلوچ کرائسس کے حوالےسے باقائدہ ٹی وی پروگراموں میں خلیج میں موجود بلوچ سیاسی ورکروں کو باقاعدہ انٹرویو بھی کیا ہے، لیکن جب سنگت حیربیار مری سعودی کے نئے ولی عہد محمد بن سلمان السعود کے نئے سیاسی اصلاحات کو خوش آمدید کہتا ہے اور بلوچ کاز کیلئے عرب اور بلوچوں کے تاریخی رشتوں کے حوالے خلیجی ممالک سے حمایت طلب کرتا ہے تو ڈاکٹر بلا وجہ سیخ پا ہوتا ہے اپنا ٹویٹر شوٹ داغ دیتا ہے۔ اسی طرح جب خان آف قلات امریکہ میں امریکی سیاسی نمائندوں اور میڈیا کے ساتھ رابطہ کرتا ہے تو ڈٓاکٹراللہ نظرنے اپنا ٹویٹر شوٹ داغتے ہوئے خان صاحب کو ایک مطروقہ کردار قرار دیا۔ کیا ایسی حرکتوں سے اندرونی استحکام اور بیرونی سپورٹ مل سکتا ہے؟ قومی تحریک کے سیاسی سفارتی اور عسکری لوازمات کو پورا کرنے کیلئے سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ سیاسی استحکام کے بجائے یار دوستوں نے تحریک میں خودکش عمل کو متعارف کروایا ہے جوکہ تا حال اسکی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اس نئے خودکش ایپروچ کے منفی فال آوٹ negative fall out براہ راست آئیندہ کے تمام ممکنہ سفارت کاری پر اثر کرینگے کیونکہ دنیا کی نئی عالمی نظام، نیو انٹرنیشل آرڈر، new international order میں خودکش یا فدائی حملےقابل قبول نہیں ہیں، چہ جائے کہ کسی ملک کی سفارت خانہ پر حملہ کیا جائے۔ کسی ملک میں کسی ملک کی سفارت خانے کی اہمیت ایک ریاست کی ہے۔عالمی قوانین کے مطابق آپ عسکری لباس میں کسی ملک کی سفارت خانہ میں جا نہیں سکتے۔ ایران کی وحشی ملاؤں نے تہران میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا، اس حملے کو آج تک قبول نہیں کیا گیا۔ کابل پر طالبان نے جب چھڑائی کی تو صدر نجیب اللہ نے اقوام متحدہ کے سفارت خانے میں پناہ لی، لیکن بین الاقوامی پروٹوکول کی پرواہ کئے بغیر اقوام متحدہ کے سفارت خانے پر چڑھ دوڑے۔۔ ہم سب جانتے ہیں ایسے جاہل ملا لوگ طاقت اور اقتدار حاصل کرنے کے باوجود دنیا کے ساتھ آج نارمل تعلقات قائم نہ کرسکے۔ فدائی حملے صرف اور صرف اس صورت میں جائز ہوسکتے ہیں جب کوئی اپشن باقی نہ رہے’Desperate Times Call for Desperate Measures ۔ لیکن کئی آپشنز کی موجودگی میں تحریک میں ایسا سخت انتہا پسندانہ قدم اٹھانے سے بہت سے اندرونی اور بیرونی شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ پہلا آپشن ، ایسے انتہا پسندانہ قدم اٹھانے سے پہلے کیا سیاسی اور عسکری میدانوں میں کوئی اشتراک عمل کے آپشن پر کبھی غور کیا گیا کہ نہیں؟ نہیں! اگر اشتراک عمل کے تصور کو عملی جامعہ پہناتے تو نتیجہ بلکل مختلف ہوتا! اس حوالے سنگت کا بیان رکارڈ پر موجود ہے کہ اشتراک عمل کے بغیر ہم اس تحریک کو کامیاب نہیں کراسکتے! دوسرا آپشن تمام آزادی پسند قوتوں کا ایک قومی کونسل تشکیل پاتا جسکی سیاسی قیادت کے تحت تمام عسکری قوتیں ایک قومی فوج تشکیل دے دیتے۔ اس سے نہ صرف بلوچ عوام میں اعتماد آتی اور قومی تحریک کو ہر طرح سپورٹ کرتے بلکہ بین الاقوامی قوتوں کو بھی تحریک کو سپورٹ کرنے میں کوئی سفارتی مشکلات بھی پیش نہیں آتے کیوںکہ جھگڑالو قوموں کو کوئی گھاس تک نہیں ڈالتا۔ قومی آزادی کی تحریک ہاسٹل کی طلباء سیاست نہیں جہاں ٹانگ کیچھنے سے آزادی ملے۔ اس کیلئے میچورقومی سیاست کی ضرورت ہوتی ہے جس کا رخ ڈائرکشن دشمن کی طرف کی ہو۔ بلوچستان کی موجودہ آزادی پسند تحریک کی نقائص اور کمزوریوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا یہ حیال ہے کہ بی ایس او کی ابتدائی تقسیم اینٹی سردار کے نعرے سے شروع ہوئی اور یہ تقسیم آج تک قومی تحریک کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ مکران کے لوگوں کو قومی تحریک میں جب شامل ہونے کی دعوت دی گئی تو وہ فقط اینٹی سردار کے نظریہ پر راضی ہوئے۔” قومی جامع بلوچستانمسجد بنانے کی بجائے انہوں نے اپنے طقبہ کا مکران محلہ والا چھوٹی سی مسجد بنانے کو ترجیح دی۔ یہ صریحا ایک نظریاتی تقسیم تھی جس کا بھیج واحد کمبر اور انکے ساتھیوں نے بی ایل ایف کی شکل میں بویا۔ انکی سوچ میں انقلاب کے مغالطے کے عنصر نے قومی تحریک کو ’قومی‘ ہونے نہیں دیا اسے دو واضع نظریاتی لائنوں پر تقسیم کیا۔ تحریک پر انقلاب کا ڈھونگ رچا کر حیربیارمری پر سرداری کا ٹھپہ لگا کر انکی کردار کشی کی جاری ہے اور معصوم ورکروں میں انکی بے توقیری کی جا رہی ہے۔
ایک تو موجودہ مزاحمتی تحریک ویسے بھی شروع سے تقسیم کی گئی لیکن جب ڈاکٹر اللہ نظر کو 2007 میں بی ایل ایف کا چارج دیا گیا تو اس مرد آہن نے تحریک پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے کوئی ایسا آزادی پسند سیاسی ادارہ اور شخصیت نہیں چھوڑی جن کے ساتھ اس نے بلا وجہ مخاصمت کا رویہ نا اپنایا ہوا ہو۔ دشمن اور اپوزیشن کا امتیاز کیئے بغیر اسنے شہید غلام محمد جیسے عظیم ہستی کو بی این ایم سے ہٹانے اور بی این ایم کو اپنا پاکٹ آرگنائزیشن بنانے کیلئے شہید چئیرمین کے خلاف شہید ڈٓاکٹر منان اور خلیل بلوچ کو کس طرح استعمال کیا وہ سب کے سامنے ہیں۔ چیئرمین کی شہادت کے بعد جب بی این ایم کا سربراہ عصا ظفر بنے تو انکو بندوق کے زور پر پوری قومی آزادی کی تحریک سے ناک آؤٹ کردیا۔ بی ایس او جیسے ایک قومی طلباء ادارے کو گمراہ کرکے اسے اپنے مطیح بنا ڈالا۔ پھرنیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کے ساتھ انکا بلا جوازٹکراؤ اور جھگڑا کسی سے چھپی ہوئی باتیں نہیں ہیں۔ یہ پارٹیان آزادی پسند نہیں ہیں پارلیمنٹیرین ہیں لیکن انکو دشمن تو کہا نہیں جاسکتا۔ یہ اپوزیشن ہیں۔ انکو دشمنی کے درجے پر رکھنا ایک غلط ایپروچ اور غیر منظقی رویہ ہے۔ چلو انکو آپ نے دشمن قرار دیا جو آزادی نہیں چاہتے لیکن حیربیار مری، نواب براھمدگ بگٹی اور خان قلات تو آزادی پسند ہیں انکے ساتھ تمہارا رویہ کیوں مخاصمانہ ہے؟ اب بیس سال اس موجودہ مزاحمتی تحریک کو گزر چکے ہیں، اللہ نظر یہ بتائے کہ حیربیار مری، براھمدگ بگٹی اور خان اف قلات نے اسے یا اس کی تنظیم کو کونسا نقصان پہنچایا ہے؟ قومی تحریک میں استحکام لانے کے مثبت اور بہتر تعلقات اور موافق سیاسی ایپروچ کی بجائے ڈاکٹر کو دوسرے تنظیموں کے اینٹوں کو نکال کر اپنی تنظیم محل کو مزید اونچھا کرنے کا فارمولا سوجھا ہے۔ خشت اول گر نہد معمار کج، تا ثریا می رود دوار کج! آخری خرف، کامیاب سفارت کاری تھوڑی بچوں کا کھیل ہے۔ اس کی کامیابی کیلئے سیاسی استحکام بے حد ضروری ہے، اس کام کی کامیابی کیلئے سیاسی کردار کے حامل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جنکی کوئی تاریخی کردار اور ایک مورل اتھارٹی ہو اور سب سے بڑھ کراسکی ایک سیاسی طاقت political backing ہو۔ آزادی حاصل کرنے والے قوت کی سفارتکاری اور آزاد ملک کی سفارتکاری میں بہت بڑا فرق ہے۔ آزادی حاصل کرنے والوں کے پاس اپشنز بہت محدود ہوتے ہیں۔ جبکہ آزاد قوموں کے ہرقسم کے اپشن ہوتے ہیں جن سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جبکہ آزادی حاصل کرنے والے جہدکاروں کے وسائل و آپشن فقط مورال اتھارٹی اور انسانی حقوق کے کیسس ہوتے ہیں جنہیں عالمی قوانین دائرے میں استعمال کرتے ہوئے سرگرمی سے اپنے کیس کو دنیا کے سامنے پیش کرنا پڑتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں تو اپنی مظبوط مورال اتھارٹی کو روندھا جا رہا ہے۔